میر تقی میر نے کہا تھا…
صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے… عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے
زندگی جو بظاہرکتنی طویل لگتی ہے میر صاحب نے فقط دو الفاظ’ صبح‘ اور ’شام‘ کہہ کر کتنی مختصر کر دی اور یہ بھی جتا دیا کہ اسی صبح اور شام کے چکّر میں انسانی زندگی اپنے اختتام کو پہنچتی ہے صبح سے شام ہونے تک انسانی زندگی کتنی الجھنوں کا شکار رہتی ہے بقول مرزا محمد رفیع سودا …
فکرِ معاش عشقِ بتاں یادِ رفتگاں
اس زندگی میں اب کوئی کیاکیا کیا کرے
بچپنا جوانی پھر کبھی نہ ختم ہونے والا بڑھاپا… ان ہی تین ادوار میں زندگی محو ِسفر رہتی ہے جوانی وہ سنہرا دور ہے جب انسان سو فیصد جوش اور پچاس فیصد ہوش میں رہتا ہے، جوش کا گراف آہستہ آہستہ اس وقت کم ہونا شروع ہوتا ہے جب آئینہ ہم کلام ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ ذرا اپنے سر اور داڑھی کے بالوں کو غور سے دیکھو اس میں چاندی نمودار ہونا شروع ہو گئی ہے’’ یہ اشارہ ہے اک دورِ ناگہانی کا‘‘ آپ جس تیز رفتار ٹرین میں سفر کر رہے تھے وہ اب ایک ایسے اسٹیشن پر رکنے والی ہے جہاں سے یہ ٹرین پہلے کی طرح تیز رَو نہیں بلکہ سست رَو ہوگی اور اس کا آخری اسٹیشن آپ کی عمر کا آخری اسٹیشن ہوگا اور گارڈ کے ہاتھ میں ہری جھنڈی کی جگہ لال جھنڈی نظر آئے گی۔
دور ِجوانی یعنی مسرّت و شادمانی،ہر شام سہانی …اور…خوش گمانی کہ یہ دور ہمیشہ رہے گا مگر ایسا نہیں ہے یہ زندگی کا سب سے تیز رفتار دور ہے جو ہوا کے ایک جھونکے کی طرح گزر جاتا ہے بقول اجمل سراج…
ہر نئی شام سہانی تو نہیں ہوتی ہے
’یار‘ ہر عمر جوانی تو نہیں ہوتی ہے
ہر عمر جوانی تو نہیں ہوتی ہے کے مصداق انسان آہستہ آہستہ بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے ( خواتین اس سے مستثنیٰ ہیں) اب اس دور میں نہ تو پہلے جیسی امنگیں ہیں اور نہ ہی وہ شبابی ولولے نہ وہ جوش و خروش بقول شاعر:
پیری میں ولولے وہ کہاں ہیں شباب کے
اِک دھوپ تھی جو ساتھ گئی آفتاب کے
انسان کتنی ہی کوشش کیوں نہ کر لے کتنی منّت سماجت کیوں نہ کر لے مگر پچھلے دور میں واپس نہیں جا سکتا یہاں ریورس گیئر کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ہے بقول شاعر:
جنابِ شیخ کی داڑھی میں لگ رہا ہے خضاب
خوش آمدیں ہیں وہ روٹھی ہوئی جوانی کی
روٹھی ہوئی گھر والی تو واپس ا ٓسکتی ہے مگر روٹھی ہوئی جوانی کی واپسی ناممکن ہے ہاں یہ ممکن ہے کہ انسان جوانی کی وہ بھولی بسری یادیں یعنی یادِ ماضی میں کچھ دیر کے لیے کھو جائے اور خوش ہو لے… بشرطیکہ وہ یادِ ماضی کو عذاب نہ سمجھے:
دنیا بھی عجب سرائے فانی دیکھی
ہر چیز یہاں کی آنی جانی دیکھی
جو آ کے نہ جائے وہ بڑھاپا دیکھا
جو جا کے نہ آئے وہ جوانی دیکھی
اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم یہ ہوگا کہ بڑھاپا زندگی کا سب سے خوش نما دور ہے جس میں عیش ہی عیش ہے کام ہے نہ کاج ہے گھر والوں پہ راج ہے گھر کی تمام تر ذمّہ داریاں بیٹوں کو سونپ دی گئیں اور اباّ حضور کے ذمّے صرف حقے پر کش لگانا اور گھر والوں پر حکم چلانا ہے کبھی اگر کسی ہمدمِ دیرینہ سے ملاقات ہو گئی تو ذکرِ ماضی سے اپنے ذہنوں میں تازگی اور شگفتگی پیدا کرنا ،استاد ذوق نے کیا خوب کہا ہے:
اے ذوق کسی ہمدمِ دیرینہ سے ملنا
بہتر ہے ملاقات مسیحا و خضر سے
یہ سب درست ہے مگر بڑھاپے میں ایک ایسی منزل بھی آتی ہے جب بوڑھے میاں اپنے آپ سے خود بیزار لگنے لگتے ہیں اور گھر والے خدمت کے ساتھ یہ بھی دعا کرتے ہیں کہ اللہ میاں بڑے میاں کے معاملے میں آسانی پیدا کریں اکبر الٰہ آبادی نے بڑھاپے کے اس نازک ترین دور کی سنگین حقیقت کو رنگین پیرہن دے کر شعر کی شکل میں ڈھال دیا :
بوڑھوں کے ساتھ لوگ کہاں تک وفا کریں
لیکن نہ موت آئے تو بوڑھے بھی کیا کریں
بہرحال بڑھاپے کو کبھی نہ کبھی تو ختم ہونا تھا ٹرین کو اپنے آخری اسٹیشن پر پہنچنا تھا حضرت عزرائیل تشریف لاتے ہیں روح قبض کرتے ہیں، روح عالمِ ارواح میں چلی جاتی ہے جسد ِخاکی چند گھنٹوں کے لیے یہیں رہ جاتا ہے تاکہ احباب اسے دیکھ کر اپنی آنکھیں نم کر سکیں پھر بڑے اہتمام سے نہلا دھلا کر، اس نہلانے دھلانے پر رئیس امروی یاد ا ٓگئے کیوں کہ وہ اس کے خلاف تھے ان کا کہنا تھا :
سپرد ِخاک ہی کرنا تھا مجھ کو
تو پھر کاہے کو نہلایا گیا ہوں
بہرحال نہلا دھلا کر سفید کپڑے میں لپیٹ کر گہوارے میں ڈال کر احباب بشکل ِقافلہ سوئے مدفن رواں دواں ہیں اور وہاں پہنچ کر کیا ہوتا ہے ثاقب لکھنوی کی زبانی سنیے:
مٹھیوں میں خاک لے کر دوست آئے وقتِ دفن
زندگی بھر کی محبت کا صلہ دینے لگے
محبت کا صلہ دینے کے بعد یہ سوچتے ہوئے شہرِ خموشاں سے نکلتے ہیں کہ’’ہم نے جس کو دفنایا بس اسی کو مرنا تھا‘‘ قمر جلالوی نے کیا خوب نقشہ کھینچا ہے:
دبا کے قبر میں سب چل دیے دعا نہ سلام
ذرا سی دیر میں کیا ہو گیا زمانے کو
ایک بات ذہن میں رکھیے گا کہ غم کا تعلق دل سے ہے پیٹ سے نہیں۔ پیٹ اگر خالی ہے تو دل بھی اپنا کام اس تندہی سے نہیں کر سکے گا جیسا اسے کرنا چاہیے کسی سیانے نے صحیح کہا ہے کہ خالی پیٹ عشق بھی نہیں ہو سکتا قبر میں جانے والا شخص چاہے کتنا ہی عزیز کیوں نہ ہو مگر قبرستان سے واپسی پر احباب کے پیٹ میں ایک بدنما سے جانور کے کودنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے اور وہی ہوتا ہے جو ہوتا چلا آیا ہے یعنی حاضرینِ جنازہ شوق سے بریانی نوش فرما رہے ہوتے ہیں ،بھوک ایک قدرتی عمل ہے اس کے آگے کسی کا بس نہیں چلتا چاہے غم کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو بھوک کے آگے اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ وہاں قبر میں مرحوم منکر نکیر کے سوال و جواب میں مصروف ہوتاہے اور یہاں گھر میں احباب بریانی کھانے میں مصروف ہوتے ہیں اکبر الٰہ آبادی نے صحیح کہا تھا:
بتائیں آپ کو مرنے کے بعد کیا ہوگا
پلاؤ کھائیں گے احباب فاتحہ ہوگا