ڈاکٹر لومڑ کا ایثار

191

دو دن سے جنگل میں شدید بارش ہو رہی تھی۔سب جانور اپنے اپنے گھروں میں دُبکے بیٹھے تھے۔بارش کی وجہ سے سردی میں اچانک اضافہ ہو گیا۔ریچھ بارش کی وجہ سے دو دن سے شکار پر نہ جا سکا تھا۔اس کی بیوی بھی پریشان بیٹھی تھی۔ان کے بچے بھی بھوک سے نڈھال ہو رہے تھے۔لگ رہا تھا کہ بارش کا یہ سلسلہ کئی دن جاری رہے گا۔
بھوک سے بچے بلک رہے تھے اور چھوٹے کو تو بخار ہو گیا تھا۔ماں سے یہ دیکھا نہ جا رہا تھا۔ریچھ دروازے کی سیڑھیوں پر سر جھکائے پریشان بیٹھا تھا۔
”تم شکار پر کیوں نہیں جاتے؟“بیوی نے ریچھ سے کہا تو اس نے غصے سے بیوی کو دیکھا:”اتنے زوروں کی بارش ہو رہی ہے،میں خوراک کا بندوبست کیسے کروں؟“
یہ سن کر تھوڑی دیر وہ خاموش رہی۔
پھر کچھ سوچ کر نرمی سے کہنے لگی:”کوئی گلہری،کوئی پھل،کوئی مُردار جانور،کوئی پرندہ کچھ نہ کچھ تو خوراک کے لیے مل ہی جائے گا۔گھر سے نکلو گے جبھی تو ملے گا۔“ریچھ باہر برستی بارش کو دیکھنے لگا۔
ریچھ کی بیوی نے تھوڑی دیر بعد پھر کہا:”باہر جاؤ،بچے بھوکے ہیں۔زمین پر پڑے پھل مل جائیں تو لے آؤ۔“
ریچھ خاموش ہی رہا۔ننھا ریچھ یہ سب باتیں سن رہا تھا۔
وہ چپکے سے اُٹھا اور بغیر بتائے بارش میں ہی باہر نکل آیا۔اس نے چند دن پہلے بیری کے ایک درخت پر شہد کا چھتا دیکھا تھا۔وہ برستی بارش میں اُدھر کو چل پڑا۔اسے بھوک لگ رہی تھی،کیونکہ دو دن سے اس نے کچھ بھی نہیں کھایا تھا۔اچانک بارش تیز ہو گئی۔اسے اپنی والدہ اور والد کی یاد آئی،لیکن اب وہ آدھے راستے تک پہنچ چکا تھا،اس لیے خالی ہاتھ واپس جانا نہیں چاہتا تھا۔
گہرے بادل چھائے ہوئے تھے۔جب وہ بیری کے درختوں کے پاس پہنچا تو وہ سب کچھ بھول گیا۔اچھا خاصا اندھیرا ہو گیا تھا۔جب وہ بیری کے پاس پہنچا تو اس وقت اولے برس رہے تھے۔اس نے بھوک کی شدت میں کسی قسم کی پروا نہیں کی اور بڑی مشکل سے اس درخت کے پاس پہنچ گیا،لیکن اب وہاں شہد کا چھتا نہیں تھا۔اولے تیزی سے برس رہے تھے۔اس کا سارا جسم پانی سے بھیگ گیا تھا۔
شہد نہ پا کر اس کی بھوک اور بھی بڑھ گئی تھی۔وہ خود کو بہت کمزور محسوس کر رہا تھا۔اولوں سے بچنے کے لیے وہ ایک درخت کے نیچے کھڑا ہو گیا۔اس حالت میں کافی دیر گزر گئی۔
دوسری طرف اس کے والدین اس کی تلاش میں بے چین ہو گئے تھے۔ریچھ جو بارش میں گھر سے نہیں نکل رہا تھا،اب جنگل میں مارا مارا پھر رہا تھا۔کافی دیر بعد بارش کا زور ٹوٹا تو ننھا ریچھ وہاں سے گھر کی طرف چل پڑا،اسے سخت سردی لگ گئی تھی۔
