اکبر شاہ ثانی کی پڑپوتی گل رخ بیگم:
میرا نام گل رخ بیگم ہے، اکبر شاہ ثانی کی پڑپوتی، وہ دل کے بادشاہ تھے، میں نے ان کو نہیں دیکھا، دادا حضرت بادشاہ کو دیکھا مگر ابا حضرت سے وہ ناراض تھے، ہم کو مرزا سلیم کی بیوی کا طرف دار سمجھا جاتا تھا جنہوں نے حضرت بہادر شاہ پر انگریز کے ہاں نالش کردی تھی۔
ہم قلعہ کے باہر خانم کے بازار میں رہتے تھے، اباجان کی تنخواہ تھی، حضرت بادشاہ سلامت کے ساتھ ہی وہ تنخواہ انگریز دیا کرتے تھے۔
غدر سے ایک سال پہلے رجب کی ۲۷، شب معراج کو میرا عقد مرزا تیمور عرف مرزا نشیلے سے ہوا۔ وہ بھی حضرت بادشاہ سلامت کے معتوب تھے، اسی لیے قلعہ سے باہر رہتے تھے۔
شب برات گزری، رمضان آیا، وہ بھی گیا تو عید کے دن آئے۔ شادی کے بعد پہلا چاند آیا تھا، میں بھی اماں ابا کی اکلوتی وہ بھی ماں باپ کے اکلوتے خوب چائوچوچلے تھے۔
چاند رات کو میں سسرال میں گئی۔ عید کا نیا جوڑا کشتی میں سجا سجایا تیار رکھا تھا۔ بادام چھوکری عید کی خوشی میں تھرکتی پھرتی تھی۔ میری ساس نے اس کے بال کٹوادیئے تھے۔ ان کو اس کی شوخیوں اورمرزا نشیلے کی مہربانیوں سے کچھ شبہ ہوگیا تھا۔ میں نے میکہ میں یہ خبر سنی تھی، آج اس کو دیکھا خرمنڈی بنی پھرتی تھی۔ میں نے اس کو پاس بلایا اور بالوں کاحال پوچھا، مسکرا کر منہ پھیرلیا، میں سمجھ گئی ضرور کچھ دال میں کالا ہے۔
شام ہوئی بادام چھوکری نے افطاری سامنے لاکر لگائی۔ مرزا نشیلے بھی آگئے، ان کی اماں دوسرے دالان میں تھیں، بادام بھی وہیں چلی گئی۔
توپ چلی، نقارے بجے، روزہ والو، روزہ کھولوں کا غل ہوا۔ مرزا نے اپنے ہاتھ سے کھجور مجھے کھلائی، میں شرمائی، مگر کھائی، نماز پڑھی، مرزا بولے چلو چھت پر چلو چاند دیکھو، ابا حضرت جامع مسجد میں ہیں۔ اماں حضرت کو کچھ دکھائی نہیں دیتا، تیسری چوتھی کاچاند دیکھتی ہیں۔
شادی کے بعد پہلی عید کا چاند
میں بالاخانے پر گئی۔ ۲۹ کا باریک چاند فوراً نظر آگیا۔ مرزا نے کہا گل رخ دیکھو وہ ہے چاند، میں نے جواب نہ دیا دعا پڑھنے لگی۔ مرزا میرے سامنے آگئے اور بولے، انبساط عید دیدن روئے تو، میں نے ہنس کر منہ پھیر لیا اور کہا بادام آتی ہوگی۔ یہ فارسی تو وہ سمجھے گی، مرزا نے قہقہہ لگایا اور کہا گل رخ تم کو بھی یہ وہم ہوا، اماں نے بے چاری کے ناحق بال کاٹ ڈالے۔
مرزا نشیلے میرے شوہر تھے، میرے تو وہی چاند تھے، خدا رسول نے ان کو مجھے دیا تھا، عید کا چاند آسمان پر تھا، اس کو لاکھوں نے دیکھا ہوگا اور لاکھوں دیکھنے والے مرگئے اور لاکھوں پیدا ہوہوکر دیکھیں گے اور مرجائیں گے مگر جس کو میں نے چاند کہا وہ فقط میرا تھا اور میں اس کے لیے فقط اکیلی میں ہی تھی۔ عید کی چاند رات سب جگہ ایک ہی نہیں ہوتی۔ میں نے میکہ میں بھی عید کے چاند دیکھے تھے، آج سے زیادہ خوشی ہوئی تھی مگر آج جیسی خوشی کبھی نہ ہوئی نہ ہوگی نہ ہوسکتی ہے۔ عمر تھی، دن تھے، وقت تھا، سب ہی کچھ تھا، میں کیا کہوں اس چاند کو دیکھ کر اور مرزا کے سامنے آجانے سے مجھ پر کیا اثر ہوا تھا، عید کا چاند سب کے لیے ایسا ہی ہوا کرتا تو عید کا چاند نہ کہلاتا۔
