جیفری ایپسٹین اور سوشل میڈیا

373

شہرِ نبیؐ کامقام
سعودی عرب صرف سوڈان، مصر، ترکی، عراق، پاکستان، بنگلہ دیش کی طرح ایک سادہ اسلامی ملک ہوتا تو زیادہ مسئلہ نہیں تھا۔ مگر یہاں تو شہرِ نبیؐ ہے۔ شہرِ حرم ہے۔ یہ کوئی معمولی شہر نہیں ہیں؟ اِن سے ہر مسلمان کا کیا تعلق ہے یہ بتانے کی بات نہیںہے۔ جہاں عشّاق پیدل جانے میں فخر کرتے ہیں، آج بھی ننگے پائوں سفر کرتے نظر آتے ہیں، جہاں عشّاقِ رسولؐ پیٹھ کرنا گوارا نہیں کرتے،جہاں اونچی آواز میں نہیں بولاجاتا، جہاں کاسفر ہی شروع ہو تو’’نمدیدہ،نمدیدہ‘‘ کی صدائیں ہوتی ہیں، جس کی گلیوں میں جا کر واپس نہ آنے کا دم بھرا جاتا ہے،شہرِ نبیؐ پر ہمارے نعتیہ کلام کا اتنا بڑا مجموعہ کھڑا ہوا ہے کہ کئی کتب لکھنی پڑ جائیں۔امام مدینہ حضرت سیدنا امام مالکؒؒ خاکِ مدینہ کی تعظیم ایسی فرماتے کہ (حالتِ صحت میں)اس مٹی پرکبھی بھی قَضائے حاجت کے لیے نہیں گئے۔کبھی اس سرزمین پر جوتا یا چپل یا گھوڑے کی نال بھی نہیں رکھی۔ عظمت ِمدینہ پر عزت بخاری کا شعر علامہ اقبال نے یوں نقل کیا ہے :

ادب گاہسیت زیر آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید ایں جا

ترجمہ: آسمان کے نیچے ایسی ادب گاہ (گنبدِ خضریٰ) ہے جو عرش سے بھی زیادہ نازک ہے۔جہاں جنید و بایزید بسطامی جیسے لوگ بھی سانس روک کر آتے ہیں۔

یہ ساری باتیں بالکل نظر انداز نہیں کی جاسکتیں۔میں تو ابھی تک نہیں گیا لیکن بے شمار ایسے دوستوں کو جانتا ہوں جن کے ایک دورے /عمرے نے ان کی زندگی بدل ڈالی۔ایسا جادوئی اثر روئے زمین پر کہیں نہیں ملے گا۔

پریشانی کیا ہے؟
کہنے کو تو ایک دورے کی خبر ہی تھی، مگر سب کو گنگ کر گئی۔ لوگ سوشل میڈیا پر بتا رہے تھے کہ اللہ کا حکم ہے کہ ’’اے ایمان والو! مشرک بالکل ناپاک ہیں تو اس برس کے بعد وہ مسجدِ حرام کے پاس نہ آنے پائیں، اور اگر تمہیں محتاجی کا ڈر ہے تو عنقریب اللہ تمہیں دولت مند کردے گا اپنے فضل سے اگر چاہے، بے شک اللہ علم و حکمت والا ہے۔‘‘ اس حکم کے بعد اگر ’حربی مشرکین‘ کو دورے کرائے جائیں تو مسلمان ردعمل کیوں نہ دیں! بات کو سمجھ لیں کہ قرآن جس پر نازل ہوا، وہ اس کی سب سے بہترین تشریح کرے گا یا 1445 سال بعد کوئی مولانا کریں گے؟ رسول اللہﷺ نے پورے جزیرۂ عرب سے مشرکین کو نکالنے کا حکم دیا۔ حضرت عمر ؓ نے مزید وسعت دی اور یہودیوں کو بھی جزیرۂ عرب سے نکال دیا۔ پورا عرب کفار و مشرکین کے وجود سے خالی ہوا۔ یوں ہمیں اگلے ہزار سال تک اس حکم میں کوئی رعایت نظر نہیں آئی۔ خلافت کے بعد سعودی عرب الگ ہوا تب بھی ہمت نہیں ہوئی۔ 76 سال سے بھارت سے مسلمان حج اور عمرہ کرنے آرہے ہیں، اس سے پہلے کیوں کسی کو مدینہ شریف نہیں لایا گیا؟ یہ سارے کام پچھلے 5 سال میں کیوں شروع ہوئے ہیں؟ یہ سوالات اہم ہیں۔ یہ سوال ہم سب کو کرنے ہوں گے۔ قرآنی نص اور صحابہ کے اجماعی حکم کا دائرہ محدود کرتے کرتے کیوں صرف خانہ کعبہ و مسجد حرام تک محدود کیا جارہا ہے؟ یہ سب کام ایک اعلانیہ آزاد ملک نے انجام دیے، سوچیں غلام ہوتے تو اور کیا کرتے! یہ ہے اصل پریشانی۔

