ڈیپریشن (مایوسی‘ غم زدگی‘ افسردگی‘ پست حوصلگی) ہمارے معاشرے میں پھیلا ہواایک نمایاں مرض ہے۔ نفسیاتی اور طبی کلینکوں پرآنے والے نفسیاتی مسائل کے شکار لوگوں کی ایک بڑی تعداد ڈیپریشن کا شکار ہوتی ہے۔ ہم چونکہ مغرب کی فکری اور ثقافتی یلغار کا نشانہ بنے ہوئے ہیں لہٰذا مغربی معاشروں کو درپیش ڈیپریشن کے اسباب کا ہمیں بھی سامنا ہے۔ اس مضمون میں ڈیپریشن‘ اس کے اہم اسباب اور قرآن کریم کی تعلیمات کے ذریعے ا س سے بچائوپر گفتگو کی جائے گی۔
اہم اسباب: خوف یا بے چینی انسان کے ساتھ پیدا نہیں ہوتے‘ تاہم اعصابی امراض انسان کو ورثے میں ضرور ملتے ہیں۔ ماحولیاتی اسباب ان وراثتی امراض میں اضافہ کردیتے ہیں۔ ڈیپریشن کے اسباب خاندان‘ اسکول‘ دفتر یا کارخانے (کام کرنے کی جگہ) کے ماحول میں پوشیدہ ہوتے ہیں۔ بے چینی کا اہم ترین سبب وہ گھر ہے جس میں اختلاف ہو یا غلط فہمی ہو یاوالدین اپنے بچوں کو نظرانداز کرتے ہوں۔ گو ایسا معاشرہ بھی ڈیپریشن کاسبب بنتا ہے جس میں مادی برتری اور تنازع للبقا کی کش مکش جاری ہو۔ انسان کی آرزوئیں اورخواہشات جب اخلاق اورضمیر سے متصادم ہوں تو ڈیپریشن کا مرض جنم لیتا ہے۔ ہمارے مسلم ممالک میں اگرچہ نفسیاتی امراض اور ان کے پھیلائو کے بارے میں مستند اعداد و شمار مہیانہیں ہیں مگر امریکہ کے اعداد و شمار کی رو سے ڈاکٹروں کے پاس آنے والے ۸۵ فی صد مریض نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتے ہیں جن میں ڈیپریشن سرفہرست ہے۔ پاکستان میں بھی یہ تناسب کم نہیں ہے۔
اہم علامات: تنگ دلی کا احساس‘ عدمِ اطمینان‘ تلخ سوچ‘ نیند میں گڑبڑ۔ کبھی یہ نفسیاتی اضطراب جسم پر بھی ظاہر ہوتا ہے‘ مثلاً پہلوئوں کا ٹھنڈا ہو جانا‘ زیادہ پسینہ آنا‘ دل زور زور سے دھڑکنا‘ معدے کا سکڑنا‘ جسم کی کمزوری اور انتہائی تھکاوٹ‘ کام کرنے کی صلاحیت میں تعطل۔ کبھی انسان وقتی علاج کے لیے بیداری کے خوابوں میں پناہ لیتا ہے۔ معاملہ اعصابی بے چینی تک پہنچ جاتا ہے۔ مریض وسوسوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ وہ موت یا بیماری کے بارے میں ہی سوچتا رہتا ہے۔ اُونچی جگہوں پر چڑھنے سے ڈرنا‘ تنگ کمروں سے گھبرانا‘ غیرارادی وسوسوں میں مبتلا ہونا‘ جیسے ہاتھوں کو بار بار دھونا۔ ڈیپریشن کا مریض کبھی کبھی تیز دوروں کا شکار رہتاہے جو کئی منٹوں یا گھنٹوں تک جاری رہتے ہیں۔ ڈیپریشن کے مزمن یا شدید ہونے کی صورت میں مریض کئی نفسیاتی اور جسمانی بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے‘ مثلاً معدے کا السر‘ ہائی بلڈپریشر‘ دمہ (asthma) اورجلدی ایگزیما۔
طبی علاج: جدید نفسیاتی اور طبی علاج درج ذیل طریقے سے کیا جاتا ہے:
۱- تشخیص: سب سے پہلے اس بیماری کا سبب تلاش کیا جاتاہے اور مریض کی مکمل میڈیکل ہسٹری دریافت کی جاتی ہے۔ اسباب کا کھوج لگاتے ہوئے مریض کے بچپن تک پہنچا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں شخصی چھان بین کی جاتی ہے‘ یا نفسیاتی تجزیہ کیا جاتا ہے‘ یا اجتماعی علاج کیاجاتا ہے۔
