تخلیق

462

انسانی زندگی میں تخلیق کی اہمیت اتنی بنیادی ہے کہ اس کے بغیر زندگی کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ اقبال نے کہا ہے۔

اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سرِّ آدم ہے ضمیرِ کُن فکاں ہے زندگی

اقبال اس کے شعر کا مفہوم واضح ہے اور وہ یہ کہ صرف تخلیق و ایجاد کی صلاحیت انسان کو ’’زندہ‘‘ کہلانے کا مستحق بناتی ہے۔ جو شخص تخلیق و ایجاد کی صلاحیت سے محروم ہے وہ زندہ ہو کر بھی زندہ نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تخلیق ہی آدم کی زندگی کا ’’راز‘‘ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کنُ کہا اور اس پوری کائناب کو خلق کردیا ۔ انسان کی کو اس ’’کنُ‘‘ کی بازگشت ہونا چاہیے۔ اقبال کے نزدیک دنیا میں وہی شخص یا وہی قوم مرکزیت حاصل کرتی ہے جو تخلیق کی صلاحیت کی حامل ہوتی ہے۔ اقبال نے اس سلسلے میں کہا ہے۔

ہر دور میں کرتا ہے طواف اس کا زمانہ
جو عالمِ ایجاد میں ہو صاحبِ ایجاد

اس کے معنی یہ ہیں کہ تخلیق وایجاد کی صلاحیت زندگی کی ’’قوت ثقل‘‘ یا اس کی Gravitational Force ہے اور دنیا نے خود کو اس قوت کے طواف پر مجبور پایا ہے۔ لیکن اقبال کے نزدیک تخلیق کا مفہوم کیا ہے؟ اس حوالے سے اقبال نے کہا ہے۔

جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ وخشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا

اقبال کی نظر میں تخلیق کا مطلب نئے خیالات یا نیا علم ہے۔ انسان کی پوری تاریخ اقبال کے اس دعوے کا ثبوت ہے کہ نئی دنیا ’’ہمیشہ‘‘ نئے علم سے پیدا ہوتی ہے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اینٹوں اور پتھروں سے نئی دنیا تعمیر ہوتی ہے وہ زندگی کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ واضح رہے کہ یہاں ’’سنگ وخشت‘‘ سے مراد صرف اینٹ پتھر نہیں طاقت اور دولت بھی ہیں۔ اس لیے کہ یہ نیا علم ہے جو دولت اور طاقت کو نئی دنیا کی تعمیر کا ’’ذریعہ‘‘ بناتا ہے۔ نیا علم نہ ہوتو طاقت اور دولت بھی سنگ وخشت کے سوا کچھ نہیں۔ ایسے سنگ وخشت جن سے کسی کا سر تو پھوڑا جاسکتا ہے مگر ان سے کوئی پھول نہیں کھلا یا جاسکتا۔ کوئی زخم نہیں سیا جاسکتا۔ یعنی نئے علم کے بغیر دولت اور طاقت تخریبی قوت تو ہوسکتی ہیں، تعمیری قوت ہر گز نہیں ہوسکتیں۔ لیکن ہمارے زمانے میں تخلیق کے تصور کے ساتھ ایک عجیب مسئلہ منسلک ہوگیا ہے۔

اس مسئلے کا لب لباب یہ ہے کہ تخلیق کا تصور شاعروں، ادبیوں اور مصوروں تک محدود ہوگیا ہے۔ یہ ایک برخود غلط خیال ہے اور یہ خیال عہد جدید کی پیداوار ہے۔ اس کے برعکس افلاطون کسان اور جولا ہے کو بھی ’’تخلیق کار‘‘ سمجھتا تھا اور افلاطون کی یہ بات درست تھی۔ اس لیے کہ تخلیق مختلف عناصر یا اجزاء کے ملاپ سے وجود میں آنے والی ایک نئی تشکیل ہے اور شاعرو ادیب کیا اس اعتبار سے مزیدار کھانے ’’ایجاد‘‘ کرنے والا باورچی بھی تخلیق کار ہے۔ البتہ ایک شاعر اور باورچی کے کام، اس کے حسن وجمال، اس کی معنویت اور اس کی افادیت میں زمین آسمان کا فرق ہے اور یہ فرق معاشرے میں ان کی اہمیت قدروقیمت اور مقام کا تعین کرتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ تخلیق کیا ہے اور انسانی وجود میں اس کا سرچشمہ کہاں ہے؟