بھارتی وزیروں کا ٹولہ کیوں آیا؟
بھارت کی انتہائی متنازع، اسلام دشمن، بی جے پی کی خاتون وزیر اقلیتی امور سمرتی ایرانی نے اپنے وفد کے ساتھ جدہ اور وہاں سے مدینہ منورہ کا دورہ کیا۔ جدہ میں تو وفد کا بڑا استقبال ہوا، خوب سرکاری ناچ گانا کرایا گیا۔ مقصد اگر بھارتی مسلمانوں کا حج کوٹہ تھا تو یہ سوال ہوگا کہ اس میں مدینہ منورہ کا دورہ کیوں منظور کیا گیا؟2024ء کے لیے 175ہزار بھارتی مسلمان عازمینِ حج کا کوٹہ منظور ہوا، یہ آمدنی تو سعودیہ کو مل ہی جانی ہے، پھر ’’مذہبی رواداری‘‘کے نام پر یہ دورہ کیوں؟ بھارتی وزیر کی ہمت دیکھیں کہ اس نے میدانِ احد وغیرہ کا دورہ کرکے یہ بھی کہہ دیا کہ ’’اس کا تعلق ہماری ثقافت و تاریخ سے جڑتا ہے‘‘۔ مطلب یہ کہ وہ اپنا تعلق وہاں کھڑے ہوکر 14سو سال قبل کے مشرکین سے جوڑ رہی تھی۔ علما سے معلوم کریں کہ وہ مشرک جو مسلمانوں سے حالتِ جنگ میں ہیں کشمیر ہی نہیں، بھارت کے اندر بھی، اسرائیل میں بھی (یہ خبر کئی بار آچکی ہے کہ بھارتی ہندو شہری بھی اسرائیلی فوج کا حصہ ہیں) تو ایسے مشرکین کے لیڈران کے گروہ کو جنگ کے دوران کیسے، کیوں، کس نیت سے شہرِ نبیؐ کا دورہ کرایاجا سکتا ہے؟

براہِ کرم ایسا کرتے وقت ڈرائیور، مکینک، درزی، پلمبر، الیکٹریشن، ڈاکٹر، نرس سمیت دیگر پیشوں میں ملازمت سے وابستہ افراد کی سعودیہ میں موجودگی کی مثال مت لائیے گا۔ اُصولاً تو وہ بھی نہیں آسکتے، مگر اِس وقت معاملہ ایسے مشرکین جو مسلمانوں سے حالتِ جنگ میں ہیں، کے لیڈران کا ہے۔ ملازمین کو فی زمانہ غلام کے تناظر میں ٹریٹ کیا جاتا ہے کیونکہ وہاں ان کو مقامی سعودی مسلمان کفیل ہی اپنی ضمانت پر لاتا ہے۔

اسکینڈل کی دنیا:
لیک وڈیو سے لے کر لیک دستاویزات تک ہمارے درمیان ’اسکینڈلز‘کی ایک قطار لگی ہوئی ہے۔ مطلب، موبائل دور سے قبل کی چیز ہے تو دستاویزات ہیں، موبائل دور کی ہے تو پھر آڈیو، وڈیو اور تصویریں ہیں۔ وکی لیکس سے لے کر پاناما پیپرز تک یہ سلسلہ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ سیٹلائٹ دور کے بعد تو کوئی بھی کہیں بھی محفوظ ہی نہیں۔ مصنوعی ذہانت کا زمانہ ہے اس لیے اس کے امکانات مزید بڑھ گئے ہیں۔ ’دی اکنامسٹ‘ کا ٹرینڈ یہ بتا رہا تھا کہ بڑی خوشی ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے جیل میں سخت نگرانی کے درمیان عالمی جریدے میں شائع مضمون پر اشارہ دیا کہ مصنوعی ذہانت سے انہوں نے ایسا کیا ہے۔

