وہی خار مغیلاں ہوں گے

389

پھر بہار آئی وہی دشت نوردی ہوگی
پھر وہی پاؤں وہی خارِ مغیلاں ہوں گے

8 فروری 2024 کا دن پتا نہیں بہار کی آمد کا منتظر ہے یا خزاں کا، پاکستان کی عوام اس قدر معصوم ہیںکہ انہیں پتا ہی نہیں کہ ہر چند سالوں کے بعد یہ دن کس پٹاری سے نکل کر آتا ہے اور پھر کس پٹارے میں بند کر دیا جاتا ہے ۔عوام اسی گمان میں ہوتے ہیں کہ یہ دن ان کے لیے کچھ ایسے مسیحا لے کر آئے گا جو ان کے دکھوں کا مداوا کرے گا ،ان کی قسمتوں کو ایک جھٹکے میں تبدیل کر دے گا جس طرح حضرت عیسٰیؑ ’قُم بِاذنِ اللہ ‘کہہ کر مُردے کو کھڑا کر دیا کرتے تھے اسی طرح وہ مسیحا بھی قوم کو اپنے پیروں پر کھڑا کر دے گا۔عوام کسی سے بھیک کے طلبگار نہ ہوں گے اور نہ ہی آئی ایم ایف کے جال میں پھنس کر اپنا اور اپنے بچّوں کا مستقبل داؤں پر لگائیں گے مگر عوام کو شاید پتا نہیں کہ…

ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی کر کھلا

ہمارے ایک شاعر دوست تھے سعید آغا، اب اس دنیا میں نہیں رہے اللہ تعالٰی انہیں غریق ِرحمت کرے ۔طنز و مزاح سے بھرپور اشعار کہتے تھے اس وقت مجھے ان کا کہا ہوا ایک قطعہ یاد ا ٓرہا ہے آپ حضرات پڑھیے اور داد کی شکل میں مرحوم شاعر کے لیے دعائے مغفرت کیجیے…

لو آ گئے ہیں ملائک چلے گئے شیطان
اسی گمان میں پبلک ہے ٹل گئے ڈاکو
ہمارے ملک کا اکثر رہا یہی دستور
بدل گئی جو حکومت بدل گئے ڈاکو

انتخابات میں جو حضرات حصّہ لیتے ہیں وہ اس موقع پر لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں خرچ کرتے ہیں اورشہر کی دیواروں پر چاہے وہ قومی ملکیت ہو یا کسی کی ذاتی ملکیت اسے اپنے ابّاکی جاگیر سمجھ کر اپنے اور اپنے پارٹی کا نام و نسب لکھ کر بدنما کر دیتے ہیں اس طرح وہ افراد بد اخلاقی اور بد تہذیبی کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہیں… نام و نسب پر مجھے مرزا عاصی اختر کا ایک شعر یاد آگیا، میں جو کہنا چاہتا تھا اور جسے تحریر کرنے سے میرا قلم کچھ جھجک محسوس کر رہا تھا شاید یہ شعر میرا مقصد عیاں کر دے …

گالیاںآپ کے منہ سے سن کر
آپ کا نام و نسب یاد آیا

کروڑوں روپیہ جو بوقتِ انتخابات خرچ کیا جاتا ہے اس کی کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوتی کہ وہ روپیہ کہاں سے اور کس طرح حاصل کیا گیا، انتخابات کے وقت حکومت اربوں روپیہ خرچ کرتی ہے مگر بے سود اس لیے کہ نتیجہ وہی آتا ہے جو پہلے سے طے شدہ ہوتا ہے جملہ…’’ پہلے سے طے شدہ‘‘ کی وضاحت کرتا چلوں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کسی غلط فہمی کا شکار ہو جائیں۔

میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ ہمارے نَوِشتہء تقدیر میں ہوتا ہے وہی نتیجہ سامنے آتا ہے اس میں نہ تو الیکشن کمیشن کا کوئی دوش ہے اور نہ ہی بیلٹ پیپر گنتی کرنے والوں کا۔ لوگوں کی تو عادت ہے بلاوجہ کسی کو بدنام کرنے کی۔ نَوِشتہء تقدیر پر میرے ذہن میں ایک بات آئی ہے کہ جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے تب سے ہماری تقدیر نے ہمارا ساتھ نہ دیا …یہ سب کہنے کی باتیں ہیں … تاریخ گواہ ہے کہ کسی بھی قوم کی تقدیر آسمان سے لکھ کر نہیں آتی تقدیر وہاں کے مخلص رہنما اور افراد بناتے ہیں، جاپان اور چین کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔ ہمارے ملک میںجو بھی حکمران آئے ان میں اکثر ایسے تھے جنہیں اپنا مقدّر زیادہ عزیز تھا عوام کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا۔ جو مخلص رہنما تھے وہ اللہ کو پیارے کر دیے گئے، لیاقت علی خان، جنرل ضیاء الحق، بینظیر بھٹّو یہ وہ رہنما تھے جن کے دامن کرپشن کے بدنما داغ سے محفوظ تھے،

آٹھ فروری کو انتخابات ہوں گے ساتھ یہ بھی اعلان کیا جا رہا ہے کہ اس بار انتخابات صاف شفّاف ہوں گے… یہ کہنے کی کیا ضرورت ہے کیا اس سے قبل انتخابات صاف شفّاف نہیں ہوئے تھے ۔ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے یہاں ایماندار لوگ بستے ہیں اورہر کام صاف شفّاف ہی ہوتا ہے …صاف شفّاف اس شیشے کی طرح جس کے آر پار صاف نظر آتا ہے ہم جب اس شیشے کے ایک طرف سے دیکھتے ہیں تودوسری جانب ہمیں وہ مکروہ چہرے نظر آتے ہیں جن کی بددیانتی اور بد اعمالی نے ملک کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ ملک کنگال ہو چکا ہے ان لٹیروں نے ملک کو اس طرح لوٹا کہ آج ہم آئی ایم ایف کے قرض تلے اس طرح دبے ہوئے ہیں کہ وہاں سے نکلنے کی کوئی راہ نظر نہیں آتی … ایک شعر حاضر ہے جو سو فیصد حقیقت پر مبنی ہے…

جو کسی اور کو الزام دے وہ جھوٹا ہے
مرے چمن تجھے ہر با غباں نے لوٹا ہے

ملکی معیشت کن مراحل سے گذر رہی ہے، خالد عرفان کا تبصرہ بھی کیا خوب ہے…

تمام ملک لٹیروں نے مل کے لوٹ لیا
وہ شاغ ہی نہ رہی جس پہ آشیانہ تھا

جو کسر باقی رہ گئی تھی وہ 1971 میں ملک تقسیم کر کے پوری کر دی گئی، بنگلہ دیش وجود میں آیا، آج وہاں امن و امان ہے اس کی معیشت ہم سے بہتر ہے… ہمیں شرم آنی چاہیے اگر شرم و حیا کا کوئی احساس ہمارے پیکرِ خاکی میں ہے تو! دنیا کا کوئی بھی ملک اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک وہاں امن و امان نہ ہو اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب حکمران اور ادارے دریوزہ گری اور رشوت گری سے پاک ہوں۔

