آخر سب کے ہم سفر

315

بیرے نے باہر آکر پہلی بار اس سے بات کی۔ ’’مس صاحب پلنگ میں تھیں۔ اب اندر جائیے‘‘۔

’’کس طرف…؟‘‘ اس نے دریافت کیا۔

’’مس صاحب مورننگ روم میں ہیں۔ اِدھر‘‘۔

دیپالی کی سمجھ میں نہ آیا۔ شام کے وقت اگر مورننگ روم میں ہیں تو اسے ایوننگ روم کیوں نہ کہنا چاہیے۔ خیر بہرحال

بیرے نے بھاری عنابی پردہ اُٹھایا۔ وہ اندر گئی۔ پردہ اس کے پیچھے برابر ہوگیا۔ اب وہ اس بڑے کمرے میں کھڑی تھی، جس کے فرانسیسی دریچے کے نزدیک ایک کوچ پر کماری اُدما رائے شال اوڑھے آنکھیں بند کیے کشنوں کے سہارے نیم دراز تھیں۔

ارے تو یہ ہیں اُدما دیبی… اُسے ذرا سی مایوسی ہوئی۔ مگر فوراً اس نے اپنے آپ کو سمجھایا یہ میری بورژدا رومانیت ہے، میں کسی ناول کی ہیروئن کی متوقع کیوں تھی۔ ادما دیبی ایک فالتو رومانی ہیروئن کی بجائے نئے ہندستان کی نئی عورت ہیں۔ ہمیں اپنے نیتائوں کو خواہ مخواہ گلیمرائز نہیں کرنا چاہیے۔

آہٹ سن کر اُدما دیبی نے آنکھیں کھولیں اور نظر اُٹھا کر سامنے دیکھا۔

بڑے بڑے دریچوں والے کمرے میں شفق کی سہانی روشنی پھیل گئی تھی۔ کمرہ ایسا لگتا تھا، جیسے باہر باغ مین شامل ہوگیا ہے۔ ہر شے ساکت اور متحیر اور منتظر تھی۔

’’نومشکار… اُدما دیبی…‘‘
’’نوشکار… آئو… آئو… بیٹھو…‘‘
دیپالی کوچ کے مقابل ایک کرسی پر ٹک گئی۔
تب ادما رائے نے تپائی پر سے اٹھا کر عینک لگائی اور نووارد اجنبی لڑکی کو تیکھی، گہری ناقدانہ نظروں سے دیکھا۔
’’آپ کی طبیعت اب کیسی ہے ادما دیدی؟‘‘
’’کیا نام بتایا تھا تم نے… دیپالی سرکار…؟‘‘
’’جی…‘‘

’’تم… اسکول میں کون سی کلاس میں تھیں؟‘‘ ادما رائے نے عینک اُتار کر ساری کے پلّو سے صاف کرنے کے بعد دوبارہ ناک پر جمائی۔ ’’سوری میں تم کو پہچان نہیں سکی‘‘

’’جی…میں… اُدما دیدی… مجھے سریندر دا نے آپ کے پاس بھیجا ہے۔ سریندر مکر جی نے‘‘ اُس نے اپنے بیگ پر ہاتھ رکھ کر نیچی آواز میں کہا۔

’’اوہ…‘‘ ادما دیبی چونک کر اُٹھ بیٹھیں۔ ہاتھ بڑھا کر کیوپڈ اور سائیکی کے سروں پر پھیلے سبز جھالر دار شیڈ والا لیمپ روشن کیا۔ شفق کا اُجالا تیز برقی روشنی میں ڈوب گیا۔ اب باغ میں پرندے بسیرا لینے کے لیے چہچہارہے تھے۔

’’بڑی سردی ہے‘‘۔ ادما دیبی نے شال لپیٹتے ہوئے کہا۔ ’’یہ کھڑکی بند کردو‘‘۔

دیپالی نے اُٹھ کر فرانسیسی دریچے کے سلسلے وار پٹ بند کردیئے۔ اور واپس آکر کرسی پر بیٹھ گئی۔ اُدما دیبی اسے بڑے دھیان سے دیکھ رہی تھیں۔