ہمارے استاد کہتے ہیں کہ کسی اصطلاح کو جاننا ہو تو اس کے اوریجن یا اس کے وجود میں ضرور جھانکا کرو، کیونکہ اصطلاح اپنی زبان میں اپنے ورلڈ ویو کے ساتھ بنتی ہے۔ ’اسکینڈل‘ بھی ایک مغربی اصطلاح ہے۔ اس کی جڑ قدیم یونان کے لفظ ’اسکینڈیلن‘ سے نکلی، جس کا مطلب ’’رکاوٹ یا مشکل‘‘ تھا۔ پھر لاطینی زبان میں یہ ’اسکینڈیلم‘ بن گیا۔ اس کے معنی میں یہ اضافہ ہوا ’’ایسی رکاوٹ جو کسی حملے کی وجہ بنے‘‘۔ پھر انگریزی میں یہ تیرہویں صدی عیسوی میں ’اسکینڈل‘ کے عنوان سے سامنے آئی جس کا مطلب ’’کسی مذہبی شخص کے غیر مناسب طرزِعمل سے مذہب کا بدنام ہونا‘‘بنا۔ یہ تیرہویں صدی وہ ہے جس میں غیر کیتھولک عیسائی فرقوں کو بزور شمشیر کچلنے کی مہمات شروع ہوئیں۔ ریاست اور کلیسا نے ایک دوسرے کا بھرپور ساتھ دیا، اسی صدی میں استعماری دور کا بھی آغاز ہوا۔ اس کے بعد جب دنیا پر استعمار ی غلبہ ہوگیا اور سرمایہ دارانہ نظامِ حکومت قائم ہوگیا، ’مغرب‘ میں مذہب کا وجود سکڑکر ختم ہوگیا تو اس اصطلاح اور اس کے معانی میں سے بھی مذہب غائب ہوگیا۔ اس کے فی زمانہ یہ معانی بن چکے ہیں کہ ’’ایسا عمل جس پر بدنامی ہو‘‘۔ اس لیے کہ مغرب میں کسی عمل کو ناپنے، جاننے یا جانچنے کے لیے اخلاقی پیمانے مذہبی نہیں رہے بلکہ خالص مادی ہوچکے ہیں۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ سوشل میڈیا کی یہ نئی دُنیا اَب اسکینڈل کی دنیا بن کر مستقل ’اسکینڈلائز‘ ہورہی ہے۔ ایک کے بعد ایک اسکینڈل سامنے آتے جارہے ہیں۔ حال یہ ہے کہ مرنے کے بعد بھی آجاتے ہیں جیسے جیفری کا آگیا۔ ایپسٹین اس وقت سوشل میڈیا پر عالمی سطح پر چھایا ہوا موضوع ہے۔ امریکا ہی نہیں، کئی ممالک اس کی زد میںآگئے ہیں۔ یہ مغرب کا بھیانک، گندا اور غلیظ چہرہ دکھانے والا اسکینڈل کیا ہے، دیکھتے ہیں۔

ایپسٹین کون ہے؟
66 سالہ جیفری ایپسٹین امریکا کا ایک ارب پتی کاروباری تھا۔ 1990ء کی دہائی سے جیفری ایپسٹین اور اُس کی خاتون پارٹنر گیزلین میکسول نے کم سن لڑکیوں کے ساتھ جنسی جرائم کے بھیانک کام شروع کیے۔2005ء میں پہلی بار ایک متاثرہ خاتون کا ہرجانے کے لیے کیس سامنے آیا اور 2006ء میں پہلی بار جیفری گرفتار ہوا۔ پھر ہر سال، دو سال بعدایسے کیسز ہوتے رہے۔ جولائی 2019ء میں اس کو آخری بار گرفتار کیا گیا۔ کیس چل رہا تھا مگر اس نے اگست 2019ء میں جیل میں خود کو پھندا لگا کر خودکشی کرلی۔

