سانحہ آر جے شاپنگ مال کراچی

293

آرجے شاپنگ مال میں جانوں سے ہاتھ دھونے والے 11 افراد میں سے یوں تو ہر ایک اپنی الگ الگ داستان رکھتا ہے، مگر مرنے والے اِن نوجوانوں میں ایک بات مشترک تھی کہ بیشتر نوجوانوں نے اپنے اپنے خاندان کی معاشی کفالت کے علاوہ اپنے مستقبل کے لیے بھی کچھ خواب دیکھ رکھے تھے، جن کی تکمیل کے لیے وہ رات کی شفٹ میں کام کرکے گھرکے اخراجات چلانے کی تگ ودوکررہے تھے۔

راشد منہاس روڈ پر واقع شاپنگ مال میں پیش آنے والے خوفناک آتشزدگی کے واقعے میں شہید ہونے والے سوفٹ وئیر ہائوسز کے مالک مرزا شاہ زیب بیگ بھی تھے۔ شہید کے دادا برصغیر پاک وہند کی تقسیم کے وقت ہندوستان کے شہر بریلی سے ہجرت کرکے پاکستان آئے، یہاں آکر انہوں نے حلال روزگار کمانے کے لیے لیتھ مشین کے کارخانے میں ملازمت اختیار کی، 1970ء میں وہ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے 6 بیٹوں اور 3 بیٹیوں سے نوازا۔ ان کے سب سے بڑے بیٹے مرزا زاہد بیگ نے لیاقت آباد ایف سی ایریا سے میٹرک، اور بعد ازاں انٹر کی تعلیم حاصل کی۔ وہ ٹرانسپورٹ کے روزگار سے وابستہ ہوئے۔ 12 اپریل 1995ء کو وہ گھر والوں کی مرضی سے فوزیہ زاہد نامی خاتون سے شادی کے بندھن میں بندھ گئے، اللہ تعالیٰ نے انہیں دو بیٹے عطا کیے۔ 15دسمبر 1996ء کو پہلا بیٹا پیدا ہوا جس کا نام مرزا زوہیب بیگ رکھا گیا، جبکہ دوسرا بیٹا 13دسمبر 1997ء کو اس دنیا میں آیا جس کا نام مرزا شاہ زیب بیگ رکھا گیا۔ بچوں کی بہترین تربیت کے لیے انہیں لیاقت آباد نمبر 4میں قائم گلیمر چلڈرن پرائیوٹ سیکنڈری اسکول میں داخل کرایا گیا جہاں سے انہوں نے کمپیوٹر سائنس میں اے گریڈ میں میٹرک کیا اور آغا خان کالج کریم آباد سے انٹر کامرس کرنے کے بعد شارع فیصل پی اے ایف سول ایوی ایشن کالج سے ایم ایس سپلائی چین اینڈ مارکیٹنگ میں ماسٹر کیا اور ڈیجیٹل مارکیٹنگ ایڈوانس میں دوبارہ ماسٹر ڈگری لی، شارع فیصل پر ہی اپنے پروفیشن کے لحاظ سے ملازمت اختیار کی۔ گزشتہ سال راشد منہاس روڈ پر واقع آر جے شاپنگ مال کے فورتھ فلور پر CUBETIVVELABکے نام سے سوفٹ وئیر ہائوس بناکر اپنے کاروبار کا آغاز کیا۔ ان کا سوفٹ وئیر کا کام امریکا کے وقت کے مطابق شروع ہوتا تھا، اس لیے انہیں علی الصبح 4 بجے ہی گھر سے نکلنا ہوتا تھا۔ بروز ہفتہ 25 نومبر 2023ء کو بھی وہ صبح 4بجے گھر سے نکلے اور صبح 6 بجے اچانک ان کے فلور پر آگ لگ گئی۔ جناح اسپتال کی ڈپٹی ڈائریکٹر شعبہ حادثات ڈاکٹر نوشین رئوف کا کہنا تھا کہ جناح اسپتال میں لائی گئی لاشوں کی شناخت 32 سالہ محمد سلمان، 32 سالہ کریم بخش، 43 سالہ محمد یونس، 30 سالہ بلال آصف، 55 سالہ کاشف انیس، 35 سالہ وہاج، 25 سالہ اسد، 26سالہ آدیش کمار، 23 سالہ بلال تاج الدین اور 25 سالہ مرزا شاہ زیب کے ناموں سے ہوئی۔

