جب سے انسان نے پڑھنا لکھنا سیکھا ہے، تب سے وہ اللہ کے ودیعت کردہ علوم کے ذریعے اپنی زندگی کی ضروریات پوری کرنے اور اسے پُرآسائش بنانے کے لیے دنیا میں اللہ کے فراہم کردہ اسباب کو دریافت کرتا رہا ہے اور نت نئی چیزیں ایجاد کرتا رہا ہے۔ اس میں اساتذہ کا کردار بنیادی ہے۔ والدین اگر نسلِ نو کی آمد کا ذریعہ ہیں تو اساتذہ نسلِ نو کی علمی، اخلاقی، روحانی اور دیگر تمام ضروریاتِ زندگی کے علوم کو منتقل کرنے کا وسیلہ ہیں۔ فی زمانہ کوئی بھی استاد تمام علوم پر مہارت نہیں رکھتا۔ چند ہی ایسے نابغہ روزگار ماہرین گزرے ہیں جنہوں نے ایک سے زائد علوم پر دسترس حاصل کی اور ان کے شاگردوں نے اور بعد کی آنے والی نسلوں نے استفادہ کیا۔ جن اساتذہ کی علمی کاوشیں کتابی شکل میں آئیں وہ آج بھی دنیا کی مختلف لائبریریوں میں قیمتی دولت کی طرح محفوظ ہیں۔ ان اساتذہ میں زمانۂ قدیم کے ماہرینِ علوم بھی ہیں اور اسلام آنے کے بعد مسلمان ماہرینِ علوم کی تصنیفات اور علمی کارنامے بھی ان لائبریریوں کی زینت ہیں۔
علوم کی درجہ بندی کچھ اس طرح کی ہے کہ ایک علم تو علم الوحی ہے جو منجانب اللہ نبیوں اور رسولوں کو بتوسط جبرائیل علیہ السلام عطا کیا گیا۔ ہر دور کے نبیوں اور رسولوں کو اُن کے زمانے کی قوم کی ہدایت کے لیے توحید و رسالت، فکرِ آخرت اور اخلاقیات کی تعلیم سے نوازا گیا، اور جن رسولوں کو آسمانی کتابوں کی صورت یعنی تورات، زبور، انجیل اور قرآن مجید کے ذریعے ہدایات سے سرفراز کیا گیا‘ ان میں ختمِ رسل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر اعتبار سے جامعیت و اکملیت عطا ہوئی، اور اللہ کی آخری کتاب قرآنِ مقدس تمام علوم کا سرچشمہ ہے اور آپؐ نے تاقیامت انسانی فلاح و بہبود کے تمام شعبوں میں رہنمائی فراہم کی ہے۔
دوسرا علم ’’علم البدن‘‘ ہے جو انسانی اور حیوانی زندگی سے عبارت ہے۔ تیسرا علم علم الاشیا ہے جو اب تک قدرتی یا مصنوعی طور پر معرضِ وجود میں آنے والی تمام اشیا کے بارے میں تعلیم اور معلومات فراہم کرتا ہے۔
شداد، نمرود اور فراعنۂ مصر کے زمانے کے ترقی یافتہ علوم چوں کہ کتابی شکل میں موجود نہیں ہیں لہٰذا اہرامِ مصرکی تعمیراتی انجینئرنگ اور حنوط لاشوں پر کیمیائی اجزا کے فارمولے آج کے انسانوں کی دسترس میں نہیں ہیں۔ اسی طرح نینوا کے عجائبات کی تعمیرات کی ٹیکنالوجی بھی ہماری نظروں سے اوجھل ہے۔ اب تک جو اٹکلیں لگائی جاتی ہیں سب کی سب تشنگی کا شکار ہیں، گو کہ پتھروں پر کندہ شکلی نقوش کو ماہرینِ آثارِ قدیمہ پڑھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ 4500 سالہ موئن جوداڑو کی تحریرات بھی اب تک پڑھی نہیں جا سکیں۔ الف لیلہ کی ہزار داستانوں میں طلسماتی گتھیاں سلجھانے کی کوشش بھی ہورہی ہے۔ امریکا میں تو اس پر تحقیقاتی ادارہ بھی قائم ہے۔
