خیبرپختون خوا :الیکشن 2024کے غیر حتمی ،غیر متوقع نتائج کا اعلان

190

ملک بھر کی طرح خیبرپختون خوا میں بھی بارہویں عام انتخابات جمعرات 8 فروری کو بیک وقت قومی اسمبلی کی 44 اور صوبائی اسمبلی کی 115 نشستوں پر منعقد ہوئے۔ قومی اسمبلی کی نشستوں کے لیے 713 اور صوبائی اسمبلی کے لیے1814 امیدوار میدان میں تھے۔ خیبرپختون خوا میں جمہوری جوش و جذبے کو ووٹوں کے نتائج کی صورت میں سمیٹنے کے لیے حیرت انگیز طور پر 454.4 ملین بیلٹ پیپر چھاپے گئے تھے۔ الیکشن کے ابتدائی نتائج نے نہ صرف تمام دعووں بلکہ تمام انتخابی تجزیوں کو بھی تلپٹ کردیا ہے، تاہم انتخابی نتائج کے اعلان میں غیر معمولی تاخیر سے انتخابی نتائج پر ایک بار پھر انگلیاں اٹھنا شروع ہوگئی ہیں۔ الیکشن کمیشن نے انتخابی نتائج کے اعلان کے لیے مختلف شہروں میں جو اسکرینیں نصب کی تھیں وہ رات گئے تک آن نہ ہوسکیں اور عوام ہی انتظار کرتے رہ گئے، تاہم غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق خیبر پختون خوا میں آزاد امیدوار چھائے رہے جن میں سے بیشتر پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ ہیں۔ ان آزاد امیدواروں اور دوسرے نمبر پر آنے والے امیدواروں کے درمیان ووٹوں کا پہاڑ جتنا فرق رہا۔ خیبرپختون خوا میں الیکشن کا سب سے بڑا اَپ سیٹ میاں نوازشریف کی مانسہرہ کی نشست پر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار شہزادہ گستاسپ خان کے ہاتھوں واضح مارجن سے شکست ہے۔ انتخابات سے قبل یہ توقع کی جارہی تھی کہ مسلم لیگ (ن) چونکہ ایک واضح ڈیل کے نتیجے میں نہ صرف جارحانہ انداز میں اپنی انتخابی مہم چلا رہی تھی بلکہ اس کی قیادت کی جانب سے واضح طور پر یہ تاثر بھی دیا جارہا تھا کہ وہ وفاق سمیت پنجاب اور خیبرپختون خوا میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں آجائے گی، لیکن اب تک کے ابتدائی اور غیر حتمی نتائج نے اس کی ان امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ ملک میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں آنے، نیز اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) چونکہ خاصی پُرامید تھی اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس مقصد کے لیے مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف کی وکٹری اسپیچ بھی لکھ دی گئی تھی جو انہیں الیکشن کے دن رات گئے میڈیا کے سامنے نشرکرنی تھی، لیکن جب انتخابی نتائج پہلے لیٹ ہوگئے اور بعدازاں مسلم لیگ (ن) کے حق میں آنا شروع نہیں ہوئے تو نوازشریف نے اپنا یہ ارادہ تبدیل کردیا، حالانکہ اس کے لیے ماڈل ٹاؤن میں پنڈال بھی سجادیا گیا تھا، لیکن جوں جوں نتائج آتے گئے مسلم لیگ (ن) کی مایوسی بڑھتی گئی، چنانچہ میاں نوازشریف کسی قسم کی تقریر کیے بغیر خاموشی کے ساتھ ماڈل ٹاؤن سے رائے ونڈ چلے گئے۔ نتائج میں تاخیر کے سبب ملک بھر میں بھی چہ میگوئیاں ہوتی رہیں اور لوگوں میں تشویش بڑھتی گئی، دوسری طرف الیکشن میں برتری حاصل کرنے والے آزاد امیدوار اور ان کے حامی جشنِ فتح مناتے رہے۔

ملکی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ جماعتی بنیادوں پر ہونے والے عام انتخابات میں آزاد امیدوار بڑی تعداد میں کامیاب ہونے جارہے ہیں، چنانچہ اس حوالے سے قانونی بحث بھی چھڑ گئی ہے کہ اب ان آزاد امیدواروں کی اگلی حکمتِ عملی کیا ہوگی؟ الیکشن قوانین کے مطابق آزاد امیدوار کو کامیابی کے نوٹیفکیشن کے اجراء کے بعد 72 گھنٹوں کے اندر کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنا ہوگی، تاہم اگر انہوں نے ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا تو یہ امیدواران آزاد ہی تصور ہوں گے جس کی وجہ سے یہ لوگ خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں سے محروم رہ جائیں گے جس کا فائدہ تھوڑی تھوڑی نشستیں حاصل کرنے والی جماعتیں اٹھائیں گی۔

یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان رؤف حسن پہلے ہی یہ بتا چکے ہیں کہ اس حوالے سے ان کے پاس تین آپشن موجود ہیں، اور تین رجسٹرڈ سیاسی جماعتیں موجود ہیں جن میں سے کسی ایک سیاسی جماعت میں ان کے حمایت یافتہ آزاد ارکان شمولیت اختیار کرکے پارلیمنٹ میں ایک نئے نام سے سامنے آئیں گے۔

