ایک ڈاکو نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے

345

نئے سال کا آغاز ہو چلا نئے سال کا صحیح حق مغربی ممالک کے لوگ ادا کرتے ہیں جہاںدھوم دھڑکّے کے ساتھ خوشیاں منائی جاتی ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا میں سب سے زیادہ مہذّب اور ترقی یافتہ کہلائے جاتے ہیں …زہے نصیب …اب تو سعودی عرب بھی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہونے کی جدوجہد میں لگا ہوا ہے۔ شوق ِتقلید میں وہاں بھی نئے سال کا جشن منانے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے اس سال بھی آتش بازی اور رقص وسرور کی محافل سے نئے سال کا استقبال کیا گیا ،یا یہ کہہ لوں کہ نئے سال نے ان تمام خرافات کو سراہا اور خوش آمدید کہا۔یہ سارا شیطانی کھیل شہر ریاض میں کھیلا گیا … سعودی عر ب ہمارے لیے اس واسطے مقدّس ہے کہ وہاں مکّہ اور مدینہ جیسے حرمت والے شہر ہیں۔ ساری دنیا کے مسلمانوں کے دلوں میں سعودی عرب کا احترام ہے۔ اب اگر ابلیس کے چیلے وہاں بھی پہنچ گئے تو سعودی عرب کا اللہ ہی حافظ ہے۔

ابتدائے فسق ہے سوتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا

فلسطین کے مسلمانوں کے گھروں میں آگ لگی ہوئی ہے اور ایک ہم مسلمان ہیں کہ نیا سال جس کی ہمارے دین میں کوئی حیثیت نہیں ہے اس کی خوشیاں منانے میں مصروف ہیں ۔ یہ عملِ شیطانی ساری امّتِ مسلمہ کے لیے باعثِ شرم ہے۔ایک کثیر رقم آتش بازی اور ناچ گانے میں صرف کر کے مغرب کو خوش کر رہے ہیں ،صرف انہیں یہ بتانے کے لیے کہ ہم تمہاری ہر خوشی ہر غم میں برابر کے شریک ہیں… ڈیانا مرے گی تو ہم غم کے آنسو بہائیں گے… تم نئے سال کی خوشیاں مناؤ گے ،ہم دل و جان سے تمہاری تقلید کریں گے ایک پرانی کہاوت یاد آگئی ہے …

’’روم جل رہا تھا اور نیرو بیٹھا بانسری بجا رہا تھا‘‘

پتانہیں یہ کہاوت کہاں تک سچ ہے روم میں 65 عیسوی میں آگ تو لگی تھی مگر نیرو جو وہاں کا بادشاہ تھا اس نے بانسری بجائی تھی یا رقیبوں نے اس پر الزام تھوپ دیا تاکہ ایک کہاوت وجود میں ا ٓسکے بہرحال کہاوت سچ ہے یا نہیں ہمیں اس سے غرض نہیں لیکن دورِ حاضر کے لیے بہت موزوں ہے ۔

مغرب کے تمام ممالک میں 31 دسمبر کی شب کسی ہوٹل کے ایک کشادہ ہال میں یا ایسی ہی کسی اور جگہ پر بہت سارے مرد اور خواتین نئے سال کی آمد اور اس کے استقبال کے لیے تیار بیٹھے ہوتے ہیں اور جیسے ہی گھڑی 12 بجنے کا اعلان کرتی ہے سارے افراد ایک دوسرے کو نئے سال کی مبارکباد دیتے ہیں اور پھر خوشیاں منانے کا مہذّبانہ طریقہ اپناتے ہیں جس میں شراب نوشی ،مرد اور عورت کا ایک ساتھ رقص، خواتین کے نیم عریاں لباس کی نمائش ،جس پر مرد حضرات کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا ،مرد حضرات پورے لباس زیب تن کرتے ہیں جس پر خواتین کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا …تعلیم یافتہ اور مہذّب معاشرے میں کسی پر اعتراض کرنا یا نکتہ چینی کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے لہٰذا وہ لوگ اس سے گریز کرتے ہیں ایک ہم ہیں غیر ترقی یافتہ ملک کے باشندے کسی دوسرے پر اعتراض یا نکتہ چینی کرنے کا بہانہ تلاش کرتے ہیں اب دیکھیے نا… وطنِ عزیز میں آٹھ فروری کو انتخابات کا اعلان ہوا ہے صورتحال ایسی ہے کہ ایک سیاسی پارٹی کا بندہ دوسری پارٹی کے بندے پر اعتراضات کے پُل باندھ رہا ہے ان اعتراضات میں تھوڑی سی حقیقت اور زیادہ تر مبالغہ آرائی اور دروغ گوئی شامل ہے بہرحال ہوتے تو وہ سب اعتراضات ہی ہیں ۔