’’تم کون ہو…‘‘
’’دیپالی سرکار…‘‘

’’صرف نام دُہرانے سے کام نہیں چلے گا۔ اس نام کے میرے لیے ابھی تک کوئی معنی نہیں ہیں۔ تفصیل سے بتائو…‘‘ اُدما رائے نے جھنجھلا کر کہا اور انگلیوں سے کنپٹیاں دبائیں۔ دیپالی جو کالج میں اُدما رائے کی سخت گیری کی حکایتیں سن چکی تھی۔ اس اندازِ گفتگو سے زیادہ نہیں گھبرائی اور اطمینان سے دوبارہ مزاج پُرسی شروع کی…‘‘ آپ کی طبیعت کیسی ہے اُدما دیدی؟‘‘

وہ خاموش رہیں۔ پھر کہا…’’کوئی پیغام لائی ہو…؟‘‘

’’جی… سریندر دا میرا کونٹیکٹ ہیں… میں کالج میں سیکنڈ ایئر میں پڑھتی ہوں۔ میرے بابا بنوئے چندر سرکار پرائیویٹ پریکٹس کرتے ہیں‘‘۔ اس نے اپنے گھر کا پتہ بتایا۔

’’کیا پیغام ہے؟‘‘ ادما دیبی نے پوچھا اور آنکھیں بند کرلیں۔

’’ریحان دا نے آپ کو خط بھجوایا ہے‘‘۔

’’ریحان دا…‘‘ وہ اب چونک کر پھر سیدھی ہو بیٹھیں۔ ریحان کا خط ہے تو اتنی دیر سے فضول باتوں میں وقت کیوں ضائع کررہی ہو… لائو…‘‘

دیپالی نے بڑے اطمینان سے بیگ کھولا۔

عین اسی وقت عنابی پردے کو جنبش ہوئی۔ سفید ساری میں ملبوس ایک باوقار معمر خاتون نے اندر جھانکا اور آواز دی۔ ’’ہائو آریو اُدما…‘‘

’’آئی ایم فائن…‘‘ ادما نے خاصی بیزاری سے جواب دیا۔ ’’میری ایک پرانی شاگرد آئی ہوئی ہے ذرا چائے بھجوادیجیے‘‘

’’اچھا…‘‘ لیکن واپس جانے کے بجائے مسز رائے اندر آگئیں۔ دیپالی نے تعظیما کھڑے ہو کر اُن کو نمسکار کیا۔

’’جیتی رہو…‘‘ دیپالی پر سرسری سی نظر ڈال کر انہوں نے اُدما کو فکر مندی سے دیکھا۔

’’دوا پی لی…؟ ڈاکٹر چٹرجی کہہ رہے تھے۔ جب تک مرض کی تشخیص نہیں ہوجاتی…‘‘

’’کتنی بار کہوں گی ماں…‘‘ اُدما نے چڑ کر مسز رائے کی بات کاٹی…‘‘ مجھے کوئی مرض ورض نہیں۔ خالی سفر کی تکان ہے۔ آپ سب جانے کیوں میرے پیچھے پڑ گئے ہیں‘‘۔

’’مسز رائے نے اس تلخ لہجے کی پرواہ کیے بغیر پھر کہا۔ ’’ہم لوگ کلب جارہے ہیں۔ وقت پر کھانا کھالینا۔‘‘ اُدما نے کوئی جواب نہیں دیا۔

مسز رائے چند سیکنڈ تک اسی طرح کھڑی رہیں۔ اور پھر کمرے سے باہر چلی گئیں۔

’’اوہ… والدین…‘‘ ادما نے پہلی بار مسکرا کر دیپالی کو دیکھا… ’’تمہارے والدین بھی اتنے صبر آزما ہیں؟‘‘

دیپالی ادما دیبی کے مزاج کی اس تبدیلی سے خوش ہوئی اور ہنس پڑی۔

’’اچھا‘‘ اُٹھو اور دروازہ بند کرکے اندر سے چٹخنی لگادو…‘‘

’’لیکن ابھی تو اُدما دی آپ نے چائے منگوائی ہے‘‘۔

’’ارے ہاں… بہت سمجھ دار بچی ہو واقعی!‘‘

’’بچی…! اُدما دی، میں اس اپریل میں انیس برس کی ہوجائوں گی‘‘۔

’’صرف انیس برس!‘‘

’’ذرا میری پشی (پھوپھی) ماں سے پوچھئے۔ اُن کو یہی غم کھائے جارہا ہے کہ میری بیاہ کی عمر ہی نکل گئی…!!‘‘دیپالی اپنے رد میں کہے گی۔ ادما دفعتاً پھر تیوی پر بل ڈال کر سنجیدہ ہوگئیں اور سُرعت سے لفافہ چاک کیا۔

