سیاسی مشورے

311

میں اپنا مضمون لکھنے کے لیے ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ دروازے پر شبیر بھائی کی جانب سے دی جانے والی دستک نے میرے ذہن میں آنے والے تمام موضوعات کو بکھیر کر رکھ دیا۔ شبیر بھائی محلے میں باتونی کے نام سے مشہور ہیں۔ بلاوجہ بولنا اور نہ جانتے ہوئے بھی لوگوں کو مشورے دینا اُن کی سرشت میں شامل ہے۔ اس موقع پر جب میں لکھنے کی تیاری کررہا تھا اُن کا میرے گھر آنا دماغ کی دہی کرنے سے کم نہ تھا۔ چوں کہ وہ میرے دروازے پر دستک دے چکے تھے،اس لیے انہیں گھر میں بلانا میرا اخلاقی فرض تھا۔ اب کیا لکھنا اور سوچنا! ظاہر ہے بال کی کھال نکالنا جس شخص کی عادت میں شامل ہو اُس کے سامنے کسی سنجیدہ موضوع پر لب کشائی کرنا مجھ جیسے شخص کے بس کی بات نہیں۔ خیر جس کا ڈر تھا وہی ہوا،یعنی میرے سامنے والی کرسی پر چند لمحے خاموش بیٹھنے کے بعد شبیر بھائی اپنے مخصوص انداز میں کچھ یوں گویا ہوئے:

’’کیا سوچ رہے ہو، لگتا ہے کسی گہری سوچ میں ہو‘ ویسے یہ تو بتاؤ اس مرتبہ کس موضوع پر لکھنے کا ارادہ ہے؟‘‘

’’ابھی ذہن نہیں بنایا۔‘‘
’’کیا اِس مرتبہ لکھنے کا ارادہ نہیں؟‘‘
’’مضمون تو لازمی بھیجنا ہے، ظاہر ہے لکھنا تو پڑے گا۔‘‘
’’اِس مرتبہ کس مسئلے پر کاغذ کالے کرو گے؟‘‘

’’سوچ رہا ہوں بانی پی ٹی آئی کو سائفر کیس میں سنائی جانے والی سزا پر کچھ لکھ دوں لیکن پھر سوچتا ہوں اس کیس میں تو دس سال کی سزا لگی ہے پھر ذہن میں آتا ہے کہ کیوں نہ توشہ خانہ کیس میں دی جانے والی سزا پر لکھوں جس میں نہ صرف خان کو بلکہ ان کی اہلیہ کو بھی چودہ برس کی سزا سنائی گئی ہے۔‘‘

میری بات ابھی مکمل بھی نہ ہوئی تھی کہ شبیر بھائی بول اٹھے:

’’نہیں یہ غلطی مت کرنا‘ خان نے توشہ خانے سے جتنی بھی اشیا لیں ان تمام چیزوں کی قیمت ادا کی ہے، سائفر بھی ایک کاغذ کے ٹکڑے کی کہانی ہے اس کو چھوڑو‘ کچھ مثبت لکھو یہ سب سیاسی چکر ہیں‘ اس فضول مسئلے پر سر کھپانے سے کیا حاصل۔ یہاں ماضی میں بھی متعدد سیاسی رہنماؤں کو اسی قسم کی سزائیں دی جاتی رہی ہیں بلکہ ہائی جیکر اور قاتل تک ثابت کیا گیا ہے‘ تم اس طرف دھیان مت دو‘ ایسی تحریر لکھنے سے تمہاری جگ ہنسائی ہوگی۔ اس لیے اس موضوع کو چھوڑو،کچھ اور لکھو۔‘‘

’’اگر یہ مسئلہ ہے تو پھر پاکستان کی بگڑتی ہوئی معاشی صورتِ حال پر لکھ دیتا ہوں، ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی نے غریب کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ اشیائے خورونوش کی قیمتیں آسمان پر پہنچ گئیں۔ جب کہ ہمارے ملک کی کرنسی پورے خطے کے ممالک کے مقابلے میں سب سے کم ہے، یعنی ہمارے روپے کی قدر و قیمت کم ہو چکی ہے۔ حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں کے باعث بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے‘ اس کی نشان دہی کر دیتا ہوں۔ حکمرانوں کی جانب سے دکھائے جانے والے ان خوابوں کو تحریر کر دیتا ہوں جس میں ترقی‘ خوش حالی اور ملک کو ’’ایشیا ٹائیگر‘‘ بنانے کے دعوے کیے گئے تھے‘ وہ سب کچھ لکھ ہوں۔‘‘