شہید نوجوان مرزا شاہ زیب کے والد مرزا زاہد بیگ کا کہنا ہے کہ ’’جس روز آر جے اسکوائر میں آتشزدگی ہوئی تو شہید کے دوست سید حسین عرف ببلو آرجے اسکوائر کے سامنے سے گزر رہے تھے، انہوں نے ایک بجے دن مجھے اطلاع دی کہ شاہ زیب کا آفس جس بلڈنگ میں ہے اُس میں آگ لگ گئی ہے، جاں بحق اور زخمیوں کو جناح اور سول اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔ بعد ازاں میں فوری طور پر جناح اسپتال روانہ ہوا، جبکہ میرا بھائی سول اسپتال کے لیے نکلا۔ ایمرجنسی میں پہنچا تو پتا چلا کہ زخمیوں کو تو طبی امداد کے بعد گھروں کو روانہ کردیا گیا ہے مگر کچھ افراد جاںبحق ہوئے ہیں، انتظامیہ نے کہا کہ لاشیں مُردہ خانے میں موجود ہیں آپ وہیں پر اپنے بیٹے کی شناخت کرسکتے ہیں۔‘‘ مرزا زاہد بیگ نے اپنے بیٹے کی لاش دیکھ کر پہچان لی، اور گھر میں اطلاع دی تو پورے خاندان اور لیاقت آباد میں اطلاع پہنچ گئی اور گھر میں جوان بیٹے کی موت کے بعد کہرام مچ گیا۔ مرزا زاہد بیگ نے بتایا کہ ’’شاپنگ مال میں دکان داروں نے سیڑھیوں پر لکڑی اور شیشے کی رکاوٹیں لگاکر راستہ بند کردیا تھا، صرف لفٹ کا ایک راستہ تھا جو کھلا ہوا تھا، لیکن آتشزدگی کے باعث وہ بھی مکمل طور پر بند ہوچکا تھا، میرے بیٹے کی شادی 2024ء میں طے ہوچکی تھی، ہم جوان بچے کی موت پر صدمے میں تھے، اس حوالے سے کسی ادارے نے بھی رابطہ نہیں کیا، ہم اپنی مدد آپ کے تحت عدالتی کارروائی کے لیے پہنچے اور عدالت میں چلنے والے مقدمے میں شامل ہوئے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ بلڈنگ کی تعمیرات میں قواعد و ضوابط کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں، مال میں آگ لگنے کے بعد دھواں نکلنے تک کی جگہ نہیں تھی۔ زیرحراست افراد سانحے کے ذمہ دار ہیں، کس طرح پلازے کا نقشہ پاس ہوا؟ غفلت اور لاپروائی کے سبب قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آرجے شاپنگ مال کے مالکان کی تمام تر کوششیں گرفتار افراد کی ضمانتوں کے لیے ہیں، اور ان کی دیت کے حوالے سے نہ حکومت کو اور نہ ہی مالکان کو کسی قسم کی فکر ہے کہ ان کے والدین اب کس حالت میں ہوں گے۔ ہمیں خدشہ ہے کہ گرفتار افراد بھی ضمانتوں پر رہا ہونے کے بعد ملک سے فرار ہوجائیں گے اور یہ مقدمہ بھی دوسرے کئی مقدمات کی طرح فائلوں کی نذر ہوجائے گا۔

شہید مرزا شاہ زیب کی والدہ فوزیہ زاہد نے جو کہ کراچی یونیورسٹی سے سماجیات میں ماسٹر ڈگری ہولڈر ہیں، بتایا کہ حکومت یا مالکان کی جانب سے میرے بیٹے کی شہادت پر اگر دیت کی رقم دی گئی تو اس رقم سے میں اپنے بیٹے کو تو واپس نہیں لا سکتی مگر ملنے والی رقم سے ایک مسجد ضرور تعمیر کرائوں گی تاکہ لوگ کسی مسلک اور فرقہ واریت سے بالاتر ہوکر اللہ کا ذکر اور اس کی عبادت کرسکیں۔

