ہماری سیاست میں عدلیہ اور فوج کا بہت اہم کردار ہے۔ یہی ہماری تاریخ ہے، اور اس تاریخ کا ایک اہم حصہ ایک عہد ساز شخصیت ایس ایم ظفر تھے۔ 19اکتوبر 2023ء کو لاہور میں آپ کا انتقال ہوا۔ بڑے آدمی، بڑے قانون دان تھے۔ آپ سے کئی دفعہ ملاقات رہی، فون پر بھی رابطہ اہم ایشوز پر رہا۔ آپ 1930ءمیں پیدا ہوئے۔ ایوب خان کے دور میں وفاقی وزیر پارلیمانی امور (1965-69ء) رہے۔ 1991ءمیں ممبر پاکستان لاء کمیشن، 1962ءمیں ممبر پنجاب بار کونسل، 1975ءمیں صدر بار ایسوسی ایشن، 1976ءمیں صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، 1977ءمیں چیئرمین ہیومن رائٹس سوسائٹی آف پاکستان، 1989ءمیں سربراہ پاکستانی وفد ہیومن رائٹس کمیشن جنیوا 1965ء میں ڈپٹی لیڈر مسلم لیگ پارلیمانی پارٹی قومی اسمبلی پاکستان، 1983ء سے 1985ء تک سیکرٹری جنرل آل پاکستان مسلم لیگ، 1986ء سے 1994ء تک چیف آرگنائزر نیشنل پیپلزپارٹی رہے۔
بھٹو کے دور میں ”ڈکٹیٹر کون“ لکھی تو بھٹو ناراض ہوگئے اور ان پر مقدمات بھی قائم ہوئے۔ آپ پیر پگارا کے بھی قانونی مشیر رہے۔ بھٹو کے دور میں پی این اے کی تحریک کے دوران قانونی مشوروں سے تحریک کو تقویت بخشتے رہے۔ بے نظیر اور نوازشریف کے درمیان اقتدار کی میوزیکل چیئر میں کبھی آپ غلام اسحاق خان کے کیمپ میں ہوتے اور کبھی جنرل اصف نواز، جنرل وحید کاکڑ اور جنرل کرامت رحمٰن نیازی کو مشورے دیتے نظر آتے۔ جنرل پرویز مشرف کی قاف لیگ کے سینیٹر رہے۔آپ سے جب انٹرویو کے لیے فون پر رابطہ کیا تو آپ نے بہ خوشی اُس زمانے کی سیاسی صورت حال میں بے پناہ مصروفیات کے باوجود انٹرویو کا وقت دیا جو اسلام آباد میں طے پایا۔ انٹرویو جاری تھا کہ چودھری شجاعت حسین کے سیکرٹری ظفر نے رابطہ کیا تو وہ انٹرویو ختم کرکے فوراً ان سے ملاقات کے لیے چلے گئے۔ ایس ایم ظفر کئی کتابوں کے مصنف ہیں جن میں سے چند یہ ہیں ”عوام، پارلیمنٹ، اسلام، تذکرے جائزے“، Haj-A-Joumy، Understanding statutes 1997 on obedience، میرے مشہور مقدمے، پاکستان بنام کرپشن، عوام کی عدالت میں، عدالت میں سیاست“۔
آپ کا یہ انٹرویو تاریخی اہمیت کا حامل ہے جس کے مندرجات کی روشنی میں پاکستان کی سیاست،جمہوریت، عدلیہ اور فوج کے کردار کو سمجھاجاسکتا ہے اور یہ بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ آیا دہائیاں گزرجانے کے بعد کچھ بدلا بھی ہے یا نہیں۔ اس انٹرویو میں آپ سےقائداعظم ، ملکی و بین الاقوامی سیاسی صورت حال، پاکستان میں امریکی کردار، جنرل پرویزمشرف اور بے نظیر ڈیل، فوج کے سیاست میں کردار سمیت دیگر موضوعات پر تفصیلی گفتگو ہوئی جو قارئین کے لیے پیش خدمت ہے۔