جمعرات کو ہونے والے عام انتخابات اس حوالے سے بھی اہمیت اختیارکرگئے ہیں کہ ان میں کئی تاریخی اپ سیٹ ہوئے ہیں اور عام امیدواروں نے بڑے بڑے برج الٹ دیے ہیں۔ غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق جمعیت علماء اسلام کے امیر اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو ڈیرہ اسماعیل خان میں علی امین گنڈا پور کے ہاتھوں شکست کا سامناکرنا پڑا ہے، ان کے صاحبزادے اسعد محمود کو ٹانک سے قومی اسمبلی کی نشست پرآزاد امیدوار داور کنڈی کے ہاتھوں شکست ہوئی، جبکہ ان کے دوسرے بیٹے اسجد محمود پر لکی مروت میں سلیم سیف اللہ کو برتری حاصل ہوئی ہے، اس حلقے میں شیر افضل خان مروت آخری اطلاعات کے مطابق دوسرے نمبر پر تھے۔ سب سے زیادہ ہزیمت سابق وزیراعلیٰ پرویزخٹک کو اٹھانا پڑی ہے جو ایک مرتبہ پھر وزیراعلیٰ بننے کے بلند بانگ دعوے کررہے تھے لیکن انہیں غیر معروف امیدواروں کے ہاتھوں نہ صرف شکست کا سامنا رہا بلکہ وہ ایک قومی اور صوبائی اسمبلی کے دو حلقوں پر دوسری پوزیشن بھی حاصل نہیں کرسکے، جبکہ ان کے دونوں صاحبزادے ابراہیم خٹک اور اسماعیل خٹک بھی تیسری پوزیشن پر بھی نہیں آئے۔ اسی طرح سابق وزیراعلیٰ محمود خان سوات سے قومی اسمبلی کی نشست ہار گئے ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان بھی غیر سرکاری و غیر حتمی نتائج کے مطابق ہار گئے ہیں، جبکہ قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ بھی اپنی نشست نہیں جیت سکے ہیں۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق بھی آزاد امیدوار بشیر خان کے ہاتھوں اپنی سیٹ ہار گئے ہیں، حالانکہ گزشتہ انتخابات کے برعکس اِس مرتبہ ان کی پوزیشن خاصی مستحکم بتائی جارہی تھی۔ شانگلہ سے مسلم لیگ (ن) کے صوبائی صدر امیر مقام کو بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے، جبکہ بنوں سے سابق وزیراعلیٰ اکرم خان درانی اور ان کے صاحبزادے سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی زیاد اکرم درانی بھی ہار گئے ہیں۔ اسی طرح اے این پی کے ایک اور سابق وزیراعلیٰ امیر حیدر ہوتی بھی قومی اور صوبائی اسمبلی کی دونوں سیٹیں ہار چکے ہیں، جبکہ صوابی سے دو مرتبہ رکن قومی اسمبلی رہنے والے عثمان ترکئی جوکہ پیپلز پارٹی کے امیدوار تھے، ہار گئے ہیں۔

بحیثیتِ مجموعی تادمِ تحریر خیبر پختون خوا کی115نشستوں پر پی ٹی آئی کے آزاد امیدواران 75 نشستوں کے ساتھ دوتہائی اکثریت حاصل کرچکے ہیں، جب کہ مسلم لیگ(ن)6، پیپلز پارٹی5، جمعیت العلماء اسلام 3، پی ٹی آئی پی، جماعت اسلامی اور اے این پی کے حصے میں ایک ایک نشست آئی ہے۔

واضح رہے کہ خیبرپختون خوا کی کُل آبادی 4کروڑ85لاکھ نفوس پر مشتمل ہے، جب کہ صوبے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد2کروڑ19لاکھ 28ہزار119 ہے جن میں ایک کروڑ 19لاکھ 44ہزار397 مرد ووٹرز، جبکہ 99 لاکھ 83 ہزار 722 خواتین ووٹرز ہیں۔خیبرپختون خوا اسمبلی میں کل 115 جنرل نشستیں ہیں، جن میں سے 26 خواتین کے لیے اور 4 غیر مسلموں کے لیے مختص ہیں۔ مزید برآںصوبے میں قومی اسمبلی کی 45 نشستیںہیں جن میں خواتین کے لیے 10 مخصوص نشستیں بھی شامل ہیں۔

الیکشن2024ء میںپورے خیبر پختون خواکے لیے 15ہزار696 پولنگ اسٹیشنوں پر مشتمل ایک مضبوط نیٹ ورک قائم کیا گیا تھاجن میں سے 4ہزار810 مرد ووٹرز کے لیے، 4ہزار287 خواتین ووٹرز کے لیے مختص تھے، جب کہ 6ہزار600 پولنگ اسٹیشن مرد وخواتین کے لیے مشترکہ طور پر بنائے گئے تھے۔

اب تک کے جاری شدہ غیر حتمی نتائج کومد نظر رکھتے ہوئے دیکھنا یہ ہے کہ صوبے میں مستقبل کا سیاسی منظرنامہ کیابنتاہے۔اس حوالے سے آزاد امیدواران کیا حکمت عملی اپناتے ہیں؟ یہ ایک اہم سوال ہے جس کا جواب فی الحال کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔ان انتخابات کے حوالے سے کم از کم یہ خدشات غلط ثابت ہوگئے ہیں کہ یہ انتخابات شفاف نہیں ہوں گے، جب کہ ان انتخابات کی دوسری اہم بات صوبے کے لوگوںکا پی ٹی آئی پر آزاد امیدواران کے باوجود تیسری مرتبہ مسلسل اعتماد کااظہار کرناہے، جب کہ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کو یہ ووٹ اس کی کارکردگی کے بجائے جذباتی ہمدردی کی بنیاد پر ملاہے جو ملک کے سنجیدہ اور باشعور طبقات کے لیے یقینا ایک بہت بڑا دھچکہ ہے۔

حصہ