بڑھاپے میں سر تا پیر اعضا کمزور، یادداشت کمزور، اور بال اپنے تو لگتے ہی نہیں۔ شکر ہے چہرے کی باریک جھریاں تو ہمیں خود کو آئینے میں دِکھتی نہیں۔ یادداشت بس اللہ خیر ہی کرے۔ پائوں رکھو کہیں، پڑتا ہے کہیں۔ سنائی بھی تو کم دیتا ہے نا۔ ہائے ہائے ہم کریں، جی جی سننے والا اور کہنے والا کرے۔ عجب بے مزہ مشاعرہ ہوتا ہے۔
خشک میوہ جات بجائے کٹر کٹر چبا کر کھانے کے، پیس کر دودھ یا دلیا میں کھاتے ہیں تو ذائقہ کہاں سے آئے گا بھئی!
میں نے اس بڑھاپے سے پریشان ہونے کے بجائے لطف اٹھانے کا سوچا بھی اور عمل بھی شروع کردیا ہے۔ حالانکہ ہمارا معاشرہ ابھی تک اپنے بزرگوں کی عزت کرتا ہے، محبت کرتا ہے، خدمت کرتا ہے، دعائیں لیتا ہے۔ پرانے قصے بڑے صبر سے بار بار سن لیتا ہے۔ ہمیں ہل کے کوئی کام نہیں کرنے دیتا۔ سہارا دینے ہر دم، ہر جگہ خوشی سے تیار رہتا ہے۔ مزا تو بلاشبہ بہت آتا ہے۔ اپنے بچے کیا، سبھی چھوٹے بڑے مدد کرنے اور ثواب کمانے کے لیے پیش پیش رہتے ہیں۔
مگر یہ جینا بھی کوئی جینا ہے؟
میں نے اس طرح سے نہ جینے اور زندگی اچھی طرح اور مثبت طریقے سے جینے کا گُر پا لیا ہے۔ میری یادداشت بڑھتی عمر کے ساتھ بہت تیزی سے کمزور ہورہی ہے۔ یعنی بڑھاپے کی تمام خصوصیات اظہر من الشمس ہوگئی ہیں تو فکر لاحق ہوئی۔
میں نے سوچا کہ ایسا کیا کام کیا جائے کہ نہ آنا پڑے، نہ جانا پڑے اور مصروفیت بھی ہوجائے۔
تو جناب میں نے اچار بنانا شروع کردیا۔ اچار بنانے میں سر سے پیر تک تمام اعضا مصروفِ عمل رہتے ہیں۔
صفائی سب سے پہلا اصول، کیوں کہ اچار کا مزاج محبوب کے مزاج جیسا نازک ہوتا ہے، ہر وقت توجہ مانگتا ہے۔ گندگی سے نفرت کرتا ہے، فوراً ناراض ہوکر بدبو چھوڑ دیتا ہے۔ لہٰذا خود بھی صاف رہو، اُس جگہ کو بھی صاف رکھو جہاں بنایا جائے۔ برتن، مصالحے اور تمام اشیا بھی صاف رکھو۔ یہ تو ہوگئی صفائی۔ اب کس چیز کا اچار ہو؟ سوچا اور پھر کام شروع۔
لیمو، ہری مرچ، لہسن، سرخ تازہ مرچ، گاجر اور دیگر سبزیوں اور شلجم کا پانی والا اچار۔ سب پر طبع آزمائی کی اور جب اپنے لوگوں نے کھایا اور پسند کیا تو اس کو کمانے کا بھی ذریعہ بنالیا۔ الحمدللہ آرڈر آنے لگے ہیں۔
اچار ڈالنے کے لیے ہر چیز کا وزن، اس کی صفائی، مصالحوں کی چھان پھٹک، وزن، پھر مصالحوں کو چولہے پر بھوننا تاکہ نمی نہ رہ جائے، پھر کوٹنا، وزن کرنا۔ تیل کو گرم کرکے اس کی کڑواہٹ نکالنا، ٹھنڈا کرنا۔ پھر جس چیز کا اچار بنانا ہے وہ تیل میں ڈبونا۔ اس عمل میں حواس قابو میں رکھنا بے حد ضروری ہے ورنہ خود کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ سبزی کاٹتے وقت آنکھیں کھلی رکھنا، ورنہ سبزی کی جگہ انگلی بھی کٹ سکتی ہے۔
اچار ڈالنے میں جھکنا بھی پڑتا ہے، کھڑا بھی رہنا پڑتا ہے، چولہے اور آگ کا خیال رکھنا پڑتا ہے کہ مصالحہ، سبزی یا ہاتھ جل نہ جائے۔ اچار تیار ہونے کے بعد بھی نوزائیدہ بچے کی طرح اس کی دیکھ بھال کرنی پڑتی ہے۔ ذائقہ چکھتے رہنا، کیوں کہ گزرتے وقت کے ساتھ اس کے ذائقے میں فرق محسوس ہو تو کچھ کرنا پڑتا ہے۔
مجھے بہت مزا آرہا ہے۔ میں اپنی ہم عمر خواتین کو مشورہ دوں گی کہ کچھ نہ کچھ ضرور کریں تاکہ اوپر جانے کے بعد کچھ تازہ اور اچھی یادیں چھوڑ جائیں، اور اپنی زندگی بھی خوش، مصروف، صحت مند اور کارآمد گزرے۔
nn