’’نہیں نہیں، یہ کام بھی نہیں کرنا، تمہیں معلوم نہیں کہ کے ایسے وعدے اور دعوے اخبارات میں شائع ہوتے ہی پہلے تو تمام اشیائے ضروریہ بازاروں غائب ہوجاتی ہیں، اگر کچھ ملے بھی تو ان کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ اگر تم نے کرنسی سے متعلق لکھ دیا اور حکومت نے اس کا نوٹس لے لیا تو ملک بھر سے ایک ایک روپیہ غائب ہوجائے گا، اس کے بعد لازمی طور پر ہمیں سکے بنوانے پڑیں گے اور وہ بھی چمڑے کے اور شاید تم کو یہ خبر نہیں کہ پاکستان میں چمڑے کی صنعت پہلے ہی تباہ ہوچکی ہے، ایسی صورت میں چمڑے کا بندوبست کرنا بھی انتہائی مشکل ہوگا تو اس پر لکھنے کی غلطی بالکل بھی نہ کرنا۔‘‘

’’چلیں انتخابات کے موضوع پر ہی لکھ دیتا ہوں۔ سنا ہے اِس مرتبہ انتخابات بڑے صاف شفاف ہونے جا رہے ہیں‘ انتخابی گہما گہمی بڑھتی جارہی ہے‘ تمام سیاسی جماعتیں کسی دباؤ کے بغیر پُرامن ماحول میں انتخابی مہم چلانے میں مصروف ہیں۔ لگتا ہے اس انتخابات کے بعد جمہوری ادارے مضبوط ہوں گے‘ ملک میں جمہوری کلچر پروان چڑھے گا۔ تم کہو تو اسی موضوع پر کچھ تحریر کر دیتا ہوں۔‘‘

’’انتخابات کے موقع پر عوام سیاست دانوں کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں‘ انہیں موسمی و سیاسی کھلاڑیوں سے بچانے کا یہ طریقہ نہیں اس لیے اگر سیاسی شعور دینا چاہتے ہو تو کوئی اور طریقہ اپناؤ کچھ ایسا لکھو جس کا فائدہ ہو یعنی نتائج حاصل ہوں!‘‘

’’اِس پر نہیں لکھنا، اُس پر نہیں لکھنا، تو پھر کس پر لکھوں؟ چلو آپ ہی کچھ بتادو۔‘‘

’’ہاں یہ ہوئی ناں بات… اب میں بتاتا ہوں موضوع جس پر تم کو لکھنا ہے۔ سنو! چوں کہ سنڈے میگزین انتخابات سے چند روز قبل آ رہا ہے‘ یوں تمہارے پڑھنے والوں کے سامنے پولنگ ڈے سے قبل ہوگا اس لیے حقائق لکھو۔ تم لکھو کہ اب تک شہر میں گزشتہ بارش کا پانی جگہ جگہ کھڑا ہے جس سے تعفن اٹھ رہا ہے، سیوریج کے پانی کے باعث کھیل کے میدان تالاب کا منظر پیش کررہے ہیں، برساتی نالے بھپرے ہوئے ہیں، کچرا کنڈیوں کے اطراف اور سڑکوں پر مختلف علاقوں میں ناجائز طور پر قائم کیے گئے مذبح میں ذبح کیے جانے والے جانوروں کی آلائشیں بکھری پڑی ہیں، موسم بدلتے ہی شہر میں مچھروں اور مکھیوں کی یلغار ہوچکی ہے، گندگی اور تعفن کی وجہ سے شہر بھر میں ہیضہ اور سانس کی بیماریاں پھوٹ پڑی ہیں۔ کراچی کی سڑکوں، محلوں اور چوراہوں پر کتوں کی بھرمار ہے‘ معصوم بچے گٹروں میں گر کر مر رہے ہیں‘ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ انتہا پر ہے اس پر مستزاد یہ کہ ان کے بلوں نے عوام کو ذہنی مریض بنا دیا ہے۔ اس بدترین صورتِ حال میں حکومت کہیں نظر نہیں آرہی بلکہ حکمرانوں کی جانب سے کراچی کے عوام کو نہ صرف ان وبائی امراض بلکہ مختلف اقسام کے جان لیوا وائرس کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس مرتبہ یہ لکھو… کیوں کہ یہی حقیقت ہے۔ ایسی تحریر سے ہی لوگوں کو مفاد پرست اور دیانت دار سیاسی جماعت کی پہچان ہو گی‘ شہر کے تباہ حال انفرا اسٹرکچر کی نشاندھی سے ہی لوگوں کو حقیقی نمائندوں کی پہچان کروائی جاسکتی ہے۔‘‘

