تیسرا حصہ
نبیؐ کا ارشاد ہے:
’’لوگوں کے اعمال ہر پیر اور جمعرات کو ہفتہ میں دو روز پیش ہوتے ہیں اور ہر مومن کو بخش دیا جاتا ہے سوائے اس کے جس کے دل میں اپنے مومن بھائی سے کوئی عداوت ہو کہا جاتا ہے کہ ان کو چھوڑ دو تاکہ یہ آپس میں صلح کرلیں‘‘۔
کسے معلوم کہ آئندہ لمحہ زندگی کا ہے یا موت کا اور کون جانتا ہے کہ اسے پیر یا جمعرات کا دن زندگی میں دیکھنا نصیب ہوگا یا نہیں تو پھر قلب کی صفائی اور دوستوں کی شکایت دور کرنے میں تاخیر کیوں اور کس امید پر؟ کامل یوم آخر پر یقین رکھنے والا ہوش مند اس کے لئے تیار ہے کہ وہ کھوٹ کھپٹ سے بھرا ہوا تاریک اور گھنائونا دل لے کر اللہ کے حضور پہنچے۔
اسی کے ساتھ ساتھ اس کا بھی خیال رکھیے کہ جب آپ کا دوست اپنی غلطی کا اعتراف کرے اور معافی چاہے تو اس کا عذر قبول کیجیے اور اس کو معاف کردیجیے۔
نبیؐ کا ارشاد ہے:
’’جس نے کسی مسلمان بھائی سے اپنی غلطی پر عذر پیش کیا اور اس نے اس کو معذور نہ سمجھا اس کے عذر کو قبول نہ کیا اس پر اتنا گناہ ہوگا جتنا ایک ناجائز محصول وصول کرنے والے پر اس ظلم و زیادتی کا گناہ ہوتا ہے‘‘۔
-15 دوستوں کی جانب سے اگر کوئی بات طبیعت اور ذوق کے خلاف بھی ہوجائے تو آپ اپنی زبان پر قابو رکھے اور جواب میں کبھی سخت کلامی یا بدزبانی نہ کیجیے بلکہ حکمت اور نرمی کے ساتھ بات کو ٹال جایئے۔
نبیؐ کا ارشاد ہے:
’’حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے پوچھا، اے میرے رب! آپ کے نزدیک آپ کے بندوں میں کون سب سے پیارا ہے، اللہ نے جواب دیا وہ جو انتقام کی قدرت رکھنے کے باوجود معاف کردے گا‘‘ (مشکوٰۃ)
اور نبیؐ نے یہ بھی فرمایا:
’’مومن کی میزان میں قیامت کے روز جو سب سے زیادہ وزنی چیز رکھی جائے گی وہ اس کا حسن اخلاق ہوگا اور اللہ کو وہ شخص بڑا ہی مبغوض ہے جو زبان سے بے حیائی کی بات نکالتا اور بدزبانی کرتا ہے‘‘۔
حضرت عبداللہ بن مبارکؓ نے حسن اخلاق کی تعریف تین باتوں سے فرمائی ہے۔
(1) جب آدمی کسی سے ملے تو ہنستے چہرے سے ملے۔
(2) اللہ کے محتاج اور ضرورت مندوں پر خرچ کرے۔
(3) اور کسی کو تکلیف نہ پہنچائے۔
حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ نبیؐ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ کی نظر میں بدترین آدمی قیامت کے روز وہ ہوگا جس کی بدزبانی اور فحش کلامی کی وجہ سے لوگ اسے ملنا چھوڑ دیں‘‘ (بخاری، مسلم)
-16 اپنے دوستوں کی اصلاح و تربیت سے کبھی غفلت نہ کیجیے اور اپنے دوستوں میں وہ بیماری کبھی نہ پیدا ہونے دیجیے جو اصلاح و تربیت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ یعنی خود پسندی اور کبر، دوستوں کو ہمیشہ آمادہ کرتے رہیے کہ وہ اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کو محسوس کریں، اپنی خطائوںکے اعتراف میں جرأت سے کام لیں اور اس حقیقت کو ہمہ وقت نگاہ میں رکھیں کہ اپنی کوتاہی کو محسوس نہ کرنے اور اپنی جرأت پر اصرار کرنے سے نفس کو غذا ملتی ہے۔
