اگلی صبح ایک عجیب و غریب شکل کی گاڑی میں جمال، کمال اور فاطمہ کو ایک ایسے مقام کی جانب لے جایا جا رہا تھا جس کا علم صرف لیجانے والوں ہی کو تھا۔ یہ لے جانے والے بھی خفیہ کے محکمے سے ہی تعلق رکھتے تھے۔ یہ گاڑی باہر سے ضرور بد شکل تھی لیکن اندر سے نہایت آرام دہ تھی۔ جہاں یہ رکی وہاں سے ایک نیم تاریک راہداری کا سلسلہ تھا جو بہت ہی مختصر تھا۔ کچھ دور چل کردائیں جانب ایک دروازہ تھا جس کو کھولا گیا تو ایک لیبارٹری سامنے تھی۔ ایک میز پر کوئی صاحب بیٹھے تھے لیکن ان کے چہرے پر نقاب چڑھا ہوا تھا۔ ان کے سامنے ایک چھوٹی شیشی تھی جو فاطمہ کو سنگھائی گئی اور ایک طشتری میں اجناس کے کچھ ٹکڑے تھے جو چکھائے گئے۔ گو کہ یہ ایسی خفیہ عمارت تھی جہاں کسی کو بھی جانے کی اجازت نہیں تھی لیکن جمال اور کمال کے کردار اور اب درپیش مہم کی اہمیت کے پیشِ نظر ایسا کیا جانا ضروری تھا۔ اس کے بعد جمال اور کمال کو لاؤڈ اسپیکر کی کے ذریعے یہ خوش خبری بھی سنائی گئی کہ ہمارے سائنس دانوں نے غذاؤں اور ہواؤں کے اینٹی ڈوزز بھی تیار کر لیے ہیں جس کی ضرورت یقیناً ان کو اپنی آنے والی مہم میں پڑے گی۔ امید ہے کہ ایک ہفتے کے اندر اندر ان کا کامیاب تجربہ بھی کر دیا جائے گا۔
جمال، کمال اور فاطمہ اپنے ٹھکانے پر واپس آ چکے تھے اور بہت خوش تھے کہ وہ جلد ہی اپنے وطن کے لیے ایک مہم پر روانہ ہونے والے ہیں۔ اپنے ٹھکانے پر جانے سے قبل ان تینوں نے یہ طے کر لیا تھا کہ وہ آنے والی کل سے ہی اس بات کی کوشش کریں کہ مقامی سطح پر بنے ہوئے تخریب کاروں کے نیٹ ورک کا پتا لگائیں اور کامیابی کا کوئی راستہ کھولیں۔
اگلے دن وہ تینوں ابھی اکھٹے ہو کر شہر میں مشکوک افراد کو تلاش کرنے کا سوچ ہی رہے تھے کہ جمال اور کمال کے ٹھکانے کی کال بیل نے بہت نزاکت بھری آواز میں چڑیا کی چوں چوں نشر کرنی شروع کردی۔ باہر نکل کے دیکھا تو انسپکٹر حیدر علی کو گھر کے باہر کھڑا پایا۔ آئیں انکل اندر ڈرائنگ روم میں بیٹھیں۔ انھوں نے نفی میں سر ہلایا اور ایک لفافہ جمال کے ہاتھ میں پکڑا دیا اور جمال اور کمال کو حیرت میں چھوڑ کر اپنی ذاتی کار میں بیٹھ کر روانہ ہو گئے۔ فاطمہ دروازے کی اوٹ سے یہ سب دیکھ رہی تھی۔ اندر آکر جمال نے لفافہ چاک کیا تو ایک مختصر تحریر تھی جس میں آج رات 10 بجے تک انھیں اپنے سارے ضروری سامان کے ساتھ تیار رہنے کا کہا گیا تھا۔ لکھا تھا فی الحال دارالحکومت جانا ہے جہاں ان کو اپنی مہم کے بارے میں ضروری معلومات فراہم کی جائیں گی اور جن جن اشیا کے کا انہوں نے مطالبہ کیا ہے وہ سب بھی ان کے حوالے کی جائیں گی۔ رات ٹھیک 10 بجے ایک گاڑی ان کے دروازے پر آکر رکے گی، اس میں چپ چاپ بیٹھ جانا ہے۔
جمال اور کمال نے فاطمہ سے کہا کہ وہ اپنی ضرورت کی تمام اشیا لے کر یہاں آ جائے۔ اپنے آپ کو ذہنی طور پر مکمل تیار کر لے۔