رات گزری، عید کا دن گزرا، شام ہوئی تو میں نے پھر مرزا سے کہا چلو آج پھر چاند دیکھیں، بولے چلو، دیکھا، چاند ذرا بڑا ہوگیا تھا مگر کم سنی کی بات نہ تھی، نہ وہ اثر تھا، نہ وہ میں تھی، نہ وہ مرزا تھے۔
دوسرے رمضان کی راہ دیکھا کرتی تھی، وہ آئے تو عید کو بھی لائے، پھر شام ہو، پھر بادام افطاری سجائے، پھر کوٹھے پر جائیں، چاند دیکھیں اور وہی مزہ آئے جو ایک بار آیا تھا اور دوسری بار کی ہوس تھی۔
شادی کے بعد دوسرا رمضان آیا غدر ساتھ لایا:
رمضان آیا اور غدر ساتھ لایا جس کو انگریز غدر اور ہم ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کہتے ہیں۔ ابا میرے بھی، مرزا نشیلے کے بھی اس سے پہلے مرچکے تھے، میری اماں زندہ تھیں مرزا کی اماں عین غدر میں فالج سے مریں، میری اماں جنگ شروع ہوتے ہی مرزا نشیلے کے مکان میں جو میرا تھا کیونکہ میں مرزا کی بھی مالک تھی، آگئی تھیں اور وہیں آکر مریں۔
مرزا نشیلے کا انگریزوں سے تعلق تھا، انگریزوں کا قتل عام ہوا تو پوربیوں نے مرزا کو بھی پکڑ لیا کہ یہ انگریزی جاسوس ہے مگر بہ ہزار دقت رہائی ہوئی۔ میں نے اپنا سب زیور دیا تب جان بچی۔
کشمیری دروازہ ٹوٹا، انگریز گھسے، بادشاہ حضرت ہمایوں کے مقبرہ میں گئے، دلی کی خلقت بھاگی۔ مرزا مجھ کو بھی رتھ میں سوار کرکے قطب صاحب لے چلے جہاں میں نے جھرنہ کے پاس ایک باغ لگایا تھا، اور بارہ دری بنوائی تھی۔
گوروں نے رتھ کو گھیر لیا
راستہ میں گوروں کی فوج ملی، رتھ کو گھیر لیا، مرزا نشیلے رتھ میں میرے پاس پردہ کے اندر تھے، میں حاملہ تھی۔ آٹھواں مہینہ تھا، ہمارے پاس زیور نہ تھا، پچاس اشرفیاں، سونے کے چار کڑے اور موتیوں کا ایک ہار تھا جو بہت قیمتی تھا۔ گوروں نے پردہ ہٹاکر دیکھا، مرزا کا ہاتھ پکڑ کر باہرکھینچا میں ان کو چمٹ گئی، رتھ بان بھاگ گیا۔ مرزا رتھ کے باہر گرے، میں بھی ان کے ساتھ گری، مرزا نے گرتے ہی کھڑے ہوکر گورے کے چہرے پر مکا مارا گورے سے سنگین ان کے پیٹ میں ماری جس کی نوک کمر کے پار نکل گئی۔ وہ آہ کرکے گرپڑے مجھے غش آگیا۔
مرزا نشیلے اور میرے مردہ بچے کی لاش سامنے پڑی تھی
آنکھ کھلی تو شام تھی، مرزا کی لاش سامنے پڑی تھی اور ایک مردہ بچہ میرے سامنے پڑا تھا جو رتھ سے گرنے کے صدمہ سے مرگیا یا پیدا ہونے کے بعد مرا، کب پیدا ہوا مجھے خبر نہیں میں کئی گھنٹے بے ہوش رہی تھی۔
شام تھی، جنگل تھا، ہاں اشرفیاں، کڑے کچھ بھی نہ بچا، وارث خاک پر پڑا تھا خون میں لتھڑا ہوا، پھر غش آگیا۔ آدھی رات کو ہوش آیا، گیدڑ خون چاٹ رہے تھے، لاش کے پاس کھڑے تھے، میں ڈرگئی، پھر خوف نے بے ہوش کردیا۔ پھر آنکھ کھلی، اب بھی رات تھی، بڑی اندھیری رات بڑی ڈرائونی، میں نے تو کبھی خواب میں بھی یہ رات یہ بے کسی، یہ بے وارثی اور یہ غم نہ دیکھا تھا، برابر میرے سرتاج پڑے تھے، سامنے میرا لال پڑا تھا۔ دونوں مجھ سے بے پرواہ تھے اور میں دونوں کی رکھوالی تھی۔
