پاکستان میں جمہوریت تماشا،انتخابی معرکہ 2024 کون جیتے گا؟

481

کراچی میں جماعت اسلامی کی بڑی کامیابی کا امکان

انتخابات اور جمہوریت دو ایسے تصورات ہیں جو ایک دوسرے سے لازم و ملزوم ہیں۔ جمہوریت کے بغیر انتخابات کا کوئی مطلب نہیں، اور انتخابات کے بغیر جمہوریت کا قیام ناممکن ہے۔ انتخابات ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے عوام اپنے نمائندوں کا انتخاب کرتے ہیں جو اُن کی طرف سے حکومتی فیصلے کرتے ہیں۔ جمہوریت ایک ایسا نظامِ حکومت ہے جس میں عوام کو حکومتی فیصلوں میں شرکت کا حق حاصل ہوتا ہے۔

انتخابات اور جمہوریت سیاسی استحکام کے لیے ناگزیر ہیں۔ جب عوام کو اپنے نمائندوں کا انتخاب کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے تو وہ حکومتی فیصلوں میں اپنی نمائندگی محسوس کرتے ہیں۔ اس سے ان کا حکومتی نظام پر اعتماد بڑھتا ہے اور وہ حکومتی فیصلوں کو قبول کرنے کے لیے زیادہ آمادہ ہوتے ہیں۔ اس سے سیاسی استحکام کو فروغ ملتا ہے۔

اس وقت وطنِ عزیز کے معاشی حالات بد سے بدتر ہوچکے ہیں۔ لوگ سسک سسک کر زندگی گزار رہے ہیں۔ عوام کی اکثریت مشکلات سے دوچار ہے اور چند ہزار خاندانوں کی دولت و ثروت میں دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی ہورہی ہے۔ ملک کی دولت ملک سے باہرہے۔کیا انتخابات کے بعد کچھ بدلے گا؟ یہ سوال ہر شخص کررہا ہے، اور اس کے جواب سے مایوس ہے، لیکن پھر بھی انتخابات کے سوا اس کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔ بدقسمتی سے ہماری انتخابی اور جمہوری تاریخ بہت اچھی نہیںہے۔ اب انتخابات میں صرف تین دن رہ گئے ہیں لیکن بہت زیادہ گہماگہمی نہیں ہے۔ نوجوانوں کا کردار ان انتخابات میں بہت اہم ہوگا۔

فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کے مطابق ملک میں ریکارڈ ووٹرز کا اندراج ہوا۔ ادارے نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ12 کروڑ 80 لاکھ ووٹرز کا اندراج کیا گیا ہے، اور خواتین میں ووٹر رجسٹریشن کا نمایاں رجحان ہے، اور گزشتہ دہائی میں ووٹرز کی رجسٹریشن میں اضافہ ہوا ہے۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد سے 4 کروڑ 23 لاکھ ووٹرز کا اضافہ ہوا ہے۔ ووٹرز کی تعداد اس وقت ملک کی آبادی کا 53.2 فیصد ہے، جبکہ 2018ء میں رجسٹرڈ ووٹرز کا تناسب 49.6 فیصد تھا۔ فافن نے بتایا کہ پنجاب میں آبادی کا 57 فیصد، پختون خوا میں 53 فیصد، سندھ اور اسلام آباد میں تقریباً 50 فیصد اور بلوچستان میں آبادی کا صرف 36 فیصد رجسٹرڈ ووٹرز ہیں۔ وائس آف امریکا کے سروے میں جہاں پاکستان کے 70 فی صد نوجوانوں نے آئندہ انتخابات میں ووٹ دینے کا ارادہ ظاہر کیا ہے، وہیں 17 فی صد نوجوانوں نے کہا ہے کہ وہ کبھی ووٹ نہیں ڈالیں گے۔ پلڈاٹ کے مطابق 1988ء سے 2018ء کے درمیان ہونے والے 8 قومی انتخابات میں نوجوانوں میں ووٹ دینے کی شرح 31 فی صد رہی۔ ان آٹھ انتخابات میں اوسط ٹرن آئوٹ تقریباً 44 فی صد تھا۔

پاکستان میں 1951ء میں پہلی بار انتخابات ہوئے تھے۔ یہ بالغ رائے دہی کی بنیاد پر صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات تھے۔ پنجاب میں 50فیصد ووٹروں نے حقِ رائے دہی استعمال کیا۔ مسلم لیگ نے 197 میں سے 143نشستیں حاصل کیں جبکہ اسے مشرقی پاکستان میں صرف 10 نشستیں حاصل ہوسکیں۔ یونائیٹڈ فرنٹ نے 223 اور کانگرس نے 24 نشستیں حاصل کیں۔

