آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک اور پھر وہاں سے ساتوں آسمانوں اور جنت کی جو سیر کرائی گئی وہ جسد خاکی اور روح مطہرہ کے ساتھ بحالت بیداری ایک ہی رات میں ہوئی۔ قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو رات کے ایک قلیل حصہ میں مسجد حرام سے اس مسجد اقصیٰ تک لے گئی جس کے گرد ہم نے برکتیں نازل کی ہیں تاکہ ہم اپنے بندے کو اپنی قدرت کے کچھ نمونے دکھائیں‘‘ (سورہ بنی اسرائیل:1) مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کا سفر براق پر ہوا اس کو اسریٰ اور مسجد اقصیٰ سے آسمانوں اور سدرۃ المنتہیٰ تک کا سفر معراج کہلاتا ہے۔ معراج کے معنی سیڑھی کے ہیں۔
حضرت ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جب میں بیت المقدس کے امور سے فارغ ہوا تو میرے سامنے ایک سیڑھی لائی گئی اور میں نے اس سے بہتر کبھی کوئی چیز نہیں دیکھی۔ اور یہ وہ سیڑھی تھی جس پر نبی آدم کی اروح آسمان کی طرف چڑھتی ہیں اور مرتے وقت مردہ اس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھتا ہے۔ پس میرے ساتھی جبرائیل نے مجھے اس پر چڑھایا یہاں تک کہ میں آسمان کے دروازوں میں سے ایک دروازے پر پہنچا۔ کہا جاتا ہے کہ اس دروازے پر فرشتوں میں سے ایک فرشتہ متعین ہے جس کا نام اسماعیل ہے اس فرشتے کے ماتحت ایک ہزار فرشتے ہیں اور پھر ان میں سے ہر فرشتے کے ماتحت بارہ ہزار فرشتے ہیں۔ آپؐ کے لئے جنت سے جو چو پایا لایا گیا وہ گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا تھا اس کا رنگ سفید اور نام براق تھا۔ اس کی دونوں رانوں میں دو پر تھے، جن سے وہ اپنی دونوں ٹانگوں کو ہنکاتا تھا۔ وہ انتہائی برق رفتار تھا۔ آپؐ کو حضرت جبرائیل علیہ السلام کی معیت میں مسجد حرام سے بیت المقدس تک سیر کرائی گئی پھر آپؐ نے وہاں نزول فرمایا اور انبیا کی امانت فرماتے ہوئے نماز پڑھائی اور براق کو مسجد کے دروازے کے حلقے سے باندھ دیا تھا۔ اس کے بعد اس رات آپؐ کو بیت المقدس سے آسمانِ دنیا تک لے جایا گیا۔ جبرائیل علیہ السلام نے دروازہ کھلوایا، آپؐ کے لئے دروازہ کھولا گیا۔ آپؐ نے وہاں انسانوں کے باپ حضرت آدم علیہ السلام کو دیکھا اور انہیں سلام کیا۔ انہوں نے آپؐ کو مرحبا کہا سلام کا جواب دیا اور آپؐ کی نبوت کا اقرار کیا۔ اللہ نے آپؐ کو ان کے دائیں جانب سعادت مندوں کی روحیں اور بائیں جانب بدبختوں کی روحیں دکھائیں۔
پھر آپؐ کو دوسرے آسمان پر لے جایا گیا اور دروازہ کھلوایا گیا۔ آپؐ نے وہاں حضرت یحییٰ بن ذکریا علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھا۔ دونوں سے ملاقات کی اور سلام کیا۔ دونوں نے سلام کا جواب دیا مبارک باد دی اور آپؐ کی نبوت کا اقرار کیا۔ تیسرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام چوتھے آسمان پر حضرت ادریس علیہ السلام پانچویں آسمان پر حضرت ہارون بن عمران علیہ السلام، چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ آپؐ نے سلام کیا انہوں نے مرحبا کہا اور اقرار نبوت کیا۔البتہ جب آپؐ وہاں سے آگے بڑھے تو وہ رونے لگے ان سے کہا گیا آپؐ کیوں رو رہے ہیں، انہوں نے کہا میں اس لئے رو رہا ہوں کہ ایک نوجوان جو میرے بعد مبعوث کیا گیا اس کی امت کے لوگ میری امت کے لوگوں سے بہت زیادہ تعداد میں جنت کے اندر داخل ہوں گے۔ اس کے بعد آپؐ کو ساتویں آسمان پر لے جایا گیا، وہاں آپؐ کی ملاقات حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوئی، آپؐ نے انہیں سلام کیا۔ انہوں نے جواب دیا مبارک باد دی اور آپؐ کی نبوت کا اقرار کیا۔ اس کے بعد آپؐ کو سدرۃ المنتہیٰ تک لے جایا گیا، پھر آپؐ کے لئے بیت المعمور کو ظاہر کیا گیا۔ آپؐ کو حضرت جبرائیل، حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاقات کے بعد ساتویں آسمان کی بالائی سطح پر لے گئے یہاں پر یاقوت اور موتی اور زبرجد کے پیالے رکھے ہوئے تھے اور اس پر سبز رنگ کے خوب صورت پرندے بھی تھے۔ حضرت جبرئیل نے فرمایا کہ کوثر ہے جو آپؐ کو آپ کے رب نے دی ہے۔ اس کے اندر سونے اور چاندی کے برتن پڑے ہوئے ہیں اور وہ یاقوت اور زمرد کے سنگریزوں پر چلتے ہے۔ اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید ہے۔ میں نے ایک برتن لے کر اس میں سے کچھ پیا تو وہ شہد سے زیادہ شیریں اور مشک سے زیادہ خوشبودار تھا۔ اس جگہ آپؐ نے بے شمار فرشتے اور سونے کے پتنگے اور پروانے دیکھے جو سدرۃ المنتہیٰ کو گھیرے ہوئے تھے۔
سدرۃ المنتہیٰ بیری کا ایک درخت ہے جس کے پتے ہاتھی کے کانوں کی مانند اور اس کے پھل مٹکے کی مانند ہیں۔ زمین سے جو چیز اوپر جاتی ہے وہ سدرۃ المنتہیٰ پر جاکر رک جاتی ہے اور پھر اوپر اٹھائی جاتی ہے۔ اس کی شاخ کا سایہ ایسا ہے کہ ایک سوار سو برس اس کے نیچے چلتا رہے اور ایک لاکھ سوار اس کے سائے میں آسکتے ہیں، اس کا فرش سونے کا ہے۔ سدرۃ المنتہیٰ ایک درخت ہے جو زیور اور لباس اور پھلوں اور تمام رنگوں سے آراستہ ہے۔ اگر اس کا پتا زمین پر گر جائے تو زمین کے سارے رہنے والوں کو روشن کردے۔
بیت المعمور فرشتوں کا قبلہ ہے، روزانہ ستر ہزار فرشتے اس کا طواف کرتے ہیں اور پھر کبھی ان کی باری کی نوبت نہیں آتی۔ مسند احمد اور صحیح مسلم میں حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ نے ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا جو بیت معمور سے تکیہ لگائے ہوئے تھے اور بیت معمور میں روزانہ ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں، عبادت کے بعد جب نکل کر چلے جاتے ہیں تو پھر قیامت تک ان کی باری نہیں آئے گی۔
اس کے بعد آپؐ کو اللہ کے دربار میں پہنچایا گیا اور آپؐ اللہ کے اتنے قریب ہوئے کہ دو کمانوں کے برابر یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔ اس وقت اللہ نے اپنے بندے پر وحی فرمائی جو کچھ کہ وحی فرمائی اور پچاس وقت کی نمازیں فرض کیں۔ اس کے بعد آپؐ واپس ہوئے یہاں تک کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرے تو انہوں نے پوچھا کہ اللہ نے آپؐ کو کس چیز کا حکم دیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا پچاس نمازوں کا انہوں نے کہا آپؐ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھتی۔ اپنے پروردگار کے پاس واپس جایئے اور اپنی امت کے لئے تخفیف کا سوال کیجیے۔ آپؐ نے حضرت جبرئیل کی طرف دیکھا گویا ان سے مشورہ طلب فرما رہے ہوں۔ انہوں نے اشارہ کیا کہ ہاں اگر آپ چاہیں اس کے بعد حضرت جبرئیل آپ کو اللہ تعالیٰ کے حضور لے گئے اور اللہ تعالیٰ نے دس نمازیں کم کردیں، آپؐ نیچے لائے گئے، جب حضرت موسیٰ کے پاس سے گزرے تو انہیں خبردی۔ انہوں نے کہا آپ اپنے رب کے پاس واپس جائیں اور تخفیف کا سوال کیجیے۔ اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام اور اللہ عزوجل کے درمیان آپؐ کی آمدورفت برابر جاری رہی۔ یہاں تک کہ اللہ عزوجل نے صرف پانچ نمازیں باقی رکھیں۔
اللہ تعالیٰ نے معراج کے موقع پر جو انعامات عطا فرمائے ان میں:
