دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ دیا ہے مجھ کو وہ لوٹا رہا ہوں میں
میرا ایمان دہشت گردی، میرا مذہب دہشت گردی، میرا اوڑھنا بچھونا دہشت گردی… غرض یہ کہ میں دہشت گردی کی پیداوار ہوں۔ ایک بہت ہی غریب گھرانے سے میرا تعلق رہا ہے۔ والد کا انتقال میرے پیدا ہونے سے قبل ہی ہو چکا تھا ،میں پیدائشی یتیم ہوں۔ ماں نے کپڑے سی سی کر میری پرورش کی، اپنے شہزادے کی ہر خواہش پوری کرنے کی حتی الامکان کوشش کی۔ ملک کی ایک نامور یونیورسٹی سے بی۔ اے کیا ،بقول دلاور فگار…
’’بی اے کیا اب کیا کریں جو پیٹ کا دوزخ بھریں‘‘
پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے گھر سے نکلے کہ اب ہماری آرزوؤں کی تکمیل ہوگی، ہمارے سہانے خوابوں کی تعبیر ہوگی، ہر سو بہار ہوگی، زندگی کے خشک صحرا میں خوشیوں کی بارش ہوگی ،مگر بے سود …
’’سب دفتروں میں جا چکے کتنے ہمیں ٹرخا چکے‘‘
تلاش ِمعاش کے چکّرمیں دَر دَر کی ٹھوکریں کھائیں جس ادارے میں گئے ہر جگہ ایک ہی سوال …کسی بڑے افسر کی سفارش لائے ہو ،کسی سیاسی رہنما کی پرچی لائے ہو، یا پھر’ قائد ِاعظم‘ ساتھ لائے ہو۔ ناشاد نامراد سڑکوں پر مارا مارا پھرتا رہا، آوارہ گردی کرتا رہا ۔بقول مجاز لکھنوی …
شہر کی رات اور میں ناشاد ناکارہ پھروں
جگمگاتی جاگتی سڑکوں پہ آوارہ پھروں
’’اپنی ہی بستی‘‘ ہے اور میں در بدر مارا پھروں
اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں
ایک سہارا تھا وہ بھی جاتا رہا مجھ پر جان چھڑکنے اور محبت کرنے والی ماں بھی داغ ِمفارقت دے گئی شاید اللہ کو یہی منظور تھا زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کٹنے لگی ،جانے کس جرم کی سزا ملتی رہی اور میں اسے بھگتّا رہا زندگی سے بیزار ہو گیا اپنے وجود سے مجھے نفرت ہو گئی اور میں ایک زندہ لاش اپنے کاندھوں پر اٹھائے کبھی اس کا در کبھی اس کا در اور کبھی در بدر پھرتا رہا ۔سب اپنے پرائے ہو گئے
’’دوست دشمن می شود صائب بوقت ِبے کسی‘‘
نہ کوئی چارہ ساز رہا اور نہ ہی کوئی غم گسار۔ اب میں تنہا تھا، بالکل تنہا ،اس شمع کی مانند جو تنہا ہوتی ہے اور ساری رات جل کر گزارتی ہے میرے سینے میں اس ظالم سماج ،اس بے درد معاشرے کے خلاف نفرتوں کا الاؤ سلگنے لگا جو کسی وقت بھی شعلے میں تبدیل ہو سکتا تھا میرے دل میں محبتوں کا جو خانہ تھا وہ تقریبا ًختم ہو چکا تھا اور صورتحال ایسی ہو گئی بقول ساحر لدھیانوی…
تنگ آچکے ہیں کشمکشِ زندگی سے ہم
ٹھکرا نہ دیں جہاں کو کہیں بے دلی سے ہم
اب میں اس بے رحم جہان کو ٹھکرا چکا تھا اور پیٹ کی آگ بجھانے کی خاطر کچھ بھی کر سکتا تھا ان سب اذیّتوں کے باوجود بھی ایک آس تھی کہ شاید کوئی ہمدرد کوئی ہم نوا مسیحا بن کر میری زندگی میں آئے اور نفرتوں کے اس الاؤ کو ٹھنڈا کر دے مگر قسمت کے کھیل نرالے ایسا نہ ہوا جیسا میں نے چاہا بقول آتش:
نہ پوچھ عالم ِبرگشتہ طالعی آتش
برستی آگ جو باراں کی آرزو کرتے
اور ہوا یوں کہ باراں کی آرزو میں ایک ایسے شخص سے ٹکراؤ ہو گیا جو بظاہر میرا ہمدرد میرا غم خوار لگا میری معصومیت میری تنہائی میری بیچارگی اسے اپنا مسیحا سمجھ بیٹھی مگر حقیقت اس کے برعکس تھی وہ شخص مسیحا کے لبادے میں میرا قاتل نکلا وہ دہشت گردوں کے گروپ کا سربراہ تھا اس نے میرے سینے میں سلگتے ہوئے الاؤ پر پٹرول ڈال کر اسے شعلوں میں تبدیل کر دیا مرتا کیا نہ کرتا پیٹ کی آگ ٹھنڈی کرنے کے لیے میں نے اس دہکتی ہوئی آگ میں چھلانگ لگا دی جہاں موت کے سوا اور کچھ نہ تھا۔