بہت پہلے ایک کہانی پڑھی تھی کہ پہاڑوں کی گپھاؤں میں ڈاکوؤں کی آبادی تھی ایک جوان ڈاکو نے ایک بوڑھے ڈاکو جو چارپائی پر بیٹھا چلم پی رہا تھا اس سے پوچھا … بابا ہندوستان میں خلجی اور افغانیوں نے راج کیا ـ…بوڑھے نے جواب دیا…ہاں کیا۔ پھر اس جوان نے دوسرا سوال کیا… مغل اور انگریزوں نے راج کیا…بوڑھے نے کہا… ہاں کیا۔ اب اس نے تیسرا سوال کیا جس کے لیے اس نے زمین بنائی تھی… بابا ہندوستان میں ڈاکوؤں کا راج کب ہوگا… بوڑھے نے جواب دیا… بیٹا! ہندوستان میں ڈاکوؤں کا راج کب نہیں رہا کل بھی تھا آج بھی ہے اور اوپر والے کی مہربانی سے کل بھی رہے گا۔

آج کل وطنِ عزیز میں بھی ڈاکوؤں کا راج ہے پچھلے سال یعنی 2023 میں کئی ہزار موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں چھین لی گئیں ،رہزنی اپنے عروج پر رہی ، اگربھائی رہزن کو اپنا موبائل اور پرس دینے میں ذرا بھی تاخیر کی یا مزاحمت کرنے کی کوشش کی گئی تو بس وہ شخص اللہ کو پیارا کر دیا گیا۔ گھروں میں ڈکیتیاں خوب ہوئیں خبروں میں یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ کراچی کے کئی مقامات پر پولیس کی وردی میں ملبوس حضرات نے بھی ڈکیتی کی وارداتوں میں بھرپور حصہ لیا ۔تو کیا واقعی وہ پولیس والے تھے …مجھے یقین نہیں آتا اس لیے کہ پولیس ہماری محافظ ہے انہیں اللہ تعالی نے ویسے ہی بہت نوازا ہوا ہے بہت سارے آمدنی کے ذرائع کے دروازے ان کے لیے کھلے ہوئے ہیں بھلا ایسی گھٹیا حرکت کر کے ایک نیک اور شریف الطبع محکمے کو بدنام کیوں کریں گے، یقینا یہ خبر کسی دشمن نے اڑائی ہوگی۔ اتنی وارداتیں ہوتی ہیں مگر مجرم جانے کہاں غائب ہو جاتے ہیں، ہماری پولیس کی کارکردگی کیا اتنی ہی ناقص ہے کہ مجرم ان کے ہاتھ نہیں آتے ،نہیں بلکہ ایسا نہیں ہے پولیس کی کارکردگی بہت عمدہ ہے مگرمجبوری یہ آن پڑی کہ جو لوگ جرم کرتے ہیں انہوں نے “سلیمانی ٹوپی” پہنی ہوئی ہوتی ہے۔

2023 میں وطنِ عزیز میں جو وارداتیں ہوئی ہیں اخبارات میں ان کی تفصیل آئی تھی اس وقت میرے ذہن میں اس کی تعداد محفوظ نہیں ہے پولیس افسران، اعلیٰ اقتدار پر فائز افسرانِ بالا ذرا غور کریں کیوں عوام کو ان ڈاکوؤں کے رحم و کرم پر چھوڑا ہوا ہے اگر ذمّہ داری نبھا نہیں سکتے تو سبکدوش ہو جائیں تاکہ اقتدار اہل اور مخلص افراد کو مل سکے۔
انتخابات ہونے کو ہیں لوگ مرے جا رہے ہیں اقتدار کے لیے اور جب اقتدار میں آ جائیں گے تو وہی ہوگا جو پہلے ہوتا رہا ہے یعنی مالِ مفت دلِ بے رحم …صورتحال اگر ایسی ہی رہی تو رواں سال یعنی 2024 بھی ڈاکوؤں اور لٹیروں کا سال ہوگا مرزا غالب کے ایک شعر میں تھوڑی سی تحریف کر کے مضمون ختم کرتا ہوں…
دیکھیے پاتے ہیںہم پیشہ وطن سے کیا فیض
ایک ڈاکو نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے
معزز قارئین ِکرام! میں نے جن ڈاکو حضرات کا ذکرِ خیر کیا ہے یہ سب ادنیٰ نسل سے تعلق رکھتے ہیں ہمارے ملک میں ان کی اعلیٰ نسل بھی کثرت سے پائی جاتی ہے ان پر بھی قلم اٹھایا جا سکتا ہے اگر جان کی امان پاؤں تو۔

حصہ