اتنا کمانے کے بعد پیسے سے جو نشہ چڑھتا ہے وہ ہے طاقت کا نشہ۔ دنیا گھوم لی، کاروبار کرلیے، مہنگے ترین کپڑے، گاڑی، کھانا پینا، ٹھاٹھ باٹھ کے بعد کیا کرے؟ جیفری نے امریکا میں دو متصل جزیرے خریدے، اپنے ہوائی جہاز لیے،کشتیاں لیں۔ ہر چیز اس کی نجی ملکیت میں تھی، یہاں تک کہ ملازمین بھی ایسے رکھے جو کوئی راز باہر نہ نکالیں۔ باقی کاروبار الگ چلتے رہے، مگر اِس جزیرے پر وہ اپنے نجی طیارے پر مخصوص مہمانوں کو لاتا، لے جاتا۔ اس آزاد ماحول میں اب تک یہ سامنے آیا ہے کہ وہ طاقتور، بااثر افراد کو کم سن لڑکیاں پیش کرتا۔

2015ء سے damagesکے قوانین کے تحت جیفری کے خلاف متاثرہ خواتین نے ہرجانے کے کیسز شروع کیے۔ اس کی خاتون پارٹنر ابھی زندہ ہے اور جیل میں ہے۔ یہ پیسہ ملنا آسان ہوتا ہے، جب بھرنے والا ارب پتی ہو اور بعدازاں مر بھی چکا ہو۔ جیفری کے کوئی بیوی بچے نہیں، صرف ایک بھائی تھا۔ اس کی تمام رقوم و اثاثے اس کی وصیت کے مطابق ٹرسٹ کو منتقل کردیے گئے۔ اب دسمبر 2023ء میں عدالتی حکم پرجیفری کے جزیرے پر آنے والے اہم مہمانوں کی لسٹیں عام کردی گئی ہیں۔ ایک متاثرہ خاتون ’ورجینیا‘ نے یہ راز کھولا کہ جیفری ایک ہزار سے زائد لڑکیوں کی زندگی برباد کرچکا ہے۔ یہ ساری خواتین عدالت میں کیس کرکے، ثبوت دے کر جرمانے کی بھاری رقوم جیفری کی جائداد سے وصول کرنے کے مشن پر ہیں، کیونکہ انہوں نے یہ سب سنبھال کر رکھا۔ خیر ہمارامقدمہ تو ’’حُبِّ مال‘‘ کے مضر اثرات پر ہی کھڑا ہوا ہے جو مستقل ظاہر ہورہا ہے۔

ناموں کی لسٹ کیا ہے:
ان افراد کی لسٹیں اقساط میں عدالت سے جاری ہو رہی ہیں۔ میڈیا کے مطابق ان سیاسی شخصیات میں امریکی صدور بل کلنٹن، ڈونلڈ ٹرمپ،اسٹیفن ہاکنگ، کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو، شہزادے گولڈ اسمتھ کے علاوہ بہت سے ماڈل، ایکٹرز، بزنس مین اور سیلیبریٹیز شامل ہیں۔لسٹوں میںنام ہی نہیں دستاویزی ثبو ت و بیانات بھی موجود ہیں۔ابھی مزید نام سامنے آنے ہیں۔ ایک بندے کا نام یہ کہہ کر سامنے نہیں لایا جا رہا کہ اس کے وکیل نے درخواست دی ہے کہ کیس کی کارروائی میں اس کو کوڈ نام DOE107 سے پکارا جائے کیونکہ وہ امریکا میں نہیں رہتا،بلکہ ایسے ملک میں رہتا ہے جہاں اس کام کو بہت غلط جانا جاتا ہے، اس لیے اس کو اپنی جان کا خطرہ ہے۔ذرا دلیل تو دیکھیں، ایسا ملک جہاں اِن کاموں کو برا سمجھا جاتا ہے۔مطلب صاف ہے کہ امریکا میں ایسا نہیں سمجھا جاتا۔

حصہ