آج اپنے شریک حیات کی جنت کو اپنے ہاتھوں سے نہلا دھلا کے،تیار کرکے،خوشبوؤں میں بسا کے ،بہت ساری دعائوں کے تحفوں کے ساتھ اس رب کے حوالے کیا جس کی اطاعت و محبت انہوں نے ساری زندگی فرض اولین جان کر ادا کی۔
ہمارے معاشرے میں عموماً لفظ ”ساس“ ایک خطرناک استعارے کے طور پہ جانا جاتا ہے،جس سے بہت سارے ناپسندیدہ اور ناگوار احساسات جوڑے جاتے ہیں ،شادی سے قبل بچیاں اس لفظ سے جھرجھری سی لیتی ہیں،بسا اوقات بہت ساری غلط فہمیاں، بدگمانیاں،زبان کی تیزی اور دیگر بےشمار چھوٹی چھوٹی سی چیزیں اس رشتے کو خوفناک بنا دیتی ہیں۔لیکن میں اللہ وحدہ لاشریک کو گواہ بنا کے یہ کہتی ہوں کہ میری ساس حقیقتاً نہ صرف میری بلکہ اپنی ہر بہو کی ماں تھیں،اور انہوں نے اس کردار کو ادا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ۔
ماشاءاللہ چھ بیٹے ،چھ بہویں، ایک بیٹی داماد،دو نواسیاں ایک نواسا،13 پوتیاں اور 9 پوتوں والی ہماری اماں اپنی ذات میں ایک انجمن تھیں۔گوری چٹی ، نرم ملائم سی،لمبے ریشمی بالوں والی سادہ سی اماں کی ساری زندگی خدمت خلق میں گذری،جسےعرف عام میں ”سوشل ورک“ کہا جاتا ہے ان کی ساری زندگی اس سوشل ورک کے لئے وقف تھی۔آج ان کے جنازے میں وہ بہت سارے افراد بھی آئے تھے جنہیں انہوں نے نہ صرف پال پوس کے بڑا کیا بلکہ ان کی شادیاں بھی کیں اور آج وہ بہویں، داماد ،نواسے نواسیاں اور پوتے پوتیاں جوق درجوق اپنی نانی/دادی کو ان کے آخری سفر کے لئے روانہ کرنے آئے تھے۔ ایسی ہی ایک شادی کرانے میں ،میں بھی ان کے ساتھ شریک تھی۔رشتہ کرانے سے لے کر شادی کے مراحل اور شادی کے بعد کے اختلافات میں کونسلنگ کرنے تک کے ہر مرحلے میں ہم ساتھ تھے اور یہ زندگی کا ایک ایسا learning process تھا جس سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔ خلوص، خدمت اور درگزر کی مٹی سے گندھا اماں کا وجود محبت کی چاشنی میں ڈوبا ہوا تھا۔مجھے نہیں یاد کہ میں نے کبھی ان کی زبان سے کسی کے بارے میں کوئی بری بات سنی ہو،نہ ان کے دل میں کبھی کسی کے لئے کوئی کینہ رہا،بے لوث خدمت ان کی زندگی کا شعار رہا ۔جب کبھی میں سورہ نور میں حوروں کی خصوصیات پڑھتی ہوں تو ایک خصوصیت ”شوہر پرست“ پڑھ کر میرے ذہن میں ہمیشہ اماں ہی آتی ہیں،وہ حقیقتاًشوہر پرست بیوی تھیں ،جنہوں نے اپنے شوہر کی وہ خدمت کی جس کا تصور آج کی نسل کبھی بھی نہیں کرسکتی۔
بچپن میں ماں کے سائے سے محروم ہوگئیں ،تو سوتیلی ماں کے روایتی ظلم و ستم کا شکار ہوئیں ،خالہ نے چھوٹی سی عمر میں اپنی بہو بنا لیا،شادی کے بعد اپنے تین چھوٹے چھوٹےبیٹوں کو یکے بعد دیگرے اللہ کے حوالے کیا،بتاتی تھیں کہ رو رو کہ آنکھیں خشک ہو گئی تھیں ،چوتھے بیٹے کی پیدائش پہ اسے اپنے سے الگ نہیں کرتی تھیں، سات زندہ بچوں کے بعد دو ضائع بھی ہوئے،یوں بارہ بچوں کی ماں ٹھہریں، لیکن کبھی شکوے کا ایک لفظ زبان سے ادا نہیں ہوا،اپنے سات بچوں کے ساتھ ساتھ اپنے بارہ سالہ دیور کو پال کے ان کی بھی دلہن لائیں، جنہیں آخری لمحات تک ”دلہن“ہی پکارا،وہ گویا دیورانی نہیں بلکہ ان کی بہو تھیں، اور بہو بھی نہیں ان کی بیٹی تھیں ،جنہیں ساری زندگی بیٹی ہی کی طرح رکھا اور دیورانی نے بھی ساری زندگی انہیں ماں کا ہی درجہ دیا۔اپنے بچوں کے ساتھ دیورانی کے بچوں کا بھی خیال رکھا۔