جسم کانپ رہا تھا۔اِدھر اُدھر دیکھتا ہوا آہستہ آہستہ چلنے لگا۔تھوڑی دیر بعد اسے احساس ہوا کہ وہ اپنے گھر کا راستہ بھول گیا ہے۔ریچھ کے بچے کو ڈر لگنے لگا۔اچانک ایک طرف سے آواز آئی۔جیسے کوئی اس کا نام لے کر پکار رہا ہو۔
”کون ہے! کون ہے وہاں؟“ اس نے اونچی آواز میں پوچھا۔
”تم کہاں ہو؟“ اسے اپنے والد کی آواز سنائی دی۔
تھوڑی دیر بعد ریچھ اپنے بچے کو بازوؤں میں اُٹھائے گھر لے آیا۔بھوک اور سردی سے وہ کانپ رہا تھا۔
”اس کی دوا لانی پڑے گی۔“ ماں نے بچے کی حالت دیکھتے ہوئے کہا تو ریچھ نے سر کو ہلایا۔بارش کافی حد تک کم ہو گئی تھی،لیکن ابھی ہلکی پھلکی بارش ہو رہی تھی۔ریچھ نے کہا:”بارش رکے گی تو جاؤں گا۔“
ڈاکٹر بندر جو ڈاکٹر لومڑ کا خاص شاگرد تھا،اس نے اپنا الگ کلینک کھول لیا تھا۔
ڈاکٹر لومڑ جنگل کا سب سے پرانا طبیب تھا،لیکن اب وہ جنگل کے بادشاہ شیر کی طرح بوڑھا ہو چکا تھا۔اتنی سردی میں کسی کے گھر مریض دیکھنے جانا اس کی صحت کے لیے نقصان دہ تھا۔اس کے باوجود جنگل کے جانور اپنے بچوں کی دوا لینے اس کے پاس پہنچ جاتے اور اسے مجبوراً جانا پڑتا۔اب اتنی شدید بارش میں کوئی اس کا دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا اور ڈاکٹر لومڑ میں ہمت نہیں تھی کہ وہ اُٹھ کر دروازے تک جائے۔
اس نے وہیں سے کہا:”کون ہے؟“ اس کی آواز میں بے زاری تھی۔
”ڈاکٹر صاحب!میرے بچے کو سردی لگ گئی ہے،مہربانی کر کے اس کے لیے کوئی دوا یا کوئی جڑی بوٹی دے دیں۔“
وہ جنگل کا ایک شریف ریچھ تھا،اس لیے ڈاکٹر لومڑ نے کہا:”تم ڈاکٹر بندر کے پاس چلے جاؤ،میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔“
”میں وہاں گیا تھا وہ دوا کی قیمت میں خوراک مانگتا ہے،میں خود دو دن سے بھوکا بیٹھا ہوں،اسے کہاں سے کھانے کو کچھ دوں۔“
ڈاکٹر لومڑ کو اس پر رحم آ گیا۔اس نے کچھ کھانے کا سامان باندھا اور اس کے ساتھ روانہ ہو گیا۔جب وہ گھر پہنچے تو ڈاکٹر لومڑ نے ننھے ریچھ کو پہلے شہد چٹایا۔شہد سردی میں بہت مفید ہوتا ہے۔اس کے بعد اسے جنگلی پھل کھانے کے لیے دیے۔ڈاکٹر لومڑ بہت سارے پھل لایا تھا۔سب نے تھوڑا تھوڑا کھایا۔
ڈاکٹر کے کہنے پر ننھے ریچھ کو جنگلی خشک گھاس علاج کے طور پر دی گئی،جس سے تھوڑی دیر بعد اس کے جسم کا درجہ حرارت بہتر ہو گیا۔
اس کے بعد اسے جڑی بوٹیاں دی گئی،جن کے اثر سے وہ سو گیا۔اس کے والدین نے اللہ کا شکر ادا کیا۔اتنی دیر میں بارش تھم چکی تھی۔ڈاکٹر لومڑ دل ہی دل میں بہت خوش تھا کہ مشکل وقت میں آج وہ کسی کے کام آیا۔اس خوشی میں کیچڑ میں واپس جانا بھی اسے بُرا نہیں لگ رہا تھا۔

حصہ