-1 پانچ نمازیں۔
-2 سورۂ بقرہ کی آخری دو آیات۔
-3 جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے تو اللہ اس کے کبیرہ گناہوں کو معاف فرمادے گا۔
ترمذی، بیہقی اور ابن ابی حاتم نے شداد بن اوس کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا کہ شب معراج کو راستے میں مراکز واپسی زمین پر ہوا جس میں کھجور کے درخت بکثرت تھے پس جبرئیل امین نے مجھے اتارا اور کہاکہ یہاں نماز پڑھئے۔ میں نے وہاں نماز پڑھی، پھر میں سوار ہوگیا۔ تو جبرئیل علیہ السلام نے کہا آپؐ کو معلوم ہے کہ آپ نے کہاں نماز پڑھی، میں نے کہا اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ جبرئیل نے کہا آپؐ نے یثرب میں نماز پڑھی، آپ علیہ السلام نے طیبہ میں نماز پڑھی جہاں آپؐ ہجرت کریں گے۔ وہاں سے روانہ ہوکر ایک اور زمین پر نماز ادا کی جو وادی سینا اور اس کے بعد مدین میں نماز پڑھی جہاں شعیب علیہ السلام رہتے تھے اس کے بعد بیت اللہم میں نماز پڑھی جہاں حضرت عیسیٰ پیدا ہوئے تھے۔
بیت المقدس میں آپؐ کے پاس شراب، پانی اور دودھ لایا گیا، آپؐ نے دودھ نوش فرمایا۔ جبرئیل امین نے کہا آپؐ نے دین فطرت کو اختیار فرمایا۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا معراج کی رات میں نے دیکھا کچھ لوگوں کی زبانوں اور ہونٹوں کو آگ کی قینچیوں سے کاٹا جارہا تھا اور کٹی ہوئی زبانوں اور ہونٹوں کی جگہ دوسرے ہونٹ پیدا ہوجاتے تھے، یہ سلسلہ برابر جاری تھا۔ میں نے دریافت کیا اے جبرئیل یہ کون لوگ ہیں، انہوں نے بتایا کہ یہ آپؐ کی امت کے وہ خطیب اور واعظ ہیں جو لوگوں کو گمراہی میں ڈالتے ہیں وہ بات کہتے ہیں جو خود نہیں کرتے۔
آپؐ نے ان لوگوں کو بھی دیکھا جو یتیموں کا مال ظلماً کھا جاتے ہیں، ان کے ہونٹ اونٹ کے ہونٹوں کی طرح تھے اور وہ اپنے منہ میں پتھر کے ٹکڑوں جیسے انگارے ٹھونس رہے تھے جو دوسری جانب ان کے پاخانے کے راستے سے نکل رہے تھے۔
آپؐ نے سود خوروں کو بھی دیکھا، ان کے پیٹ اتنے بڑے بڑے تھے کہ وہ اپنی جگہ سے اِدھر اُدھر نہیں ہوسکتے تھے اور ان کے اندر سانپ بھرے ہوئے تھے، جو باہر سے نظر آرہے تھے۔ آپؐ کا گزر ایسی قوم پر ہوا جن کے ناخن تانبے کے تھے، وہ ان سے اپنے چہرے اور سینوں کو چھیل رہے تھے۔ حضرت جبرئیل نے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے ہیں یعنی لوگوں کی غیبت کرتے ہیں اور ان کی عزت پر حملہ کرتے ہیں۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ میرا گزر شب معراج ایسی قوم پر ہوا جو ایک ہی دن میں بوتی بھی ہے اور کاٹ بھی لیتی ہے اور جب وہ کاٹ لیتے ہیں تو پھر ویسی ہی ہوجاتی ہے جیسی کاٹنے سے پہلے تھی۔ آپؐ نے جبرئیل امین سے پوچھا کہ یہ کیا ہے، انہوں نے جواب دیا یہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے ہیں کہ ان کی نیکی سات سو گنا تک بڑھتی ہے اور وہ لوگ جو کچھ خرچ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو اس کا نعم البدل عطا فرماتا ہے اور وہ بہترین رزق دینے والا ہے۔
آپؐ نے ایسے لوگوں کو بھی دیکھا جن کے سامنے پاکیزہ اور تازہ گوشت ہے اور ایک طرف لاغر اور بدبودار گوشت ہے وہ تازہ اور پاکیزہ گوشت چھوڑ کر لاغر اور بدبودار گوشت کھاتے ہیں۔ آپؐ نے حضرت جبرئیل سے دریات کیا کہ یہ کون لوگ ہیں، حضرت جبرئیل نے جواب دیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو حلال بیویوں کو چھوڑ کر زنا کی طرف جاتے ہیں۔