’’یہ کیا کہہ رہے ہیں شبیر بھائی! کراچی شہر کا جو نقشہ آپ نے کھینچا ایسا کچھ نہیں ہے، میرا مطلب ہے کہ بات انفرا اسٹرکچر کی تباہی تک تو ٹھیک ہے لیکن یہ جانوروں کی آلائشیں کہاں سے آ گئیں‘ شہر میں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیرے تو دکھائی دیتے ہیں مگر جانوروں کی باقیات پھینکے جانے کا ذکر تو عیدِ قرباں پر کیا جاتا ہے… یہ مناسب نہیں‘ یہ وہ بات ہے جس کا حقیقت سے دور تک کوئی تعلق نہیں۔‘‘

’’تم پریشان نہ ہو، جو کچھ بھی میں نے کہا ہے وہ سب لکھ دو، جب تک سنڈے میگزین عوام کے ہاتھوں میں آئے گا تب تک شہر کی یہی صورت حال بن چکی ہوگی اور میری جانب سے کی جانے والی ایک ایک بات سچ ثابت ہوگی۔ رہی بات آلائشوں کی تو جہاں جہاں بھی ناجائز طور پر مذبح قائم ہیں وہاں یہی صورت حال ہے‘ یہ کوئی نئی بات نہیں اور ویسے بھی عیدِ قرباں پر ہر سال اسی طرح تو ہوتا ہے۔ کیا تم کو خبر نہیں کہ ہر سال یہاں وبائی امراض پھوٹتے ہیں۔ کیا تم نہیں جانتے کہ یہاں آلائشیں سڑکوں پر پھینک دی جاتی ہیں اور کیا تم یہ بھی نہیں جانتے کہ یہاں جگہ جگہ گندے پانی کے جوہڑ کھڑے ہیں۔ کیا تم اس سے بھی لاعلم ہو کہ یہاں کی انتظامیہ سوئی ہوئی ہے! ایسا بالکل نہیں ہے۔ تم خوب جانتے ہو اور ہمیشہ سے یہی کچھ دیکھتے آئے ہو، اس لیے تمہارے لکھنے میں کچھ جھوٹ نہیں ہوگا بلکہ تم سچ ہی لکھو گے۔ عوام کو سیاسی شعور دینے کے لیے عیدِ قرباں پر دکھائی دینے والا نقشہ کھینچ دینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر میری بات پر یقین نہیں تو ان علاقوں میں جا کر دیکھ لینا جہاں مذبح قائم ہیں، جہاں میری یہ بات کہ شہر کسی کچرا کنڈی کا منظر پیش کرتا ہے یا وبائی امراض کا ذکر ہے‘ تو یہ بھی جھوٹ نہیں سچ ہے۔ سب جانتے ہیں کہ نااہل سیاسی کھلاڑیوں کی کارکردگی ہمیشہ زیرو رہی ہے۔ یہ نااہل ایک بار پھر نئے انداز میں عوام کو سبز باغ دکھا رہے ہیں۔ اگر عوام ان کی باتوں میں آ گئے اور انہیں کامیابی حاصل ہو گئی تو تم بھی مجرم ٹھہرو گے لہٰذا تمہارا فرض ہے کہ جو کچھ بھی میں کہہ رہا ہوں‘ تحریر کرو تاکہ عوام مخلص اور ایمان دار جماعت کے باکردار نمائندے منتخب کر سکے۔ لوگ مجھے باتونی ایسے ہی نہیں کہتے، میں ہر بات کی خبر رکھتا ہوں، میں جانتا ہوں کہ یہاں عوام کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے اُن پر سیاست کی جاتی ہے۔ جماعتیں حکومت میں شامل ہونے کے لیے جھوٹے وعدے اور دعوے کرتی ہیں اور منتخب ہونے کے بعد ان کے پاس اختیارات نہ ہونے کا رونا رونے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اگر کچھ ہوتا ہے تو ان کا اپنا ایجنڈا جو کہ صرف اور صرف پیسہ کمانا ہے۔‘‘