1956ء میں پاکستان میں قومی اسمبلی کے پہلے انتخابات ہوئے۔ ان انتخابات میں بھی مسلم لیگ نے کامیابی حاصل کی تھی۔1958ء میں صدر اسکندر مرزا نے مارشل لا نافذ کردیا اور انتخابات ملتوی کردیے گئے۔1960ء میں صدارتی انتخابات ہوئے جن میں بی ڈی ممبرز نے حقِ رائے دہی استعمال کیا اور جنرل ایوب خان پاکستان کے صدر منتخب ہوگئے۔ پھر بی ڈی ممبرز نے 1962ء میں اراکینِ قومی اسمبلی کا انتخاب کیا جن کی تعداد 156 تھی، ان میں 6 خواتین شامل تھیں۔ 1965ء میں جنرل ایوب خان اور مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کے درمیان مقابلہ ہوا۔ بی ڈی ممبرز نے ووٹ ڈالے۔

1970ء میں متحدہ پاکستان میں عام انتخابات ہوئے تھے۔ ان انتخابات میں عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں اور پاکستان پیپلز پارٹی نے مغربی پاکستان میں کامیابی حاصل کی تھی۔ عوامی لیگ نے 160، پیپلزپارٹی نے 81، پاکستان مسلم لیگ قیوم گروپ نے9، پاکستان مسلم لیگ کونسل نے 7، نیپ 6 اور جے یو آئی نے 7 نشستیں حاصل کی تھیں۔ فوجی آمر یحییٰ خان نے انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کیا اور عوامی لیگ کو اقتدار منتقل کرنے کے بجائے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع کردیا۔ جس کے بعد 1971ء میں مشرقی پاکستان ظلم، جبر، ناانصافی اور بزدلی کی وجہ سے ہم سے الگ ہوگیا اور بنگلادیش بن گیا۔ 1977ء میں پاکستان میں عام انتخابات ہوئے۔ ان انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کی 155نشستیں جیت کر دو تہائی اکثریت حاصل کرلی۔ پاکستان قومی اتحاد کو 36 نشستیں مل سکیں۔ حزبِ اختلاف نے انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کیا اور احتجاجی تحریک شروع ہوئی۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاکر جنرل ضیاء الحق نے 5جولائی 1977ء کو مارشل لا نافذ کردیا۔ اس کے بعد پاکستان گیارہ سال تک آمریت کے سائے میں رہا۔ 1985ء میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرائے گئے جن کا سیاسی جماعتوں نے بائیکاٹ کیا۔ 1988ء میں پاکستان میں عام انتخابات ہوئے جن میں پاکستان پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی۔ ان انتخابات میں پیپلز پارٹی نے 93 نشستیں حاصل کیں جبکہ آئی جے آئی کو 54نشستیں ملیں۔ ایم کیو ایم کے 13 اور 40آزاد اُمیدوار کامیاب ہوئے۔ اس طرح بے نظیر بھٹو شہید پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں۔

1990ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت صدر غلام اسحاق خان نے برطرف کردی، جس کے بعد انتخابات ہوئے جن میں آئی جے آئی نے 106 نشستیں حاصل کیں، پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں پر مشتمل پی ڈی اے 44 نشستوں پر کامیابی حاصل کرسکا۔ ایم کیو ایم نے 15، نیپ نے 6، اور آزاد امیدواروں نے21 نشستیں حاصل کیں۔ 1990ء میں نوازشریف وزیراعظم منتخب ہوئے لیکن اسٹیبلشمنٹ کی ایما پر صدر غلام اسحاق خان نے 8 جولائی 1993ء کو ان کی حکومت بھی 58-2B کے تحت ختم کردی۔ 1993ء میں انتخابات ہوئے جن میں پیپلز پارٹی 89 نشستوں پر کامیاب ہوئی، مسلم لیگ کو 73 نشستیں اور پی ایم ایل جونیجو کو 6 نشستیں دی گئیں، جبکہ آزاد اُمیدواروں نے 15 نشستیں حاصل کیں، اس طرح بے نظیر بھٹو دوسری بار وزیراعظم منتخب ہوگئیں۔ لیکن ایک بار پھر وہی ہوا اور اسٹیبلشمنٹ نے صدر فاروق احمد خان لغاری کے ذریعے بے نظیر بھٹو کی حکومت 58-2B کے ذریعے ختم کردی اورپارٹی کے سینئر رہنما ملک معراج خالد نگران وزیراعظم بن گئے جن کی ذاتی شہرت اچھی رہی تھی۔

