’’عروس البلاد‘‘ کراچی پاکستان کا پہلا دارالحکومت تھا۔ بحر عرب کا ساحل اور اس کی موجیں کراچی کا منہ دھلاتی ہیں۔ اس شہر میں رت جگے ہوا کرتے تھے، اور دن کو عید کا سماں۔ یہ شہر ملتِ اسلامیہ کے ماتھے کا جھومر تھا۔ یہ ’’منی پاکستان‘‘ اور معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی تھا۔ اس کی بندرگاہ ملک کے کاروبار کا پہیہ چلاتی تھی اور آج بھی چلا رہی ہے۔ یہ شہر بھوکے اور بے سہارا لوگوں کی پرورش کرتا ہے۔ یہاں کی صنعتوں، ملوں اور کارخانوں سے نکلنے والا دھواں پاکستان کی زندگی کی سانس ہے۔ یہاں ہر رنگ و نسل کے لوگ آباد ہیں۔ یہ مذہبی اور سیاسی ہم آہنگی کا مرکز تھا جہاں ہر مذہب کے لوگ آباد ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ پیار و محبت سے رہنے والے اب ایک دوسرے کی بستیوں میں جانے سے ڈرتے ہیں۔ یہ پشتونوں کا دوسرا صوبہ ہے۔ یہاں پنجاب، بلوچستان ، کشمیر کا گل دستہ موجود ہے۔ کراچی‘ کراچی تھا مگر اب موت اور نفرت بانٹنے والا شہر بن چکا ہے۔ کتنی مدھر آواز سننے کو ملتی تھی جس کے لیے اب کان ترس گئے:
بندر روڈ سے کیماڑی
میری چلی رے گھوڑا گاڑی
بابو ہو جانا فٹ پاتھ پر
یہ مدینہ کے انصار و مہاجرین کی دلربا بستی کی طرح کا ایک شہر تھا۔ جب بانیانِ پاکستان کے لٹے پٹے قافلے 1947ء میں بہار، یوپی، سی پی سے آنکھوں میں سنہرے مستقبل کے خواب سجائے، مچھیروں کے اس چھوٹے سے ساحلی شہر میں آئے تو یہاں کے رہنے والوں نے کھلے دل اور کھلی بانہوں سے ان کا استقبال کیا۔ یہ بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا شہر ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے برصغیر کے مسلمانوں کو یہ امید دلائی تھی کہ یہ ملکِ خداداد پاکستان عالم اسلام کے مسلمانوں کی تمناؤں کا مرکز اور محافظ بنے گا۔
آغازِ سفر میں آنے والے مہاجرین نے اپنی تمام تر صلاحیتوں اور ہنر کو بروئے کار لاتے ہوئے اس ملک کو بنایا اور سنوارا۔ تقسیمِ ہند سے قبل کلکتہ عالمِ اسلام کے مسلمانوں کا دھڑکتا ہوا دل تھا، جہاں خلافت کی تحریک نے جنم لی۔ کلکتہ سے اٹھنے والی تحریک اور آواز عالم اسلام کی تحریک اور آواز بن جاتی تھی اور قیامِ پاکستان کے بعد یہ اعجاز کراچی کو حاصل ہوا۔ یہی وہ بات تھی جو عالمی طاغوت اور بھارت کو مسلسل کھٹک رہی تھی۔
بندرگاہی شہر اور صنعتی حب ہونے کی وجہ سے پورے ملک سے مزدور، کاریگر اور ہر شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد بڑی تعداد میں کراچی منتقل ہوئے جس کے باعث کراچی کی آبادی دن دونی رات چوگنی بڑھتی گئی اور ساتھ ہی ساتھ شہر کے اطراف کچی آبادیوں میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا۔ چوں کہ پہلے ہی سے عوام دشمن حکمرانوں کی بدانتظامی اور کرپشن کی وجہ سے استحصالی سلسلہ جاری تھا، عوام میں مایوسیاں پھیل رہی تھیں، مقامی اور غیر مقامی کے حوالے سے دشمن نفرتیں پھیلا رہا تھا جس کے باعث لسانی اور علاقائی رنجشیں بڑھ رہی تھیں۔ اردو سندھی کا فساد ہوچکا تھا۔ سندھ کے قوم پرست اور راجا داہر کو اپنا ہیرو ماننے والے ’’بہاری نہ کھپن‘‘ کا نعرہ لگانا شروع کرچکے تھے۔ جنرل ایوب کی پالیسی ’’سن آف دا سوائل‘‘ نے پاکستان کے بانی طبقے کو پریشان کر دیا تھا۔ نیز ایوب کے بیٹے گوہر ایوب کی لیاقت آباد میں مہاجروں کے خلاف تقریر سے شہر میں پٹھان مہاجر خونیں فسادات بھی ہوچکے تھے۔
