-1ہمیشہ اچھے لوگوں کی صحبت میں بیٹھنے کی کوشش کیجیے۔
-2 مجلس میں جو گفتگو ہورہی ہو، اس میں حصہ لیجیے مجلس کی گفتگو میں شریک نہ ہونا اور ماتھے پر شکنیں ڈالے بیٹھے رہنا، غرور کی علامت ہی، مجلس میں صحابہ کرامؓ جس گفتگو میں مصروف ہوتے نبیؐ بھی اسی گفتگو میں شریک رہتے، مجلس میں غمگین اور مضمحل ہوکر نہ بیٹھیے۔ مسکراتے چہرے کے ساتھ ہشاش بشاش ہوکر بیٹھیے۔
-3 کوشش کیجیے کہ آپ کی کوئی مجلس اللہ اور آخرت کے ذکر سے خالی نہ رہے اور جب آپ محسوس کریں کہ حاضرین دینی گفتگو میں دلچسپی نہیں لے رہے ہیں تو گفتگو کا رخ کسی دنیوی مسئلہ کی طرف پھیر دیں اور پھر جب مناسب موقع پائیں تو گفتگو کا رخ حکمت کے ساتھ دینی موضوع کی طرف پھیرنے کی کوشش کریں۔
-4 مجلس میں جہاں جگہ ملے بیٹھ جائیے، مجمع کو چیرتے اور کودتے پھلانگتے آگے جانے کی کوشش نہ کیجیے۔ ایسا کرنے پہلے آنے والوں اور بیٹھنے والوں کو بھی تکلیف ہوتی ہے اور ایسا کرنے والوں میں بھی اپنی بڑائی کا احساس اور غرور پیدا ہوتا ہے۔
-5 مجلس میں سے کسی بیٹھے ہوئے آدمی کو اٹھا کر اس کی جگہ بیٹھنے کی کوشش نہ کیجیے، یہ انتہائی بری عادت ہے اس سے دوسروں کے دل میں نفرت اور کدورت بھی پیدا ہوتی ہے اور اپنے کو بڑا سمجھنے اور اہیت جتانے کا اظہار بھی ہوتا ہے۔
-6 اگر مجلس میں لوگ گھیرا ڈالے بیٹھے ہوں تو ان کے بیچ میں نہ بیٹھیے یہ سخت قسم کی بدتمیزی اور مسخرہ پن ہے۔ نبیؐ نے ایسا کرنے والے پر لعنت بھیجی ہے۔
-7 مجلس میں بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے اگر کوئی کسی ضرورت سے اٹھ کر چلا جائے تو اس کی جگہ پر قبضہ نہ کیجیے۔ اس کی جگہ محفوظ رکھیے ہاں اگر یہ معلوم ہوجائے کہ وہ شخص اب واپس نہ آئے گا تو پھر بے تکفل اس جگہ بیٹھ سکتے ہیں۔
-8 اگر مجلس میں دو آدمی ایک دوسرے کے قریب بیٹھ گئے ہوں تو ان کو اجازت لئے بغیر الگ الگ نہ کیجیے کیونکہ آپس کی بے تکلفی یا محبت یا کسی اور مصلحت سے قریب بیٹھے ہوں گے اور ان کو الگ الگ کرنے سے ان کے دل کو تکلیف ہوگی۔
-9مجلس میں کسی امتیازی جگہ پر بیٹھنے سے پرہیز کیجیے، کسی کے یہاں جائیں تو وہاں بھی اس کی معزز جگہ پر بیٹھنے کی کوشش نہ کیجیے۔ ہاں اگر وہ خود ہی اصرار کرے تو بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں اور مجسل میں ہمیشہ ادب سے بیٹھے، پائوں پھیلا کر یا پنڈلیاں کھول کر نہ بیٹھے۔
-10 یہ کوشش نہ کیجیے کہ آپ بہرحال صدر کے قری ہی بیٹھیں بلکہ جہاں جگہ ملے بیٹھ جایئے اور اس طرح بیٹھیے کہ بعد میں آنے والوں کو جگہ ملنے اور بیٹھنے میں کوئی زحمت نہ ہو اور جب لوگ زیادہ آجائیں تو سمٹ کر بیٹھ جایئے اور آنے والوں کو کشادہ دلی سے جگہ دے دیجیے۔
