دی کوئسٹ:ٍجمعیت طالبات کی رواں برس کی سب سے بڑی دعوتی سرگرمی

372

مجھے ڈرا نہیں سکتی فضا کی تاریکی
مِری سرشت میں ہے پاکی و دُرخشانی
تْو اے مسافرِ شب! خود چراغ بن اپنا
کر اپنی رات کو داغِ جگر سے نورانی

اقبالؔ کے ان اشعار کو عنوان بناکر اسلامی جمعیت طالبات پاکستان نے ملک بھر میں ’’دی کوئسٹ‘‘ کے نام سے رواں برس کی سب سے بڑی دعوتی سرگرمی ’’فیملیز اسٹوڈنٹس ایکسپو‘‘ منعقد کی۔ اب تک ملک کے کئی شہروں میں کامیابی سے منعقد ہونے والا یہ ایکسپو 6 جنوری 2024ء کو پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے ’’فور سیزنز بینکویٹ‘‘ میں منعقد ہوا جہاں تقریباً پانچ ہزار طالبات نے شرکت کی۔ ان مستفید ہونے والی طالبات کا تعلق شہر کے ہر علاقے اور طبقے کے اسکولوں، کالجوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں سے تھا۔ اسلامی جمعیت طالبات کے اس تاریخ ساز، منفرد اور شاندار ایکسپو کا مقصد اپنی دعوت کی تشہیر کے ساتھ ساتھ طالبات کو مثبت تفریح، صحت مند اور تعمیری سرگرمیوں کا موقع فراہم کرنا، طالبات کی صلاحیتوں کی حوصلہ افزائی کرنا اور نوجوانوں کو مقصدب زندگی سے روشناس کرانا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس سرگرمی کا عنوان ’’دی کوئسٹ‘‘ رکھا گیا، یعنی اپنی ذات اور مقصدِ زندگی کی تلاش اور جستجو میں لگے رہنا ہے۔

اس کا آغاز مقررہ وقت گیارہ بجے ’’سورہ ملک‘‘ کی تلاوت سے کیا گیا۔ پھر نعتِ رسول مقبولؐ پیش کی گئی جس نے ہال کی چار دیواری میں سماں باندھ دیا تھا۔

اس کے بعد ناظمہ کراچی اسلامی جمعیت طالبات پاکستان محترمہ عائشہ رضوان نے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج کے نوجوان مستقبل کے معمار ہیں، لہٰذا اپنے مقصدِ وجود کو پہچانیں، اس کے ذریعے رب کی رضا حاصل کرنے کی جدوجہد کریں۔ ساتھ ہی انہوں نے تعارفِ جمعیت بھی دیا۔

اگلی مہمانِ خصوصی ناظمہ اعلیٰ اسماء اعجاز صاحبہ تھیں جو ایکسپو میں شرکت کے لیے خاص طور پر پنجاب سے تشریف لائی تھیں۔ ناظمہ اعلیٰ نے طالبات کو پیغام دیا کہ مقصدِ وجود کو پہچاننے کی جستجو ہمارے اندر ہمیشہ رہنی چاہیے، اور اس جسجتو کے ذریعے انفرادی و اجتماعی زندگی میں اسلام کو رائج کرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔

اس کے بعد طالبات کے لیے نہایت دل چسپ اور اہم پینل ٹاک بعنوان Youthful Resilienceکا انعقاد ہوا جس کے مہمان اسپیکرز میں ماہر تعلیم اور محقق جناب معروف بن رئوف، نائب امیر جماعت اسلامی کراچی جناب اسامہ رضی، بانی اور ڈائریکٹر ERDC جناب سلمان آصف صدیقی تھے۔ اس ٹاک کو سابق ایڈیٹر ساتھی میگزین جناب فصیح اللہ حسینی موڈیریٹ کررہے تھے۔

پینل ٹاک میں کئی اہم موضوعات پر بات ہوئی، جن میں سے ایک اہم بات یہ کہ دورِ حاضر میں لڑکیوں کا معاشرے میں کیا کردار ہونا چاہیے؟ سر سلمان آصف نے بتایا کہ ہماری زندگی میں دو بنیادی نظریے ہیں۔ پہلا یہ کہ ہمیں پیدا کیوں کیا؟ اور دوسرا زندگی کا مقصد کیا ہے؟ ہمیں ان دو مقاصد کو پہچاننا ہے۔

نظامِ تعلیم پر گفتگو کرتے ہوئے معروف بن رؤف نے کہا کہ آج ہماری زندگی کا مقصد مال کے گرد ہی گھوم رہا ہے۔ ہم نے تعلیم کا حصول مال کا حصول بنایا ہوا ہے۔ 94 فیصد اسکول پاکستان میں صرف سائنس سے میٹرک کروا رہے ہیں۔ آرٹس کوئی لینا پسند نہیں کرتا۔ دنیا کی بڑی یونیورسٹیوں میں سوشل سائنس کو پروموٹ کیا جاتا ہے کیوں کہ یہ انسانوں سے ڈیل کرتی ہے۔ انہوں نے یکساں نصابِ تعلیم کی اہمیت پر بھی بات کی۔

پینل ٹاک کے بعد مہمان فلسطینی خاتون محترمہ صبرین عبدالحق کا سیشن تھا جوکہ اب پاکستان میں مقیم ہیں۔ اس سیشن کا آغاز غزہ کے حالات کے متعلق ایک ڈاکیومنٹری سے کیا گیا جو ہال کی مین اسکرین پر پیش کی گئی۔