اس ضمن میں شہید مرزا شاہ زیب کے بھائی مرزا زوہیب نے بتایا کہ میرا بھائی بچپن سے ہی صوم و صلوٰۃ کا پابند تھا، ہنس مکھ اور خوش اخلاق تھا، دل کا اتنا سخی تھا کہ ایک بار وہ اپنے لیے گھڑی پسند کرکے لایا، ابھی وہ پہن کر باہر نکلاہی تھا کہ اس کے دوست نے اس گھڑی کی تعریف کردی تو اس نے اپنی پسندیدہ گھڑی اس دوست کو تحفے میں دے دی، میں جب دبئی کے لیے روانہ ہورہا تھا تو میری تمام شاپنگ میرے شہید بھائی نے ہی کی تھی، ہم دونوں دوستوں کی طرح رہتے تھے، وہ بہت نرم مزاج اور انسان دوست تھا، خدا خوفی تو جیسے اس میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، کبھی کسی کا دل نہیں دکھاتا تھا اور جھوٹ سے تو اسے نفرت تھی، نہ وہ کبھی جھوٹ بولتا اور نہ جھوٹے شخص کو پسند کرتا تھا، وعدے کا پابند تھا، وہ وقت سے پہلے ہر جگہ پہنچ جاتا تھا۔

واضح رہے کہ آرجے شاپنگ مال میں علی الصبح لگنے والی آگ سے جھلس کر جاں بحق ہونے والے 11 افراد میں ایک ہی محلے کے رہائشی بلال اور سلمان بھی شامل تھے۔ 20 سالہ محمد بلال فورتھ فلور پر واقع فوڈ کورٹ میں کام کرتا تھا جہاں اس کی نائٹ شفٹ تھی۔ بلال کے چچا کا کہنا تھا کہ بلال کی شفٹ صبح 4 بجے ختم ہوتی تھی، گھر والوں سے اس نے کہا تھا کہ فجر کی نماز پڑھ کر نکلوں گا۔ بلال ملازمت کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیم بھی حاصل کررہا تھا اور فرسٹ ائیر کے پیپر دے رکھے تھے۔گھر والوں کے مطابق آگ لگنے کے بعد بلال سے فون پر رابطہ ہوا تھا، اس کا کہنا تھا کہ ’’دعا کرنا، یہاں پر بہت شدید آگ لگ گئی ہے‘‘۔ یہاں کچھ عرصہ قبل بھی آگ لگی تھی۔ بلال اپنے والدین کا سب سے بڑا بیٹا تھا، اس سے چھوٹے 2 بھائی اور 2 بہنیں ہیں۔ آتشزدگی میں جاں بحق ہونے والے بلال کے محلے کے ہی رہائشی محمد سلمان کی عمر32 سال تھی۔ دونوں ایک ساتھ ملازمت پر جاتے اور ساتھ ہی واپس آتے تھے۔

آگ سے جھلس کر مرنے والوں میں اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ ایم اے جناح روڈ پرواقع ناز پلازہ کا رہائش پذیر ہندونوجوان آدیش کمار بھی شامل تھا، جو ایک سوفٹ وئیرفرم سے وابستہ تھا، مگر جزوقتی طورپرآدیش کا ایک اور تعارف سیکسوفونسٹ کے طور پر تھا۔ سیکسوفون پیتل کا بنا ہوا ایک ایسا مخروطی میوزیکل انسٹرومنٹ ہے، جس کو بجانے کے لیے انگلیوں کی مہارت اور سانس کی قوت درکارہوتی ہے۔ سیکسو فون موسیقی کے مختلف انداز میں استعمال ہوتا ہے۔ مشکل ترین میوزیکل انسٹرومنٹ بجانے والے سیکسوفونسٹ ہندو نوجوان آدیش کمار کے خواب بھی آرجے شاپنگ مال کی آتشزدگی میں راکھ ودھویں کا ڈھیر بن گئے۔ آدیش کمار نے آخری مرتبہ نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹ میں اطالوی ثقافتی طائفے کے ہمراہ پرفارمنس دی تھی۔ 2017ء میں نیس کیفے سیزن5 میں ٹائٹل سانگ محبوبہ پرگروپ پُرفارمنس کے دوران اس نے میوزک انڈسٹری میں شہرت حاصل کی تھی۔ گزشتہ برسوں میں کوویڈ کی وجہ سے اس کے والد کا انتقال ہوا، اس کے بعد وہ بوڑھی ماں اور چھوٹی بہن کی کفالت کے لیے ملازمت کے ساتھ نجی محافل میں سیکسوفون کی پرفارمنس پیش کرنے لگا۔