اسلام سے قبل ہزاروں سال تک پوری دنیا یونانی فلسفیانہ علوم کی گرویدہ تھی، جہاں بڑے بڑے فلسفی اور نابغۂ روزگار شخصیات پیدا ہوئیں، جن میں سقراط اور ارسطو قابلِ ذکر ہیں۔ اسلام کے ابتدائی دور میں ہی اصحابِِ رسول نے یونانیوں کے علوم کا نہ صرف مطالعہ کیا بلکہ ان فلسفیانہ علوم کو تجرباتی علومِ میں ڈھال کر ایجادات و تحقیقات کے نئے دروازے کھول دیے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا ’’علم حاصل کرنا ہر مرد و زن پر لازم ہے۔‘‘ آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ ’’علم سیکھنے کے لیے اگر تمہیں چین کا سفر بھی کرنا پڑے تو کرو۔‘‘
اسلام کے ابتدائی دور میں ہی تحقیق و تالیف کا کام سرعت سے شروع ہوگیا تھا۔ اس کے بعد بنواُمیہ اور بنوعباس کے علاوہ مسلم سلاطین نے بھی تسخیرِ کائنات و ایجادات میں اپنا لوہا منوایا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہی تدوینِ قرآن و حدیث کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ سائنس کے میدان میں مسلم سائنس دانوں کے کارنامے ہی یورپ کی ترقی کی بنیاد بنے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جب اندلس کی گلیاں زیتون کے چراغوں سے روشن ہوا کرتی تھیں اُس وقت لندن اور پیرس کی گلیوں میں کیچڑ ہوا کرتی تھی۔ جب بلخ اور بخارا کی رصدگاہوں میں ستاروں کی چال ناپی جا چکی تھی اُس وقت پوپ، گیلیلیو کو پھانسی کی سزا دے چکا تھا۔
آج تمام علمی کارنامے کتابی صورت میں لندن اور دنیا کی مختلف لائبریریوں میں محفوظ ہیں۔ ہلاکوخان نے بغداد کو پامال کیا تو اس نے بغداد کی لائبریریوں کو جلا کر لاکھوں کتابیں دریائے دجلہ میں بہا دی۔ اگر علمی کارناموں کی یہ کتابیں موجود ہوتیں تو مسلمان بہت پہلے چاند پر پہنچ چکے ہوتے۔
اب میں Google بہ حیثیت رئیس الاستاد کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کروں گا۔
گوگل دورِ جدید کا ابلاغی سمندر ہے، یا یوں کہہ لیں کہ یہ علم اور معلومات کا ایسا ذخیرہ ہے کہ جو بھی اِس سے جو کچھ جاننا یا سیکھنا چاہتا ہے اُس کو پل بھر میں مطلوبہ معلومات فراہم کردیتا ہے۔ یہ ایک ایسا استاد ہے جو مثبت اور منفی، دینی، اسلامی اور سائنس کے تمام شعبوں میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ سائل جیسے ہی گوگل سے سوال کرتا ہے، گوگل فوراً اُسے مطلوبہ معلومات یا سوالات کا حل پیش کردیتا ہے۔ یہ بیک وقت زمین، سمندر اور فضا ہر جگہ رہنمائی کے لیے موجود ہوتا ہے۔ یہ سائنس، فلسفہ، نفسیات، جنسیات، عسکریت، تخریبی سرگرمیوں، حتیٰ کہ بھٹکے ہوئے لوگوں کو منزلِ مقصود تک پہنچانے کا کام بھی کرتا ہے۔ شرق میں بیٹھا ہوا شخص غرب میں اپنی جائے سکونت سے اور اپنے پیاروں سے باخبر رہتا ہے۔
گوگل کی معلوماتی سائٹ پر دورِ قدیم کی مذہبی، تاریخی، سائنسی، فلسفیانہ اور معاشرتی، جغرافیائی، سیاحتی، سیاسی کتابوں کے ذخیرے موجود ہیں جو انگلی کے ایک اشارے سے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ تمام آسمانی کتابیں، ان کا ترجمہ و تفاسیر تشنگانِ علم کے لیے موجود ہیں۔ دنیا کی بیشتر زبانوں میں مختلف مفسرین کے قرآنِ مقدس کے تراجم اور تفاسیر موجود ہیں، بلکہ مشہورِ زمانہ قراء کی تلاوت اُن کی پُرکیف آوازوں میں سنی بھی جا سکتی ہیں۔ صحاح ستہ کی تمام احادیث، کتاب الرجال، فقہ سب کچھ موجود ہیں۔
