بزمِ نگارِ ادب پاکستان‘ کراچی نے ممتاز شاعر و صحافی راشد نور کے اعزاز میں تقریب سجائی اور بہاریہ مشاعرے کا اہتمام کیا۔ پروگرام کے صدر خواجہ رضی حیدر تھے۔ رفیع الدین راز اور ڈاکٹر شاداب احسانی مہمانانِ خصوصی تھے۔ مہمانانِ اعزازی میں جاوید صبا اور خالد معین شامل تھے۔ جاوید اقبال ایڈووکیٹ نے تلاوتِ کلامِ مجید کی سعادت حاصل کی۔ ہما ناز نے نعت رسولؐ پیش کی۔ سلمان صدیقی نے نظامت کے فرائض کی بجا آوری کے ساتھ ساتھ راشد نور کے لیے کہا کہ وہ شاعر اور صحافی ہونے کے علاوہ بہترین نظامت کار بھی ہیں۔ انہوں نے بے شمار ادبی تقریبات میں اپنے جوہر دکھائے‘ کئی عالمی مشاعروں کی نظامت بھی کی۔ وہ شاعری میں غزل گو شاعر کے طور پر اپنی شناخت رکھتے ہیں۔ انہوں نے ہر صنفِ سخن میں اشعار کہے ہیں۔ ان کا شعری مجموعہ زیورِ طباعت سے آراستہ ہو رہاہے امید ہے کی بہت جلد منظر عام پر آجائے گا۔
بزمِ نگارِ ادب پاکستان کے بانی و چیئرمین سخاوت علی نادر نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا انہوں نے تمام شرکائے محفل کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا کہ کہ ان کی تنظیم طویل عرصے سے ادبی پروگرام ترتیب دے رہی ہے کئی اہم اور شان دار تقریبات ان کے کریڈٹ پر ہیں۔ ہم اپنی مدد آپ کی تحت شعر و سخن کی خدمت کر رہے ہیں۔ ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں خوش حالی کا دور دورہ ہو‘ ہمارے مسائل حل ہوں‘ ہمارے شعرائے کرام معاشرے کی اقدار بحال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ راشد نور نے اپنی زندگی صحافت اور شاعری میں گزاری ہے۔ وہ ممتاز صحافیوں کی صف میں شامل ہیں‘ ان کے کالموں میں کراچی کے ادبی پروگراموں کی تفصیلات شامل ہوتی تھیں۔ وہ نثر اور نظم دونوں کے ماہر ہیں۔ انہوں نے بہت سے شعرا کی پروموشن میں اہم کردار ادا کیا‘ وہ اردو زبان و ادب کے بے لوث خدمت گزار ہیں۔
خالد معین نے کہا کہ راشد نور کے والد بھی قادر الکلام شاعر تھے‘ انہوں نے راشد نور کی تعلیمی اور ادبی تربیت کی آج راشد نور اپنے ہم عصر شعرا اور صحافیوں میں قابلِ قدر مقام کے حامل ہیں۔ راشد نور بے باک صحافی ہیں اور انتہائی جرأت مندی کے ساتھ حقائق لکھتے تھے انہوں نے کبھی بھی اصولوں پر سودے بازی نہیں کی۔ راشد نور کا شعری مجموعہ ابھی تک نہیں آسکا ہے مگر یہ خبر گرم ہے کہ ان کی کتاب عنقریب ہمارے ہاتھوں میں ہوگی اللہ تعالیٰ انہیں مزید کامیابیوں سے سرفراز فرمائے۔
جاوید صبا نے کہا کہ راشد نور سچائی کے علمبردار ہیں‘ ان کی تحریروں میں مبالغہ آرائی کے بجائے زمانے کے حقائق ہوتے ہیں۔ انہوں نے معاشرے کے اہم موضوعات پر قلم اٹھایا ہے اور عوام کو صحیح راستہ دکھایا ہے۔ ان کی شاعری میں گہرائی اور گیرائی کے ساتھ تمام شعری محاسن نظر آتے ہیں۔ انہوں نے جدید لفظیات اور موجودہ عہد کے استعاروں سے اپنے اشعار سجائے ہیں‘ وہ سہل ممتنع میں بھی بہت اچھے اشعار کہتے ہیں تاہم بڑی بحروں میں بھی ان کا کلام موجود ہے۔ انہوں نے اردو زبان و ادب کی ترقی میں اپنا حصہ شامل کیا ہے آج ہم سب ان کی محبت میں جمع ہو کر انہیں خراج تحسین پیش کر رہے ہیں۔