دراصل نمائشی عاجزی دکھانا، الفاظ میں حقیر کہنا، رفتار اور انداز میں خشوع کا اظہار کرنا۔ یہ نہایت آسان ہے لیکن اپنے نفس پر چوٹ سہنا، اپنی کوتاہیوں کو ٹھنڈے دماغ سے سننا اور تسلیم کرنا اور اپنے نفس کے خلاف دوستوں کی تنقید برداست کرنا انتہائی مشکل کام ہے لیکن حقیقی دوست وہی ہیں جو بیدار ذہن کے ساتھ ایک دوسرے کی زندگی پر نگاہ رکھیں اور اس پہلو سے ایک دوسرے کی تربیت و اصلاح کرتے ہوئے کبر اور خود پسندی سے بچاتے رہیں۔
نبیؐ فرماتے ہیں:
’’تین باتیں ہلاکت میں ڈالنے والی ہیں۔
(1) ایسی خواہش کہ انسان اس کا تابع اور غلام بن کر رہ جائے۔
(2) ایسی حرص جس کو پیشوا مان کر آدمی اس کی پیروی کرنے لگے۔
(3) خود پسندی… اور یہ بیماری ان تینوں میں سب سے زیادہ خطرناک ہے‘‘ (بیہقی، مشکوٰۃ)
تنقید اور احتساب ایک ایسا نشتر ہے جو اخلاقی وجود کی تمام فاسد مادوں کو باہر پھینکتا ہے اور اخلاقی توانائیوں میں خاطر خواہ اضافہ کرکے فرد اور معاشرے میں نئی زندگی کی روح پھونک دیتا ہے۔ دوستوں کے احتساب اور تنقید پر بپھرنا، ناک بھنوں چڑھانا اور خود کو اس سے بے نیاز سمجھنا بھی ہلاکت ہے اور اس خوشگوار فریضے کو ادا کرنے میں کوتاہی برتنا بھی ہلاکت ہے۔ دوستوں کے دامن پر گھنائونے دھبے نظر آئیں تو بے چینی محسوس کیجیے اور انہیں صاف کرنے کی حکیمانہ تدبیریں کیجیے اور اسی طرح خود بھی فراخ دلی اور عاجزی کے ساتھ دوستوں کو یہ موقع دیجیے کہ وہ آپ کے داغ دھبوں کو آپ پر نمایاں کریں اور جب وہ یہ تلخ فریضہ انجام دیں تو اپنے نفس کو بھلانے کے بجائے انتہائی عالی ظرفی، خوش دلی اور احسان مندی کے جذبات سے ان کی تنقید کا استقبال کیجیے اور ان کے اخلاص و کرم کا شکریہ ادا کیجیے۔ نبیؐ نے مثالی دوستی کی اس کیفیت کو ایک بلیغ تمثیل سے اس طرح واضح فرمایا:
’’تم میں سے ہر ایک ’’اپنے بھائی کا آئینہ‘‘ ہے پس اگر وہ اپنے بھائی میں کوئی خرابی دیکھے تو اسے دور کردے‘‘ (ترمذی)
اس تمثیل میں پانچ ایسے روشن اشارے ملتے ہیں جس کو پیش نظر رکھ کر آپ اپنی دوستی کو واقعی مثالی دوستی بناسکتے ہیں۔
(1) آئینہ آپ کے داغ دھبے اسی وقت ظاہر کرتا ہے جب آپ اپنے داغ دھبے دیکھنے کے ارادے سے اس کے سامنے جاکھڑے ہوتے ہیں اور جب آپ اس کے سامنے سے ہٹ جاتے ہیں تو وہ بھی مکمل خاموشی اختیار کرلیتا ہے۔
اسی طرح آپ بھی دوست کے عیوب اسی وقت واضح کریں جب وہ خود کو تنقید کے لئے آپ کے سامنے پیش کرے اور فراخ دلی سے تنقید و احتساب کا موقع دے اور آپ بھی محسوس کریں کہ اس وقت اس کا ذہن تنقید سننے کے لئے تیار ہے اور دل میں اصلاح قبول کرنے کے لئے جذبات موجزن ہیں اور اگر آپ یہ کیفیت نہ پائیں تو حکمت کے ساتھ اپنی بات کو کسی اور موقع کے لئے اٹھا رکھیں اور خاموشی اختیار کریں اور اس کی غیر موجودگی میں تو اس قدر احتیاط کریں کہ آپ کی زبان پر کوئی ایسا لفظ بھی نہ آئے جس سے اس کے کسی عیب کی طرف اشارہ ہوتا ہو اس لئے کہ یہ غیبت ہے اور غیبت سے دل جڑتے نہیں بلکہ پھٹتے ہیں۔