ایسے وقت میں ایک فلمی سین حقیقت میں دیکھنے میں آیا۔ شاپنگ مال میں آتشزدگی کے دوران لفٹ بند تھی اور سیڑھیاں جل رہی تھیں، محمد عامر نامی شخص نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر لفٹ توڑ دی اور اندر داخل ہوکر بیٹے سمیت 25 افراد کی زندگیاں بچائیں۔ عامر نے بتایا کہ فجر کے وقت اپنے بیٹے کی فون کال پر آگ کا سن کر اس عمارت تک پہنچا اور پھر ریسکیو آپریشن میں حصہ لیا، مشکلات کا ذہن میں خیال بھی نہیں تھا، بس فکر تھی کہ بچوں کو بحفاظت نکال لوں، پھر جب سبحان (بیٹے) کو دیکھا تو آنسو آگئے، اس کی ماں سے بات کروائی۔ عامر کا بیٹا عبدالسبحان دیگر دوستوں کے ساتھ پلازہ کی چوتھی منزل پر موجود ایک کال سینٹر میں کام کرتا تھا۔

اس حوالے سے سبحان نے بتایا کہ آگ کی جیسے ہی اطلاع ملی سب تیزی سے لفٹ کی طرف بھاگے، مگر لفٹ بند تھی، جس کے بعد ہم سیڑھیوں کی طرف بھاگے مگر فوراً ہی پتا چلا کہ آگ سیڑھیوں کی طرف لگی ہوئی تھی جس کے شعلے بالائی منزل تک جارہے تھے، ہم نے خود کو شیشے کے ایک کمرے میں بند کرلیا، جس کے بعد دھواں پھیلتا جا رہا تھا اور ہمارے لیے سانس لینا بھی دشوار ہورہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ابھی دم گھٹ جائے گا۔ شیشے کے روم میں داخل ہوکر گیلے کپڑے سے چہرے ڈھانپے اور مدد کا انتظار کیا، ابو کو کال کی اور کہا کہ بابا اب ہمارے پاس وقت کم رہ گیا ہے، لگتا ہے دھواں جلد جان لے لے گا۔ مال میں دھواں نکلنے کا راستہ نہ ہونے کی وجہ سے اتنا دھواں بھر گیا تھا کہ فائر بریگیڈ آپریشن کے اہلکاروں تک کو مشکل پیش آرہی تھی۔ والد کو اپنے سامنے دیکھا تو حیران رہ گیا۔