راقم کے ذہن میں دہشت گرد کے لیے کچھ سوالات ہیں پہلا سوال …بھائی دہشت گرد… ذرا یہ تو بتائیں کہ آپ کے کام میں استعمال ہونے والا پٹاخا کہاں سے حاصل کیا جاتا ہے اور وطنِ عزیز میں اتنی سخت سیکورٹی ہونے کے با وجود کس طرح آتا ہے… میرے معصوم سے راقم بھائی ظاہر ہے کہ پٹاخا بیرونِ ملک سے ہی حاصل کیا جاتا ہے اور جہاں تک وطنِ عزیز میں لانے کا تعلق ہے یہ ایک راز ہے… ’’آپ کو بتلا رہا ہوں راز ہی رکھنا اسے‘‘ …اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ملک کی سیکورٹی بہت مضبوط ہے وہاں کے کارندے حبّ الوطنی کے جذبے سے سرشار اور جانباز ہیں مگر اپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ہماری پارٹی کے سربراہ بہت پہنچے ہوئے فقیر ہیں ان کے قبضے میں جناّتوں کا ایک ٹولہ ہے اس طرح کے تمام مشکل کام اسی ٹولے کے ذریعے سرانجام پائے جاتے ہیں… اور اب سب سے اہم اور آخری سوال… دہشت گردی کرنے سے قبل ملک کے اعلیٰ عہدے داران سے اجازت طلب کی جاتی ہے یا ان کی اجازت کے بغیر ہی آپ اپنا کام کر ڈالتے ہیں کیونکہ ان کا کہنا ہے …’’کسی کو بھی دہشت گردی کی اجازت نہیں دی جائے گی‘‘… یہ ایک رنجیدہ سنجیدہ اور پیچیدہ سوال ہے فی الحال مجھے ایک اہم مہم پر جانا ہے اگر زندہ لو ٹ آیا تو واپسی پر آپ کو جواب سے ضرورمطلع فرمائیں گے فی امان اللہ۔
دہشت گردی کے لیے اسلحہ ضرور بیرونِ ملک سے دستیاب ہوتا ہے مگر دہشت گرد باہر سے نہیں آتے یہ افراد اپنے ہی ملک کے باشندے ہوتے ہیں زندگی سے بیزار اس لیے کہ انہیں انصاف نہیں ملتا معقول روزگار نہیں ملتا پیٹ کی آگ کس طرح بجھائی جائے زندگی کی گاڑی کس طرح چلائی جائے حکومت کو چاہیے کہ ایسی پالیسی ترتیب دیں کہ نوجوانوں کو انصاف ملے معقول روزگار ملے تاکہ ان کے دلوں میں اپنے وطن کے لیے محبت ہو خلوص ہو ان کے اندر جذبہء حبّ الوطنی ہواور وطنِ عزیز میں جو کالی بھیڑیں ہیں انہیں فوراًذبح کر دیا جائے بقرعید کا انتظار کیے بغیر۔ کسی کے ساتھ کوئی رعایت نہ کی جائے اور اگر یہ کالی بھیڑیں باہر سے آتی ہیں تو ان پر نظر رکھی جائے اور موقع ملتے ہیں ان کا صفایا کر دیا جائے۔
چین یا جاپان میں دہشت گردی کیوں نہیں ہوتی وہاں بھی تو آخر انسان ہی بستے ہیں وجہ صاف ظاہر ہے ان کے یہاں چاہے حکمران ہو یا معمولی کسان سب کو انصاف ملتا ہے جو جرم کرتے ہیں انہیں سخت سزا ملتی ہے چاہے وہ کسی امیر شخص کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو وطنِ عزیز میں مجرم پکڑے تو جاتے ہیں مگر یا تو پولیس مہربان یا پھر جج مہربان سے اپنے گناہ بخشوا لیتے ہیں کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ تھانے پر کسی بڑے شخص یا کسی سیاسی پارٹی کے رہنما کا فون آتا ہے کہ فلاں بندے کوچھوڑ دو اپنا بندہ ہے اور بیچارے پولیس والے بھی کیا کریں انہیں بھی تو آخر نوکری کرنی ہے انہیں بھی تو ریت نبھانی ہے اور اپنے بچّوں کا پیٹ بھی پالنا ہے اس جرم رسیدہ شخص کو لاکر سے باہر نکالتے ہیں اور بڑی عزّت و احترام سے سامنے والی کرسی پر بٹھا کر کڑک چائے سے اس کی خاطر مدارات کی جاتی ہے اور اپنے کیے پر احساس ِشرمندگی کا اظہار کرتے ہیں اس موقع پر مجھے راحت اندوری یاد آگئے…
جو جرم کرتے ہیں اتنے برے نہیں ہوتے
سزا نہ دے کے عدالت بگاڑ دیتی ہے