۲- سستانا: اس سے مراد مریض کو ذہنی الجھنوںاور پریشانیوں سے نکالنے کی کوشش کرنا اور اس کو ذہنی سکون پہنچانا ہے۔
۳- مسکن ادویات سے طبی علاج :علاج کے کچھ دوسرے طریقے بھی ہیں‘ مثلاً مریض کو کسی کام پر لگا کر اس کی سوچ سے اسے ہٹا دیا جاتا ہے۔
معلوم ہونا چاہیے کہ جدید نفسیاتی و طبی ذرائع سے ڈیپریشن کا علاج بعض اوقات کامیاب اور بعض اوقات ناکام ہوتا ہے۔ اس لیے کہ جدید نفسیاتی اور طبی علاج میں زیادہ تر بیماری کا علاج کیا جاتا ہے مگر بیماری کی جڑ کا علاج نہیں کیا جاتا۔
ڈیل کارنیگی نے اپنی کتاب بے چینی چھوڑیے اور زندگی شروع کیجیے میں ڈیپریشن کے خلاف کافی مفید مشورے دیے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: پُل پر پہنچنے سے پہلے ہی اسے عبور نہ کیجیے‘ یعنی کسی کام کے ہونے سے پہلے ہی اس کے بارے میں پریشان نہ ہو جایئے۔ گرے ہوئے دودھ پر افسوس کا اظہار نہ کیجیے‘ یعنی جو کچھ ہو گیا‘ سو ہو گیا۔ سیٹی کو اس کی قیمت سے زیادہ میں نہ خریدیے‘ یعنی معاملات کو اتنی ہی اہمیت دیجیے جن کے وہ مستحق ہیں۔ ماضی اور مستقبل کے دروازے بند کر دیجیے اور آج میں رہیے۔
قرآن کریم کے ذریعے روحانی علاج
قرآن کریم میںڈیپریشن سے پرہیز اور اس کا علاج دونوں پائے جاتے ہیں۔ ڈیپریشن کے اہم ترین اسباب یہ ہیں:
۱- دل کی کھٹک اور بدگمانی۔
۲- انسانی امنگوں اور ان کے حصول میں حائل رکاوٹوں کے مابین کش مکش۔
ان دو اسباب کے پیچھے کئی عام اسباب بھی پوشیدہ ہوتے ہیں‘ جیسے ذاتی خلفشار‘ خاندانی انتشار‘ اخلاقی گراوٹ اور سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ سے تعلق کا نہ ہونا۔
قرآن کریم ان تمام اسباب و علل کا احاطہ کرتا ہے‘ پرہیز سے بھی اور علاج کے ذریعے سے بھی۔
پرہیز: ہماری زندگی اور اس کے ارد گرد جو کچھ ہے سب اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھتا ہے۔ دین اسلام نظامِ زندگی ہے۔ یہ صرف عبادات کی ادایگی تک محدود نہیں ہے۔ اسلام ہماری زندگی‘ ہمارے تعلقات و معاملات سب کے بارے میں رہنمائی دیتا ہے۔ قرآن کریم ڈیپریشن سے پرہیز کے صحت مندانہ ذرائع کی طرف ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ وہ ہمارے لیے ایسا ماحول فراہم کرتا ہے جس میں ہم پورے ثبات و اطمینان سے رہ سکتے ہیں۔ مگر اس کے لیے غوروفکر کرنے اور عقل سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ اَفَلاَ یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُھَا o (محمد ۴۷:۲۴) ’’کیا ان لوگوں نے قرآن پر غور نہیں کیا‘ یا دلوں پر ان کے قفل چڑھے ہوئے ہیں؟‘‘
اگر ہم ڈیپریشن کے پہلے سبب پر غور کریں جو خوف اور دل کی کھٹک ہے تو ہمیں سوچنا چاہیے کہ مومن کیوں ڈرتا ہے اور کس سے ڈرتا ہے؟ وہ جانتا ہے‘ ہر چیز اللہ کے قبضے میں ہے۔ مومن کا فرض ہے کہ وہ ایسے وسائل و ذرائع اختیار کرے کہ خود کو بھوک‘ بیماری اور غربت سے محفوظ رکھ سکے۔ وہ ان اسباب کی فراہمی میں ہرگزکوتاہی نہ کرے اور پھر معاملے کو اللہ پر چھوڑ دے۔ وہ ڈر اور خوف کے ساتھ زندگی نہ گزارے۔ رزق اول و آخر اللہ کے قبضے میں ہے۔ ارشاد الٰہی ہے: وَکَاَیِّنْ مِّنْ دَآبَّۃٍ لاَّ تَحْمِلُ رِزْقَھَاق اَللّٰہُ یَرْزُقُھَا وَاِیَّاکُمْز وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ o (العنکبوت ۲۹:۶۰) ’’کتنے ہی جانور ہیں جو اپنا رزق اٹھائے نہیں پھرتے‘ اللہ ان کورزق دیتا ہے اور تمھارا رازق بھی وہی ہے‘‘۔