-11 مجلس میں کسی کے سامنے یا اردگرد کھڑا نہ رہنا چاہیے، تعظیم کا یہ طریقہ اسلامی مزاج کے خلاف ہے۔
-12 مجلس میں دو آدمی آپس میں چپکے چپکے باتیں نہ کریں اس سے دوسروں کو یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ انہوں نے ہمیں اپنی راز کی باتوں میں شریک کرنے کے قابل نہ سمجھا اور یہ بدگمانی بھی ہوتی ہے کہ شادی ہمارے بارے میں کوئی بات کہہ رہے ہوں۔
-13 مجلس میں جو کچھ کہنا ہو، صدر مجلس سے اجازت لے کر کہیے اور گفتگو یا سوال و جواب میں ایسا انداز اختیار نہ کیجیے کہ آپ ہی صدر مجلس معلوم ہونے لگیں، یہ خود نمائی بھی ہے اور صدر مجلس کے ساتھ زیادتی بھی۔
-14 ایک وقت میں ایک ہی شخض کو بولنا چاہیے اور ہر شخص کی بات غور سے سننا چاہیے۔ اپنی بات کہنے کے لئے ایسی بے تابی نہیں ہونی چاہئے کہ سب بیک وقت بولنے لگیں اور مجلس میں ہڑبونگ ہونے لگے۔
-15 مجلس میں جو باتیں راز کی ہوں ان کی جگہ جگہ بیان نہ کرنا چاہیے۔ مجلس کا یہ حق ہے کہ اس کے رازوں کی حفاظت کی جائے۔
-16 مجلس میں جس موضوع پر گفتگو ہورہی ہو، جب تک اس کے بارے میں کچھ طے نہ ہوجائے دوسرا موضوع نہ چھیڑیئے اور نہ دوسروں کی بات کاٹ کر اپنی بات شروع کیجیے، اگر کبھی کوئی ایسی ضرورت پیش آجائے کہ آپ کے لئے فوراً بولنا ضروری ہو تو بولنے والے سے پہلے اجازت لے لیجیے۔
-17صدر مجلس کو مسائل پر گفتگو کرتے وقت سارے ہی حاضرین کی طرف توجہ رکھنی چاہیے اور دائیں بائیں ہر طرف پھیر پھیر کر باتیں کرنی چاہیے اور آزادی کے ساتھ ہر ایک کو اظہار کا موقع دینا چاہیے۔
-18 مجلس برخاست ہونے سے پہلے یہ دعا پڑھیے اور پھر مجلس برخاست کیجیے۔
’’الٰہی! تو ہمیں اپنا خوف اور اپنی خشیت نصیب کر جو ہمارے اور معصیت کے درمیان آڑ بن جائے اور وہ فرماں برداری دے جو ہمیں تیری جنت میں پہنچادے اور ہمیں وہ پختہ یقین عطا فرما جس سے ہمارے لئے دنیا کے نقصانات ہیچ ہوجائیں۔ الٰہی! تو جب تک ہمیں زندہ رکھے، ہمیں ہماری سننے، دیکھنے کی قوتوں اور جسمانی توانائیوں سے فائدہ اٹھانے کا موقع دے اور اس خیر کو ہمارے بعد بھی برقرار رکھ اور جو ہم پر ظلم کرے اس سے ہمارا بدلہ لے اور جو ہم سے دشمنی کرے اس پر ہمیں غلبہ عطا فرما فرما اور ہمیں دین کی آزمائش میں مبتلا نہ کر اور دنیا کو ہمارا مقصود اعظم نہ بنا اور نہ دنیا کو ہمارے علم و بصیرت کی انتہا ٹھہرا اور نہ ہم پر اس شخص کو قابو دے جو ہم پر رحم نہ کرے‘‘۔
……٭٭٭……
-1 جب کسی مسلمان بھائی سے ملاقات ہو تو اس سے اپنے تعلق اور مسرت کا اظہار کرنے کے لئے ’’السلام علیکم‘‘ کہیے۔ قرآن پاک میں ہے:
’’اے نبیؐ! جب آپؐ کے پاس وہ لوگ آئیں جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں تو ان سے کہیے ’’السلام علیکم‘‘۔ (انعام 54/6)
اس آیت میں نبیؐ سے خطاب کرتے ہوئے بالواسطہ امت کو یہ اصولی تعلیم دی گئی ہے کہ مسلمان جب بھی مسلمان سے ملے تو دونوں ہی جذبات محبت و مسرت کا تبادلہ کریں اور اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے لئے سلامتی اور عافیت کی دعا کریں۔ ایک السلام علیکم کہے تو دوسرا وعلیکم السلام کہے۔ سلام باہمی الفت و محبت کو بڑھانے اور استوار کرنے کا ذریعہ ہے۔
نبیؐ کا ارشاد ہے:
’’تم لوگ جنت میں نہیں جاسکتے جب تک مومن نہیں بنتے اور تم مومن نہیں بن سکتے جب تک کہ ایک دوسرے سے محبت نہ کرو میں تمہیں وہ تدبیر کیوں نہ بتادوں جس کو اختیار کرکے تم آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو، آپس میں سلام کو پھیلائو‘‘ (مشکوٰۃ)
-2 ہمیشہ اسلامی طریقے پر سلام کیجیے۔ کسی سے ہم کلام ہوں یا مکاتبت کریں۔ ہمیشہ کتاب و سنت کے بتائے یہ الفاظ ہی استعمال کیجیے اس اسلامی طریقے کو چھوڑ کر سوسائٹی کے رائج کئے ہوئے الفاظ و انداز اختیار نہ کیجیے۔ اسلام کا بتایا ہوا یہ انداز خطاب نہایت سادہ، بامعنی اور پُراثر بھی ہے اور سلامتی و عافیت کی جامع ترین دعا بھی۔ آپ جب اپنے کسی بھائی سے ملتے ہوئے السلام علیکم کہتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ خدا تم کو ہر قسم کی سلامتی اور عافیت سے نوازے۔ خدا تمہارے جان و مال کو سلامت رکھے۔ گھر بار کو سلامت رکھے، اہل و عیال اور متعلقین کو سلامت رکھے۔ دین و ایمان کو سلامت رکھے دنیا بھی سلامت رہے اور آخرت بھی، خدا تمہیں ان سلامیتوں سے بھی نوازے جو میرے علم میں ہیں اور ان سلامتیوں سے بھی نوازے جو میرے علم میں نہیں ہیں۔ میرے دل میں تمہارے لئے نصح و خیر خواہی، محبت و خلوص اور سلامتی و عافیت کے انتہائی گہرے جذبات ہیں۔ اس لئے تم میری طرف سے کبھی کوئی اندیشہ محسوس نہ کرنا۔ میرے طرز عمل سے تمہیں کوئی دکھ نہ پہنچے گا۔ سلام کے لفظ پر الف لام داخل کرکے اور السلام علیکم کہہ کر آپ مخاطب کے لئے سلامتی اور عافیت کی ساری دعائیں سمیٹ لیتے ہیں۔ آپ اندازہ کیجیے کہ اگر یہ الفاظ شعور کے ساتھ سمجھ کر آپ اپنی زبان سے نکالیں تو مخاطب کی ملاقات پر قلبی مسرت کا اظہار کرنے اور خلوص و محبت، خیر خواہی اور وفاداری کے جذبات کو ظاہر کرنے کے لئے اس سے بہتر الفاظ کیا ہوسکتے ہیں۔ السلام علیکم کے الفاظ سے بھائی کا استقبال کرکے آپ یہ کہتے ہیں کہ آپ کو وہ ہستی سلامتی سے نوازے جو عافیت کا سرچشمہ اور سراپا سلام ہے۔ جس کا نام ہی السلام ہے اور وہی سلامتی اور عافیت پاسکتا ہے جس کو وہ سلامت رکھے اور جس کو وہ سلامتی سے محروم کردے۔ وہ دونوں جہان میں سلامتی سے محروم ہے۔