(2) آئینہ چہرے کے انہی داغ دھبوں کی صحیح صحیح تصویر پیش کرتا ہے جو فی الواقع چہرے پر موجود ہوتے ہیں۔ نہ وہ کم بتاتا ہے اور نہ وہ ان کی تعداد کو بڑھا کر پیش کرتا ہے۔ پھر وہ چہرے کے صرف انہی عیوب کو نمایاں کرتا ہے جو اس کے سامنے آتے ہیں، وہ چھپے ہوئے کا تجسس نہیں کرتا اور نہ کرید کرید کر عیوب کی کوئی خیالی تصویر پیش کرتا ہے۔ اسی طرح آپ بھی اپنے دوست کے عیوب بلاکم و کاست بیان کریں نہ تو بے جا مروت اور خوشامد میں عیوب چھپائیں اور نہ اپنی خطابت اور زور بیان سے اس میں اضافہ کریں اور پھر صرف وہی عیوب بیان کریں جو عام زندگی سے آپ کے سامنے آئیں۔ تجسس اور ٹوہ میں نہ لگیں پوشیدہ عیبوں کو کریدنا کوئی اخلاقی خدمت نہیں بلکہ ایک تباہ کن اور اخلاق سوز عیب ہے۔
نبیؐ ایک بار منبر پر چڑھے اور نہایت اونچی آواز میں آپؐ نے حاضرین کو تنبیہ فرمائی۔
’’مسلمانوں کے عیوب کے پیچھے نہ پڑو جو شخص اپنے مسلمان بھائیوں کے پوشیدہ عیوب کے درپے ہوتا ہے تو پھر اللہ اس کے پوشیدہ عیوب کو طشت از بام کرنے پر تل جاتا ہے اور جس کے عیب افشا کرنے پر خدا تل جائے تو وہ اس کو رسوا کرکے ہی چھوڑتا ہے اگرچہ وہ اپنے گھر کے اندر گھس کر ہی کیوں نہ بیٹھ جائے‘‘ (ترمذی)
(3)آئینہ غرض سے پاک ہوکر بے لاگ انداز میں اپنا فرض ادا کرتا ہے اور جو شخص بھی اس کے سامنے اپنا چہرہ پیش کرتا ہے وہ بغیر کسی غرض کے اس کا صحیح صحیح نقشہ اس کے سامنے رکھ دیتا ہے نہ وہ کسی سے بغض اور کینہ رکھتا ہے اور نہ کسی سے انتقام لیتا ہے۔ آپ بھی ذاتی اغراض، جذبہ انتقام، بغض و کینہ اور ہر طرح کی بدنیتی سے پاک ہوکر بے لاگ احتساب کیجیے اور اس لئے کیجیے کہ آپ کا دوست اپنے کو سنوار لے جس طرح آئینہ کو دیکھ کر آدمی اپنے کو سنوار لیتا ہے۔
(4)آئینہ میں اپنی صحیح تصویر دیکھ کر نہ تو کوئی جھنجھلاتا ہے اور نہ غصے سے بے قابو ہوکر آئینہ توڑ دینے کی حماقت کرتا ہے، بلکہ فوراً اپنے کو سنوارنے میں لگ جاتا ہے اور دل ہی دل میں آئینے کی قدر و قیمت محسوس کرتے ہوئے زبان حال سے اس کا شکریہ ادا کرتا ہے اور کہتا ہے واقعی آئینے نے میرے بنانے سنوارنے میں میری بڑی مدد کی اور فطری فریضہ انجام دیا اور پھر نہایت احتیاط کے ستھ دوسرے وقت کے لئے اس کو بحفاظت رکھ دیتا ہے، اسی طرح آپ کا دوست اپنے الفاظ کے آئینے میں آپ کے سامنے آپ کی صحیح تصویر رکھے تو جھنجھلا کر دوست پر جوابی حملہ نہ کریں، بلکہ اس کے شکر گزار ہوں کہ اس نے دوستی کا حق ادا کیا اور نہ صرف زبان سے بلکہ دل سے اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اسی لمحے سے اپنی اصلاح و تربیت کے لئے فکرمند ہوجائیں اور انتہائی فراخ دلی اور احسان مندی کے ساتھ دوست کی قدر و عظمت محسوس کرتے ہوئے اس سے درخواست کریں کہ آئندہ بھی وہ آپ کو اپنے قیمتی مشوروں سے نوازتا رہے۔
(5) اور آخری اشارہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں سے ہر ایک ’’اپنے بھائی کا آئینہ‘‘ ہے اور بھائی بھائی کے لئے اخلاص و محبت کا پیکر ہوتا ہے، وفادار اور خیر خواہ ہوتا ہے، ہمدرد اور غم گسار ہوتا ہے، بھائی کو مصیبت میں دیکھ کر تڑپ اٹھتا ہے اور خوش دیکھ کر باغ باغ ہوجاتا ہے اس لئے بھائی اور دوست جو تنقید کرے گا اس میں انتہائی دل سوزی اور غم خواری ہوگی، محبت اور خلوص ہوگا، بے پایاں درد مندی اور خیر خواہی ہوگی اور لفظ لفظ جذبہ اصلاح کا آئینہ ہوگا اور ایسی تنقید سے دلوں کو جوڑنے اور زندگیوں کو بنانے کی توقع کی جاسکتی ہے۔
