جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
علامہ اقبال
…٭…
یہی جمہوریت کا نقص ہے جو تخت شاہی پر
کبھی مکار بیٹھے ہیں کبھی غدار بیٹھے ہیں
ڈاکٹر اعظم
…٭…
جمہوریت کا درس اگر چاہتے ہیں آپ
کوئی بھی سایہ دار شجر دیکھ لیجئے
عاجز ماتوی
…٭…
کبھی جمہوریت یہاں آئے
یہی جالبؔ ہماری حسرت ہے
حبیب جالب
…٭…
الطاف حسین حالی
حق وفا کے جو ہم جتانے لگے
آپ کچھ کہہ کے مسکرانے لگے
تھا یہاں دل میں طعن وصل عدو
عذر ان کی زباں پہ آنے لگے
ہم کو جینا پڑے گا فرقت میں
وہ اگر ہمت آزمانے لگے
ڈر ہے میری زباں نہ کھل جائے
اب وہ باتیں بہت بنانے لگے
جان بچتی نظر نہیں آتی
غیر الفت بہت جتانے لگے
تم کو کرنا پڑے گا عذر جفا
ہم اگر درد دل سنانے لگے
سخت مشکل ہے شیوۂ تسلیم
ہم بھی آخر کو جی چرانے لگے
جی میں ہے لوں رضائے پیر مغاں
قافلے پھر حرم کو جانے لگے
سر باطن کو فاش کر یا رب
اہل ظاہر بہت ستانے لگے
وقت رخصت تھا سخت حالیؔ پر
ہم بھی بیٹھے تھے جب وہ جانے لگے
اختر الایمان
کوئی جو رہتا ہے رہنے دو مصلحت کا شکار
چلو کہ جشن بہاراں منائیں گے سب یار
چلو نکھاریں گے اپنے لہو سے عارض گل
یہی ہے رسم وفا اور منچلوں کا شعار
جو زندگی میں ہے وہ زہر ہم بھی پی ڈالیں
چلو ہٹائیں گے پلکوں سے راستوں کے خار
یہاں تو سب ہی ستم دیدہ غم گزیدہ ہیں
کرے گا کون بھلا زخم ہائے دل کا شمار
چلو کہ آج رکھی جائے گی نہاد چمن
چلو کہ آج بہت دوست آئیں گے سر دار
…٭…
امیر مینائی
اچھے عیسیٰ ہو مریضوں کا خیال اچھا ہے
ہم مرے جاتے ہیں تم کہتے ہو حال اچھا ہے
تجھ سے مانگوں میں تجھی کو کہ سبھی کچھ مل جائے
سو سوالوں سے یہی ایک سوال اچھا ہے
دیکھ لے بلبل و پروانہ کی بیتابی کو
ہجر اچھا نہ حسینوں کا وصال اچھا ہے
آ گیا اس کا تصور تو پکارا یہ شوق
دل میں جم جائے الٰہی یہ خیال اچھا ہے
آنکھیں دکھلاتے ہو جوبن تو دکھاؤ صاحب
وہ الگ باندھ کے رکھا ہے جو مال اچھا ہے
برق اگر گرمئ رفتار میں اچھی ہے امیرؔ
گرمی حسن میں وہ برق جمال اچھا ہے
…٭…
احمد ندیم قاسمی
اب تو شہروں سے خبر آتی ہے دیوانوں کی
کوئی پہچان ہی باقی نہیں ویرانوں کی
اپنی پوشاک سے ہشیار کہ خدام قدیم
دھجیاں مانگتے ہیں اپنے گریبانوں کی
صنعتیں پھیلتی جاتی ہیں مگر اس کے ساتھ
سرحدیں ٹوٹتی جاتی ہیں گلستانوں کی
دل میں وہ زخم کھلے ہیں کہ چمن کیا شے ہے
گھر میں بارات سی اتری ہوئی گل دانوں کی
ان کو کیا فکر کہ میں پار لگا یا ڈوبا
بحث کرتے رہے ساحل پہ جو طوفانوں کی
تیری رحمت تو مسلم ہے مگر یہ تو بتا
کون بجلی کو خبر دیتا ہے کاشانوں کی
مقبرے بنتے ہیں زندوں کے مکانوں سے بلند
کس قدر اوج پہ تکریم ہے انسانوں کی
ایک اک یاد کے ہاتھوں پہ چراغوں بھرے طشت
کعبۂ دل کی فضا ہے کہ صنم خانوں کی
…٭…
احمد فراز
آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا
وقت کا کیا ہے گزرتا ہے گزر جائے گا
اتنا مانوس نہ ہو خلوت غم سے اپنی
تو کبھی خود کو بھی دیکھے گا تو ڈر جائے گا
ڈوبتے ڈوبتے کشتی کو اچھالا دے دوں
میں نہیں کوئی تو ساحل پہ اتر جائے گا
زندگی تیری عطا ہے تو یہ جانے والا
تیری بخشش تری دہلیز پہ دھر جائے گا
ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فرازؔ
ظالم اب کے بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا
…٭…
احمد مشتاق
مل ہی جائے گا کبھی دل کو یقیں رہتا ہے
وہ اسی شہر کی گلیوں میں کہیں رہتا ہے
جس کی سانسوں سے مہکتے تھے در و بام ترے
اے مکاں بول کہاں اب وہ مکیں رہتا ہے
اک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے
اور اب کوئی کہیں کوئی کہیں رہتا ہے
روز ملنے پہ بھی لگتا تھا کہ جگ بیت گئے
عشق میں وقت کا احساس نہیں رہتا ہے
دل فسردہ تو ہوا دیکھ کے اس کو لیکن
عمر بھر کون جواں کون حسیں رہتا ہے
…٭…
انور مسعود
ہے آپ کے ہونٹوں پہ جو مسکان وغیرہ
قربان گئے اس پہ دل و جان وغیرہ
بلی تو یوں ہی مفت میں بدنام ہوئی ہے
تھیلے میں تو کچھ اور تھا سامان وغیرہ
بے حرص و غرض قرض ادا کیجیے اپنا
جس طرح پولیس کرتی ہے چالان وغیرہ
اب ہوش نہیں کوئی کہ بادام کہاں ہے
اب اپنی ہتھیلی پہ ہیں دندان وغیرہ
کس ناز سے وہ نظم کو کہہ دیتے ہیں نثری
جب اس کے خطا ہوتے ہیں اوزان وغیرہ
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
گھوڑوں کی طرح بکتے ہیں انسان وغیرہ
ہر شرٹ کی بوشرٹ بنا ڈالی ہے انورؔ
یوں چاک کیا ہم نے گریبان وغیر
…٭…
عبدالصمد جاوید
زمانے کی یہ حالت انقلابی ہم نے دیکھی ہے
غریبی ہم نے دیکھی ہے نوابی ہم نے دیکھی ہے
اڑاتے پھر رہے ہیں خاک ویراں ریگزاروں کی
مہ و انجم کی صدیوں ہم رکابی ہم نے دیکھی ہے
چھلکتے جام جن ہاتھوں میں ہر دم رقص کرتے تھے
انہیں ہاتھوں میں اب خالی گلابی ہم نے دیکھی ہے
ہم اپنے گاؤں میں جس کا تصور کر نہیں سکتے
بڑے شہروں میں اتنی بے حجابی ہم نے دیکھی ہے
جواں اپنے مقدر پر بھروسہ کرکے بیٹھے ہیں
مشقت میں ہمیشہ کامیابی ہم نے دیکھی ہے
بسیرا ہے ہمارا ان دنوں فٹ پاتھ پر ہے سچ
یہ کل کی بات ہے عزت مآبی ہم نے دیکھی ہے
…٭…
قابل اجمیری
حیرتوں کے سلسلے سوز نہاں تک آ گئے
ہم نظر تک چاہتے تھے تم تو جاں تک آ گئے
نا مرادی اپنی قسمت گمرہی اپنا نصیب
کارواں کی خیر ہو ہم کارواں تک آ گئے
ان کی پلکوں پر ستارے اپنے ہونٹوں پہ ہنسی
قصۂ غم کہتے کہتے ہم کہاں تک آ گئے
زلف میں خوشبو نہ تھی یا رنگ عارض میں نہ تھا
آپ کس کی آرزو میں گلستاں تک آ گئے
رفتہ رفتہ رنگ لایا جذبۂ خاموش عشق
وہ تغافل کرتے کرتے امتحاں تک آ گئے
خود تمہیں چاک گریباں کا شعور آ جائے گا
تم وہاں تک آ تو جاؤ ہم جہاں تک آ گئے
آج قابلؔ مے کدے میں انقلاب آنے کو ہے
اہل دل اندیشۂ سود و زیاں تک آ گئے