تخلیق کو دو لفظوں میں بیان کرنا ہوتو کہا جائے گا کہ ہر تخلیق اپنی نہاد میں ایک ’’مانوس اجنبیت ‘‘ ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اگر تخلیق میں ’’مانوسیت‘‘ نہ ہو تو اس کی ’’تفہیم‘‘ ممکن نہیں ہوسکے گی اور اس سے ’’لطف اندوز‘‘ ہونا یا اس سے ’’استفادہ‘‘ کرنا ناممکن ہوجائے گا۔ اسی طرح اگر تخلیق میں ’’اجنبیت ‘‘ نہ ہو تو اس میں کوئی ’’حسن وجمال‘‘ ہوگا نہ کوئی ’’تاثیر‘‘ ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ ہر اچھی تخلیق مانوسیت اور اجنبیت کا امتزاج ہوتی ہے۔ یہ بات تخلیق کی اعلیٰ ترین سطح سے لے کر تخلیق کی پست ترین سطح تک کے لیے درست ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ انسانی وجود میں تخلیق کا سرچشمہ کہاں ہے اور تخلیق کا سوتا انسانی وجود میں کس طرح پھوٹتا ہے؟ مذہبی اعتبار سے دیکھا جائے تو اس سوال کا جواب بالکل واضح ہے اور وہ یہ کہ تخلیق کا تعلق ’’الہام‘‘ سے ہے اور الہام کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ انسانی وجود میں تخلیق کاعمل کس طرح وقوع پذیر ہوتا ہے؟ اس سوال کا حتمی جواب مشکل ہے البتہ دنیا کے بڑے تخلیق کاروں کے یہاں اس سوال کے جواب کے سلسلے میں اہم اشارے موجود ہیں۔ مثلاً ٹی ایس ایلیٹ نے کہا ہے کہ شاعری شخصیت کا اظہار نہیں اس سے فرار ہے۔ ایلیٹ کے اس فقرے پر مغربی ادب ہی میں نہیں اردو ادب میں بھی کافی بحث ہوئی ہے اور ہمارے یہاں بعض نقادوں نے ایلیٹ کے اس فقرے کو لایعنی اور مہمل تک قرار دیا ہے۔ لیکن اس کی وجہ ان نقادوں کے فہم کا نقص ہے۔ ایلیٹ کے اس فقرے کا مفہوم یہ ہے کہ شاعر شخصیت کو ترک کرکے یا اس سے انحراف کرتے ہوئے جب اپنی ذات سے حقیقی اور گہرا تعلق استوار کرتا ہے تو وہ حقیقی معنوں میں بڑی شاعری کے قابل ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی وجود میں الہام کا سرچشمہ ’’شخصیت‘‘ نہیں ہے بلکہ ’’ذات‘‘ ہے۔ شخصیت الہام سے یکسر محروم نہیں ہوتی مگر اس کے نصیب میں صرف الہام کی بوندا باندی ہے۔ الہام کی بارش صرف ذات کے لیے ہے۔ چنانچہ جو تخلیق کار شخصیت کے اسیر رہتے ہیں وہ چھوٹے موٹے شاعر، چھوٹے موٹے ادیب اور چھوٹے موٹے تخلیق کار بن جاتے ہیں البتہ جو لوگ شخصیت سے جان چھڑا کر ذات کی اقلیم سے خود کو وابستہ کرلیتے ہیں وہ بڑے تخلیق کار بن کر سامنے آتے ہیں۔ ایلیٹ کے یہاں روایت کا جو تصور اور اس سے وابستگی پر جو اصرار ملتا ہے اس کا مفہوم بھی یہی ہے کہ انسان انفرادی شخصیت کو ’’اجتماعی شخصیت‘‘ میں ضم کردے۔ اس لیے کہ زرہ اسی طرح آفتاب اور قطرہ اسی طرح سمند بن سکتا ہے ۔ اردو شاعری میں میر نے بھی تخلیق کے سرچشمے کی جانب ایک اہم اشارہ کر رکھا ہے۔ میر نے کہا ہے کہ :

