خواب کو تعبیر بنائیں

312

کپڑوں کے رنگ برنگے ٹکڑوں کو جوڑ کر وہ ایک چادر بنا رہی تھی۔ دھوپ میں مستقل کام کرنے والی آبنوسی انگلیاں اس تیزی سے ٹانکے لگاتیں کہ سوئی بجلی کی کوند کی مانند چمکتی اور کپڑے کا ایک ٹکڑا دوسرے سے جڑ جاتا۔

پہلے وہ دن بھر کپاس کے کھیتوں میں کام کرتی تھی۔ صبح پو پھٹنے سے پہلے اُٹھ کر رات کے بھیگے چاولوں کو پیس کر شیرے کے ساتھ گوندھ کر چپٹی چپاتی سی بناکے کھاتی ہوئی، ساتھیوں کے ہمراہ کھیت کی جانب چل دیتی۔

نیند سے بوجھل آنکھیں اور گزرے دن کی محنت سے دُکھتا بدن بار بار بستر طلب کرتا۔ پتلے سے لباس میں صبح کی ٹھنڈی ہوا گھستی تو دل چاہتا کسی طرح واپس بستر میں چلی جائے، لیکن اس بات کی صرف خواہش ہی کی جا سکتی تھی۔

اُوس سے نم مٹی پر ننگے پائوں چلتے وہ ہوا کو اندر تک اتارتی۔ نسیمِ صبح کے ساتھ بھیگی مٹی کی مہک، سبزے کی خوشبو سانسوں میں اترتی۔ وہ نیند اور تھکن سے توجہ ہٹانے کے لیے خواب بُننا شروع کردیتی۔

انسانوں کو غلام بنانے کے شوقین یہ نہیں جانتے کہ جسم کو غلام بنا بھی لو تو آنکھوں کو غلام نہیں بنایا جا سکتا۔

آنکھیں جتنے چاہیں خواب بُنیں، کسی کو اس کا اختیار نہیں کہ پلکوں پر سجے رنگین خواب چھین لے۔

وہ ایک سہانا تصور باندھتی سنہری روشن صبح کا، جب نیلے آسمان پر اونچی اڑان بھرتی کونج کی مانند وہ بھی اپنی بستی کے ٹیلوں پر دوڑے گی۔ غلاموں کے لباس سے آزاد، قبیلے کی مخصوص رنگین اوڑھنی اوڑھے وہ ہوا کے دوش پر پرواز بھرے گی۔ وہ آزاد ہوجائے گی۔ ہر بوجھ سے آزاد… ہر زنجیرِ غلامی سے آزاد۔

خواب بُنتے بُنتے پتا بھی نہ چلتا اور منزل آجاتی۔ کپاس کے پودوں پر آئے سفید پھول کب کے رنگ بدل کے گلابی ہوئے، پھر گلابی مائل سرخ پتیاں جھڑ گئیں ۔ اس کے بجائے سخت بھورا سا خول تھا جو اب پھٹ چکا تھا۔ اس کے اندر سے سفید کپاس نکلی نکلی پڑتی۔ کھیت کو دیکھ کے لگتا کہ جیسے حدِّ نظر برف کے گولوں کو کسی نے مقید کرکے شاخوں سے قمقموں کی مانند ٹانگ دیا ہو۔ وہ کمر سے لٹکے کپڑے کے تھیلے میں پھول توڑ کے ڈالتے ہوئے بھی تصور ہی تصور میں سہیلیوں کے ہمراہ جھاڑیوں میں چھپن چھپائی کا کھیل کھیلتی۔

لیکن پھول توڑتے ہاتھوں میں کوئی پھانس چبھ کے، کبھی کسی کی کمر پر چابک کے پڑنے کی آواز سے حاضر سامنے آتا کہ لاکھ تصور باندھو خواب محض خواب ہی تو ہے!

خواب تعبیر چاہتے ہیں… ورنہ انسان بے چین ہو اٹھتا ہے۔

جاگتی آنکھوں کے خواب سلاتے نہیں، بے کل کردیتے ہیں۔

اس کو ان دنوں اپنی ماں کی سنائی وہ لوریاں یاد آتیں جب سیاہ رات میں مخمل کے لباس پر چمکتے کندن کے پھول بوٹوں کی مانند ستاروں سے سجے آسمان تلے ماں اپنی پاٹ دار، دل تھام لینے والی آواز میں گیت گنگناتی تھیں، اُس لمحے لگتا تھا جیسے ساری بستی وجد میں ہے۔ ہر جھاڑی، ہر ٹیلے سے گونج سی اٹھتی… ہر شے پکار کے اس نغمے کی تائید کرتی۔ اس لوری کو سنتے پتا بھی نہ چلتا کہ کب نیند کی چادر آنکھوں پہ تن جاتی۔

ماں کی لوریاں کیا تھیں، سجیلے آبنوسی دلیروں کے قصے، طرح دار افریقی شہزادیوں کی کہانیاں، دشمن کو پسپا کردینے والے افریقی نیزہ برداروں کی داستانیں، گھیرے میں آجانے کے بعد خونخوار دشمن کی قید سے آزاد ہونے کی کہانیاں تھیں۔ وہ لوریاں آج بھی اس کے کانوں میں گونجتیں۔

وہ بھی ایک دن ان جیالے لڑاکوں کی طرح قیدِ غلامی سے آزاد ہوجائے گی۔ یہ تصور اس کے وجود کو ہلکا پھلکا کردیتا۔