شبیر بھائی سے جتنا مرضی اختلاف کیا جائے وہ اپنی جگہ، لیکن ان کی اس بات میں سچائی موجود ہے کہ راشی افسران، نااہل حکمرانوں اور موسمی سیاست دانوں نے روشنیوں کے شہر کراچی کو اپنی ذاتی خواہشات، لسانی و سیاسی اَنا پرستی اور ہوس کی خاطر کچرا کنڈی بنا ڈالا۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ کراچی ملک کی تجارتی اور کاروباری سرگرمیوں کا مرکز اور آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب بڑا شہر ہے، اس کا آج کوئی پرسانِ حال نہیں۔ یہ شہر اس وقت مسائل سے دوچار ہے۔ کراچی میں سر فہرست مسئلہ ’’سالڈ ویسٹ مینجمنٹ‘‘ یا شہر میں پیدا ہونے والے کچرے کو اٹھانے اور اسے ٹھکانے لگانا ہے، جس پر سندھ حکومت نے کئی ارب روپے لگائے،لیکن اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ یہاں رہنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ کراچی میں 12 ہزار ٹن سے زائد کچرا روزانہ پیدا ہوتا ہے، لیکن اس میں سے بہ مشکل 50 سے 60 فیصد ہی ٹھکانے لگایا جاتا ہے، باقی کچرا شہر کے گلی کوچوں،چوراہوں یا پھر ندی نالوں میں پھینک دیا جاتا ہے جس سے وہ نالے برسات کے موسم میں اُبل پڑتے ہیں اور نتیجتاً بارش کا پانی قریبی آبادیوں، سڑکوں اور گلیوں میں جمع رہتا ہے اور پھر بارشوں میں شہر بھر کا نظام درہم برہم نظر آتا ہے۔ دل چسپ بات تو یہ ہے کہ عوام کے نزدیک بلدیہ عظمیٰ کراچی اور شہر کی ضلعی میونسپل کارپوریشنز سڑکوں، گلیوں کے ساتھ نالوں کی صفائی ستھرائی کی پابند ہیں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے قانونی طور پر یہ اختیار صوبائی حکومت کا ہے یہی وجہ ہے کہ کچرا اٹھانے والی سینکڑوں گاڑیاں کھڑے کھڑے ناکارہ ہوچکی ہیں یا پھر انہیں چلانے کے لیے ایندھن کے پیسے موجود نہیں ہوتے۔ اس مد میں ملنے والے فنڈز میں مبینہ کرپشن کی شکایات بھی زبان زدِ عام ہیں۔ معاملہ صرف یہی نہیں بلکہ کراچی کی انتظامی تقسیم بھی انتہائی پیچیدہ ہے۔ شہر میں 6 اضلاع کے علاوہ دیہی کونسلز، پانچ کنٹونمنٹ بورڈ، ریلوے، کراچی پورٹ ٹرسٹ اور دیگر اداروں کی اپنی زمینیں اور آبادیاں ہیں، ان تمام اداروں میں شہریوں کے بلدیاتی مسائل کے حل کے لیے آپس میں رابطوں یا مشترکہ حکمت عملی کا بھی فقدان ہے۔ اس بدترین صورتِ حال میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بلدیاتی اداروں کے پاس اختیارات ہوں تاکہ بلدیہ کراچی مسائل حل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے وسائل میں بھی اضافہ کرے، لیکن بلدیاتی اداروں کو صوبائی حکومت کے ماتحت کیے جانے کے بعد بلدیہ کراچی برائے نام ادارے کے سوا کچھ نہیں۔ صوبائی وزارت نہ خود اس کی آمدنی بڑھانے کے لیے اقدامات کرتی دکھائی دیتی ہے اور نہ ہی اسے با اختیار بنانے کے لیے سنجیدہ نظر آتی ہے یوں حکومت ٹیکسوں کی وصولی میں مکمل طور پر ناکام رہی۔ اگر کچھ وصولی کی گئی تو اس میں بھی بھاری پیمانے پر کرپشن کی شکایات عام رہی۔

شبیر بھائی نے جو کچھ کہا، یہ اُن کی جانب سے کی جانے والی وہ کوشش ہے جس سے کراچی کے شہریوں کو مخلص‘ باوفا اور ایمان دار امیدوار کامیاب کروانے میں خاصی مدد ملے گی۔ کاش ہمیں ایمان دار اور بے لوث قیادت کی پہچان ہو جائے‘ ہم ایسی جماعت کو اقتدار کے ایوانوں میں پہنچائیں جس کے رہنما نہ صرف غریبوں کا دکھ درد سمجھتے ہوں بلکہ ان کے دلوں میں انسانیت کی خدمت کا جذبہ موجود ہو‘ ایسی قیادت منتخب کر کے ہی نہ صرف پاکستان کو ترقی اور خوش حالی کی راہ پر ڈالا جا سکتا ہے بلکہ کچرے سے اَٹے اور اندھیروں میں ڈوبے کراچی شہر کو پھرسے روشنیوں کا شہر بنایا جا سکتا ہے۔

حصہ