سوال: قیامِ پاکستان کی تحریک جتنی جمہوری، عوامی، اور قائداعظم کی جدوجہد جتنی آئینی اور قانونی تھی، قیام پاکستان کے بعد ہماری تاریخ اتنی غیر جمہوری، غیر عوامی اور غیر آئینی ہوتی چلی گئی ہے، آپ کے خیال میں اس کا بنیادی سبب کیا ہے؟
سینیٹر ایس ایم ظفر: اس کے کئی اسباب ہیں اور مختلف زاویوں سے مختلف ترجیحات مقرر کی جاسکتی ہیں۔ میں جس چیز کو اہمیت دوں گا اور اس کے بعد بتدریج دوسری ترجیحات کا ذکر کرتا چلا جاؤں گا جس کی وجہ سے جمہوریت پاکستان میں پنپ نہیں سکی، ان میں سب سے پہلی چیز جو میری نظر میں ہے وہ یہ کہ پاکستان مسلم لیگ جو آل انڈیا مسلم لیگ کے بعد پاکستان مسلم لیگ بنی، جس کے ذمے اس نئی ریاست کو چلانا پڑ گیا، وہ ابھی مکمل طور پر سیاسی جماعت نہیں بن سکی تھی۔ بلاشک و شبہ وہ ایک سیاسی جماعت بن گئی تھی، لیکن جس طریقے سے اور جن عناصر کی بنا پر اسے اچانک اتنی مقبولیت حاصل ہوئی کہ 1946ء میں اس نے تمام مسلم سیٹیں جیت لیں، جس کے بعد پاکستان بننا ممکن ہوگیا، اتنا اچانک پھیلاؤ ایک پولیٹکل پارٹی میں اتنے اچانک پن کے ساتھ آتا ہے تو وہ پولیٹکل پارٹی کی مضبوطی کے بجائے پولیٹکل پارٹی پر بوجھ بن جاتا ہے۔ سیاسی جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کو بہت کم عرصہ ملا اپنے آپ کو ترتیب دینے کا۔ اور قائداعظم کے پاس بھی اتنا وقت نہیں تھا کہ وہ سیاسی جماعت کی جانب زیادہ توجہ دیتے۔ وہ تو وہ لڑائی لڑ رہے تھے جو کہ دو مکھی لڑائی تھی۔ ایک حکومتِ وقت اور ایک اُس وقت کی کانگریس کا نکتہ نظر… اس میں سے دو قومی نظریے کو کامیاب بنانے میں ان کا بہت سارا وقت صرف ہوگیا۔ تو جمہوریت کی کمزوری کی پہلی وجہ وہ سیاسی جماعت تھی جس نے ملک قائم کیا اور ملک 14 اگست 1947ء کو جس کے حوالے ہوا۔ اس موقع پر کوئی اور بڑی اور اہم سیاسی جماعت موجود نہیں تھی۔ تو اس سیاسی جماعت کے متعلق وہ جو محاورہ مشہور ہے، کچھ کہتے ہیں کہ یہ قائداعظم کے ہی الفاظ ہیں اور کچھ کہتے ہیں کہ یہ قائداعظم کے الفاظ نہیں ہیں، لیکن جو کچھ بھی ہیں وہ ایک ترجمانی ضرور کرتے ہیں، جس میں کہا گیا ہے کہ قائداعظم نے فرمایا ”میں مشکلات میں ہوں، کیوں کہ میری جیب میں کھوٹے سکے بھی تو ہیں۔“ دوسری وجہ جو جمہوری نظام کے فوراً نہ چلنے کی تھی وہ یہ کہ پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی ساتھ ہمارا ہمسایہ ملک بھارت وجود میں آیا، اور بھارت نے ہمارے لیے سالمیت کا مسئلہ اٹھا دیا۔ اس کے قائدین پہلے ہی تسلیم نہیں کرتے تھے کہ پاکستان بنے۔ پاکستان جب بنا تو انہوں نے اپنی ورکنگ کمیٹی کانگریس میں بھی یہ بات کہی کہ پاکستان تو بہت جلد ان کے (بھارت) قدموں میں آ گرے گا۔ یہاں تک کہ پاکستان کے جو اثاثے تھے وہ بھی انہوں نے وقت پر نہ دیے اور بہت جلد کشمیر کی جنگ بھی مسلط ہوگئی، اس کے نتیجے میں پاکستان کو سالمیت کا مسئلہ پیش آگیا، اور جب ایک بہت بڑے ہمسایہ ملک کی مخالفت کا سامنا ہو تو اس میں ایک ایسے ادارے کی اہمیت بڑھ جاتی ہے جس کی اہمیت ویسے اتنی نہیں ہونی چاہیے جتنی عام حالت میں ہوا کرتی ہے، اور وہ تھا فوجی ادارہ۔ عسکری ادارے کو بہت زیادہ اہمیت بھارت کے جارحانہ رویّے کی وجہ سے ملتی چلی گئی، کیوں کہ وہ صرف سرحدات کی حفاظت ہی نہیں کررہے تھے بلکہ جو فوجی ضروریات تھیں اُن کو پورا کرنے کے لیے خارجہ پالیسی پر بھی اثرانداز ہورہے تھے۔ تیسری وجہ پاکستان میں فیوڈل سسٹم ہے، اور فیوڈل سسٹم کا مزاج ایسا ہے کہ وہ جمہوری نہیں ہوتا۔ دنیا کے اُن ممالک میں جہاں اِس وقت جمہوریت پھل پھول ہی ہے وہاں بھی جب تک فیوڈل نظام رہا جمہوریت نہیں پنپ سکی۔ جب یہ نظام انہوں نے ختم کرڈالا اُس کے بعد وہاں جمہوریت کو آگے بڑھنے کی گنجائش ملی۔ اور باَلفاظ دیگر، اول: سیاسی جماعت کی کمزوری بلکہ سیاسی جماعتوں کی کمزوری۔ دوئم: بھارت کے جارحانہ رویّے کی بنا پر عسکری قوتوں میں، اور ان کے اثر میں اضافہ۔ سوئم: فیوڈل سسٹم… اور اگر آپ چوتھے عنصر کو بھی شامل کرنا چاہیں تو پاکستان کے دو حصوں کا اتنا دور ہونا، وہ وفاق کے راستے میں جو ہماری جمہوریت کا ایک حصہ تھی اور ہے، میں بھی ایک رکاوٹ بنی۔
سوال: آپ نے پاکستان کے غیر جمہوری اور غیر پارلیمانی ہونے کی جو تعریف بیان کی ہے اس کے تناظر میں یہ سوال کرنا چاہوں گا کہ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے جو ٹاپ سیکرٹ پیپر منظر عام پر آچکے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ جنرل ایوب 1952ءسے نہ صرف یہ کہ امریکیوں سے رابطے میں تھے بلکہ وہ پاکستانی سیاست پر گرفت مضبوط کر چکے تھے، اور اُس وقت پاکستان کو بنے چند سال ہی ہوئے تھے، حالانکہ پہلی فوجی مداخلت کے لیے دلیل یہ لائی گئی تھی کہ ملک سیاسی بحران سے دوچار ہے۔ آپ کیا کہیں گے، آخر اس صورتِ حال کا کیا سبب ہے؟
سینیٹر ایس ایم ظفر: ہوا یہ ہے جیسا کہ میں نے آپ سےابھی ذکر کیا کہ سیاسی قوتیں کمزور تھیں، عسکری قوتوں میں اضافہ ہو گیا تھا، دونوں قوتوں کی کمزوری اور طاقت کی انتہا یہ ہوئی کہ سول کابینہ میں باوردی کمانڈر انچیف جنرل محمد ایوب خان کو ڈیفنس منسٹر لے لیا گیا۔ کابینہ سویلین کی ہوا کرتی ہے، لیکن سویلین کابینہ میں پہلی بار باقاعدہ فوجی عہدہ رکھنے والی شخصیت کو منسٹر بنا لیا گیا۔ اس طرح خیمے میں اونٹ کی گردن آگئی، اور پھر ”بدو باہر تھا اور اونٹ اندر آگیا تھا“ والی بات تھی۔ آغاز اس کا وہ نکتہ تھا جس کا میں نے ذکر کیا کہ سیاسی جماعت کمزور تھی اور اس کے مقابلے میں فوجی قوت کی بڑھوتری انتہا کو پہنچی دکھائی دیتی تھی۔ یہ وہ وقت ہے جب جنرل محمد ایوب خان کو کمانڈر انچیف کی حیثیت میں سول کابینہ میں ڈیفنس منسٹر لے لیا گیا۔ اس کے بعد ظاہر ہے کابینہ میں بیٹھے ہوئے اُن کو تمام واقعات و حالات معلوم ہوتے گئے اور انہوں نے اس کو بنیاد بناکر کہ ملک میں نظام ٹھیک نہیں چل رہا، سیاست ٹھیک نہیں چل رہی، ملک میں مارشل لاء لگا دیا، اور اس میں ان کو یہ بات کہنے میں مدد بھی ملی، کیوں کہ اُس دور سے لے کر جب وہ کابینہ میں موجود تھے، 1958ء تک اتنی بار سیاسی حکومتوں کی تبدیلی ہوئی کہ یہ ایک مذاق بن کر رہ گیا۔ کچھ وزیراعظم تو مہینوں تک رہے، کچھ وزیراعظم ہفتے بھی نہ گزار سکے، اور آخری وزیراعظم تو شاید چند دنوں تک رہ سکے۔ جب یہ صورت حال رہی تو ان کو گنجائش بھی مل گئی۔ بات دراصل یہ ہے کہ جب ایک کی کمزوری بڑھتی گئی اور دوسرے کی طاقت میں اضافہ ہوتا چلا گیا تو اس کے نتیجے میں جنرل محمد ایوب خان نے ملک کا پہلا مارشل لاء لگا دیا۔ اس وقت اگر میں ایک بات کہہ دوں جو دراصل اس سوال کا جواب ہے کہ مارشل لاء کو کس طرح روکا جاسکتا ہے؟ تو اس کا جواب یہی ہے کہ اگر سیاسی جماعتیں مضبوط ہوں اور سیاسی نظام اپنی آئینی حدود کے اندر صحیح چل رہا ہو تو پھر مارشل لاء نہیں لگا کرتا،پھر فوجی مداخلت نہیں ہوا کرتی۔
سوال: اس کا مطلب ہے کہ ملک پر سیاسی جماعتوں کی کمزوری کو جواز بناکر قبضہ کرلو اور خود مالک و مختار بن جاؤ۔ کیا یہ نوآبادیاتی ذہنیت کی علامت نہیں ہے؟ آپ کیا فرمائیں گے؟
سینیٹر ایس ایم ظفر: آپ اس ذہنیت کو نوآبادیاتی کہیے یا فوجی ذہنیت…. تمام اچھے لکھنے والوں نے فوج پر تحقیق کی ہے۔ جن کو ہم فوجی مؤرخین کہہ سکتے ہیں، یا وہ مؤرخین جو فوج پر تحقیق کرتے ہیں انہوں نے کہا ہے کہ دنیا کی کوئی فوج ایسی نہیں ہے جو ہر وقت قبضہ کرنے کے لیے تیار اور مستعد نہ بیٹھی ہو، اور اگر وہ قبضہ نہیں کرتی تو اس کی وجوہات ہوتی ہیں۔ اور اگر وہ وجوہات موجود نہ ہوں یا کمزور پڑ جائیں تو دنیا کی کوئی فوج ایسی نہیں ہے جو اس کمزوری کا فائدہ اٹھا کر قبضہ نہ کرے۔ یہ ان کی تحقیق کا نچوڑ ہے۔ اس لیے اس کو آپ فوج ذہنیت کہیے گا۔ نوآبادیات تو ایک علیحدہ مسئلہ ہے۔ وہ تو کسی اور ملک میں جاکر قبضہ کرنا ہوتا ہے۔ یہاں یہ ہوتا ہے کہ ان کو خیال پیدا ہوجاتا ہے کہ ہم ہی ہیں جو حفاظت کرسکتے ہیں۔ کیوں؟ باقی ادارے بڑے کمزور ہوگئے ہیں، اور اس وقت دل چسپی پیدا ہوجاتی ہے۔
سوال: ایک صورت حال 60 سال سے ہمارے یہاں یہ بھی ہے کہ جرنیل کہتے ہیں خرابی کے ذمہ دار سیاست دان ہیں، اور سیاست دان کہتے ہیں کہ ذمہ دار جرنیل ہیں۔ کون زیادہ ذمہ دار ہے؟