جغرافیہ، طبیعات، کیمیا، حیاتیات، تاریخ، فلسفہ، ٹیکنالوجی، جدید سائنسی تحقیقات و علوم علمِ فلکیات، علمِ ارضیات، نفسیات، علم البحر، ادویہ کے تمام شعبوں مثلاً ویدک، ہومیوپیتھک، ایلوپیتھک، علم نجوم ، علم السحر، علم جنسیات یعنی اب تک دورِ قدیم و جدید کے تمام علوم کی رہنمائی موجود ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ دنیا کے کروڑوں انسان ہر وقت اپنی مطلوبہ معلومات اور رہنمائی کے لیے 24 گھنٹے گوگل کی ویب سائٹ پر موجود ہوتے ہیں اور ہر ایک کو یہ مستفید کرتا ہے۔ تفریح کے لیے ڈرامے، فلمیں، کھیل سب کچھ موجود ہے۔ یہ کسی کو مایوس نہیں کرتا۔ دین دار ہو یا دنیا دار، جرائم پیشہ افراد ہوں یا فیصلہ کرنے والے جج حضرات… سب اس رئیس الاستاد سے ہمہ وقت کچھ نہ کچھ سیکھ رہے ہوتے ہیں۔
مفتیانِ دین کے فتوے، ڈاکٹروں کے آن لائن مشورے، تمام علوم حاصل کرنے کی آن لائن مفت کلاسیں اور ڈگریوں کا حصول بھی آسان ہے۔ اس سب کے باوجود یہ شیطانی معلومات اور علم بذریعہ آڈیو وڈیو ایک دلدل ہے اور کروڑوں نوجوان لڑکے، لڑکیاں اس کے اسیر ہوکر اپنی زندگیوں کو تباہ و برباد کررہے ہیں۔ تمام ملٹی نیشنل کمپنیوں کا کاروبار اس کے ذریعے ہورہا ہے۔ دنیا کے تمام ممالک کا نظام اس سے جڑا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈارک ویب پر بیٹھے ملکوں کے سرکاری اور پرائیویٹ ہیکرز اس نظام میں داخل ہوکر تباہی پھیلانے کی وارداتیں کرتے ہیں۔
مختصر یہ کہ گوگل ایک سرچ انجن ہے، اس کی کرشماتی حیثیت کو دیکھ کر میدانِ حشر کا منظر جو قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے‘ گھوم جاتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’جب قبریں کھولی جائیں گی تو تم دیکھ لوگے کہ آگے کیا بھیجا تھا، پیچھے سے کیا لے کر آئے ہو۔‘‘ (سورہ الانفطار)
آدم علیہ السلام سے لے کر آخری انسان تک ہرآدمی اپنا نامۂ اعمال دیکھ رہا ہوگا اور باری تعالیٰ ہر شخص سے فرداً فرداً مخاطب ہوگا۔ یہ ایجادات ایمان بالآخرت کو مضبوط بنارہی ہیں۔ یہ بات کہی جاتی ہے اور درست بھی ہے کہ زمانہ قرآن کا بہترین مفسر ہے۔ مگر اس استادِ بے مثل کا موجد بھی انسان ہے۔ مطلب، دنیا کے ممالک اور اس ٹیکنالوجی کے ماہر افراد جب چاہتے ہیں اس آلے کا ناطقہ بند کردیتے ہیں۔ انسانوں کا بنایا ہوا آلہ انسان کا غلام اور قیدی ہے۔ حسن عسکری نے درست کہا ہے کہ دورِ حاضر میں برائی کو جس سرعت کے ساتھ پھیلانا آسان ہے اسی طرح نیکی کا ابلاغ بھی آسان ہے۔
تہذیب پھر سے آئی ہے پتھر کے دور کی
یہ اور بات ہے کہ نئے پیرہن میں ہے
جنگل میں بے لباس تھی کل کی جانِ جاں
آج بے لباس بھری انجمن میں ہے
پتوں کا پیرہن تھا آنکھوں میں شرم تھی
آج خوش لباسی میں بکتا بدن بھی ہے