سنا ہے

179

’’آجا یار! تجھے گول گپے کھلاؤں۔‘‘ کراچی کے مشہور گول گپے والے کے سامنے سے گزرتے ہوئے میں نے اپنے جگری دوست فرحان کو بائیک روکنے کا کہا۔

ہم گول گپے کا آرڈر دے کر انتظار کررہے تھے۔ سٹنگ ایریا تو بھرا ہوا تھا لہٰذا بائیک پر ہی کھانے کا سوچا۔ میں نے کہا ’’یار اسے اپنی جگہ بڑھانی چاہیے، رش اتنا ہے اور آدھے سے زیادہ تو کھڑے ہوکر ہی کھا رہے ہیں۔‘‘

فرحان نے افسردگی سے کہا ’’بڑھائی تو تھی بے چارے نے، مگر وائے قسمت…‘‘

’’بڑھائی تھی؟‘‘ میں نے سوال کیا۔

’’تجھے نہیں پتا؟‘‘ میں نے نفی میں سر ہلایا تو فرحان سرگوشی میں بولا ’’اس نے برابر میں ایک نئی شاپ لی تھی، سٹنگ ایریا بھی کلاسیکل بنایا تھا… مگر یار وہی پرچی… پرچی پر پرچی آتی رہی، اس نے کچھ دے دلا کر جان چھڑانی چاہی، لیکن قسمت اس کے وہ روپے دینے پر بھی مہربان نہ ہوئی، اور مطلوبہ رقم نہ پانے پر اس کے بھائی کو خالقِ حقیقی سے ملا گئی۔ بہت مشہور ہوئی تھی یہ بات، تجھے نہیں معلوم حیرت ہے؟‘‘

’’او ہو… تو کب ہوا یہ؟ میرے علم میں تو نہیں۔‘‘

’’اب تو نو دس سال ہوگئے ہوں گے اس بات کو۔‘‘

فرحان نے کہا تو میں بولا ’’تو اتنے ٹائم کے بعد دوبارہ نہیں کرلینا چاہیے تھا اس کو۔‘‘

’’یار! کون اپنے پیارے کے نقصان کے بعد کچھ سوچے گا!‘‘

میں گویا ہوا ’’یار! عجیب حال ہے اس شہر کا۔ جو ترقی کرے اس کی ٹانگ کھینچ لی جاتی ہے۔ یار وہ ابھی الیکشن ہے نا ڈیڑھ ماہ بعد، تو میرے ابا کی مارکیٹ میں بھی چوری، ڈکیتی شروع ہو گئی ہے۔ ہم نے تو بول دیا ابا خدارا دے دینا، سوچنا نہیں۔‘‘

فرحان بولا ’’یار! یہاں جو اِسی شہر کے لیے کمائے اس کو عزت سے جینے نہیں دے رہے۔ غریب تو ویسے بھی اب کہیں کا نہیں رہا… بچے کے لیے دودھ لے یا اپنے لیے آٹا؟ اسی چکی میں پیس دیا ہے اس مہنگائی نے۔ میرے ہاں کل مزدور کے ساتھ اس کا بچہ آیا تھا، کڑک روٹی کا ٹکڑا اس کے ہاتھ میں تھا۔ میرے پوچھنے پر مزدور نے مسکرا کر کہا: رات سے لے کر سویا ہوا ہے کہ صبح اٹھ کر چائے سے کھائے گا۔ میرا دل کٹ سا گیا۔‘‘

’’صحیح کہہ رہے ہو یار! کیا زندگی ہوگئی ہے! یہ روشنیوں کا شہر تھا، سابقہ دارالحکومت۔ کیا مقدر ہے شہر کا!‘‘

فرحان بولا ’’بھائی ہم نے تو سنا ہی ہے یہ ایسا شہر تھا، ویسا شہر تھا، جو آیا، کھا کے ہی گیا۔ سنا ہی ہے یا کبھی تُو نے دیکھا اس کو ترقی کی راہ پر گامزن ہوتے ہوئے، یا خوشی کا دم بھرتے ہوئے؟‘‘

’‘کہہ تو ٹھیک رہا ہے… سنا ہی ہے، لیکن میرے ابا بتا رہے تھے کہ نعمت اللہ خان کا دور ہمارے لیے خوش آئند اور نئی کونپلوں کی امیدیں لیے ہوئے تھا۔ بڑے بڑے پروجیکٹ اُن کے دور میں تکمیل کو پہنچے اور ہر شعبے کو سنوارنے میں انہوں نے اپنا کردار ادا کیا، اور ویسے بھی میں نے سوچ لیا ہے ان سب کو آزما کر ملا کیا ہے؟ اور جب سب کو آزما لیا تو ایک بار یہ ترازو بھی سہی، ان کے دعوے کی بھی ذرا آزمائش ہو جائے تو اچھا ہے۔‘‘

فرحان بولا ’’آزمائش کیا، یہ لوگ تو ویسے بھی ہر فیلڈ کو کور اَپ کرچکے ہیں۔ تعلیم ہو یا پانی بجلی کے مسائل، اور سب سے بڑھ کر جس وجہ سے میں ان کو ووٹ دینے کا سوچ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ یہ فلسطین کے لیے کھڑے ہیں۔ باقی سب تو باتیں ہی باتیں کرتے ہیں یا سیاست چمکاتے ہیں۔ شاید قیادت بدلے تو ہماری آواز کو بھی مشترکہ قوت ملے۔‘‘
فرحان کی یہ باتیں سن کر میں نے اس سے پُرعزم انداز میں کہا ’’چل بھائی! اس گول گپے والے کے بھائی کی قسم، ہم ووٹ اِس بار ترازو کو دیں گے تاکہ جو سنا ہے وہ اپنی آنکھوں سے دیکھیں… سنا ہے کراچی روشنیوں کا شہر تھا، اس شہر کو اپنے ووٹ سے پھر روشن کریں گے اِن شاء اللہ۔‘‘

حصہ