نبیؐ کا ارشاد ہے:
’’السلام‘‘ اللہ کے نام میں سے ایک نام ہے، جس کو خدا نے زمین میں (زمین والوں کے لئے) رکھ دیا ہے۔ پس ’’السلام‘‘ کو آپس میں خوب پھیلائو‘‘ (الادب المفرد)
حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ نبیؐ نے فرمایا: ’’اللہ نے جب حضرت آدمؑ کو پیدا فرمایا تو ان کو فرشتوں کی ایک جماعت کے پاس بھیجتے ہوئے حکم دیا کہ جائو اور ان بیٹھے ہوئے فرشتوں کو سلام کرو اور وہ سلام کے جواب میں جو دعا دیں اس کو غور سے سننا اور محفوظ رکھنا اس لئے کہ یہی تمہاری اور تمہاری اولاد کی دعا ہوگی۔ چنانچہ حضرت آدمؑ فرشتوں کے پاس پہنچے اور کہا ’’السلام علیکم‘‘ فرشتوں نے جواب میں کہا: ’’السلام علیک ورحمتہ اللہ‘‘ یعنی ’’ورحمتہ اللہ‘‘ کا اضافہ کرکے جواب دیا۔ (بخاری، مسلم)
قرآن حکیم میں ہے کہ فرشتے جب مومنوں کی روح قبض کرنے آتے ہیں تو آکر السلام علیکم کہتے ہیں:
’’ایسی ہی جزا دیتا ہے خدا متقی لوگوں کو، ان متقی لوگوں کو جن کی روحیں پاکیزگی کی حالت میں جب فرشتے قبض کرتے ہیں تو کہتے ہیں: ’’السلام علیکم‘‘ جائو جنت میں داخل ہوجائو اپنے اعمال (صالحہ) کے صلہ میں‘‘۔ (النحل:32,31)
جنت کے دروازوں پر جب یہ متقی لوگ پہنچیں گے تو جنت کے ذمہ داری بھی انہی الفاظ کے ساتھ ان کا شاندار خیر مقدم کریں گے:
’’اور جو لوگ پاکیزگی اور فرماں برداری کی زندگی گزارتے رہے۔ ان کے جتھے جنت کی طرف روانہ کردیئے جائیں گے اور جب وہ وہاں پہنچیں گے تو اس کے دروازے پہلے ہی سے (ان کے استقبال میں) کھلے ہوئے ہوں گے۔ تو جنت کے ذمہ داران سے کہیں گے ’’السلام علیکم‘‘ بہت ہی اچھے رہے داخل ہوجائو اس جنت میں ہمیشہ کے لئے‘‘۔(الزمر:73)
اور جب یہ لوگ جنت میں داخل ہوجائیں گے تو فرشتے جنت کے ہر ہر دروازے سے داخل ہوکر اس کو السلام علیکم کہیں گے۔
’’اور فرشتے ہر ہر دروازے سے ان کے استقبال کے لئے آئیں گے اور ان سے کہیں گے ’’السلام علیکم‘‘ صلہ ہے تمہارے صبر و ثبات کی روش کا پس کیا ہی خوب ہے یہ آخرت کا گھر‘‘۔ (الرعد: 23)
اور اہل جنت آپس میں خود بھی ایک دوسرے کا استقبال انہی کلمات کے ساتھ کریں گے:
’’وہاں ان کی زبان پر یہ صدا ہوگی کہ ’’اے خدا تو پاک و برتر ہے اور ان کی باہمی دعا یہ ہوگی کہ ’’سلام‘‘ (ہو تم پر)‘‘ (یونس: 10)
اور اللہ کی طرف سے بھی ان کے سلام و رحمت کی صدائیں ہوں گی۔