آپؐ نے ان عورتوں کو دیکھا جو اپنے شوہروں پر دوسروں کی اولاد داخل کردیتی ہیں، یعنی دوسروں سے زنا کے ذریعے حاملہ ہوتی ہیں لیکن لاعلمی کی وجہ سے بچہ ان کے شوہر کا سمجھا جاتا ہے۔ آپؐ نے انہیں دیکھا کہ ان کے سینوں میں بڑے بڑے کانٹے چبھا کر انہیں آسمان و زمین کے درمیان لٹکا دیا گیا ہے۔
آپؐ نے آتے جاتے اہل مکہ کا ایک قافلہ بھی دیکھا اور انہیں ان کا ایک اونٹ بھی بتایا جو بھڑک کر بھاگ گیا تھا۔ آپؐ نے ان کا پانی بھی پیا جو ایک ڈھکے ہوئے برتن میں رکھا ہوا تھا۔ اس وقت قافلہ سو رہا تھا، پھر آپؐ نے اسی طرح برتن ڈھک کر چھوڑ دیا اور یہ بات معراج کی صبح آپؐ کی دعوے کی صداقت کی ایک دلیل ثابت ہوئی۔
معراج کی صبح آپؐ نے اپنی قوم کو ان بڑی بڑی نشانیوں کی خبردی جو اللہ عزوجل نے آپؐ کو دکھائی تھیں تو قوم کی تکذیب اور اذیت رسانی میں اور شدت آگئی۔ انہوں نے آپؐ سے سوال کیا کہ بیت المقدس کی کیفیت اور حدود اربعہ بیان کریں۔ اس پر آپؐ پر اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کو مجسم ظاہر کردیا۔ چنانچہ آپؐ نے اس کی ایک ایک نشانی بیان کردی۔ آپؐ نے جاتے اور آتے ہوئے ان کے قافلے سے ملنے کا بھی ذکر فرمایا اور بتلایا کہ اس کی آمد کا وقت کیا ہے؟
آپؐ نے اس اونٹ کی بھی نشاندہی کی جو قافلے کے آگے آگے آرہا تھا، پھر جیسا کچھ آپؐ نے بتایا تھا ویسا ہی ثابت ہوا۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے واقعہ معراج سنتے ہی اس کی تصدیق فرمائی اس لئے ان کو صدیق کا لقب دیا گیا۔ معراج کا فائدہ اللہ تعالیٰ نے یہی بیان فرمایا ’’تاکہ ہم آپ کو اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں‘‘۔ واقعہ معراج کی جزئیات کے پس پردہ جو حکمت اور اسرار کار فرما تھے۔ وہ یہ تھے کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ بنی اسرائیل میں اسریٰ کا واقعہ صرف ایک آیت میں ذکر کرکے کلام کی رخ یہود کی سیاہ کاریوں اور جرائم کی طرف موڑ دیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے یہ اشارہ فرمادیا کہ اب یہود کو نوع انسان کی قیادت سے معزول کیا جانے والا ہے کیونکہ انہوں نے ایسے ایسے جرائم کا ارتکاب کیا ہے جن سے ملوث ہونے کے بعد انہیں اس منصب پر باقی نہیں رکھا جاسکتا، لہٰذا اب یہ منصب رسول اکرمؐ کو سونپا جائے گا اور دعوت ابراہیمی کے دونوں مراکز ان کے ماتحت کردیئے جائیں گے۔ اب وقت آگیا ہے کہ روحانی قیادت ایک امت سے دوسری امت کو منتقل کردی جائے گی، یعنی ایک ایسی امت سے جس کی تاریخ خیانت، ظلم و بدکاری سے بھری ہوئی ہے یہ قیادت چھین کرایک ایسی امت کے حوالے کردی جائے جس سے نیکیوں اور بھلائیوں کے چشمے پھوٹیں گے اور جس کا پیغمبر سب سے زیادہ درست راہ دکھانے والے قرآن کی وحی سے بہرہ ور ہے۔ سورہ بنی اسرائیل میں مسلمانوں کو ایسے تمدنی قواعد و ضوابط اور دفعات و مبادی بتلائے گئے جن پر آئندہ اسلامی معاشرے کی تعمیر ہونی تھی، ان آیات میں اشارہ کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عنقریب ایسی جائے پناہ اور امن گاہ پالیں گے جہاں آپؐ کے دین کو استقرار نصیب ہوگا اور مدینہ کی اسلامی ریاست اس کا مکمل نقش ثابت ہوئی جس کا اشارہ کیا گیا تھا۔ واقعہ معراج سے مسلمانوں کو ایک ایسی اسلامی فلاحی ریاست کی خوشخبری دی گئی جو آئندہ قائم ہونے والی تھی۔ یہ دراصل اللہ کی طرف سے نبی اکرمؐ کی وہ ضیافت اور دلداری تھی جو طائف اور مکہ کے کفار اور رئوسا کے ظلم و ستم کا ازالہ کرنے کا باعث بنی۔