اختر سعیدی‘ ریحانہ احسان اور حمیدہ گل تشنہ نے راشد نور کے فن اور شخصیت پر منظوم کلام پیش کیا۔ انہوں نے اپنے اشعار کے ذریعے راشد نور کو خراجِ تحسین پیش کیا۔
پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی نے کہا کہ راشد نور میرپور خاص سندھ میں پیدا ہوئے‘ انہیں شاعری ورثے میں ملی ہے‘ ان کے والد بہترین شاعر تھے‘ ان کے گھر میں ادبی ماحول تھا جس کے سبب انہیں ادبی طور پر آگے بڑھنے میں آسانی ہوئی۔ ان کی شاعری میں زندگی کے تمام عنوانات زیر بحث آئے ہیں۔ ان کی شاعری ایک ایسا گلدستہ ہے جس میں مختلف اقسام کے پھول اپنی اپنی مہک سے ہمیں نواز رہے ہیں۔ انہوں نے نظام کاری میں بھی اہم مقام حاصل کیا ہے مجھے امید ہے کہ ان کی ترقی کا سفر جاری رہے گا۔
رفیع الدین راز نے کہا کہ راشد نور باصلاحیت شاعر و صحافی ہیں‘ تمام ناقدینِ علم و فن ان کی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ ان کی شاعری میں غمِ زمانہ اور غمِ جاناں نظر آتے ہیں۔ انہوں نے گل و بلبل کے افسانے نہیں لکھے بلکہ زندگی کے تجربات کو اپنی شاعری میں شامل کیا ہے۔ وہ حساس ذہن کے مالک ہیں‘ انہوں نے معاشرے کے مسائل اور اپنی ذات کے مسائل پر قلم اٹھایا ہے‘ ان کی شاعری میں زندگی کے تمام ادوار شامل ہیں۔ اس موقع پر راشد نور کو بزمِ نگارِ ادب کی جانب سے شیلڈ اور گل دستے پیش کیے گئے۔
راشد نور نے کہا کہا وہ بزمِ نگارِ ادب کے شکر گزار ہیں کہ اس ادارے نے میرے لیے شان دار پروگرام ترتیب دیا۔ آج کی تقریب میں مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے کہ پروگرام کی وجہ سے مجھے بہت سے اہم قلم کاروں اور کراچی کی بہت سی اہم شخصیات سے ملاقات ہو رہی ہے۔ میری شاعری کی کتاب اختر سعیدی کی زیر نگرانی تکمیل کے مراحل سے گزر رہی ہے امید ہے کہ دو ایک ماہ میں یہ کتاب شائع ہو جائے گی۔
پروگرام کے دوسرے حصے میں مشاعرہ ہوا جس میں خواجہ رضی حیدر‘ رفیع الدین راز‘ راشد نور‘ اختر سعیدی‘ سلیم فوز‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ فیروز برہان پوری‘ دلشاد احسن ایڈووکیٹ‘ ریحانہ احسان‘ نسیم شیخ‘ خلیل قریشی‘ سلمان صدیقی‘ ضیا حیدر زیدی‘ تنویر سخن‘ جاوید اقبال ایڈووکیٹ‘ سخاوت علی نادر ‘ حمیدہ گل تشنہ‘ سحر علی‘ چاند علی‘ شائق شہاب اور خضر حیات نے کلام نذر سامعین کیا۔ خواجہ رضی حیدر نے خطبۂ صدارت میں کہا کہ یہ بہت اچھا اقدام ہے کہ ہم راشد نور کو ان کی زندگی میں خراج تحسین پیش کر رہے ہیں ورنہ مرنے کے بعد تعزیتی ریفرنس ہوتا ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم جینوئن اور اہم قلم کاروں کی حوصلہ افزائی کریں۔ میں بزمِ نگارِ ادب کو مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے ایک شان دار پروگرام ترتیب دیا۔