اس سیشن کا موضوع ’’زیتون کے درخت کی بیٹیاں: فلسطین سے طاقت کی کہانیاں‘‘ تھا۔ صبرین عبدالحق صاحبہ نے بتایا کہ مقدس سرزمین کے باشندے کے طور پر ان کی پرورش کیسے ہوئی۔ انہوں نے مغربی کنارے میں گزرے اپنے دنوں کے بارے میں ہمیں روشناس کرایا، ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ غزہ کے لوگ کیسے مختلف ہیں، بچپن سے ان کی پرورش کیسے ہوئی ہے، کیا چیز انہیں جوان سے لے کر بوڑھے تک اپنے عقیدے، ایمان اور زمین کے لیے اس قدر بیلچک اور وفادار بناتی ہے۔ اور نہایت اہم یہ کہ فلسطین کی خواتین کے کردار کا تذکرہ کیا کہ وہ پوری مسلم دنیا کی خواتین کو کیا پیغام دیتی ہیں۔ فلسطینی ماؤں، بیٹیوں کا اپنے پیاروں کو مسلسل کھونے کے بعد عزم کا کیا ذریعہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے فلسطینی بہن بھائیوں کے لیے نکلنا ہے، جدوجہد کرنی ہے اور انہیں سپورٹ کرتے رہنا ہے۔

اس کے بعد مہمانِ خصوصی امیر جماعت اسلامی کراچی اور شہر کراچی میں نوجوانوں کے مقبول رہنما جناب حافظ نعیم الرحمن کا خطاب تھا جس میں انہوں نے فلسطین کی صورتِ حال پر بات کی کہ وہاں کا بچہ بچہ جدوجہد کی زندہ مثال ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یوتھ کیا کرسکتی ہے؟ ایک ملک کی طاقت دراصل اس کی یوتھ ہی ہوتی ہے۔ ہمیں کیسے کام کرنا ہے اور ہم کیسے اپنے ملک کو فائدہ دے سکتے ہیں یہ یوتھ کے سوچنے کا کام ہے۔ یہی یوتھ کل پاکستان کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن بھی کرے گی۔

خطاب کے بعد اگلا سیشن Dive into the world of cyber security تھا جو آئی ٹی ایکسپرٹ ملیحہ مسعود صاحبہ نے لیا۔ اس سیشن میں انہوں نے سوشل میڈیا کے مثبت استعمال اور احتیاط پر بات کی۔

’’دی کوئسٹ‘‘ میں مختلف کارنر بنائے گئے تھے، جن میں سے ایک ’’فلسطین کارنر‘‘ تھا، جس میں حماس اور طوفان الاقصیٰ کی تاریخ دکھائی جارہی تھی۔ یہاں فلسطینی جھنڈے اور اسکارف وغیرہ تھے۔ اس کے علاوہ ’’جمعیت کارنر‘‘ بنایا گیا تھا، وہاں موجود نقشے کے ذریعے دکھایا جارہا تھا کہ جمعیت طالبات پاکستان بھر میں کہاں کہاں موجود ہے۔ بچیوں کے لیے ’’بزمِ گل‘‘ کے نام سے ایک کارنر بنایا گیا تھا جوکہ جمعیت کا ایک شعبہ ہے اور یہ چوتھی سے آٹھویں جماعت کی طالبات کے لیے مخصوص ہے۔ اس کی تزئین و آرائش بچیوں کے حساب سے سادہ و خوب صورت تھی۔ یہاں ایک نقشے کے ذریعے ظاہر کیا جارہا تھا کہ بزم گل پاکستان میں کہاں کہاں موجود ہے۔

اس کے علاوہ ’’سائنس کارنر‘‘ تھا جس میں سائنسی پراجیکٹس کی نمائش کی جارہی تھی۔ اس کارنر میں طالبات کے درمیان مقابلے بھی رکھے گئے۔ ایک کارنر میں کتابی دنیا بنائی گئی تھی جس کا نام ’’لٹریری کارنر‘‘ تھا۔ اس میں مشہور مصنفین کو بلایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ’’حجاب کارنر‘‘ بھی بنایا گیا تھا، ساتھ میں ’‘اسٹالز ایریا‘‘ بھی تھا، جہاں مختلف اسٹال لگے تھے۔ ’’گیمز ارینا‘‘ میں بہت سے کھیل تھے۔ جب کہ ’’فوڈ ایریا‘‘ میں قسم قسم کے مزیدار کھانے تھے۔ ایک کارنر ’’سابقاتِ جمعیت‘‘ تھا جس میں سابقاتِ جمعیت کو مدعو کیا گیا تھا۔

’’دی کوئسٹ‘‘ میں طالبات کے درمیان ان کی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے مختلف مقابلے کروائے گئے تھے جن میں مصوری، پینٹنگ، خطاطی، فوٹوگرافی، ریل میکنگ، پلیٹر ڈیکوریشن، جرنلنگ وغیرہ شامل تھے۔ مقابلوں کے نتائج کا اعلان پروگرام کے آخر میں کیا گیا اور جیتے والے افراد کو شیلڈز سے نوازا گیا۔

پروگرام کا اختتام ٹیلنٹ ایوارڈز سے ہوا جس میں قومی اور بین الاقوامی سطح پر مختلف غیر نصابی سرگرمیوں میں جیتنے والے افراد کو اسناد دی گئیں۔

حصہ