ہم کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب ہم نے
درد و غم اتنے کیے جمع تو دیوان کیا

بعض لوگ اس شعر کا مفہوم یہ سمجھتے ہیں کہ درد وغم شاعری کا سرچشمہ ہیں۔ یہ اس شعر کی سرسری تو جیہہ ہے۔ اس شعر کی اصل تشریح یہ ہے کہ درد اور غموں کی کشرت نے میر کے وجود میں شخصیت کی عمارت کو مسمار کردیا ہے اور اسے ’’ذات مرکز‘‘ بنا دیا ہے۔ لیکن اس عمل میں میر اپنی انفرادیت سے محروم نہیں ہوئے بلکہ ان کے یہاں درد اور غم میر کی شاعری کا لہجہ بن گئے ہیں تاہم ان کی شاعری کا بے پناہ مواد ان کی ذات کے سرچشمے سے فراہم ہوا ہے۔ اقبال نے اپنے ایک شعر میں تخلیق کو ’’خونِ جگر‘‘ کا حاصل قرار دیا ہے۔ اس بات کا مفہوم بھی وہی ہے جو میر کے شعر سے برآمد ہوا ہے۔

تخلیق کا معاملہ اتنا پر اسرار ہے کہ بسا اوقات شاعری میں محض ایک لفظ کی تبدیلی سے غیر شاعرانہ سطر شاعرانہ اور کم درجے کی شاعری بڑی شاعری بن جاتی ہے۔ عالمی ادب میں اس بات کی سب سے بڑی مثال جان کیٹس کے یہاں ملتی ہے۔ جان کیٹس کی معرکہ آراء نظم Endymion کے مصرعے پہلے یوں لکھے گئے تھے۔

A Thing of Beauty is a constant joy. Its loveliness increases and it will never pass into nothingness

ان مصرعوں میں لفظ Constant غیر شاعرانہ یا کم شاعرانہ تھا۔ کیٹس نے اس لفظ کو بدل دیا اور اس کی جگہ Forever استعمال کر لیا۔ چنانچہ کیٹس کا مصرع اس طرح ہوگیا۔

A Thing of Beauty is a joy for ever

اس ایک لفظ کی تبدیلی نے کیٹس کے مصرع کو عظیم اور لافانی بنا دیا۔ آخر اس کی وجہ کیا تھی۔؟ غور کیا جائے تو حسنُ یا Beauty کا تعلق ابدیت سے ہے اور حسن کی ابدیت لفظ forever سے جس طرح بیان ہوتی ہے لفظ Constantant سے اس طرح بیان نہیں ہوتی۔ چنانچہ لفظ forever کے استعمال ہے صرف کیٹس کے مصرع کا ’’صوتی اثر‘‘ ہی بہتر نہیں ہوا بلکہ اس کی حقیقی معنویت بھی آشکار ہوگئی ہے ہم جب انٹر میڈیٹ کے دوسرے سال میں تھے تو ہم نے اپنی شاعری کی بیاض اردو ادب کے ایک استاد کو دی۔ اس بیاض میں تین مصرعوں کی ایک نظم یا ثلاثی تھی جو اس طرح تھی۔