سینیٹر ایس ایم ظفر: میں اس کو یوں کہوں گا کہ ہماری سیاست کی خرابیوں اور ناکامیوں کی ذمہ داری اگر مجھے بانٹنی ہو یا بیان کرنی ہو تو فوجیوں کے آنے کی ذمہ داری، اور وہ جب کبھی آئے ہیں، انہوں نے مداخلت کی ہے، اس کی ذمہ داری میں سیاست دانوں پر ڈالوں گا، اور بروقت فوج کے نہ جانے کی ذمہ داری فوجیوں پر ڈالوں گا۔ اگر وہ اس موقع پر جب سیاست دانوں نے اپنی کمزوریوں، ناکامیوں، خرابیوں اور کرپشن کی بنا پر ملک کو اس دہانے پر پہنچا دیا ہو کہ عوام بھی سمجھتے ہوں کوئی علاج ہونا چاہیے، فوج کیوں کہ ایک مربوط تنظیم ہوتی ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ ہم آکر انتظام کرسکتے ہیں، وہ اگر Care Taker (کیئر ٹیکر) کے طور پر آئیں، مستقل ہونے کے لیے نہ آئیں، جیسا کہ آج کل میں نور خان نے بہت اچھی بات کہی ہے کہ وہ فائر بریگیڈ کے طور پر آئیں، آگ بجھائیں اور چلے جائیں، جس کی مثال ترکی میں موجود ہے، تھائی لینڈ میں موجود ہے۔ اور اس طرح جو فوجی آکر کام کرنے کے بعد واپس چلے جائیں وہ عزت بھی کماتے ہیں اور ملک کو بچا بھی لیتے ہیں۔
سوال: جس جواز اور دعووں کے ساتھ فوجی آمر اقتدار پر قابص ہوتے ہیں، آؒپ کے خیال میں فوجی ادوار پاکستان کی ساٹھ سالہ تاریخ میں سویلین سے زیادہ کرپشن، مہنگائی، بے روزگاری، امن وامان کے حوالے سے بدتر نہیں ہیں؟
سینیٹر ایس ایم ظفر: ایوب صاحب کے زمانے میں اقتصادی ترقی بہت ہوئی۔ پاکستان ایک نچلی سطح سے باقاعدہ بڑھتے ہوئے معاشی اقتصادی قوت مانا جارہا تھا۔ پاکستان نے اپنے تاریخی مدمقابل بھارت کے مقابلے میں عسکری قوت بھی اتنی جمع کرلی تھی کہ اپنی مدافعت کر سکتا تھا۔ لیکن سیاسی وسعت نہ ہونے کی وجہ سے ایوب صاحب کو بالآخر ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ جنرل ضیا الحق نے اپنے زمانے میں افغانستان کی جنگ جیت کر بہت بڑا کارنامہ انجام دیا۔ موجودہ دور میں معیشت کی بحالی ہورہی ہے اور کوشش کی جارہی ہے کہ پاکستان میں جو عدم برداشت ہے اُس میں کمی لائی جائے۔ فوجی نظام آتا ہے تو ان کی نظر سیاسی توانائی کی جانب نہیں ہوتی۔ ان کی نظر اقتصادی یا اس قسم کے دوسرے معاملات کی جانب ہوتی ہے۔ سیاست ان کا کھیل نہیں ہے، وہ جانتے بھی نہیں ہیں، اور دراصل یہی وجہ ہونی چاہیے کہ وہ ضرور واپس چلے جائیں۔ انہیں معلوم ہوجاتا ہے کہ ہم واقعی سیاست نہیں چلا سکتے، یہ ہمارا کام نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پھر سویلین کو اس میں شامل کرتے ہیں، اور جب وہ سویلین کو شامل کرتے ہیں تو پھر ان کے ساتھ وہی سیاسی ضروریات جن کا ابھی آپ نے ذکر کیا، سیاسی کرپشن اور دیگر لوازمات کو شامل کرکے اپنے آپ کو طوالت دیتے ہیں۔ اگر وہ طوالت کی کوشش نہ کریں تو کرپشن سے بھی بچ جائیں۔ طوالت کی وجہ سے باقی چیزیں درست ہوجاتی ہیں لیکن سیاست کی گندگی بڑھ جاتی ہے۔ اس لیے آج بھی میرا کہنا یہ ہے کہ اب واپس جانے کا وقت ہے، اب فوج باقاعدگی کے ساتھ واپسی کا راستہ اختیار کرلے تو یہ 60 سالہ دور، جو اب تک ہماری اونچائی نیچائی کا دور ہے، اس کے بعد اچھا اور خوب صورت دور آنے کی گنجائش ہے۔ اب دیکھیں اس گنجائش کا ہم فائدہ اٹھا سکتے ہیں یا نہیں۔
سوال: ایک طرف آپ اقتصادی صورت حال درست ہونے کی بات کر رہے ہیں لیکن دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ عام آدمی کی زندگی مشکل سے مشکل ہورہی ہے اورروز کوئی نہ کوئی مہنگائی، غربت، بے روزگاری کے ہاتھوں مجبور ہوکر خودکشی کررہا ہے۔ موجودہ فوجی حکومت کے آٹھ سالہ دور میں تو اس حوالے سے کہیں بہتری نظر نہیں آتی۔
سینیٹر ایس ایم ظفر: اقتصادی صورت حال کے بہتر ہونے کے لیے کچھ انڈیکیٹرز (اشاروں) کا ذکر کیا جاتا ہے جس میں ایک تو بہت بڑی اور لازمی ضرورت ہے فارن ایکسچینج ریزرو کی۔ وہ آج کل کسوٹی مانی جاتی ہے کسی ملک کے اقتصادی استحکام کی۔ کیا اُس کے پاس اتنا سرمایہ موجود ہے کہ جو اُس کی تجارت ہے، اگر ضرورت پڑ جائے ادائیگی کرنے کی، تو کی جاسکے! یہ ہماری بہت ہی کم رہی ہے۔ ایک انڈیکیٹر یہ ہوتا ہے۔ دوسرا اسٹاک ایکسچینج ہوتا ہے۔ ہمارے اسٹاک ایکسچینج کی صورتِ حال گزشتہ سالوں سے بہتر رہی ہے۔ مستقل اس میں ترقی اور بڑھوتری ہوئی ہے۔ اگرچہ اس میں بھی بہت خرابیاں موجود ہیں، لیکن ایک انڈیکیٹر ہے ہماری تجارت کا، وہ یہ ہے کہ درآمد و برآمد میں بہت فرق ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی جارہی ہے اوردرست معلوم ہوتی ہے کہ بہت سارا سامان فیکٹریوں اور انڈسٹری کا امپورٹ ہو رہا ہے جس کے لیے ظاہر ہے فارن ایکسچینج باہر خرچ کرنا پڑتا ہے۔ آپ کی یہ بات درست ہے کہ غربت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کی وجوہات کو تلاش کرنا چاہیے۔ اس کی ایک وجہ تو غیر معمولی شرحِ پیدائش ہے۔ پاکستان میں اس پر ابھی تک کنٹرول نہیں ہوا، اور اگر ہر سال ہم زیادہ بچوں کی ذمہ داریاں اپنی قوم پر ڈالتے جائیں گے تو زیادہ اسپتالوںکی ضرورت ہوگی، زیادہ کالجوں اور اسکولوں کی ضرورت ہوگی، زیادہ اخراجات کی ضرورت ہوگی۔ اس کی وجہ سے بھی یہ اقتصادی ترقی جتنی کی گئی ہے وہ میچ اَپ نہیں کر رہی۔
سوال: بینکوں میں جو پیسہ موجود ہےوہ تو مصنوعی ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شرکت کا انعام ہے۔