میں اس لحاظ سے خوش قسمت ہوں کہ میری ان سے دوستی بھی بہت تھی اور وہ مجھ سے اپنی زندگی کی ہر بات share بھی کرتی تھیں،ان کی بچپن کی باتیں،شادی کیسے ہوئی؟کونسا بچہ کب کہاں کیسے ہوا؟کس کس کو پالا ،کیسے شادی کی ،مشرقی پاکستان کے ہنگامے میں جب میرے سسر جیل میں تھے انہوں نے کیسے ہمت اور پامردی سے حالات کا مقابلہ کیا ،آس پاس کے اردو بولنے والی فیملیز کو اپنے گھر میں جگہ دی ،یوں ان کی زندگی کی بےشمار یادیں میرے پاس محفوظ ہیں۔مجھ سے کہتی تھیں کہ ”میں اللہ سے ہر وقت دعا کرتی تھی کہ میرے بچے دین کے راستے پر چلیں“ اور میں آج کی پڑھی لکھی عورت ان کے اس vision پہ حیران رہتی تھی،وہ نہ کسی اسکول گئیں نہ کالج لیکن بچوں کے لئے کتنا clear اور focus تھیں ،اور یہ انہی دعائوں کے طفیل ہے کہ آج نہ صرف ان کے بیٹے بلکہ پوتے،پوتیاں بھی تحریک اسلامی کی جدوجہد کا حصہ ہیں ،چھوٹا بیٹا پپو گونگا بہرا ہونے کے باوجود جس تن دہی سے اقامت دین کی جدوجہد میں شامل ہے وہ یقیناًانہی دعائوں کی قبولیت ہے۔
میری شادی کے ڈیڑھ سال بعد 1996ء میں اپنے عزیز از جان لاڈلے بڑے بیٹے کو کینسر کے موذی مرض کے سبب اللہ کے حوالے کیا،ایک ماں کے لئے اس سے بڑی اور کیا اذیت ہوگی کہ وہ اپنے لخت جگر کی اس کے آخری وقت میں خدمت اور تیمارداری کریں،لیکن شکوہ پھر بھی زبان پہ نہ آیا،2006ۓء میں چکر کے سبب گرنے سے دائیں ران کی ہڈی ٹوٹ گئی،مگر وہ ٹھیک سے جڑ نہ سکی،یوں وہ بستر پہ آگئیں ،مگر شکوہ پھر بھی ندارد ،2014ء میں تیسرےنمبر کے بیٹے کی حادثاتی موت نے انہیں اعصابی طور پہ توڑ دیا تھا مگر شکوہ پھر بھی نہ کیا ، صرف اللہ کا شکر۔
میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ میں ان کی زندگی کے کس کس انداز اور کس کس پہلو پہ لکھوں ؟اتنی ساری چیزوں کی ذہن پہ اس وقت یلغار ہے ،اماں ایک عنوان نہیں ایک پوری کتاب تھیں،جسے پڑھنے کے لئے بڑا حوصلہ درکار ہے۔
گلشن جمال کا”E 144“ہماری زندگی میں بڑی اہمیت اور مرکزیت رکھتا ہے، یہ ہمارے بچوں کا ”دادی کا گھر“ ہے اور نعیم کے لئے ”اماں“ کا گھر یہاں میں دلہن بن کر آئی تھی،یہیں میرے تینوں بچے پیدا ہوئےاور زندگی کے ساڑھے چودہ سال گزارے، اماں کو اس بات کا بہت احساس تھا کہ میں چھوٹی فیملی سے آئی ہوئی اکلوتی بیٹی تھی ،اس بڑی سی جوائنٹ فیملی میں میرے شوہرکے بعد وہ میرا سب سے بڑا support system تھیں،جنہوں نے مجھے ہمیشہ ا پنے شفیق وجود کے پیچھے چھپایا،اکثر ان پہ جانبداری کا ٹھپہ بھی لگا،وہ جانتی تھیں کہ مجھے روٹیاں بنانی نہیں آتیں ،اللہ گواہ ہے کہ انہوں نے کبھی بھی مجھ سے روٹیاں نہیں بنوائیں بلکہ میرے ذمہ دن کے کھانے کی ڈیوٹی لگائی کیونکہ دن میں چاول بنتے تھے،اس کے بعد بھی مجھے اکیلا نہیں چھوڑتی تھیں ،ساتھ مل کے سبزیاں بنادیتی تھیں ،میں تو پکانے میں بالکل نکمی تھی ،جو سیکھا ان سے ہی سیکھا،جب میرا کچن الگ ہوا تو مجھے چھپ چھپ کے روٹیاں بھیجتی تھیں ،مجھے ان کی اس ادا پہ ہنسی بھی آتی تھی اور بہت سارا پیار بھی۔