دل پیار کا عادی ہے
یہ بات سمجھنے میں
ایک عمر گنوا دی ہے

اردو ادب کے استاد نے اس ثلاثی میں لفظ ’’بات‘‘ کی جگہ ’’راز‘‘ استعمال کرنے کا مشورہ دیا اور ان کا مشورہ صائب تھا۔ اس لیے کہ لفظ راز کے استعمال سے ان مصرعوں کی گہرائی اور اثر آفرینی بڑھ گئی اور ان میں ایک ’’کائناتی رنگ‘‘ پیدا ہوگیا۔ پوری زبان کی روایت کا ’’فیضان‘‘ اس کو کہتے ہیں اور اس فیضان کے بغیر بڑی شاعری اور بڑے ادب کا تصور محال ہے۔ بعض لوگ شعر وادب کے دائرے میں زبان کی ’’انفرادی اہلیت‘‘ کو اہم سمجھتے ہیں لیکن اگر زبان کی انفرادی اہلیت کی پشت پر روایت کا شعور موجود نہ ہو تو زبان کی انفرادی اہلیت تخلیق کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بھی بن جاتی ہے جدید اردو شاعری میں اس کی سب سے بڑی مثال جوش ملیح آبادی ہیں۔ جوش کی لسانی اہلیت غیر معمولی تھی۔ الفاظ ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے تھے۔ جوش کو اس حقیقت کا ادراک تھا مگر ان کے یہاں زبان پر انحصار اتنا بڑھا کہ زبان ہر چیز کا متبادل بن گئی۔ چنانچہ جوش کے یہاں زبان کی ’’اہلیت‘‘ تخلیقی معنوں میں ان کے لیے سب سے بڑی نااہلی بن گئی لیکن جوش کا مسئلہ صرف یہی نہیں تھا۔ جوش کی شاعری کا مسئلہ یہ بھی تھا کہ ان کے یہاں خلوص کی انتہائی کمی تھی۔ چنانچہ زبان کی اہلیت ایسے الفاظ کی گونج بن گئی جن میں معنی کا فقدان تھا۔ اردو میں زبان کی غیر معمولی غیر شخصی اہلیت اور خلوص کی یکجائی کی حیرت انگیز مثال میر اور اقبال کی شاعری ہے۔ اس شاعری میں معنی اور تاثیر کی فراوانی ہے۔ تخلیق کا معجزہ ہے۔

تخلیق کے سلسلے میں موضوع کی اہمیت بھی بنیادی ہے۔ تاریخ میں اکثر ایسا ہوا ہے کہ بڑا موضوع بڑی تخلیق کا باعث بن گیا اور چھوٹے موضوع نے تخلیق کار کی اہلیت کو بڑھنے ہی نہیں دیا یا اس کی بڑی اہلیت کو بھی اپنی سطح پر گھسیٹ کر کم کردیا۔ لیکن کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ دو ادیبوں کے سامنے بڑا موضوع ہوتا ہے مگر ایک ادیب بڑے موضوع سے بڑا ادب پیدا کر کے دکھا دیتا ہے اور دوسرا ادیب بڑا ادب پیدا کرکے نہیں دکھا پاتا۔ اردو ادب میں اس کی مثال قرۃالعین حیدر اور نسیم حجازی ہیں۔ قرۃالعین حیدر کا موضوع تاریخ ہے اور انہوں نے تاریخ کو عالمی سطح کا بڑا ادب بنا دیا ہے۔ اس کے برعکس نسیم حجازی کے ناول تحریک پیدا کرنے والے یا Motivational تو بہت ہیں مگر وہ ادب عالیہ بہرحال نہیں ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ قرۃالعین حیدر کا تناظر تقریباً سیکولر ہے اور نسیم حجازی کا تناظر اسلامی ہے۔ اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ قرۃالعین حیدر نے تاریخ سے تعلق میں بے تعلقی پیدا کرکے دکھائی ہے اور نسیم حجازی اسلامی تاریخ میں جذب ہو کر رہ گئے اور غیر شخصی تناظر Detached out look پیدا کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ اردو میں اسلامی کردار اور مواد کو تعلق آمیز بے تعلقی کے ساتھ پیش کرنے کی بڑی مثال جمیلہ ہاشمی کا ناول دشتِ سوس ہے جس کا موضوع منصور حلاج کی شخصیت اور فکر ہے۔

حصہ