کپاس کے کھیت میں سورج کے چڑھتے ہی موسم گرم سے گرم تر ہوجاتا۔ زبان بار بار خشک ہوتی۔ گردن سے پائوں تک لٹکا تھیلا وزنی ہوتا چلا جاتا۔ صبح سے شام تک اس کو کم از کم 3 تھیلے بھرنے تھے۔ کھانے کے مختصر وقفے میں کھیت کے کنارے بیٹھ کر وہ ماں کے گائے نغمے گنگنانے لگتی۔

اس کی آواز کی لَے پر آس پاس آرام کرتے سارے کام کرنے والے کان لگا دیتے۔ شعر ، نغمے تو بے چین کردیتے۔ اپنوں کی یاد، اپنی بستی کا تصور ان کو بے قرار کردیتا۔ کوئی انہونی سی خوشبو پاس سے ہی آنے لگتی۔ نہ جانے ماں کی گود کی خوشبو تھی یا دھرتی کی یاد کی… ان سب غلام بنائے جانے والوں کی آنکھیں نم ہوجاتیں۔ افریقہ سے ظلم، زیادتی، دھوکے کے ساتھ غلام بناکے لائے جانے والے ان سب لوگوں کی اپنی الگ الگ کہانیاں تھیں۔

گنگناتے ہوئے وہ تنکے سے زمین پر نقشہ بناتی، اُن راستوں کا نقشہ جن پر چل کے کبھی نہ کبھی وہ آزاد ہوجائے گی۔ وہ دریا، وہ لکڑی کا کیبن، وہ شاہِ بلوط کا قدیم درخت، ہر وہ نشانِ منزل جس کے بارے میں کسی راہ گیر نے آتے جاتے بتایا ہو، اُس کی یادداشت میں محفوظ ہوجاتا تھا۔

زندگی ایک ہی رفتار سے چل رہی تھی جب اچانک مالکن کا حکم آیا کون سلائی کرنا جانتا ہے؟

اس نے غلام بنائے جانے کے سفر میں بہت کچھ سیکھا تھا۔ سلائی بھی اس میں سے ایک ہنر تھا۔ جو خواب بُنتا ہو وہ جب سوئی، دھاگے، اون کی ڈوری کو انگلیوں میں تھامے گا تو کیا شاہکار بنائے گا؟ مالکن نے اس کے ہنر کو دیکھا تو بس اپنے کپڑوں کے لیے مختص کرلیا۔

اودے ، زمردی، کاہی، دھانی، شربتی رنگ کے کپڑوں کو حسین لباسوں میں ڈھالتے اس نے بچی کھچی کترنوں سے quilt بنانا شروع کیا۔ یہ کوئی عام سا quilt نہ تھا!آزادی کا پروانہ تھا۔ اس میں جڑا ہر ٹکڑا ایک نشانی تھا۔ ایک چھپا کوڈ۔

کھیت پہ آتے جاتے اس نے راستہ خوب اچھی طرح دیکھ لیا تھا۔ اب وہ کسی آزاد ہوئے غلام کے سینہ بہ سینہ ملتے سفرِ پا کی کہانی رضائی بُننے لگی اور ایک دن آزادی کی چادر مکمل ہوگئی !

ظالموں کی قید سے بھاگنے کے لیے کرسمس کی چھٹیوں سے بہتر وقت کون سا ہوتا جب مالکن دعوتوں اور ملنے ملانے میں مصروف تھیں! وہ چپکے سے آزادی کی تلاش میں نکل گئی۔

خواب نے پلکوں سے انگلی، انگلی سے چادر، اور چادر سے حقیقت میں بدلنے کا سفر کیا۔ وہ آزاد روح تو پہلے ہی تھی، اب اس کا جسم بھی آزاد ہوگیا۔ اس کا بنایا آزادی کا نقش دوسروں کے لیے بھی زادِ راہ بن گیا… کچھ اس میں کامیاب ہوئے اور کچھ عین سفر میں زندگی ہار گئے لیکن یہ استعارہ ہے ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا، جبر کے ماحول میں خواب بُننے کا، راستے نہ ہوں تو خود راستہ بنانے کا، پیاسی زمین پر پانی کی پہلی بوند بن کے گرنے کا۔

آئیے ہم بھی خواب بُنیں نظام کی تبدیلی کا! ظلم سے نجات کا! ایک ایسی دنیا کا جس میں Wounded Child, No Surviving Family کی اصطلاح نہ ہو۔ ایک ایسی دنیا کا خواب جہاں اتنی بے حسی نہ ہو کہ 100 دن سے جاری قتل عام، ظلم و سفاکی دیکھ کر بھی لوگ اپنی زندگیوں میں مگن رہیں، ایک ایسے پاکستان کا جہاں اقتدار ظالموں، لوٹنے کھسوٹنے والوں کے ہاتھ سے نکل جائے!

جہاں آزمائے ہوئے کو دوبارہ نہ آزمایا جائے! جہاں عہدے اہل افراد کے سپرد کیے جائیں۔ خواب محض خواب نہیں رہیں گے، بس ایک کوشش درکار ہے۔ آئو کہ کوئی خواب بُنیں کل کے واسطے۔

(نوٹ:Freedom Quilt غلام بنائے جانے والے افریقیوں کی جدوجہد کی خوبصورت کہانی ہے۔ اگر آپ کے بچے ٹین ایجرز ہیں تو ان کے ساتھ اس کے بارے میں ڈاکومنٹری دیکھیے۔ چھوٹے ہیں تو آزادی کا استعارہ freedom quilt پیپر پر بنوائیے۔ حریت پسندوں کی کہانیاں زندہ رہنی چاہئیں۔)

حصہ