جب 2009ء میں ہم الگ گھر میں گئے تو شروع میں تھوڑی دل گرفتہ تھیں مگر ہم نے گلشن جمال میں گھر انہی کی وجہ سے لیا تھا پھر جب بچوں اور نعیم کا روز کا آنا جانا رہا تو مطمئن ہوگئیں اور پھر خوش بھی ۔پھر اس گھر کا نام”دادی کا گھر“ ہوگیا اور دادی کا گھر زندگی کا لازم و ملزوم حصہ ۔ہمارے گھر کی کوئی تقریب ہو دادی کا آنا لازمی تھا سب پوتے دادی کو کرسی سمیت اوپر چڑھا لاتے تھے۔
آج صبح جب ان کی میت لے کر گھر میں داخل ہوئی تو مجھے وہ گھر گھر نہیں کھنڈر لگا ،اس کمرے میں سب کچھ تھا مگر وہ محبت کی چاشنی میں ڈوبا ہوا وجود بستر پہ نہیں تھا ،وہ منتظر آنکھیں کہیں نہیں تھیں ، اس کمرے کی رونق، روشنی سب ختم ہوگئی ،اب وہ بلاک پلستر سے بنا سامان سے بھرا خاموش کمرہ ہے۔کوئی ویرانی سی ویرانی ہے ۔وہ بستر پہ پڑا ہوا ایک شفیق وجود ہماری زندگی کا لازمی حصہ تھا، جیسے سر پہ ایک مضبوط سائبان۔انسان جتنا بھی بڑا ہوجائے ماں کا وجود اس کے لئے بڑی ڈھارس ہوتا ہے،اس کی طاقت بنا رہتا ہے،وہ ہر دم خاموش دعائوں کے حصار میں رہتا ہے ۔آج یہ حصار ٹوٹ گیا ہے اور ہم بے اماں ہوگئے ہیں۔
دادی چلی گئیں اور ہمارے بچوں سے ان کی دادی کا گھر چھوٹ گیا ہے،وہ گھرجہاں عید ،بقرعید سب دادی سے ملنے آیا کرتے تھے،اور دادی جلدی جلدی سب میں عیدی بانٹتی تھیں،دادی کا گھر ایک مرکز تھا رشتوں اور تعلقات کے جڑنے کا مرکز،کوئ کہیں سے آتا اور کوئی کہیں سے اور دادی کا کمرہ بچوں اور بڑوں سے بھر جاتا بس پھر باتیں ،ہنسی مذاق اور بیچ میں لیٹی ہوئی دادی، بیاہی لڑکیاں پروگرام بنا کر دادی کے گھر رہنے آتی تھیں ،کہیں سے کوئی آتا انہیں سلام کرتے ہوئے جاتا ،گھر سے نکلتے ان سے مل کر جاتے ،آج کس سے مل کر جائیں ؟کون مجھ سےکہے گا ”پھر آنا صائمہ“ کس کے لئے میٹھا بنا کے لے جائوں؟ نعیم روز کس سے ملنے یہاں آئیں گے ؟ کون ہمارے گھر کی طرف رخ کرکے دعائیں پڑھ کے پھونکے گا؟،دادی کا گھر آج بے وزن ہوگیا ہے ،اور ہم سب جیسے خلا میں معلق ہوگئے ہیں ۔
ان کی سب بہووں ،پوتیوں اور نواسی نے مل کر انہیں نہلایا، دھلایا ،تیار کیا اور سب بیٹوں اور پوتوں نے مل کر لحد میں اتارا۔جنازے کے قریب کھڑے ہوکر نعیم نے کہا”اماں ہماری کوتاہیوں کو معاف کردیں ،اور یہ کہ اللہ تعالیٰ ہر کسی کو اماں جیسی ماں دے اور ہر لڑکی کو اماں جیسی ماں بنائے ،اماں ہم سب آپ کے لئے صدقہ جاریہ بنیں گے ،اللہ کے راستے پہ چلیں گے اور ایک دن ہم سب جنت میں اماں سے ملیں گے“۔
انسان خطائوں کا پتلا ہے اور نہایت کمزور بھی اللہ تعالیٰ ہماری کوتاہیوں سے درگزر فرمائیں، اور ہماری اماں کو جنت الفردوس میں اعلیٰ ترین مقام عطا فرمائیں ان کی دنیاوی تکالیف کے بدلے قبر میں اور آخرت میں بہترین مہمان نوازی فرمائیں، اور اللہ تعالیٰ بے شک بہترین میزبان اور قدردان ہیں ،ہم جب ان سے ملیں تو بہترین حالتوں میں ملیں،آمین یا رب العالمین۔