بعد ازاں آتشزدگی کے واقعے کے 18 روز بعد تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش کردی تھی، جس میں بتایا گیا کہ شاپنگ مال میں آگ بجلی کی تاریں اسپارک کرنے سے لگی اور ناقص معیار کی الیکٹریکل اور فالس سیلنگ تنصیبات سے آتشزدگی پھیلی، سب سے پہلے آگ چوتھی منزل پر واقعے کیفے ٹیریا میں لگی تھی۔ شاپنگ مال میں فائرایگزٹ اور ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے آلات نہ ہونے اور بلڈنگ میں آتشزدگی کے وقت سیڑھیوں پر رکاوٹ بنانے کے باعث زیادہ نقصان ہوا، بلڈر نے عمارت میں تعمیراتی کام مکمل ہونے کا سرٹیفکیٹ حاصل نہیں کیا۔ فیصل کنٹونمنٹ بورڈ نے بھی عمارت کی تکمیل اورفائرسیفٹی سسٹم موجود ہونے کی یقین دہانی نہیں کی، عمارت کی چوتھی منزل پر لفٹ کو بہترایئرکنڈیشنگ کے لیے سیل کردیا گیا تھا۔ ضابطے کے مطابق عمارت میں خودکار فائرسیفٹی کا نظام بھی موجود نہیں تھا۔ رپورٹ کے مطابق بلڈر نے عمارت میں تعمیراتی کام مکمل ہونے کا سرٹیفکیٹ حاصل کیے بغیر دکانیں دکان داروں کے حوالے کردیں، دکان داروں نے اپنی اپنی دکانوں کے سامنے زینے اور خالی جگہ پر قبضہ کرنے کے لیے رکاوٹیں کھڑی کردیں۔ اس ضمن میں تحقیقاتی ٹیم نے 12 اداروں کے ذمے داروں سے تفتیش کی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ عمارت کے مالکان، سیکورٹی انچارج اور انتظامیہ سے تحقیقات کی گئیں۔ تحقیقات میں کنٹونمنٹ بورڈ، کے ای، کے ایم سی کی رپورٹس بھی شامل کی گئی ہیں۔ عمارت میں آتشزدگی سے ہونے والے نقصان کا ذمہ دار بلڈنگ کا مالک، انتظامیہ اور اے اینڈ آئی فائونڈیشن ہے۔ رپورٹ میں شاپنگ مال کے مالک، انتظامیہ، اے اینڈ آئی فائونڈیشن کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی سفارش کی گئی ہے۔ پولیس حکام کے مطابق رپورٹ میں این ای ڈی یونیورسٹی کے ماہرین نے بھی رائے دی۔ رپورٹ میں مال کے مالک، انتظامیہ اور دیگر کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی۔ اس میں کمپلیشن سرٹیفکیٹ کے بغیر عمارتوں کو بجلی اور گیس کنکشن نہ دینے کی بھی سفارش کی گئی ہے۔ رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ فائر ڈپارٹمنٹ سے تمام عمارتوں کی منظوری کو لازمی قرار دیا جائے، عمارتوں میں ہر ماہ دو بار آگ سے بچنے کی مشق کی جائے، غیر معیاری عمارتوں کو فوری طور پر سربمہر کیا جائے۔ رپورٹ میں حادثے میں زخمی اور جاں بحق ہونے والوں کو دیت کے مطابق معاوضے کی سفارش کی گئی ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق ڈی آئی جی ایسٹ غلام اظفر مہیسر نے تحقیقاتی رپورٹ ایڈیشنل آئی جی کراچی کو ارسال کردی تھی جس کے بعد خوفناک آتشزدگی کے واقعے کا مقدمہ سب انسپکٹر صدرالدین میرانی کی مدعیت میں شارع فیصل تھانے میں درج کرلیا گیا تھا۔

سب انسپکٹر صدر الدین میرانی کی مدعیت میں درج مقدمے میں کہا گیا تھاکہ آگ صبح پانچ بجے لگی اور اس نے پلازے کی چھ منزلوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ آتشزدگی کے کئی گھنٹوں کے دوران عمارت میں موجود افراد لفٹ اور سیڑھیوں کی مدد سے اپنی جان بچانے کی کوشش کرتے رہے مگر راستے بند ہونے کی وجہ سے انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ عمارت میں آگ بجھانے کے آلات اور ہنگامی اخراج کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ درج مقدمے میں شبہ ظاہر کیا گیا ہے کہ عمارت کی تعمیر میں ناقص میٹریل استعمال کیا گیا اور غفلت و لاپروائی کے سبب قیمتی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔ پولیس کی تفتیش میں دیکھا جائے گا کہ فائر بریگیڈ کی کلیئرنس کس طرح دی گئی۔ اس ایف آئی آر میں شاپنگ سینٹر کا نقشہ پاس کرنے والے، ناقص میٹریل کے باوجود این او سی جاری کرنے والے ادارے اور کے الیکٹرک کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔

حصہ