فروری 1997ء میں عام انتخابات ہوئے جن میں پیپلزپارٹی کو صرف 18نشستیں ملیں جب کہ مسلم لیگ 135 نشستیں جیت گئی، جس کے بعد ہیوی مینڈیٹ کی اصطلاح مشہور ہوئی اور میاں نوازشریف دوسری بار وزیراعظم بن گئے۔ یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ جنرل پرویزمشرف نے 12 اکتوبر 1999ء کو اُن کی حکومت ختم کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ ان کا دور ہر لحاظ سے ناکام تھا جس میں پاکستان کو امریکا کے ہاتھ گروی رکھ دیا گیا۔ عدلیہ کے فیصلے کی روشنی میں 2002ء میں انتخابات کرائے گئے جن میں پاکستان مسلم لیگ (ق) نے 118 نشستیں حاصل کیں۔ پی پی پی نے 81، مسلم لیگ (ن) نے 18، ایم ایم اے نے 60، ایم کیو ایم نے17اور نیشنل الائنس نے 16 نشستیں حاصل کیں۔ جنرل پرویزمشرف نے پاکستان پیپلزپارٹی کے ایک درجن اراکین اسمبلی کی وفاداریاں خرید کر مسلم لیگ (ق) کی حکومت تشکیل دی۔ میر ظفر اللہ جمالی وزیراعظم منتخب ہوئے۔2007ء میں ملک میں ایمرجنسی نافذ ہوئی اور قومی میڈیا پر پابندیاں عائد ہوئیں۔ پھر 2008ء میں عام انتخابات ہوئے۔ ان انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی۔ یہ صورتِ حال پرویزمشرف کی گرتی شہرت کی وجہ سے ہوئی۔ عوام میں فوجی آمر کے خلاف نفرت بڑھ گئی تھی، جس کی وجہ سے آخرکار اس سال 18 فروری کو انتخابات ہوئے۔ جنرل پرویزمشرف ملک سے کچھ عرصے بعد فرار کرادیے گئے۔

اس سے قبل بے نظیر بھٹو کو مارا جاچکا تھا جس کا فائدہ پیپلز پارٹی کو ہوا۔ 2008ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو124، مسلم لیگ (ن) کو 91، مسلم لیگ (ق) کو 54، ایم کیو ایم کو 25، اے این پی کو 13، ایم ایم اے کو 7، پی ایم ایل ف کو 5 اور آزاد اُمیدواروں کو17 نشستیں ملیں۔ 2013ء میں پاکستان مسلم لیگ (ن) نے کامیابی حاصل کی، اور اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے 2018ء کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے کامیابی حاصل کی جسے اسٹیبلشمنٹ نے ہی عدم اعتماد کی تحریک پیش کروا کرختم کروا دیا، اس کے بعد نگران حکومت بنی۔

اب 8فروری 2024ء کو عام انتخابات ہونے جارہے ہیں، جن کے بارے میں ابہام پیدا کیا گیا، اور یہ سلسلہ جاری ہے، امن وامان کی صورتِ حال بھی خراب کی جارہی ہے۔ ماضی سے ملتی جلتی تاریخ کی طرح اِن انتخابات میں تحریک انصاف کو جبر اور عدالت کے ذریعے مفلوج کردیا گیا ہے اور اُس کے امیدوار آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ یہ بھی اسٹیبلشمنٹ کا ایک اسمارٹ کھیل ہے جو کہ انتخابات کے بعد پوری طرح سامنے آئے گا کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو شاید حکومت نہ ملے اور کاکڑ نما کوئی چیز سامنے آجائے۔ اس سارے پس منظر میںجماعت اسلامی کے لیے حالات خاصے ساز گار ہیں،امیر جماعت اسلامی پاکستان کا کہنا ہے کہ ’’دہائیوں سے پاکستانی عوام پر ظلم جاری ہے، قوم کے پاس حساب چکانے کا موقع ہے، 8فروری کو ترازوپر مہر لگاکر مافیاز اور خاندانوں کی بادشاہت سے نجات حاصل کریں۔‘‘ امیر جماعت نے کہا کہ نون لیگ، پیپلزپارٹی 100 سال بھی اقتدار میں رہیں تو ملک میں ترقی اور خوشحالی نہیں آ سکتی۔ قوم پر مہنگائی، بے روزگاری، غربت مسلط کرنے والی سابق حکمران پارٹیوں کو باریا ں لگانے کا کوئی حق نہیں۔ حکمران خود عیاشیاں کرتے ہیں اورعوام کو کہتے ہیں صبر کرو۔ ان کی گاڑیوں میں جلنے والا تیل غریبوں کا خون پسینہ ہے۔ ظلم وناانصافی کے خلاف جدوجہد کرو، کسی جابر اور ظالم کے سامنے جھکنے یا ڈرنے سے عوام کو ان کا حق نہیں ملے گا۔ اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں گزشتہ 76 برس سے برہمن اور شودر کا نظام چل رہا ہے،اب اس طبقاتی تقسیم کو رخصت کرنے کا وقت آگیا ہے،8فروری کو نوراکشتی اور منافقت کی سیاست دفن ہوجائے گی۔

