نمک پارے

246

ایک سردار جی نے امریکا کے صدر کو فون کیا اور کہا … میں آپ سے جنگ کرنا چاہتا ہوں …صدر نے دریافت کیا آپ کون … سردار جی نے کہا… ہر بجن سنگھ امرتسر سے بات کر رہا ہوں… صدر نے کہا آپ کے پاس فوج کتنی ہے …سردار جی نے کہا پورا امرتسر ہمارے ساتھ ہے… صدر نے کہا …میرے پاس جدید قسم کے جنگی ساز و سامان ہیں جنگی جہاز ہیںہم سے جنگ کرنا اتنا آسان نہیں ہے جتنا آپ سمجھ رہے ہیں اپنے لوگوں سے مشورہ کریں اور مجھے دو دن بعد فون کریں۔

دو دن بعد سردار جی نے فون کیا اور کہا …ہم نے مشورہ کر لیا جنگ ہوگی اور ضرور ہوگی اب تو لدھیانہ بھی ہمارے ساتھ ہے… امریکا کے صدر نے کہا… دیکھیے سردار جی ہمارے پاس دس لاکھ تربیت یافتہ فوج ہے آپ اتنی بڑی فوج سے مقابلہ نہیں کر سکتے دس لاکھ کی تعداد کوئی کم نہیں ہوتی ہے بہتر تو یہی ہے کہ آپ اپنے لوگوں سے مشورہ کر کے مجھے دو دن بعد فون کریں …دو دن بعد سردار جی نے صدر کو فون کیا اور کہا… ہم نے فیصلہ کر لیا ہم جنگ نہیں کریں گے… صدر نے پوچھا… وجہ… سردار جی نے کہا… ہمارے پاس دس لاکھ جنگی قیدی رکھنے کی جگہ نہیں ہے ۔

…٭…٭…
ایک پاکستانی نوجوان چین گیا وہاں ایک نوخیز حسینہ سے عشق کر بیٹھا جلدہی دونوں شادی کے بندھن میں بندھ گئے نوجوان نئی نویلی دلہن لے کر پاکستان آیا لڑکے کی ماں نے جب اپنی چینی بہو کو دیکھا تو بہت خوش ہوئی کہنے لگی ہائے ہائے کیا چاند سی گڑیا ہے میری بہو میں تو کہوں ہزاروں میں نہیں لاکھوں میں ایک ہے ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ چاند سی گڑیا چاند پر چلی گئی یعنی اللہ کو پیاری ہو گئی لڑکا بہت اداس ہوا اور لڑکی کی یاد میں مستقل روتا رہتا تھا اس کی ماں نے اس سے کہا …مت رو بیٹا مت رو چینی مال کا کوئی بھروسہ نہیں اب کی بار ملک سے باہر جائیو تو جاپانی کر کے لائیو وہ لمبا چلے گی۔

…٭…٭…

قطار میں صرف مرد حضرات تھے قطار بہت لمبی تھی ایک شخص زہر کی پڑیا مفت تقسیم کر رہا تھا ،ہمارے ملک میں اگر کوئی بھی چیز مفت تقسیم کی جاتی ہے تو وہاں قطار لمبی ہی ہوتی ہے۔ اچانک ایک خاتون بہت گھبرائی ہوئی چہرے سے پریشان حال سب سے آگے تقسیم کار کے قریب پہنچ گئیں یہ کہتے ہوئے …لیڈیز فرسٹ اور تقسیم کار سے پڑیا کا مطالبہ کرنے لگیں تقسیم کار نے یہ سوچ کر کہ شاید خاتون زندگی سے بیزار ہو چکی ہیں اور جلد از جلد دنیا سے رخصت ہونا چاہتی ہیں لہٰذا اس نے خاتون کو حسب ِمعمول ایک پڑیا عنایت کر دی خاتون نے کہا… مجھے ایک نہیںدو پڑیادرکار ہے تقسیم کار نے کہا… بی بی یہ زہر کوئی عام زہر نہیں ہے بہت ہی خاص اور تیز اثر کرنے والا ہے سیکنڈوں میں آدمی کا کام تمام کر دیتا ہے خاتون نے کہا مجھے اس زہر کی کارکردگی پر پورا یقین ہے مگر میرے شوہر کو ایک کی گنتی پسند نہیں ہے۔