اس میں دو رائے نہیں کہ ملک کے تخت پر قابض جرنیلوں نے اپنی حکمرانی کو دوام بخشنے کے لیے ملک کے بکاؤ سیاست دانوں کو استعمال کرتے ہوئے پارٹی کے اندر پارٹیاں بنائیں۔ لیکن کراچی میں جنرل ضیا الحق نے جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کو کارنر کرنے کے لیے ایک خوف ناک سیاسی عفریت ’’ایم کیو ایم‘‘ کی صورت میں پیدا کیا (جس کا اعتراف خود جنرل حمیدگل نے کیا)، پھر کیا تھا اس شہر میں پہلے سے موجود محرومیوں اور نفرتوں کی چنگاری کو ایسی ہوا لگی کہ پورا شہر آگ اور خون کی لپیٹ میں آگیا اور نفرت کے شعلوں میں جلنا شروع ہوگیا۔ ’’بہاری بھکاری‘‘ کے عنوان سے ایشیا کی سب سے بڑی کچی آبادی اورنگی میں ہنگامے ہوئے۔ مگر بشریٰ زیدی کی منی بس حادثے میں موت کے بعد پٹھان مہاجر خونیں فسادات کے نہ رکنے والے سلسلے اور الطاف حسین کی آگ اگلتی تقریروں کے جواب میں پٹھان‘ پنجابی اتحاد کی جانب سے جوابی شعلہ بیانی سے پورے شہر میں خوف و ہراس کے گہرے بادل چھا گئے۔
اورنگی ٹاؤن کے علاقے قصبہ اور علی گڑھ میں قتل و غارت گری اور جلاؤ گھیراؤ کے بعد ایم کیو ایم اور تعصب کی سیاست کرنے والی دیگر جماعتوں کی مقبولیت میں دن دونا رات چوگنا اضافہ ہوتا گیا اور قومی سیاست کرنے والی جماعتوں کے راستے محدود ہوتے چلے گئے، جب کہ پُرتشدد سیاست کی مخالفت کرنے والی جماعت اسلامی کے کارکنان کو ’’غدار‘‘ کہہ کر پکارا جانے لگا۔ لسانی تشدد کے ساتھ ساتھ سیاسی مخالفین کو بھی قتل کیا جانے لگا۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلبہ کے درمیان خونیں تصادم شروع ہوگئے۔
حیدرآباد کے پکا قلعہ کے جلسے میں شرکت کے لیے جانے والوں پر سہراب گوٹھ میں فائرنگ کے واقعے پر کراچی اور حیدرآباد میں سندھی مہاجر فسادات کی آگ بھڑک اٹھی۔ نفرت کے اس خونیں کھیل تماشے کے نتیجے میں آئے دن سیاسی اور لسانی مخالفین کی لاشیں اٹھائی جانے لگیں۔ سیاسی مخالفین کا اغوا اور پھر کراچی کے کور کمانڈر کے ذریعے ایک دوسرے کے مغویوں کا تبادلہ، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بے حسی اور بے بسی کا تاریخی ریکارڈ بن گیا۔ مقبولیت کے آسمان پر الطاف حسین اڑ رہا تھا۔ ایم کیو ایم کی بلدیاتی اور پارلیمانی کامیابیوں نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کو نائن زیرو کے در کا بھکاری بنا دیا تھا، اور ان جماعتوں کو الطاف حسین کے چرن چھونے پر مجبور کردیا تھا۔
کراچی میں الطاف حسین کی صورت میں ایک فرعون کا جنم ہوا، جس کی ایک آواز پر کراچی اور حیدرآباد بند ہوتے اور کھل جاتے تھے۔ الطاف حسین کے پالے ہوئے موت کے فرشتوں نے بوری بند لاشیں شہر کے چوکوں، چوراہوں اور کچرا کنڈیوں میں پھینکنا شروع کردیں۔ کھجی گراؤنڈ، چونا ڈپو اور اورنگی کے مختلف علاقے ان بوری بند لاشوں کے مراکز بن گئے۔ قاتلوں کے ایسے ایسے نام اخبارات کی زینت بنے کہ جسے سن کر لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے تھے۔ آصف درندہ، ہنگنا، زکوٹا، بھکڑا، ندیم ماربل، فاروق دادا وغیرہ وغیرہ۔ یہ سلسلہ ایسا دراز ہوا کہ اس کی روک تھام کے لیے ان دہشت گردوں کے خلاف پولیس اور رینجرز کا مشترکہ آپریشن ہوا جس کے نتیجے میں الطاف حسین ملک سے فرار ہوکر برطانیہ چلا گیا اور آج تک وہیں ہے۔ اس آپریشن میں حصہ لینے والے سیکڑوں پولیس اور رینجرز کے جوان مار دیے گئے۔ آپریشن میں ایم کیو ایم کے دہشت گردوں کے علاوہ بے گناہ نوجوان بھی مارے گئے جن کی تعداد ہزاروں میں ہے۔
