کہتے ہیں کہ بڑھتی ہوئی آبادی ہمارا گمبھیر مسئلہ ہے۔ آبادی پر کنٹرول سے بے شمار مسئلے حل ہوسکتے ہیں۔ مشاہدہ ہے کہ چین، جاپان اور ہندوستان بھی تو بڑی آبادی والے ملک ہیں اور ہم سے بہت آگے ہیں۔ صدر ایوب جب چین کے دورے پر گئے تو سڑکوں، بازاروں میں لوگوں کے ہجوم دیکھ کر بہت حیران ہوئے کہ اتنی بڑی آبادی والے ملک میں ترقی کی رفتار اس قدر تیز کیسے ہوسکتی ہے! مگر چینی لیڈروں کا یقین اس امر پر ہم سے کہیں زیادہ مضبوط اور پکا تھا کہ اگر ملک کا نظام انصاف پر مبنی ہو تو افراد کی کثرت ملک کو تنزل کے بجائے ترقی کی شاہراہ پر گامزن کردیتی ہے۔
اگر ہم اپنے ملک پاکستان کی بات کریں تو پاکستان اس وقت متعدد مسائل کا شکار ہے۔ ناانصافی پر مبنی جو نظام یہاں رائج ہے اس میں وسائل کی کمی شدت سے نظر آرہی ہے۔ بڑے اور گمبھیر مسئلوں کے ساتھ ایک اہم اور بڑا مسئلہ ٹریفک کا نظام ہے جو کہ انتہائی ہولناک اور پریشان کن مناظر پیش کررہا ہے۔
پاکستان میں ٹریفک کی سرے سے کوئی ترتیب ہے نہ کسی کو ٹریفک کے قوانین سے دل چسپی، اور نہ کبھی کسی نے اس کی بہتری کے لیے سوچا۔ ہم بات کررہے ہیں پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے ٹریفک نظام کی۔
گزشتہ دنوں بلومبرگ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ دنیا کے 100 شہروں میں موجود ٹرانسپورٹ کے نظام میں کراچی کا نظام بدترین ہے۔ ظاہر ہے ہمارے لیے یہ بات بہت زیادہ حیرانی کا باعث نہیں ہے۔
کراچی میں سڑکوں کا جال تقریباً 10ہزار کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ اس میں موجود کئی اہم شاہراہیں اور انہیں ملانے والی سڑکیں تباہ حالی کا شکار ہیں۔ مثال کے طور پر شاہراہِ اورنگی کا حال بہت خراب ہے۔ اورنگی ٹاؤن میں 15 لاکھ سے زیادہ افراد رہائش پذیر ہیں جو نصف صدی گزرنے کے بعد بھی ٹرانسپورٹ کی بہتر سہولت سے محروم ہیں۔ اس علاقے کی کئی اہم سڑکیں اب کسی کچی سڑک کا منظر پیش کررہی ہیں جہاں گاڑیوں کو نقصان پہنچنا اب معمول بن چکا ہے۔
لیاری، بلدیہ اور گلستانِ جوہر جیسے دیگر بڑے علاقوں میں بھی صورت حال اس سے مختلف نہیں ہے۔ حکام سڑکوں کی مرمت نہ ہونے کی وجہ فنڈز کی عدم دستیابی بتاتے ہیں۔ اگر اس وجہ کو تسلیم کرلیا جائے تو پھر عوامی مفاد کو نظرانداز کرکے صرف وی آئی پی موومنٹ کی وجہ سے ہنگامی طور پر سڑکوں کی مرمت کیسے ہوجاتی ہے؟ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے شہر کی سڑکیں ٹوٹ پھوٹ اور ابتری کا شکار ہیں۔ اس کے علاوہ کراچی کی سڑکوں پر اس وقت صرف 1029 پبلک بسیں چل رہی ہیں جس میں پیپلز بس سروس کی 240 بسیں، بی آر ٹی کی 100 بسیں اور نجی شعبے کی 689 پرانی کھٹارا بسیں شامل ہیں۔
عالمی بینک کی رپورٹ کی روشنی میں کراچی میں ٹرانسپورٹ کی کمی کو پورا کرنے کے لیے مزید 13000 بسوں کی ضرورت ہے۔
کراچی میں زیادہ تعداد میں نجی گاڑیوں کی موجودگی اور اشاروں کی عدم پابندی کی وجہ سے ٹریفک جام کی صورت حال رہتی ہے۔ اس کے نتائج میں سفر کی کمیت اور وقت کا ضائع ہونا شامل ہوتا ہے۔