لگتا ہے کہ اب جلد ہی ہم اپنی اگلی منزل کی جانب روانہ ہو جائیں گے۔
جمال اور کمال کے والدین اپنے بچوں کی تمام دلچسپیوں کے متعلق خوب اچھی طرح جانتے تھے اس لیے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ وہ ان کی کسی مہم میں رکاوٹ بنیں۔ پھر دلچسپ بات یہ تھی کہ وہ از خود بھی پربت کی رانی کی مہم میں برابر کے شریک تھے اور خوب اچھی طرح جانتے تھے کہ جمال اور کمال دانشمندی کی وجہ سے وہ خود اور انسپکٹر حیدر علی کی پوری ٹیم پربت کی رانی اور اس کی راج دھانی سے خیریت کے ساتھ بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ وہ خوش تھے کہ اعلیٰ حکام ان کے بچوں پر بہت اعتماد کرتے ہیں اسی لیے وہ دعاگو تھے کہ اللہ تعالیٰ ان نو عمر بچوں کو اپنی حفاظت میں رکھے اور ان کو کامیابی سے ہمکنار کرے۔
دس بجنے میں ابھی پورا ایک گھنٹہ باقی تھا۔ جمال، کمال اور فاطمہ مکمل تیاری کے ساتھ جمال کے گھر کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہوئے تھے۔ فاطمہ نے جمال اور کمال کی جانب دیکھتے ہوئے سوال کیا کہ کیا وجہ ہے کہ وہاں کسی فضائی کارروائی کے بجائے دو ٹیموں کو الگ الگ کچھ ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔ اگر ہمارے سائنسدانوں نے اس زہر آلود فضا کے خاتمے کے لیے کچھ گیسز تیار کر لی ہیں تو کیا ہوائی جہاز کی مدد سے وہاں بڑے پیمانے پر اسپرے کر کے اس فضائی خلاف کو ختم نہیں کیا جا سکتا تھا۔ کیا وہاں پیراشوٹر نہیں اتارے جا سکتے تھے۔ جب وہ علاقہ ہمارے ملک کی حدود میں آتا ہے تو ایسا کیوں نہیں کیا جا سکتا۔ بات تو تمہاری بہت گہری ہے مگر میرے خیال میں اس کی ایک وجہ ہو سکتی ہے، اس مرتبہ کمال نے بولنے میں جلدی کی۔ کہنے لگا، جہاں یہ پربت ہے وہ علاقہ تین ممالک کی سرحد پر واقع ہے جس میں سے ایک ملک واقعی سائنسی ترقی میں بہت آگے ہے جبکہ دوسرے ملک میں ہمارے ملک کے خلاف بہت سارے گروہ سرگرمِ عمل ہیں۔ جس ملک کی ٹیکنالوجی کی مدد سے ایک مخصوص علاقے کو اپنے حصار میں لیا ہوا ہے، ممکن ہے کہ اس نے پربت کی رانی کی حفاظت کا ذمہ بھی لیا ہوا ہو اور دوسری جانب وہ ملک جس میں ہمارے ملک کے خلاف سازشیں تیار کی جاتی ہیں وہ کسی ایسے ہی موقع کی تلاش میں ہو اور فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے۔ تیسری اور اہم بات یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس علاقے میں جو جو افراد اور خاندان بھی ہیں، ان سب کا بھی کیا قصور ہے کہ وہ سب زد میں آئیں۔ شاید اس لیے ہی ہمارا خفیہ محکمہ چاہتا ہے کہ کسی ایسے راستے کو اختیار کیا جائے جس میں نہ تو تصادم کا خطرہ ہو اور نہ ہی بے گناہ مارے جائیں۔ جواب کیونکہ نہایت معقول اور مدلل تھا اس لیے اس بات کو یہیں ختم کر دیا گیا۔ (جاری ہے)