یااللہ دشمن کو بھی یہ وقت نہ دکھائیو، دور سے کسی کے غرانے کی آواز آئی، گیدڑ تھے یا کچھ اور تھا، کلیجہ لرزنے لگا پھر غش آگیا۔
صبح ہوئی تو میں ایک جاٹ کے گھر میں تھی، ہندو تھا مگر بڑا رحمدل، خود بھی بوڑھا تھا مگر اس کی ماں بھی زندہ تھی۔ سو برس کی بڑھیا بڑی خاطر کرتی تھی اور خوب مضبوط ہاتھ پائوں تھے، بولی میرا بیٹا تجھے جنگل سے لایا۔ میں نے کہا وہاں لاشیں تھیں کیا ان کو جناور کھاگئے۔ ہائے ان کو مٹی بھی نصیب نہ ہوئی۔
امن چین ہوا تو میں نے بوڑھے جاٹ سے دہلی جانے کو کہا کہ شاید کوئی رشتہ دار جیتا جاگتا میسر آجائے۔ اس بے چارے نے اپنی ماں کی چادر اوڑھائی، دہلی میں لایا۔ اس کا گائوں دہلی سے دو کوس تھا۔ میں بڑی مشکل سے پیدل چلی، خانم کا بازار ویران پڑا تھا۔ مکان کھنڈر تھے، کسی کا پتہ نہ چلا، ایک چوکیدار دکھائی دیا جس نے انگریز کے ہاں نوکری کرلی تھی۔
میں نے اس کو قدرت کہہ کر آواز دی۔ مرزا کے پاس ہمیشہ آیا کرتا تھا اور قلعہ کی خبریں دیا کرتا تھا۔ قدرت نے نہ پہچانا، میں نے اپنے پتے دیے، رونے لگا، اپنے گھر لے گیا اور کہا تم میری بہن، میں تمہارا بھائی، یہاں رہو، جاٹ رخصت ہوا جس کو باپ کہتی تھی اور قدرت کے ہاں رہنے لگی۔
ایک رمضان اور اس کی وہ عید جس کی راہ دیکھا کرتی تھی غدر میں گزر گئی، خبر نہیں کب آئی کب گئی۔ ایک رمضان پھر آیا اور ختم ہوا، پھر ۳۰ رمضان کو چاند کی تلاش ہوئی۔ قدرت کے ہاں بالاخانہ کہاں، کھپریل کا مکان تھا۔ صحن میں کھڑے ہوکر چاند دیکھا۔
آج عید کے چاند نے رلادیا
غمگین صورت بنائے دکھائی دیا۔ مرزا اس کو گود میں لیے معلوم ہوتے تھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ میرے آٹھ ماہ کے معصوم بچے کی لاش کو لیے کھڑے ہیں، شاید میرے دل میں زخم تھے ان میں چبھن محسوس ہوئی، میں رونے لگی۔ میں بے گھر ہوئی، بے در ہوئی تو نہ روئی، رتھ سے گری تو نہ روئی، جاٹ کے ہاں میلے کچیلے اور بڑے بدبودار گھر میں رہی تو نہ روئی، مگر آج اس عید کے چاند نے رلایا۔ خبر نہیں کیا کیا یاد دلادیا۔ وہی چاند ہے ویسا ہی چاند ہے، وہیں ہے جہاں مرزا کے گھر دیکھا تھا چمک بھی ہے دمک بھی ہے، رمضان ہی کے بعد آیا ہے، عید کی ہی خبر لایا ہے۔ مجھے رونا کیوں آتا ہے، کیا اب مرزا بچے کی لاش کو میرے بچے کی میت کو میری گود میں دیں گے۔ میں ان کو بادام کا طعنہ دوں گی۔
چاند تو چمکے جاتا ہے، چاند تو دمکے جاتا ہے، اس چاند کی تو باہرخوب ہی دھوم ہورہی ہے، مجھے کیا ہوگیا ہے، اس کی خوشی میرے پاس کیوں نہیں آتی۔ میں نے بھی روزے رکھے ہیں، میں نے تو یہ بات بھلادی کہ میں شہنشاہ ہند کی اولاد ہوں۔ اب تو میں ایک خدمت گار کی لے پالک ہوں۔ ایک غریب مگر مطمئن مسلمان عورت، پھر عید کی خوشی اس چاند نے مجھے کیوں نہیں دی۔
چاند کی خطا نہیں میرے دل کی خطا ہے۔ میرے حالت کی خطا ہوگی، خطا کسی کی بھی نہیں، دنیا میں یہی ہوتا آیا ہے اور یہی ہوتا رہے گا۔ ایک چاند ہنس کر دیکھا، ایک چاند رو کر دیکھا، وہ بھی دیکھا، یہ بھی دیکھا، زندگی اسی کا نام ہے۔
(خواجہ حسن نظامی کی زبانی ’’شہزادی کی بپتا‘‘ سے ماخوذ)