ضیا الحق کی حادثاتی موت کے بعد بھی سرکاری سرپرستی کا سلسلہ اس لیے جاری رہا کہ ایم کیو ایم ایک ناقابلِ شکست پارلیمانی قوت بن چکی تھی جس کے بغیر مرکز میں حکومت بنانا ممکن نہ تھا، اور نہ ہی سندھ میں آرام سے حکمرانی کی جا سکتی تھی۔ پرویزمشرف کے اقتدار پر قبضے کے بعد تو ایم کیو ایم کو ’’مورا سیاں بھئے کوتوال‘ اب ڈر کاہے کا‘‘ کے مصداق ایسی آزادی ملی کہ کراچی میں کوئی محفوظ نہ رہا، جس کا بیّن ثبوت 12 مئی 2007ء کو جسٹس افتخار چودھری کے استقبال کے لیے آنے والوں پر رینجرز اور پولیس کی موجودگی میں فائرنگ ہے جس کے نتیجے میں 50 سے زائد افراد اپنی جانوں سے گئے۔ وکلا کو ان کے دفتر میں بند کرکے زندہ جلا دیا گیا۔ صنعتوں کی تباہی، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان کے واقعات نے شہریوں کا جینا محال کردیا تھا۔ سیکٹر یونٹس میں ان کی عدالتیں قائم ہوگئیں۔ بھتے کے لیے بلدیہ ٹائون میں واقع گارمنٹس فیکٹری میں 350 سے زائد مزدوروں (جن میں بڑی تعداد خواتین کی تھیں) کو زندہ جلا دینے کا واقعہ ایسا ہولناک ہے کہ جس سے چنگیز خان اور ہلاکو خان بھی سہم جائیں۔
صنعتیں تباہ، کاروبار برباد، تعلیمی اداروں میں دہشت گردی، نقل مافیا کی حکمرانی، منشیات کا کاروبار عروج پر… یہ مختصر سی کہانی ہے۔
میں 1984ء سے اورنگی کے پُرہول حالات کا عینی شاہد ہوں۔ میں چونکہ تدریسی عمل سے منسلک ہوں اس لیے اہلِ اورنگی کے تعلیمی زوال کا بچشم خود گواہ ہوں کہ کس طرح اساتذہ کی بے توقیری کے ساتھ ساتھ طالب علموں نے اسلحہ اٹھایا اور قاتل بنے۔ مجھ جیسے کچھ اصلاح پسند اور اصول پسند اساتذہ کے گھروں پر ڈاکے ڈالے اور اغوا کرنے کی کوشش کی۔ جس پر شک ہوا مرد و زن کی تفریق کے بغیر قتل کردیا۔ حتیٰ کہ قبرستان میں رہنے والے معذور فقیر کو ’’مخبر‘‘ کہہ کر مار دیا۔ اورنگی کے باصلاحیت اور ہنرمند لوگ شہر کے دوسرے علاقوں میں جاکر پناہ لینے پر مجبور ہوئے کہ ان کی نوکری بچ جائے۔ آئے دن کی ہڑتال اور اورنگی ٹاؤن کے اطراف میں پشتون آبادی میں جان کے خطرات تھے۔ رئیس امروہوی ایل بلاک کی پہاڑیوں سے منظم حملے بھی ہوئے۔
اس لسانی آگ کو وقت کے بے رحم اور مفاد پرست حکمرانوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مزید ہوا دی، اور یہ شہر شیعہ سنی اور مسلکی قتل و غارت گری کی آگ میں بھی جلتا رہا جس میں کئی علما، اساتذہ اور ڈاکٹر شہید کردیے گئے۔
یہ پالے ہوئے آدم خور پاکستان کے دشمن بھارت، اسرائیل اور امریکا کی سرپرستی میں دندناتے پھرتے تھے۔ لیکن جب پانی سر سے اونچا ہو گیا اور ملک کی سلامتی خطرے میں پڑ گئی تو 2016ء سے ہونے والے آپریشن کے بعد لسانی اور مسلکی فسادات کم ہوئے مگر انتظامیہ اور پولیس نے اور سندھ کے ظالم وڈیرے حکمرانوں نے اس شہر کو اسٹریٹ کرمنلز اور ڈاکوؤں کے حوالے کر دیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج یہ شہر ان قاتلوں اور لٹیروں کے رحم و کرم پر ہے۔، تھانے دار اغوا برائے تاوان کے ریکٹ چلا رہے ہیں۔ ہر ماہ درجنوں نوجوان مرد،خواتین اور بچے ڈاکے کے دوران قتل کر دیے جاتے ہیں۔ کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ گھر سے نکلنے کے بعد گھر واپس آنے کی مبہم امید رہتی ہے۔ سڑکوں پر موت کا رقص جاری ہے اور بے ہنگم ٹریفک اور تیز رفتاری بھی موت اور حادثات کا سبب ہے۔ لگتا ہے اس شہر کا کوئی والی وارث نہیں۔
جو صاحبِ اختیار ہے
وہی ہر مسئلے کے حل کا ذمہ دار ہے
بہر حال امید و بیم و رجا ہی زندہ رہنے کی سبیل ہے
اے شہر تیرا اترا ہوا چہرہ کیوں ہے
غرفہ و بام شبستاں میں اندھیرا کیوں ہے
ہر ایک سانس پہ تنقید کا پہرا کیوں ہے
درد بن کے لہو آنکھوں سے ٹپکتا کیوں ہے
جس نے ماں باپ کی سی آنکھ اٹھا لی تجھ سے
کس نے چھین لی تیرے کان کی بالی تجھ سے