سینیٹر ایس ایم ظفر: ملک میں پیسے آرہے ہیں اس کو آپ مصنوعی کہیں گے! یہ ایک حقیقت ہے کہ پیسے تو آئے، وہ چاہے خارجہ پالیسی کی بنا پر آئے، چاہے آپ کی اپنی اقتصادی پالیسی کی وجہ سے۔ لیکن وہ پیسے آنے کی بنا پر آپ کو یہ موقع اور مہلت ملی کہ اقتصادی ترقی کرسکیں۔ اور ایک بات تو بڑی واضح ہے کہ اقتصادی ترقی اچانک نہیں ہوتی ۔ابھی مثال کے طور پر ڈیم ہی ہم لوگ نہیں بننے دے رہے، زراعت کی ترقی نہیں ہو رہی ہے۔ ڈیم ایک دن میں تو نہیں بنتا، کئی سال میں بنتا ہے۔ کالا باغ ڈیم کی جو فزیبلٹی موجود ہے اس کے خلاف لوگ ہتھیار لے کر کھڑے ہو گئے ہیں۔ سوچ بچار تو ہم لوگ کرتے نہیں کہ ہماری ضرورت کیا ہے۔ جتنا پانی آج ضائع ہو رہا ہے وہ سب بچ جاتا۔ کالا باغ ڈیم کب کا بن چکا ہوتا، ضیا الحق صاحب وہ بنا سکتے تھے۔
سوال: مقامی لوگوں کے کالاباغ ڈیم پر تحفظات ہیں، اور فوجی قوت تحفظات دور کرنے میں ناکام ہوئی ہے۔ شاید سیاسی حکومتیں بات چیت کے ذریعے ہی تحفظات دور کرسکتی ہیں؟
سینیٹر ایس ایم ظفر: سیاسی حکومتوں نے بھی یہ کام بالکل نہیں کیا۔ بھٹو کو موقع ملا، انہوں نے بھی نہیں کیا۔ بہرحال یہ ہماری بدقسمتی ہوگی اگر ہم نے ان چیزوں پر زیادہ توجہ نہ دی، چاہے موجودہ حکومت ہو یا اگلی حکومت۔ صنعتی ترقی اور اقتصادی بحالی اتنی تیزی سے نہیں ہوتی۔ اس میں مدتیں لگتی ہیں۔
سوال: قائداعظم کو آپ نے اپنا آئیڈیل قرار دیا ہے۔ قائداعظم کا اصول یہ تھا کہ وہ جھوٹا مقدمہ نہیں لڑتے تھے، لیکن آپ گاہے بہ گاہے فوجی آمروں کو مشورہ دیتے اور اُن کے مشیر بنتے نظر آتے ہیں۔
سینیٹر ایس ایم ظفر: (ناراضی کے ساتھ) آپ کو کہاں سے معلوم ہوا کہ قائداعظم سچے یا جھوٹے مقدمے سے متعلق فیصلہ کرتے تھے؟ قائداعظم جو مقدمہ لیا کرتے تھے اس میں اپنے مؤکل کی بات پوری دیانت کے ساتھ پیش کرتے تھے اور کبھی نہیں معلوم کرتے تھے، اور کوئی وکیل نہیں معلوم کرتا اپنے مؤکل سے کہ اس نے جرم کیا یا نہیں کیا۔ اس کا مقدمہ سچا ہے یا جھوٹا ہے۔ وہ تو اس مقدمے کی نوعیت دیکھ کر اس کے واقعات کے حوالے سے بحث کرتا ہے۔ قائداعظم بھی ایک بہت اچھے، عمدہ اور اعلیٰ پائے کے وکیل تھے، اور ایسے مقدمے جو لوگ سمجھتے تھے جیتے نہیں جاسکتے، وہ بھی انہوں نے جیتے۔ تو کیا وہ لوگ جو سمجھتے تھے کہ یہ مقدمہ جیتا نہیں جاسکتا یہ کہیں کہ قائداعظم نے جھوٹے مقدموں کو سچا کردیا! تو یہ بات نہیں ہوا کرتی۔ بہرحال میں نے بھی کوئی مقدمہ ایسا نہیں لیا جس میں مجھے اپنی تسلی نہ ہوتی ہو کہ وہ قانونی طور پر درست ہے۔ اور رہا مشورے کا سوال، تو میں نے ابھی تک کسی کو بھی کوئی ایسا مشورہ نہیں دیا جس سے مجھے افسوس ہو۔ میں نے سب صائب اور صحیح مشورے دیے…. کس کو مشورہ دیا؟ یہ سوال تو بالکل ہی میرے نکتہ نظر سے غیر متعلق ہے۔ کیا مشورہ دیا؟ یہ بہت اہم ہے۔ اور کیا مشورہ کس کو دیا؟ یہ اس سے زیادہ اہم ہے۔
