مشکل کا حل

386

’’امی! جلدی کریں، مجھے دیر ہورہی ہے۔ اب تک ناشتا نہیں بنا… آج بھی ناشتے کے بغیر جانا پڑے گا۔‘‘ ندا نے مایوسانہ لہجے میں کہا۔’’دوپہر کو آئو کھانا نہیں ملتا… صبح ناشتا نہیں ملتا۔‘‘

’’ایسا کرو یہ بسکٹ کھا لو۔ آج پھر گیس نہیں آرہی۔‘‘ امی نے باورچی خانے سے نکلتے ہوئے کہا۔

’’کیا ہے…! کب تک ایسا چلے گا…؟‘‘

’’کتنے دن ہوگئے ہیں، سردی کی وجہ سے نہانا ہی نہیں ہو پارہا۔ ہوٹل کی روٹیاں کھا کھا کر پیٹ خراب ہوگیا ہے۔‘‘ ندا نے منہ بناتے ہوئے کہا۔

’’کیا کروں… میں خود تھک جاتی ہوں اتنی ہلکی گیس پر کھانا پکاتے ہوئے… اور بل ایسے آرہے ہیں جیسے ہم بہت گیس استعمال کررہے ہیں۔‘‘

’’امی! یہ تو بڑی زیادتی ہے، ہمیں بنیادی ضرورت سے محروم کیا جارہا ہے۔ کب تک ہم یہ ظلم برداشت کریں گے!‘‘

’’ندا بیٹی! یہ ساری ہماری غلطیاں ہے۔ ہم دھوکے باز، عیار، خائن افراد کو بار بار ووٹ دے کر ان کو مضبوط کرتے ہیں، پھر یہ ہمارے وسائل پر قبضہ جماکر ہم پر ہی زندگی تنگ کرتے ہیں۔‘‘

’’امی! کیوں بار بار ایسے لوگوں کو لایا جاتا ہے جو کئی دفعہ آزمائے جا چکے ہیں؟ ایسے لوگوں کو آگے آنے کا موقع دینا چاہیے جو ملک کی خدمت کرنا چاہتے ہیں جیسے ’’بنو قابل پراجیکٹ‘‘ کے ذریعے کتنے بے روزگار افراد کو روزگار مل گیا… اور مجھے بھی آن لائن کام مل گیا۔ ایسے لوگ اقتدار میں آئیں گے تو ملک کی ترقی کے لیے کام کریں گے… میرا ووٹ تو خدمت کرنے والوں کے لیے ہے۔‘‘
’’کیوں نہیں… اب باتیں نہیں کام کرنے والوں کا انتخاب ہوگا۔‘‘ امی نے مسکراتے ہوئے کہا۔

حصہ