سائے کی طرح بیرے نے اندر آکر چاء کی کشتی میز پر رکھی اور واپس چلا گیا۔ دیپالی نے چاء بنائی اور دروازہ اندر سے بند کیا۔ اُدما پیالی سے ایک گھونٹ بھر کر طویل خط پڑھنے میں محو ہوگئیں۔

اپنی پیالی ختم کرکے دیپالی کرسی سے اُٹھی اور ٹہل ٹہل کر دیواروں پر لگی تصویریں دیکھنے لگی۔ لارڈ بائرن، جن کے عقب میں طوفانی سمندر تھا، اور ملاح ان کی کشتی کنارے سے باندھ رہا تھا۔ اور وہ فاتح قلوب اپنی مغرور اور توانا مسکراہٹ کے ساتھ گویا اپنے قدموں پر جھکی ہوئی دنیا کا نظارہ کرنے میں مصروف تھا۔ دنیس اور ایڈونس… مسٹر پک دک… اور سیاہ پوشاک میں ملبوس ایک لرزہ خیز عورت جو ایک باریش مردہ کا بریدہ سر ہاتھوں میں لئے چیخیں مار رہی تھی۔ یہ بڑی بھیانک تصویر تھی۔

دیپالی چند لحظوں تک اس تصویر کو دیکھتے رہنے کے بعد ذرا خوفزدہ سی ہو کر اپنی کرسی پر واپس آبیٹھی۔ اُدما دیبی خط ختم کرکے گہری فکر اور پریشانی میں مبتلا آنکھیں بند کرچکی تھیں۔ باہر گھپ اندھیرا چھا گیا تھا۔ اور دریچے کے نزدیک املتاس کی ڈالیاں سرسرا رہی تھیں۔ دور سے سیزر کے بھونکنے کی آواز آئی۔ اُدما دیبی نے آنکھیں کھولیں اور دیپالی کو بڑی سوچتی ہوئی نظروں سے دیکھا۔

’’یہ کس کی تصویر ہے اُدما دی…؟‘‘ دیپالی نے پوچھا۔

’’کون سی؟‘‘

’’یہ والی…‘‘ اُس نے اشارہ کیا۔

’’نہیں جانتیں؟ انٹرمیڈیٹ میں انگریزی پڑھتی ہو یا گھاس کھودتی ہو؟‘‘

اس ڈانٹ سے واقعی وہ سہم گئی۔

’’یہ آسکر وائلڈ کی سلومے ہے‘‘۔ اُدما دیبی نے تُرشی سے کہا۔

’’یہ کر کیا رہی ہے اُدما دی؟‘‘

’’تم مجھے بہت بیوقوف معلوم ہوتی ہو‘‘ادما دیبی اُٹھ کر بیٹھ گئیں۔ ’’یا بیوقوف ہو، یا بن رہی ہو‘‘۔ مجھے اِترانے والی چبلّی لڑکیاں بہت ہی بُری معلوم ہوتی ہیں۔ انہوں نے دل میں اضافہ کیا اور کہا۔ ’’کیا تم کو نظر نہیں آیا کہ یہ کیا کررہی ہے؟‘‘

’’مگر اس کی کہانی کیا تھی ادما دی؟‘‘

’’مجھے یاد نہیں… مجھے مذہبی اساطیر سے مطلق دلچسپی نہیں ہے‘‘۔ وہ کوچ سے اُٹھ کھڑی ہوئیں‘‘۔ تم مجھ سے ڈیکیڈنٹ تصاویر پر گفتگو کرنے آئی ہو یا کچھ کام کرنا ہے؟‘‘

’’جی ادما دی!…‘‘ دیپالی پھر ہنس دی۔

یہ لڑکی خوبصورت ہے اور بیوقوف ہے۔ اس لئے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ ادما دی نے خط کو چوہرا کرکے مٹھی میں بھینا۔ مگر حصول مقصد کے لئے رِسک لینے ناگزیر ہیں۔ انہوں نے ایک گہری سانس لی اور ونڈو سیٹ پر جا بیٹھیں۔

’’اِدھر آئو۔ اور غور سے جو کچھ میں کہنے والی ہوں سنو‘‘۔ انہوں نے درشتی سے کہا۔

یکایک دیپالی کو اسی کیفیت نے آن دبوچا، جو اس پر ہال میں طاری ہوئی تھی۔ یہ میری اُستانی کبھی نہیں رہیں۔ عمر میں بہت بڑی البتہ ہیں۔ مگر مجھ پر اس طرح حکم کیوں چلا رہی ہیں؟ اِس لئے کہ رئیس زادی ہیں؟ اس نے بڑی بے خوفی سے جواب دیا۔ ’’جی ہاں… ادما دی، مگر پہلے میں آپ سے ایک بات پوچھنا چاہتی ہوں‘‘۔