کراچی میں پورے ملک کی بہ نسبت جماعت اسلامی کو بڑی کامیابی ملنے کے امکانات ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ کراچی کے لیے اگر اسٹیبلشمنٹ نے کوئی اور منصوبہ نہیںبنایاہوا ہے تو سندھ حکومت بنانے میں جماعت اسلامی کااہم کردار ہوگا۔ بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی نے بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ اگر پیپلز پارٹی نے ریاست کی سرپرستی میںقبضہ نہ کیا ہوتاتو میئربھی جماعت اسلامی کا ہی ہوتا۔اس وقت فضا گلی گلی،محلہ محلہ جماعت اسلامی کے لیے سازگار ہے۔

امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی کے امیدوار اقتدار میں آنے کے بعد اپنے لیے نہیں بلکہ کراچی کے عوام کے حقوق کے حصول کے لیے لڑیں گے، کراچی کے عوام کے لیے فری آئی ٹی یونیورسٹی بنوائیں گے، ہیلتھ کارڈز بنوائیں گے،باعزت ٹرانسپورٹ دیں گے، کراچی ترقی کرے اور ملک بھی آگے بڑھے گا۔کراچی منی پاکستان ہے، کراچی کے پاس 47صوبائی، 22قومی، 21مخصوص اور6سینیٹر کی نشستوں کی طاقت ہے، اس کے بغیر صوبائی و وفاقی حکومت نہیں بن سکتی۔ پیپلزپارٹی کی 15سال حکومت رہی ہے اور ایم کیو ایم ہر دور میں پیپلزپارٹی کی حصہ دار رہی ہے،ایم کیوا یم کو کراچی کے عوام نے مینڈیٹ دیا، قومی وصوبائی اسمبلی کی نشستیں دیں، اتنی بڑی طاقت ہونے کے باوجود کراچی کے مسائل حل ہونے کے بجائے مزید بڑھے، کراچی کے عوام کے لیے ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل نہیں کیا گیا، وزیر ٹرانسپورٹ ایم کیو ایم کے رہے اس کے باوجود شہر یوں کو ٹرانسپورٹ کی سہولیات فراہم نہیں کی گئیں، اور آج کراچی کی مائیں،بہنیں چنگ جی رکشوں میں سفر کرنے پر مجبور ہیں۔

اس وقت قومی ضرورت یہ ہے کہ عوام جماعتی اور گروہی عصبیت سے بلند ہوکر اصول، صلاحیت،کردار اور میرٹ کی بنیاد پر اچھے لوگوں کو ووٹ دیںاور ایسے لوگوں کو برسرِاقتدار لائیں جو اُن جیسے ہوں،ایماندار اور باصلاحیت ہوں۔ اگر ایسا ہوگیا تو ملک اور کراچی دونوں کا نقشہ بدل سکتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ بھی ملک کے ساتھ کھلواڑ ختم کرے، شفاف انتخابات ہونے دے۔ آج قوم کو اپنی ذمہ داری ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے قومی مستقبل کا انحصارمیرے اور آپ کے 8فروری کے فیصلے پر ہے۔

یا مُردہ ہے یا نزع کی حالت میں گرفتار
جو فلسفہ لکھا نہ گیا خونِ جگر سے

حصہ