-17 دوستوں سے خلوص و محبت کا اظہار کرنے اور محبت کو اور زیادہ بڑھانے کے لئے ہدیوں اور تحفوں کا تبادلہ بھی کیجئے۔ ہدیوں کے لینے دینے سے دل جڑتے ہیں اور محبتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔
نبیؐ کا ارشاد ہے: ’’ایک دوسرے کو ہدیہ بھیجا کرو تو آپس میں محبت پیدا ہوگی اور دلوں کی کدورت جاتی رہے گی‘‘ (مشکوٰۃ)
نبیؐ خود اپنے اصحابؓ کو کثرت سے ہدیے دیتے تھے اور آپؐ کے صحابہؓ بھی آپس میں کثرت سے ایک دوسرے کو ہدیے اور تحفے دیتے رہتے تھے۔
ہدیہ دیتے وقت اپنی حیثیت کو سامنے رکھیے اور یہ نہ سوچیے کہ آپ جس کو ہدیہ دیں قیمتی ہدیہ دیں، جو میسر ہو دیجئے، ہدیہ کے قیمتی ہونے نہ ہونے کا انحصار آپ کے اخلاص اور جذبات پر ہے اور یہی اخلاص و جذبات دلوں کو جوڑتے ہیں۔ ہدیے کی قیمت نہیں جوڑتی، اسی طرح دوست کے ہدیے کو بھی کبھی حقیر نہ سمجھیے اس کے اخلاص و محبت پر نگاہ رکھیے۔
نبیؐ کا ارشاد ہے: ’’اگر مجھے تحفے میں کوئی بکری کا ایک پایا بھی پیش کرے تو میں ضرور قبول کروں گا۔ اگر کوئی دعوت میں ایک پایا ہی کھلائے تو میں ضرور اس کی دعوت میں جائوں گا‘‘ (ترمذی)
ہدیے کے بدلے میں ہدیہ ضرور دیجئے۔ نبیؐ اس کا اہتمام فرماتے تھے۔ آپؐ کے نزدیک پسندیدہ تحفہ، خوشبو کا تحفہ تھا۔ آپ بھی اس تحفے کو پسندیدہ سمجھیے اور آج کے حالات میں کتاب بھی بہترین تحفہ ہے۔
اسی سلسلہ میں کبھی کبھی ساتھ مل کر کھانے پینے کا بھی اہتمام کیجیے۔ دوستوں کو اپنے یہاں کھانے پر بلایئے، دوست احباب دعوت کریں تو نہایت خوشی سے ان کی یہاں جایئے۔ اس سے بھی محبت اور خلوص کے جذبات بڑھتے اور مستحکم ہوتے ہیں البتہ اس طرح کے مواقع پر غیر معمولی تکلفات برتنے اور سامان خوردونوش میں فراوانی دکھانے کے بجائے آپ اخلاص و محبت کے جذبات کی مقدار بڑھانے پر زیادہ توجہ دیجیے۔
-18 دوستوں کی خبر گیری کیجیے۔ ضرورتوں میں ان کے کام آیئے اور ہر طرح جان و مال سے ان کی مدد کیجیے۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے پاس ایک آدمی آیا اور پوچھا کہ لوگوں میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ آپ نے جواب دیا:
’’تمام لوگوں میں اللہ کے نزدیک محبوب وہ آدمی ہے جو انسانوں کو زیادہ نفع پہنچانے والا ہو اور اعمال میں اللہ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ یہ ہے کہ تو کسی مسلمان کو خوش کردے۔ اس طرح کہ اس کی مصیبت و مشکل دور کرے یا اس کی بھوک مٹادے اور یہ بات کہ میں کسی بھائی کے ساتھ اس کی ضرورت پوری کرنے کے لیے جائوں مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ میں (نبیؐ کی) اس مسجد میں اعتکاف کروں اور جس شخص نے اپنا غصہ اس حال میں پی لیا کہ اگر وہ چاہتا تو اپنے غصے کو پورا کرلیتا تو قیامت کے روز اللہ اس کے دل کو اپنی خوش نودی سے بھردے گا اور جو اپنے بھائی کے ساتھ اس کی ضرورت پوری کرنے کی خاطر چلا اور اس کی وہ ضرورت پوری کردی تو اللہ اس کے دونوں قدموں کو اس دن ثبات بخشے گا جب قدم لڑ کھڑا رہے ہوں گے‘‘۔
(جاری ہے)