’’جنت والے اس دن عیش و نشاط کے مشغلوں میں ہوں گے۔ وہ اور ان کی بیگمات گھنے سایوں میں مسہریوں پر تکیہ لگائے (شاد کام بیٹھے) ہوں گے۔ ان کے لئے جنت میں ہر قسم کے لذیذ میوے ہوں گے اور وہ سب کچھ ہوگا جو وہ طلب کریں گے۔ رب رحیم کی جانب سے ان کے لئے سلام کی صدا ہے‘‘۔ غرض جنت میں مومنوں کے لئے چار سو سلام ہی سلام کی صدا ہوگی۔(یٰسیین: 58-55)
’’نہ وہ وہاں بے ہودہ بکواس سنیں گے اور نہ گناہ کی باتیں بس (ہرسو) سلام ہی کی صدا ہوگی‘‘۔ (واقعہ: 26-25)
کتاب و سنت کی ان واضح ہدایات اور شہادتوں کے ہوتے ہوئے مومن کے لئے کسی طرح جائز نہیں کہ وہ اللہ اور رسولؐ کے بتائے طریقے کو چھوڑ کر اظہار و محبت و مسرت کے لئے دوسرے طریقے اختیار کرے۔
-3 ہر مسلمان کو سلام کیجیے چاہے اس سے پہلے سے تعارف اور تعلقات ہوں یا نہ ہوں۔ ربط اور تعارف کے لئے اتنی بات بالکل کافی ہے کہ وہ آپ کا مسلمان بھائی ہے اور مسلمان کے لئے مسلمان کے دل میں محبت و خلوص اور خیر خواہی اور وفاداری کے جذبات ہونا ہی چاہئیں۔ ایک شخض نے نبیؐ سے پوچھا اسلام کا بہرین عمل کون سا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ’’غریبوں کو کھانا کھلانا اور ہر مسلمان کو سلام کرنا، چاہے تمہاری اس سے جان پہچان ہو یا نہ ہو‘‘ (بخاری، مسلم)
-4جب آپ اپنے گھر میں داخل ہوں تو گھر والوں کو سلام کیجیے۔ قرآن میں ہے:
’’پس جب تم اپنے گھروں میں داخل ہوا کرو تو اپنے (گھر والوں) کو سلام کیا کرو، دعائے خیر اللہ کی طرف سے تعلیم کی ہوئی بڑی ہی بابرکت اور پاکیزہ‘‘۔(النور:61)
حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ مجھے نبیؐ نے تاکید فرمائی پیارے بیٹے! جب تم اپنے گھر میں داخل ہوا کرو تو گھر والوں کو سلام کیا کرو۔ یہ تمہارے گھر والوں کے لئے خیر و برکت ہے‘‘ (ترمذی)
اسی طرح جب آپ کسی دوسرے کے گھر جائیں تو گھر میں داخل ہونے سے پہلے سلام کیجیے، سلام کئے بغیر گھر کے اندر نہ جایئے۔
’’اے مومنو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جب تک کہ گھر والوں کی رضا نہ لے لو اور گھر والوں کی رضا نہ لے لو اور گھر والوں کو سلام نہ کرلو‘‘ (النور: 27)
حضرت ابراہیمؓ کے پاس جب فرشتے معزز مہمانوں کی حیثیت سے پہنچے تو انہوں نے آکر سلام کیا اور ابراہیمؓ نے جواب میں ان کو سلام کیا۔
-5 چھوٹے بچوں کو بھی سلام کیجیے۔ یہ بچوں کو سلام سکھانے کا بہترین طریقہ بھی ہے اور نبیؐ کی سنت بھی۔ حضرت انسؓ بچوں کے پاس سے گزرے تو ان کو سلام کیا اور فرمایا نبیؐ بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ (بخاری، مسلم)
اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ خط میں بھی بچوں کو سلام لکھا کرتے تھے۔ (الادب المفرد)
(جاری ہے)