وکلا الیکشن میں ول فورم کا کردار

280

ول فورم کا قیام 2011ء میں اس مقصد کے تحت عمل میں لایا گیا تھا کہ وکلا کے درمیان قرآن و سنت کے قوانین و تعلیمات کو عام کیا جائے، نیز ان قوانین کے نفاذ کے لیے ایسے تمام عوامل کو بروئے کار لانا جن سے اللہ کی حاکمیت عدلیہ کے شعبے میں واضح نظر آئے۔ اس حاکمیت کے نفاذ کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اختیارات حاصل ہوں، اور یہ اختیارات بذریعہ انتخابات حاصل کیے جاتے ہیں۔

وکلا کی بار تنظیمیں ہوتی ہیں، ان تنظیموں کے ہر سال انتخابات منعقد کیے جاتے ہیں۔ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے چوں کہ یہ نہایت ضروری تھا کہ انتخابات میں حصہ لیا جائے تاکہ مقتدر حلقوں تک رسائی سہل ہوجائے، اور ایک طرف اپنے عہدے کی ذمہ داریوں کو دیانت داری سے سرانجام دیا جائے تو دوسری طرف بار کے عہدیدار کی حیثیت سے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے مسلمان ہونے کے ناتے دیگر وکلا کی توجہ بھی اس عظیم کار خیر پر دلائی جائے، اس طرح امر بالمعروف ونہی عن المنکر کو بار کی سطح پر عملی جامہ پہنایا جائے۔ ول فورم چوں کہ خواتین وکلا کا ایک گروپ ہے، لہٰذا اپنی برادر تنظیم ’’اسلامک لائرز موومنٹ‘‘ کے ساتھ بار انتخابات کے میدان میں اشتراک کے ساتھ اترا جاتا ہے۔ ول فورم اور اسلامک لائرز موومنٹ کے متفقہ مشترکہ امیدوار کو بار کے مختلف عہدوں کے لیے انتخابی امیدوار کی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے۔

ہر بار میں مختلف وکلا گروپس کی اجارہ داری ہوتی ہے، یہ گروپ تنہا انتخابات کے نتائج پر اثرانداز نہیں ہوتے، لہٰذا چھوٹے بڑے گروپ مل کر انتخابات میں ایک دوسرے کو سپورٹ کرتے ہوئے حصہ لیتے ہیں، کیوں کہ ان انتخابات میں بار کے صدر کے ساتھ ساتھ اس کی پوری کابینہ کو منتخب کیا جاتا ہے، صدر کے علاوہ کابینہ میں درج ذیل عہدیداران کو چنا جاتا ہے:

نائب صدر، جنرل سیکرٹری، جوائنٹ سیکرٹری، خازن، لائبریرین اور ایگزیکٹو کمیٹی کے متعدد ممبران۔

ہر عہدے کے لیے بیک وقت کئی امیدوار انتخابات کی دوڑ میں شامل ہوتے ہیں اور یہیں سے ول فورم کی کلیدی حیثیت و اہمیت سامنے آتی ہے۔ وکلا کے درمیان ول فورم نے اپنی حیثیت کو انتہائی قلیل عرصے میں اپنے نظریاتی اور پُراثر عملی اقدامات کی بدولت ثابت کیا ہے، اس لیے بار کے مختلف گروپس سے تعلق رکھنے والے بااثر اور نامور وکلا ول فورم سے رجوع کرتے ہیں۔ ول فورم کی بنیاد چوں کہ کراچی سے ہے، اس لیے کراچی بار ایسوسی ایشن اور سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن میں اپنے قیام کے فوری بعد سے ہی ول فورم آئی ایل ایم کے ساتھ مل کر انتخابات میں حصہ لیتا رہا ہے اور ان انتخابات میں کامیابیاں بھی سمیٹی ہیں۔ 2012ء میں اپنے قیام کے محض ایک سال بعد ہی ول فورم کی ایگزیکٹو ممبر ایڈووکیٹ دردانہ تنویر کراچی بار ایسوسی ایشن کی منیجنگ کمیٹی کی رکن منتخب ہوئیں، یہ ول فورم کی ایک عظیم کامیابی کا آغاز تھا۔