کیا انسان زندگی کے مصائب سے ڈرتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو اس کو جہاں تک اس کے بس میں ہو ان مصائب کے اسباب سے بچناچاہیے اور پھر معاملہ اللہ کے سپرد کر دینا چاہیے اور اپنی ذات کو خوف سے آزاد کر دینا چاہیے۔ ارشاد باری ہے: مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلاَ فِیْٓ اَنْفُسِکُمْ اِلاَّ فِیْ کِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَھَا ط اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرٌ (الحدید ۵۷:۲۲) ’’کوئی مصیبت ایسی نہیں ہے جو زمین میں یا تمھارے اپنے نفس پر نازل ہوتی ہو اور ہم نے اس کو پیدا کرنے سے پہلے ایک کتاب (یعنی نوشتۂ تقدیر) میں لکھ نہ رکھا ہو‘ ایسا کرنا اللہ کے لیے بہت آسان کام ہے‘‘۔ اسی طرح فرمایا: وَاِنْ یَّمْسَسْکَ اللّٰہُ بِضُرٍّ فَلاَ کَاشِفَ لَہٗٓ اِلاَّ ھُوَ ط وَاِنْ یَّمْسَسْکَ بِخَیْرٍ فَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْرٌo (الانعام ۶:۱۷) ’’اگر اللہ تمھیں کسی قسم کا نقصان پہنچائے تو اس کے سوا کوئی نہیں جو تمھیں اس نقصان سے بچا سکے‘ اور اگر وہ تمھیں کسی بھلائی سے بہرہ مند کرے تو وہ ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔
کیا وہ اپنی بیماری سے ڈرتاہے؟ اگر ایسا ہے تو اسے چاہیے کہ اپنی استطاعت کی حد تک پرہیز اور علاج کرے اور معاملہ اللہ کے حوالے کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زبان سے کہا ہے: وَاِذَا مَرِضْتُ فَھُوَ یَشْفِیْنِ o (الشعراء ۲۶:۸۰) ’’اور جب بیمار ہوجاتاہوں تووہی مجھے شفا دیتا ہے‘‘۔
دوسرا سبب داخلی کش مکش اور خواہشات و حدود کے مابین تنازع ہے۔ قرآن کریم مسلمانوں کی تربیت حق پر کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ حلال و حرام دونوں واضح ہیں۔ انسان کومخلوق کی ایسی فرماں برداری نہ کرنا چاہیے جس سے خالق کی نافرمانی ہوتی ہو۔
اِنَّ ھَذَا الْقُرْاٰنَ یَھْدِیْ لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ وَیُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَھُمْ اَجْرًا کَبِیْرًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۹) حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راہ دکھاتاہے جو بالکل سیدھی ہے۔ جو لوگ اسے مان کر بھلے کام کرنے لگیں انھیں یہ بشارت دیتا ہے کہ ان کے لیے بڑااجر ہے۔
ڈیپریشن سے نجات کا ایمانی پروگرام
اللہ سے مسلسل رابطہ انسان کو روحانی علاج پر آمادہ کرتا ہے۔ انسان تنہائی‘ بے کاری اور روحانی خلا سے بچ جاتا ہے۔ اسے ذاتِ برتر سے تعلق کی نسبت حاصل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے ربط و تعلق قائم کرنے کے چار ذریعے ہیں:
۱- نماز: یہ بندئہ مومن اور اس کے رب کے درمیان رابطہ ہے۔ نماز عقل‘ شعور اور وجدان کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ ایک ایسا روحانی علاج ہے جو مومن کو سکونِ قلب اور طمانیت نفس مہیا کرتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی پریشان ہوتے تو نماز پڑھتے اور فرماتے کہ اے بلالؓ ! نماز کے ذریعے ہمیں راحت پہنچائو۔ آپؐ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں رکھ دی گئی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ آج کتنے مسلمان ہیں جو خشوع و خضوع سے اس طرح نماز ادا کرتے ہوں کہ اپنے ارد گرد سے بے خبر ہو جاتے ہوں اور صرف اللہ کے ساتھ ان کا رابطہ رہ جاتا ہو۔
۲- اللّٰہ کا دائمی ذکر: ہر وقت اللہ کا ذکر کرنے سے نفس انسانی میں اللہ سے تعلق کا احساس پیداہوتا ہے۔ اس کی ذات پر توکل کرنے سے انسان احساس تنہائی سے بچ جاتا ہے۔ ارشاد ہوا: اَلَّذِ یْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوْبُھُمْ بِذِکْرِ اللّٰہِ ط اَلاَ بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ o (الرعد۱۳:۲۸) ’’ایسے ہی لوگ ہیں وہ جنھوں نے (اس نبیؐ کی دعوت کو)مان لیا ہے اور ان کے دلوں کو اللہ کی یاد سے اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ خبردار رہو! اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے‘‘۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’جب بھی کچھ لوگ اللہ کو یاد کرنے کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں تو فرشتے ان کو گھیر لیتے ہیں۔ رحمت ان پر چھا جاتی ہے۔ ان پر سکون و اطمینان نازل ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ انھیں یاد کرتا ہے‘‘۔
ذکر کے ساتھ ساتھ پریشانیوں سے نجات کے لیے دعا بھی کرنی چاہیے ۔ پریشان حال اور غم زدہ کے لیے اللہ کا دروازہ ہر وقت کھلا ہے۔ ارشاد فرمایا:
وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْ ٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ط اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَھَنَّمَ دٰخِرِیْنَ o (المومن ۴۰:۶۰) تمھارا رب کہتا ہے ’’مجھے پکارو‘ میں تمھاری دعائیں قبول کروں گا‘ جو لوگ گھمنڈ میں آکر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں‘ ضرور وہ ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے‘‘۔
۳- تلاوت قرآن: قرآن کی تلاوت سے نفس کو سکون و اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ مشرکین مکہ ایک دوسرے سے کہا کرتے تھے کہ وہ قرآن کریم کی تلاوت کے دوران شور مچایا کریں تاکہ ان کے دل قرآن کے بیان سے متاثر ہو کرایمان کی طرف مائل نہ ہوں۔ تلاوتِ قرآن کریم سے بندے کا اپنے پروردگار کے ساتھ تعلق مضبوط ہوتا ہے۔ اور انسان اپنی پریشانیوں اور تکلیفوں کامداوا پا لیتا ہے۔ قرآن اہل ایمان کے لیے شفا اور رحمت ہے۔
