یادوں کا سفر

220

وہ معمول کے مطابق ایک صبح تھی، میں جلدی جلدی تیار ہوکر اسکول کے لیے روانہ ہوگئی (میں اسکول میں پڑھاتی تھی)۔ راستے میں میرے فون کی گھنٹی مسلسل بجتی جارہی تھی اور میں سوچ رہی تھی کہ آخر اس وقت کون ہے؟

اسکول پہنچ کر فون چیک کیا تو میرے بھائی کا فون تھا۔

ابھی دو دن پہلے ہی تو مل کر… ’’اللہ خیر کرے‘‘۔ میرے دل سے آواز نکلی۔ جلدی سے فون ملایا اور ’’یہ کیا…؟کککک کیا کہہ رہے ہو بھائی؟‘‘ میرے منہ سے دبی دبی سی چیخ نکلی۔

واپس آئی تھی اور رخصت کرتے وقت نہایت شفقت کے ساتھ میرے سر پر ہاتھ رکھ کر مجھے رخصت کیا تھا، مجھے کیا معلوم تھا کہ وہ دستِ شفقت آخری بار میرے سر پر پھرا تھا۔

’’آہ… میرا سائبانِ شفقت۔‘‘

کراچی سے فیصل آبادکا ہوائی سفر تقریباً دو گھنٹے کا تھا لیکن اس دن یوں محسوس ہورہا تھا کہ وہ صدیوں میں بدل گیا ہو۔ میں نے سیٹ سے سر ٹکایا اور بہتے آنسوئوں کے ساتھ ماضی میں کھوگئی۔

میرے والد صاحب ہمیشہ سے ہی بارعب شخصیت کے حامل تھے۔ گھر والوں بلکہ باہر والوں پر بھی ان کی شخصیت کا رعب ہوتا تھا۔ شروع سے ہی بہت ساری ذمے داریوں نے ان کو سنجیدہ بنادیا تھا۔ اپنے اصولوں کے بہت پابند تھے۔ اکثر اوقات مخالفت کا سامنا ہوتا تھا لیکن اپنے اصولوں پر کبھی سمجھوتا نہیں کیا۔ تقویٰ، توکل، سخاوت اور مہمان نوازی ان کی نمایاں خصوصیات میں سے ہیں۔

بچوں کی تربیت کو ہمیشہ مقدم رکھا۔ مجھے یاد ہے ہم سب بہن بھائیوں کے لیے نظام الاوقات بناکر رکھتے تھے اور ہمیں اس کے مطابق پورا دن گزارنا ہوتا تھا۔ نہایت دوراندیش تھے اور دوٹوک فیصلہ کرنے والے۔ اکثر اوقات ان کا فیصلہ سن کر سب حیران ہوجاتے تھے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ سمجھ میں آجاتا تھا کہ واقعی وہ فیصلہ بروقت اور درست تھا۔

زندگی میں بہت سے نشیب و فراز دیکھے اور اللہ تعالیٰ نے بہت ساری آزمائشوں اور قربانیوں سے گزارا، لیکن کبھی ہم نے زبان سے شکوہ نہ سنا بلکہ توکل اور قناعت کے ساتھ زندگی گزارتے دیکھا۔

رخصت کے بجائے عزیمت پر عمل کرنے والے تھے اور دین کی رسّی کو مضبوطی سے تھامے ہوئے تھے۔ اپنے تمام بچوں کو قرآن پاک کا حافظ بنایا اور حصول علم کے لیے وقف کردیا تھا۔

چھ سال تک فالج میں مبتلا رہے جس کی وجہ سے چلنے پھرنے سے قاصر تھے اور آخری دنوں میں خاصے علیل ہوگئے تھے، مگر صوم و صلوٰۃ کے ایسے پابند تھے کہ بیماری میں بھی کبھی نماز کو نہیں چھوڑا۔ بھائیوں نے خوب خدمت کی اور ان کو کبھی ایسا محسوس نہیں ہونے دیا کہ وہ بیمار ہیں۔

بظاہر سنجیدہ نظر آنے والے ایسی نرم طبیعت کے حامل تھے کہ صحابہ کرامؓ کے واقعات سناتے ہوئے خوب روتے تھے۔ آخری ایام میں تو ایسی کیفیت ہوگئی تھی کہ بات کرتے کرتے رونا آجاتا تھا۔ اپنی زندگی کا اکثر حصہ دین کو پھیلانے میں صرف کیا۔ دعوت و تبلیغ کو ہی اپنا مقصدِ زندگی بنا لیا تھا۔ دنیا کی محبت یا فکر کا ذرہّ بھی دل میں نہ تھا۔

سنتوں پر سختی سے عمل کرنے والے تھے۔ بیٹیوں کو نہایت سادگی سے گھر سے رخصت کیا اور سب کے لیے ایسی مثال قائم کی کہ جو لوگ اپنی بیٹیوں کی شادی کے لیے پریشان تھے وہ کہنے لگے کہ ہمیں تو پتا ہی نہیں تھا کہ شادی ایسے بھی ہوتی ہے، آپ نے تو ہمیں شادی کی فکر سے آزاد کردیا۔

ان کے انہی اعمال کی بہ دولت اللہ تعالیٰ نے نہایت فرماں بردار بیوی اور تابع دار اولاد سے نوازا۔
ایک دم جھٹکا محسوس ہوا تو یادوں کا سلسلہ ٹوٹا۔ سر اٹھا کردیکھا تو جہاز لینڈ کرچکا تھا اور صدیوں پر مشتمل راستہ طے ہوگیا تھا۔ اور میں اپنے بے جان وجود کے ساتھ بے انتہا رش میں آگے بڑھتی جا رہی تھی کہ اچانک میری نظر پڑی، اور وہ نور سے منور، پُرسکون چہرہ سفید لباس میں لپٹا ہوا میرے سامنے تھا، اور پھر آنسوئوں کا ایک سیلاب تھا جس نے سارا منظر دھندلا کردیا تھا۔

ملے خاک میں اہلِ شاں کیسے کیسے
مکیں ہو گئے لامکاں کیسے کیسے

یہ 8 رمضان المبارک 1444ھ بروز جمعرات بمطابق 30 مارچ 2023ء کا دن تھا جب میرے والد صاحب نے داعیِ اجل کو لبیک کہا اور ہمارا سائبانِ شفقت اٹھ گیا، لیکن ان کی یادیں آج بھی ہمارے درمیان زندۂ جاوید ہیں۔

حصہ