…٭…٭…

بیگم قمر جہاں بسترِ مرگ پر تھیں حضرت عزرائیل انہیں بار بار نظر آرہے تھے سرہانے ان کے بہت ہی محبت کرنے والے شوہر شمس الدین مستقل انہیں دلاسا دے رہے تھے اور ساتھ یہ بھی کہہ رہے تھے …بیگم اگر تمہیں کچھ ہو گیا تو میں پاگل ہو جاؤں گا، بیگم قمر جہاں نے بڑے پیار سے اپنے شوہر کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا اور کہا… اگر میں مر گئی تو تم دوسری شادی تو نہیں کرو گے۔ شوہر نے کہا …بیگم پاگل کا کیا بھروسہ وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔

…٭…٭…

ٹچ موبائل دنیا والوں کی ایک ایسی ایجاد ہے کہ ساری دنیا اس کے عشق میں دیوانی ہو رہی ہے میں اکثر ملک سے باہر گیا ہوں وہاں بھی یہی حال ہے خاص طور پر نوجوان طبقہ لڑکا ہو یا لڑکی اس کا اتنا دلدادہ ہے کہ بس ہو یا ٹرین اس کے ہاتھ میں موبائل ہوتا ہے اور نظریں اسی پر جمی ہوئی ہوتی ہیں میرے ایک دوست ہیں میاں شاہد ان کا بھی یہی حال ہے جب بھی ان سے ملاقات ہوتی ہے موبائل پر نظر جمائے نہ جانے کیا تلاش کر رہے ہوتے ہیں ایک دن مجھ سے فرمانے لگے موبائل میری جان ہے میری زندگی ہے میری زندگی کا ساتھی ہے میں اس سے عشق کرتا ہوں پتا نہیں اپنی شریکِ حیات کے بارے میں ان کا کیا خیال ہے ۔

…٭…٭…

ایک عورت لیبر روم سے باہر آئی، غنودگی کی کیفیت تھی ذرا ہوش و حواس بہتر ہوئے تو اس نے اپنے بستر کے دا ہنی طرف ہاتھ سے کچھ ٹٹولا کچھ نہ ملنے پر بائیں جانب اسی عمل کو دہرایا وہاں بھی ناکامی ہوئی ۔ایک نرس جو خود بھی بچّے والی تھی اس کیفیت کو بھانپ گئی اسے اولاد کی محبت کا اندازہ تھا بھاگی ہوئی لیبر روم گئی جہاں بچّوں کو نہلایا دھلایا جا رہا تھا بچّے کو لے آئی اور اس عورت کے برابر میں لٹا دیا یہ کہتے ہوئے… جی بھر کے دیکھ لو اپنے شہزادے کو تم بہت بے چین تھی نا اسے دیکھنے کے لیے… عورت نے نرس سے کہا آپ کا بہت شکریہ مگر میں تو اپنا موبائل تلاش کر رہی تھی۔

…٭…٭…

ایک راہگیر نہ جانے کن خیالوں میں ڈوبا سڑک کے کنارے کنارے چلا جا رہا تھا اچانک اس کا پیر پھسلا اور سڑک کے کنارے ایک ایسے کنویں میں جا گرا جو خشک تھا اور زیادہ گہرا بھی نہ تھا وہ شخص چیخنے لگا …مجھے بچاؤ مجھے نکالو۔ ایک شاعر صاحب ادھر سے گزر رہے تھے آواز کانوں میں پڑی جھک کر کنویں میں جھانکنے لگے حلیہ ایسا تھا کہ قریب بیٹھے ایک کتّے کو ان پر شک ہوا اور وہ بھونکنے لگا شاعر صاحب گھبراہٹ میں اپنے آپ کو سنبھال نہ سکے اور اگلے لمحے وہ بھی کنویں کے اندر تھے ۔شاعر صاحب نے اس شخص سے پوچھا …آپ کون ہیں اور اس اندھے کنویں میں قدم رنجا فرمانے کا سبب… اس شخص نے کہا میں ایک راہگیر ہوں بے خیالی اور لاپرواہی مجھے اس اذیّت خانے میں لے آئی ہے… مصیبت زدہ شخص شاعرِ محترم سے ہم کلام ہوا اور دریافت کیا… آپ کون ہیں اور اس کنویں میں تشریف لانے کی زحمت کیوں کر گوارا فرمائی …شاعر ِمحترم نے جواب دیا میں ایک شاعر ہوں بلکہ شاعر ِاعظم …مطلع عرض ہے …اور غزل شروع کر دی ۔

حصہ