۴- اللّٰہ کا تقویٰ: درج بالا سب اعمال نفس میں اس وقت سکون واطمینان پیدا کرتے ہیں جب ان کے ساتھ ساتھ نیک اعمال اور پاکیزہ گفتار کو بھی اپنایا جائے۔ ارشاد الٰہی ہے: مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃًج وَلَنَجْزِیَنَّھُمْ اَجْرَھُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ o (النحل ۱۶:۹۷) ’’جو شخص بھی نیک عمل کرے گا‘ خواہ وہ مرد ہو یا عورت‘ بشرطیکہ ہو وہ مومن‘ اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور (آخرت میں) ایسے لوگوں کو ان کے اجر‘ ان کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے‘‘۔
۵- خود کو پہچانیے: روحانی علاج کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ انسان اپنے آپ کو بھی پہچانے۔ اس پہچان سے وہ ڈیپریشن کے اسباب جاننے میں اور پھر ان کا تدارک کرنے میں کامیاب ہوگا۔ کسی دانش ور کا قول ہے: من عرف نفسہ عرف ربہ، ’’جس نے خود کو پہچانا اس نے اپنے پروردگار کو جانا‘‘۔مگر یاد رہنا چاہیے کہ خودکوپہچاننے میں اور اپنی ذات میں مستغرق رہنے میں بہت فرق ہے۔
ڈیپریشن کا ایک اور سبب انسان کا اپنی عملی زندگی میں افراط و تفریط سے کام لینا ہے۔زندگی اعتدال و توازن سے ہی قائم رہتی ہے جیسے کہ ہمیںاللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے:
وَابْتَغِ فِیْمَآ اٰتٰکَ اللّٰہُ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ وَلاَتَنْسَ نَصِیْبَکَ مِنَ الدُّنْیَا وَاَحْسِنْ کَمَآ اَحْسَنَ اللّٰہُ اِلَیْکَ وَلاَ تَبْغِ الْفَسَادَ فِی الْاَرْضِط اِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبُّ الْمُفْسِدِِیْنَ o (القصص ۲۸:۷۷) جو مال اللہ نے تجھے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر بنانے کی فکر کر اوردنیا میں سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر۔ احسان کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے اورزمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش نہ کر‘ اللہ مفسدوں کو پسند نہیںکرتا۔
قرآن کریم نے ہمیں یہ بھی تعلیم دی ہے کہ ہم گناہ گار ہونے کے احساس کو ختم کریں کیونکہ گناہ گار ہونے کا احساس ہی انسان کو غم‘ بے چینی اور تشویش سے دوچار رکھتا ہے۔ گناہ سرزد ہونے کی صورت میں فوراً توبہ کرنا چاہیے اور پھر یہ یقین کر لینا چاہیے کہ اللہ نے گناہ معاف فرما دیا ہے۔ ارشاد ہوا:
وَاِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمْنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اھْتَدٰی o (طٰہٰ ۲۰:۸۲) جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے‘ پھر سیدھا چلتا رہے اس کے لیے میں بہت درگزر کرنے والا ہوں۔
قرآن مجید ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ ہم ایک دوسرے سے حسد نہ کریں۔ حسد نفسیاتی اضطراب پیدا کرتا ہے۔ اگر حسد کرنے والا یہ سمجھ لے کہ دینے والا اور عطا کرنے والا اللہ ہے تو وہ حسد سے باز رہے اور اپنے نفس کو حسد کی مشقت میں نہ ڈالے۔
انسان کو چاہیے کہ اپنی صلاحیتوں سے بڑھ کر اپنے اوپر بوجھ نہ ڈالے۔ قرآن شریف ہمیں تلقین کرتاہے کہ ہم اپنی آرزوئوں اور استطاعت میں توازن رکھیں تاکہ ہم نفسیاتی بے قراری اور بے چینی سے بچ سکیں۔