’’کہو…‘‘

’’آپ اتنی بے تحاشا دولت مند ہیں۔ چپکے چپکے تحریک کی مالی مدد کیوں نہیں کرتیں؟‘‘

بیوقوف ہے۔ اسی لئے نڈر اور منھ پھٹ بھی ہے۔ ادما نے دل میں سوچا۔ پھر ایک گہری سانس لے کر اُسے جواب دیا… دیپالی۔ یہاں آن کر بیٹھو۔ ایک ایک منٹ بہت قیمتی ہے۔ (یہ لوگ ابھی تک میرے سماجی پس منظر کو معاف نہیں کرسکے۔ انہوں نے دل میں کہا) تمہارے سوال کا سیدھا سا جواب دیپالی یہ ہے کہ میں تین برس سے لندن میں تھی۔ اور چند روز قبل ڈھاکے واپس پہنچی ہوں۔ اور آٹے ہی بیمار پڑ گئی۔ ساتھیوں سے میرا پہلا رابطہ اس وقت تمہارے ذریعے قائم ہوا ہے اور ایک انتہائی اہم کام کے سلسلے میں، چناں چہ غور سے سنو‘‘۔

’’اوہ…‘‘دیپالی نے بے حد نادم ہو کر کہا۔ ’’آئی ایم سوری ادما دیدی…‘‘ وہ شرم سے پانی پانی ہوتی ونڈو سیٹ پر جا بیٹھی۔

’’اب میں چند سوال تم سے کرتی ہوں۔ سوچ سمجھ کر جواب دینا۔ کیونکہ ایک بڑی خطرناک مہم ہمارے سامنے ہے جس میں برسوں کی جیل کے علاوہ جانیں بھی جاسکتی ہیں‘‘۔ پھر وہ چند لحظوں کے لئے چُپ ہو کر پیشانی پر انگلیاں پھیرتی رہیں۔

’’بتائیے ادما دی…‘‘

’’بہت جلد اس علاقے میں کمیونسٹوں کی عام گرفتاری شروع ہونے والی ہے۔ گرفتاریوں کے متعلق اور دوسرے خفیہ احکام کی خبر لگانے کے لئے ریحان الدین احمد نے لکھا ہے کہ۔ کہ دیپالی سرکار کی مدد لی جائے‘‘۔

’’میری… میری مدد…؟‘‘دیپالی ہکا بکا رہ گئی… ’’مگر ریحان دا تو مجھے جانتے بھی نہیں ۔ شاید میرے نام سے بھی واقف نہیں ہوں گے وہ… اور… میں کیا کرسکتی ہوں بھلا… ادماں…‘‘

’’تم یہ سارا کام کس طرح کرو گی۔ اس کی تفصیل ریحان نے مجھے لکھ بھیجی ہے‘‘۔ اُدما نے لفافے پر ہاتھ رکھ دیا۔ ’’پہلے یہ بتائو انگریزی بولنی آتی ہے؟‘‘

’’جی ہاں‘‘۔

’’انگریز جب آپس میں تیز تیز بولیں تو سمجھ لوں گی…؟‘‘

’’جی ہاں۔ مس جنگز اور مس ہیڈلے ہم کو انگریزی پڑھاتی ہیں۔ اس لئے عادت ہوگئی ہے‘‘۔

’’گڈ، ہمت ہے…؟‘‘

’’جی ہاں۔ کافی ہمت ہے‘‘۔

’’ابھی تم یہاں آئیں تو تم کو کس کس نے دیکھا تھا۔ بیرے اور میری والدہ کے علاوہ‘‘۔

’’ایک کانسٹیبل اور ایک چپراسی نے…‘‘

’’میرے ماما کو پہچان سکتی ہو؟‘‘

’’شاید وہی باہر ٹہل رہے تھے۔ ایک انگریز کے ساتھ‘‘

’’ہاں۔ اسپیشل آرمڈ کانسٹیبلری والا کرسٹفر ہیگ بھی ان سے ملنے آیا ہوا ہے۔ لو یہ خط پڑھو۔ بہت غور سے پڑھنا‘‘۔

(جاری ہے)

حصہ