ملک کی معیشت زبوں حالی اور خستہ حالی کا شکار ہے ہمارے حکمرانِ بالا اور اعلیٰ عہدوں پر فائز افسران سادگی کیوں نہیں اپناتے، باہر سے درآمد کی ہوئی قیمتی اور لگژری گاڑیوں کو چھوڑ کر اپنے ملک کی بنی ہوئی سستی گاڑیوں کو کیوں نہیں ترجیح دیتے ،تنخواہوں کا ایک مخصوص حصّہ ملکی خزانے کی نذر کیوں نہیں کرتے، تاکہ شیطان کی آنت کی طرح کا قرض ہم پر سے اتر جائے اور ہم فخریہ کہہ سکیں کہ ہم ایک آزاد قوم کے باشندے ہیں۔ سادگی تو ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنائی ،صحابہ کرامؓ نے اپنائی، خلفائے راشدینؓ نے اپنائی اور ایسی حکمرانی کی کہ اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی بیرون ِملک جائیداد بنانا، غیر ملکی بینکوں میں پیسہ رکھنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ شخص اپنے ملک کے لیے مخلص نہیں ہے شاید انہیں اس بات کا خوف ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ…’ ابّا جی‘ ’ڈنڈا‘ لے کر اس عیش کدے میں آ جائیں اور حساب کتاب شروع کر دیں اور مجھے یہاں سے فرار ہونا پڑ جائے تو جہاں پناہ لینی ہے وہاں پہلے سے انتظام کر لیا جائے… اس موقع پر ایک شعر یاد آیا شعر تو مرزا محمد رفیع سودا کا ہے مگر تحریف کردہ نے تحریف زبردست کی ہے …

ابا جی آ رہے ہیں اسی مے کدے کی جانب
ساغر کو مرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں

( ذہن میں رکھیے گا کہ ابا جی کے ہاتھ میں ایک ’ڈنڈا‘ بھی ہے )

لفظ انتخابات اردو زبان سے تعلق رکھتا ہے کچھ لوگ اسے الیکشن بھی کہتے ہیں جو کم تعلیم یافتہ حضرات ہیں وہ غلطی سے اس لفظ کی جگہ اس کا ہم قافیہ لفظ’ سلیکشن ‘ بول جاتے ہیں غلطی کہنے والے کی ہے نہ الیکشن کی غلطی ہے اور نہ سلیکشن کی اصل میں انہیں صحیح سے ان دونوں الفاظ کے معنی اور فرق نہیں معلوم بہرحال میں اس بحث میں پڑنا نہیں چاہتا کیونکہ میری انگریزی کی صحت ہمیشہ سے بہت خراب رہی ہے اور مجھے بھی ان دونوں الفاظ کے معنی صحیح سے معلوم نہیں ہیں ہمارے قارئین کرام جن کی انگریزی کی صحت ہم سے اچھی ہے انہیں ضرور ان الفاظ کے معنی اور فرق پتا ہو گا۔

انتخابات پر مجھے ایک بات یاد آئی جب ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت تھی اس وقت ہندوستان میں ایک وائسرائے ہوا کرتا تھا جو سارے ملک پر حکومت کرتا تھا اس کا انتخاب ملکہ ء برطانیہ خود کیا کرتی تھی وہ ملکہ تھی اس کے پاس طاقت تھی اسے اختیار تھا ’جو چاہے اس کا حُسنِ کرشمہ ساز کرے۔‘

تو معلوم یہ ہوا کہ جس کے پاس طاقت ہوتی ہے وہ انتخاب کرنے کا بھی حق رکھتا ہے جیسے ملکہ ء برطانیہ کے پاس طاقت تھی اسی بات کو آسان الفاظ میں اس طرح بھی کہا جا سکتا ہے’’ جس کی لاٹھی اسی کی بھینس ‘‘مجھے خوف ہے کہ لفظ’ بھینس ‘پر مستقبل میں نازل ہونے والے مسیحا اعتراض نہ کر بیٹھیں۔ مومن خاں مومن کے جس شعر سے میں نے اپنے مضمون کا آغاز کیا ہے اس کے مصرعہء اولیٰ میں ہمارے شاعر دوست نور الدین نور نے بڑی خوبصورت تحریف کی ہے ملاحظہ کیجیے…

جب وطن میں کبھی الیکشن کے جو ساماں ہوں گے
پھر وہی پاؤں وہی خارِ مغیلاں ہوں گے

حصہ