2015ء میں ایڈووکیٹ روبینہ قادر جتوئی ممبر منیجنگ کمیٹی منتخب ہوئیں۔ اس کے بعد ول فورم نے سندھ ہائی کورٹ بار کا رخ کیا اور یہاں ایڈووکیٹ فریدہ حبیب ممبر منیجنگ کمیٹی منتخب ہوئیں۔ 2017ء میں ول فورم کے حمایت یافتہ ایڈووکیٹ اختر حسین کراچی بار ایسوسی ایشن کے لائبریرین منتخب ہوئے۔ اگرچہ کچھ سال ول فورم کو کامیابیاں نہیں ملیں تاہم ہر سال ول فورم کے نمائندے الیکشن کے میدان میں ڈٹ کر مقابلہ کرتے رہے اور اپنے ووٹ بینک سے بارز الیکشن میں اثرانداز ہوتے رہے۔ انتخابات کا یہ سفر ہر سال جاری و ساری ہے۔ ول فورم کی پوری ٹیم اپنے پورے عزم و حوصلے سے اس سفر کا حصہ ہے، لیکن یہ سفر دیگر وکلا تنظیموں سے یکسر مختلف ہے۔ بارز کے انتخابات میں ول فورم اختیارات کی طاقت سے اللہ کے نظام کو نافذ کرنے کے لیے کوشاں ہے۔

اپنے قیام سے لے کر اب تک کراچی بار اور ہائی کورٹ بار کے انتخابات میں کامیابی اور پریشر گروپ کا کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اب ول فورم کی توجہ بڑی بار سندھ بار کونسل کی طرف ہے جس کے انتخابات سالانہ کے بجائے ہر چار سال بعد منعقد ہوتے ہیں۔ وکلا کا سب سے بڑا ادارہ پاکستان بار کونسل ہے۔ یہ سفر آگے بڑھنا ہے، اپنی توجہ آگے مرکوز کرتے ہوئے، جلد پاکستان بار کے انتخابات میں بھی اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے نمودار ہونا ہے۔

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا ہر سال اپنی جان الیکشن میں کھپانے سے ول فورم کے مقاصد کا حصول قریب ہوجاتا ہے یا محض ایک مشقت سے بھرپور مشق ہی رہ جاتا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ پاکستان بھر کی جتنی بھی وکلا بار تنظیمیں ہیں، سب کی سب پاکستان کی سیاست میں پاکستان کے قیام کے بعد سے ہی کلیدی کردار ادا کرتی آئی ہیں۔ موجودہ حالات میں بھی وکلا بار تنظیمیں مختلف مقتدر حلقوں پر اثرانداز ہوتی ہیں، ایسے میں ان تنظیموں میں اپنی طاقتور آواز بننے سے اس نظام کے اختیارات استعمال میں ہوں تو معاشرے کے لیے بہترین طرز پر مثبت کردار ادا کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے اپنے عظیم مقاصد کے حصول کے لیے وکلا کی ہر سطح پر بار کی نمائندگی درکار ہوگی جوکہ انتخابات میں حصہ لینے سے ہی مشروط ہے۔ ول فورم کو وکلا انتخابات میں دیگر وکلا گروپس کے برعکس سخت چیلنجز کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، جس میں سب سے بڑا چیلنج یہ ہوتا ہے کہ جو نامی گرامی وکلا بار کی سیاست میں حصہ لیتے ہیں وہ وکلا کے انتخابات کے دوران بے دریغ پیسہ خرچ کرتے ہیں۔ یہ پیسہ وکلا کی فلاح و بہبود کے بجائے زیادہ تر نت نئے پکوان کھلانے اور کچھ تحائف دے کر، ووٹرز کو اپنی جانب کھینچنے پر صرف ہوتا ہے۔ یہ انتخابی امیدوار، وکلا کو اپنی جانب مبذول کرانے کے لیے سارا سال گزر جانے کے بعد مختلف سرگرمیوں پر مشتمل پروگرامات کا انعقاد بھی کرتے ہیں، تاہم ان پروگرامات کا بنیادی مقصد ووٹ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ المیہ یہ بھی ہے کہ بار کے وہ معزز وکلا جو سارا سال بار کا منہ نہیں دیکھتے ،بار الیکشن قریب آتے ہی برآمد ہوجاتے ہیں اور پھر سیاسی جوڑ توڑ شروع ہوجاتا ہے۔ اس ساری صورتِ حال میں بار کے وہ ممبرز جو سارا سال بار کو اپنا وقت دیتے ہیں لیکن الیکشن کے دنوں میں نان پریکٹیشنرز وکلا قیادت کرتے نظر آتے ہیں۔ اس تمام صورتِ حال میں ول فورم اور آئی ایل ایم کے وکلا ان چیلنجز کے باوجود اپنی کارکردگی اور مثبت انتخابی مہم کے ساتھ ڈٹ کر مقابلہ کرتے آئے ہیں، محض ووٹ کے حصول کے لیے وکلا کو کھانا کھلا کر یا کوئی تحفہ دے کر قائل کرنے کے بجائے اپنے اعلیٰ اور نظریاتی اقدامات کی بدولت خدمت اور بلند مقاصد کے لیے وکلا کو یہ اپنے امیدوار پیش کرتے ہیں۔

حصہ