جمال کہنے لگا کہ ہم اور تم ایک ہی گلی اور محلے میں بڑے ہوئے ہیں۔ ہم سب جب کچھ اور چھوٹے تھے تو سب مل کر آنکھ مچلولی کھیلا کرتے تھے۔ جب بھی تم چور بن کر ہم چھپ جانے والوں کو تلاش کرتی تھیں تو ہر ایک کی چھپ جانے والی جگہ سے کچھ دور سے ہی نام لیکر بتا دیا کر دیتی تھیں کہ یہاں کون ہے۔ باقی بچے تو اپنے بڑوں پر شک کرتے تھے کہ شاید انھوں نے بتایا ہو لیکن ایک دو مرتبہ کے بعد مجھے اور کمال کو خیال آیا کہ معاملہ کچھ اور ہے چنانچہ ہم نے تمہارے علم میں لائے بغیر گتے کے ایک ہی رنگ کے ڈبوں میں کئی قسم کے پھل اور سبزیاں رکھ کر تم سے دریافت کیا بتاؤ ان میں کیا کیا ہے اور تم نے میز کے قریب کھڑے ہو کر صحیح صحیح نام گنوا دیئے۔ بس اس دن سے ہمیں اس بات کا یقین ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں زبر دست قوت شامہ سے نوازا ہے۔ فاطمہ دونوں کی باتیں بہت حیرت زدگی کے عالم میں سن رہی تھی اور سوچ رہی تھی بے شک جمال اور کمال ہیرو کہلانے کے مستحق ہیں اور اگر آج یہ خفیہ کے محکمے والوں اور پولیس کی نگاہوں میں قدر سے دیکھے جاتے ہیں تو اس کی وجہ بھی یقیناً اس دونوں کی بے پناہ ذہانت اور صلاحیتیں ہیں۔
پربت کی رانی اور اس کی ”راج دھانی، دونوں کو مکمل طریقے سے تباہ کر دینا کوئی آسان مشن تو نہیں تھا اسی لیے اعلیٰ پیمانے پر اس کی منصوبہ بندی کی جا رہی تھی۔ شاید یہ پہلی مرتبہ تھا کہ اعلیٰ حکام نے جمال اور کمال کی صلاحیتوں اور ان کی ماضی کی اعلیٰ کار کردگیوں کو سامنے رکھ کر اس بات کا فیصلہ کیا تھا کہ جمال اور کمال کو اس بات کا مکمل اختیار دیدیا جائے کہ وہ اپنی فہم کے مطابق پربت کی رانی اور پر بت کی تباہی کی مہم کی از خود منصوبہ بندی کریں لیکن روانگی سے قبل خفیہ کے سربراہ سے ایک مرتبہ اچھی طرح ڈسکس ضرور کر لیں۔ ان کو مہم اور اس کی منصوبہ بندی کے مطابق ہر قسم کا ساز و سامان اور جس قسم کی بھی دیگر سہولیات انھیں درکار ہونگی، فراہم کرنا محکمے کی ذمہ داری ہوگی۔ ان کی ساری منصوبہ بندی کو صیغہ راز میں رکھا جائے گا حتیٰ کے انسپکٹر حیدر علی اور ان کی ٹیم تک کو بے خبر رکھا جائے گا البتہ ان کو جب اور جس وقت کسی کی بھی مدد کی ضرورت ہوگی، وہ انسپکٹر حیدر علی سمیت خفیہ کے سر براہ سے رابطہ کر سکیں گے۔
دوسری جانب انسپکٹر حیدر علی کو بھی فری ہینڈ دیا گیا تھا کہ وہ اس مہم کے لیے اپنی ٹیم کا از خود انتظام کریں اور ایسی منصوبہ بندی کریں کہ پربت اور پربت کی رانی کی تباہی کی مہم کامیابی سے سر کی جا سکے۔