شہر قائد میں عوامی نقل و حمل کی کمیت کا مسئلہ سنگین ہے۔ زیادہ تعداد میں لوگ نجی گاڑیوں کا استعمال کرتے ہیں جس سے ٹریفک اور پارکنگ کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
اس طرح عوامی نقل و حمل کے وسائل کی سیکورٹی اور سیفٹی کے مسائل بھی اہم ہیں۔ چوریوں اور دھمکیوں کی صورت میں سفر کرنے والوں کی حفاظت کی ضمانت دینا ضروری ہے۔
حکومت اور عوامی نقل و حمل کی تنظیمات کو بہتر بنانے کے لیے کئی اقدامات اور منظم اصول اختیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ شہر کے لوگوں کو نقل و حمل کی بہترین فراہمی ہوسکے اور ٹریفک جام جیسے مسائل کا حل نکل سکے۔
حکومتی سطح پر، موجودہ عوامی نقل و حمل کی بنیاد کو ترقی دینا اہم ہوتا ہے۔ بسوں، ٹرینوں اور میٹرو سروسز کو موزوں اور ترقی یافتہ بنانا اہم ہے۔ مؤثر عوامی نقل و حمل کے نظام کے لیے ریڈار ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا بہترین ترتیب دینے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ GPS اور انٹرنیٹ کی مدد سے ریل گاڑیوں اور بسوں کو ریڈار کرنے میں مدد ملتی ہے اور سفر کی منظوری کا وقت بھی معلوم کیا جا سکتا ہے۔
عوامی نقل و حمل کے لیے ترقی یافتہ اور صاف اور خوب صورت اڈے کی تعمیر بھی اہم ہے تاکہ مسافر کو آرام دہ سفر فراہم کیا جا سکے۔
مسافروں کو سیکورٹی کے معائنے اور عوامی نقل و حمل کے اشاروں کی تعلیم دینا بھی اہم ہے تاکہ حوادث سے بچا جا سکے اور مسافروں کی حفاظت ممکن ہو۔
ٹریفک کے نظام کی بہتری اور توانائی کی بچت کے لیے ماحولیاتی تدابیر اپنانا بھی اہم ہے، جیسے کہ CNG یا برقی گاڑیاں استعمال کرنا۔
تحقیق بتاتی ہے کہ کراچی کے ٹرانسپورٹ کے مسائل کا حل ایک بہتر انداز میں چلنے والا بسوں کا منصوبہ ہے جس کے لیے بہت بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ بسوں کا یہ نظام کسی نئے انفرا اسٹرکچر کی تعمیر کے بغیر بھی کام کرسکتا ہے اور سڑکوں کی عمومی مرمت اور دیکھ بھال ان بسوں کے چلنے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ شہر میں پہلے ہی 32 ٹرمینل موجود ہیں جو بسوں کے بیڑے میں اضافے کے لیے مددگار ہوسکتے ہیں۔
اگرچہ شہر نے بس ریپڈ ٹرانزٹ (BRT) اور دیگر ٹرانسپورٹ اقدامات متعارف کرانے کے لیے کچھ کوششیں کی ہیں، لیکن شہر کراچی کی طلب کو پورا کرنے کے لیے بسوں کے بہت بڑے بیڑے کی ضرورت ہے۔ تاہم بسوں کی کم ہوتی ہوئی تعداد اور موٹر سائیکلوں، نجی اور پرائیویٹ گاڑیوں کا بڑھتا ہوا غلبہ شہر کے نقل و حمل کے بحران کو بڑھا رہا ہے۔
اس وقت کراچی کو ٹرانسپورٹ کے بہتر منصوبوں کی ضرورت ہے۔ سڑکوں اور بسوں کے اچھے اور سستے ذریعے سے ہم پیٹرولیم اور گاڑیوں کے پارٹس کی مد میں اپنا زرمبادلہ بھی بچا سکتے ہیں اور عوام کو آسانی بھی فراہم کرسکتے ہیں، بس اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