سوال: جنرل پرویز مشرف کو کیا مشورہ دیا؟
سینیٹر ایس ایم ظفر: (بات کاٹتے ہوئے) میں نے جب بھی کسی کو چاہے وہ بڑی طاقت والی شخصیت ہو، مشورہ دیا جو اس کے مزاج کے مطابق نہیں تھا اور جو میرے نکتہ نظر سے قوم اور ہم سب کی بہتری کا تھا مجھے تو اس پر اطمینان ہے۔ اگر آپ فخر کی اجازت نہ دیں تو مجھے اطمینان اس پر ضرور ہے۔ مجھے اپنی زندگی کے کسی موقع پر کسی ایک فیصلے پر، جس میں، میں نے مشورہ کسی کو دیا.. ایوب صاحب کو دیا، بھٹو صاحب کو دیا، کبھی نواز شریف صاحب کو دیا۔ بے نظیر بھٹو کو مشورہ دینے کا موقع نہیں آیا۔ ہاں ضیا الحق کو بھی دیا، اُن کو بھی دیا (جنرل مشرف)۔
سوال: کیا مشورے دیے؟
سینیٹر ایس ایم ظفر: (لمبا سانس لیتے ہوئے) اب مشوروں میں مختلف باتیں رہیں۔ مثال کے طور پر ذوالفقار علی بھٹو صاحب سے جب مشورہ ہوا تو وہ شملہ کانفرنس میں جانے سے پہلے کا تھا۔ وہ سیاسی معاملات سے متعلق مشورے تھے۔ فوجی کسی طرح واپس لے کر آنے ہیں؟ اس سلسلے میں گفتگو ہوتی تھی۔ ایوب خان سے جو مشورے ہوتے تھے اس میں اُن سے کہا جاتا تھا کہ اب آپ Adult Franchize (بالغ رائے دہی) کی طرف چلیں، اب ہمیں چاہیے کہ اپنا آئین تبدیل کریں۔ آئین میں تبدیلی کا مسودہ بھی بنا لیا گیا تھا، آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا مشورہ دیا تھا۔ آل پارٹیز کانفرنس بلائی بھی گئی، سیاست دانوں نے آنے سے انکار کر دیا۔ اگر وہ آجاتے تو ممکن ہے ملک کی تقدیر بدل جاتی۔ لیکن میں مشورے ہی دے سکتا تھا، ملک کی تقدیر نہیں بدل سکتا تھا۔ کیوں کہ ”خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی، نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا۔“
سوال: میں دوبارہ پوچھوں گا کہ جنرل پرویز مشرف کو آپ نے کیا مشورے دیے؟
سینیٹر ایس ایم ظفر: جنرل پرویز مشرف کو بھی میں نے مشورہ دیا کہ آپ تاریخی شخصیت بن سکتے ہیں، آپ کو تاریخ نے یہ موقع دیا ہے کہ آپ فوجی قوت اور سول قوت کے درمیان ایک پُل کا کام دے سکتے ہیں۔ لیکن اس وقت جو انتخابات آرہے ہیں اگر آپ ان انتخابات کو ایک سویلین کی حیثیت سے بطور صدر کے لڑتے ہیں تو یقینی طور پر آپ منتخب ہوں گے، اور منتخب ہونے کے بعد آپ اس ملک کو جمہوری راستے پر جس پر ہم اب تک چلے آرہے ہیں پچھلے چند برسوں سے، بڑی تیزی سے آگے لے جا سکیں گے۔ میں نے مشورہ دیا ہے اور اوپن دیا ہے۔
سوال: آپ نے وردی اتارنے کا مشورہ دیا؟
سینیٹر ایس ایم ظفر: میں نے اُن سے کہا اب آپ دو عہدے رکھ کر صدارتی انتخاب نہ لڑیں۔
(جاری ہے)