ایک جانب جمال، کمال اور ان کی ٹیم کی نئی ممبر فاطمہ کی اپنی میٹنگیں جاری تھیں اور اس بات کا جائزہ لیا جا رہا تھا کہ ان کو اس مہم کے دوران کن کن ضروری ساز و سامان کی ضرورت پڑ سکتی ہے، راستے میں کیا کیا خطرات اور مسائل درپیش ہو سکتے ہیں تو دوسری جانب انسپکٹر حیدر علی تمام کیل کانٹے سے لیس ہونے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ گوکہ ابھی تک دونوں ٹیموں کو اعلیٰ حکام کی جانب سے یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ ان کو اپنی اپنی مہم کا آغاز کب کرنا ہے لیکن جمال، کمال اور فاطمہ بہت پر جوش اور سرگرم نظر آ رہے تھے۔ جمال اور کمال نے فاطمہ کو بہت تفصیل کے ساتھ پربت کی مہم سر کرنے کی کہانی سنائی تھی اور بتایا تھا کہ ان فضاؤں میں کس قسم کی زہر آلود ہوائیں ہر وقت موجود رہتی ہیں اور وہاں جو کھانا فراہم کیا جاتا تھا اس میں بھی اس قسم کی ادویات شامل تھیں جو ذہن کو ہر وہ بات جو پربت کی رانی یا وہاں ان کے مدد گار بتایا کرتے تھے بالکل اللہ کے احکامات کی طرح سچ مانتے تھے اور اگر ان سے ان احکامات کے مطابق عمل کرنے کیلیے بھی کہا جاتا تھا تو وہ اپنی جان پر کھیل کر بھی ان احکامات کو ماننا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ جمال اور کمال نے یہ بھی بتایا کہ اب تک کی جو تحقیقات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق جو ایک اچھی بات معلوم ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ ان ہواؤں اور غذاؤں کا اثر ہمیشہ کے لیے نہیں ہے بلکہ وہ چند ہفتوں تک ہی محدود رہتا ہے گویا اگر ہم کسی نہ کسی طرح ان فضاؤں کو ختم کرنے اور غذاؤں کو تیار ہونے سے روک دیں تو وہ تمام افراد جو ان ہواؤں اور غذاؤں کے زیرِ اثر آ چکے ہیں چند ہفتوں میں معمول پر آ سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہم تم کو یہ بھی بتادیں کہ پربت کی رانی نے ہمارے ملک کے علاوہ کئی ممالک میں اپنے تربیت یافتہ افراد بھیجے ہوئے ہیں جو کچھ پتا نہیں کہ کیا کیا کام کرتے ہیں اور کس کس محکموں میں داخل ہو چکے ہیں لہٰذا ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ جب تک ہم اپنی اصل مہم پر روانہ نہیں ہوتے، کیوں نہ ایسے افراد کا کھوج لگائیں۔ یہ تو طے ہے کہ ایسے تمام افراد جو پربت کی رانی کے بھیجے ہوئے ہیں، ان سب کو یقیناً زہر آلود ہوائیں اور غذا ئیں یا ان کا نعم البدل ضرور فراہم کیا جاتا ہوگا۔ اس بات کا امکان بھی ہے کہ یہ دونوں چیزیں مقامی طور پر بھی تیار کی جاتی ہوں۔ گویا ان کا ایک بڑا نیٹ ورک یقیناً ہوگا جو پوری تندہی سے کام کر رہا ہوگا۔ اگر ہم اس دوران کسی ایک نیٹ ورک کو پکڑنے میں کامیاب ہو گئے تو ہمیں کافی معلومات مل جائیں گی اور یقیناً یہ معلومات ہماری مہم میں کامیابی کا زینہ ضرور بنیں گی۔ فاطمہ جمال اور کمال کی ساری باتیں بہت انہماک سے سن رہی تھی۔ جب ان کی بات مکمل ہو گئی تو اس نے کہا کہ کیا یہ ممکن نہیں کہ میں ان ہواؤں کی بو سونگ سکوں اور غذاؤں کے ذائقے سے آگاہ ہو سکوں۔ جمال اور کمال نے بیک وقت کہا کہ کیوں نہیں۔ گوکہ ان ہواؤں اور غذاؤں کے نمونے تجربہ گاہوں میں جا چکے ہیں اور ان دونوں چیزوں کی اینٹی ہوائیں اور غذائیں تیار کی جا رہی ہیں پھر بھی ہماری خواہش پر خفیہ کا محکمہ ہماری مدد ضرور کرے گا۔ (جاری ہے)