پروفیسر سید مرتضیٰ حسین جو ہندوستان اور یورپ کی قدیم و جدید بیس پچیس زبانوں کے ماہر تھے۔ برآمدے میں پہنچ کر ٹھٹھک گئے۔ ’’بیوقوفوں کی طرح سر کیوں ہلا رہی ہو؟‘‘ انہوں نے درشتی سے مطالبہ کیا۔
اندر عباس الدین احمد نے گانا شروع کردیا تھا اور ان کی خوبصورت جان لیوا آواز پدما کی لہروں کی طرح سارے میں پھیلتی جارہی تھی… پدما کے مانجھی کا گیت… بھاٹا کا نغمہ۔ عباس الدین احمد کی امر سنگیت… بھٹیالی…!!
دیپالی نے برآمدے کے ایک در سے ٹک کر پل کے لیے آنکھیں بند کرلیں۔
’’تم خوش قسمت ہو دیپالی کہ تم کو عباس الدین احمد کی شاگردی میسر ہے۔ زندگی کا ہر لمحہ غنیمت جانو‘‘۔ دور پدما کی تاریک پرسکون لہروں پر سے بہتی سید مرتضیٰ حسین کی آواز اس کے کانوں میں آئی۔ اُس نے چونک کر آنکھیں کھولیں۔ میرا دیس، یہ پدما اور میگھنا اور برہم پتر یہ سنگیت۔ یہ مہان کلاکار۔ یہ سب اسی طرح رہے گا۔ مجھے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے۔ تاریک راتوں میں اہم سازشیں ہورہی ہیں۔ پروفیسر مرتضیٰ حسین کو بھی شاید پوری طرح معلوم نہیں کہ ہم کیا کرنے والے ہیں! وہ خود اور ہم سب کہاں ہیں۔ اس کی ہمت دوبارہ عود کر آئی اور اس نے ذرا بشاشت سے کہا۔ ’’کاکا اب فرنچ میں ڈانٹئے تو… یا…‘‘
’’کیا بات ہے۔ اتنی جلدی میں کیوں ہو…؟‘‘ پروفیسر نے دریافت کیا۔ اور اسے بڑے غور سے دیکھا‘‘ کبھی ایسا موقع زندگی میں نہ آنے دینا کہ بعد میں پچھتائو کہ تم نے اپنے خواب کیوں نہ پورے ہونے دیے‘‘۔ انہوں نے باہر نظر ڈالی… ’’وہ دیکھو تم کو کوئی بلا رہا ہے شاید… جائو… بھاگو…‘‘ اتنا کہہ کر وہ جھپاک سے برابر کے کمرے میں گھس گئے۔
دیپالی سرعت سے برساتی میں اُتری۔ پیغامبر نوجوان نیم تاریک لان پر مزے سے ٹہل رہا تھا اسے دیکھ کر وہ سڑک پر آگیا۔ وہ دونوں عمارت کے پھاٹک سے نکل کر باہر سڑک پر پہنچے۔ نوجوان نے کُرتے کی جیب سے ایک لفافہ نکال کر اُسے تھمادیا… ریحان دا… ریحان دا نے کہا ہے یہ خط دیپالی سرکار کے ذریعے کماری اُدما رائے کو پہنچا دیا جائے۔ جلد از جلد‘‘۔
’’اُدما رائے…؟‘‘ دیپالی نے چپکے سے پوچھا۔ ’’لیکن میں تو ان کو جانتی بھی نہیں‘‘۔
’’ادما دیبی بیمار پڑی ہیں۔ ان کے ڈی آئی جی ماموں ان کے یہاں مقیم ہیں۔ اس وجہ سے وُوڈ لینڈ پر پولیس کا پہرہ ہے۔ ادما دیبی کے بیڈ روم تک دیپالی صرف تمہاری رسائی ہوسکتی ہے‘‘۔ نوجوان نے پھر بات شروع کی۔ چلو تم کو سریندر دا سے ملوائوں۔ میری جگہ یہ اب تم سب سے رابطہ رکھیں گے۔ میں باریسال جارہا ہوں‘‘۔
وہ دونوں تنگ اور نیم تاریک سڑک پر ذرا اور آگے بڑھے۔ ایک دیوار کے سائے میں ایک اور نوجوان اُن کا منتظر تھا‘‘ ہلو دیپالی!‘‘ اس نے بے تکلفی سے کہا۔
’’سریندر دا‘‘ دیپالی نے حیرت سے آنکھیں پھیلائیں ’’آپ کھلے خزانے گھوم رہے ہیں! کیا معافی مانگ لی؟‘‘ اُس نے غصے سے پوچھا۔
نوجوان ہنس پڑا۔ ’’تم نے دیپالی میرے متعلق غلط افواہ سنی تھیں۔ میں ابھی بلیک لسٹ پر نہیں ہوں۔ تم وہی کلاسیکل ریولیوشنریز (REVOLUTIONARIES) کے زمانے کی بات کرتی ہو! اب تکنیک بدل چکی ہے‘‘۔
’’میرے کاکا کلاسیکل ریولیوشنری تھے‘‘۔ دیپالی نے اداسی سے کہا۔
وہ تینوں سر جھکائے تیز تیز چلتے گھوڑا گاڑی اسٹینڈ کی طرف بڑھنے لگے۔
’’وہ ساڑیاں تمہاری… بک گئیں۔ پورے ساڑھے پانچ سو میں‘‘۔ سربندر مکر جی نے سگریٹ سلگانے کے بعد دیا سلائی جھٹک کر ایک طرف پھینکتے ہوئے کہا۔
’’اچھا…‘‘ دیپالی کا دل ڈوب گیا۔
’’ہاں…‘‘ سربندر مکر جی نے بے پروائی سے جواب دیا۔ ’’جن صاحب کے پاس ہم یہ ساڑیاں لے کر گئے وہ تو ان کو دیکھ کر بالکل اُچھل پڑے۔ کہنے لگے بھائی یہ تو میوزیم پیس ہیں۔ فوراً کلکتہ میوزیم کے لیے خریدواتا ہوں۔ اور مزے کی بات یہ…‘‘ سربندر مکر جی نے سگریٹ کی راکھ جھٹک کر بات جاری رکھی۔ مزے کی بات یہ کہ قیمت، جانتی ہو، کس نے ادا کی؟ خود ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے‘‘۔
’’مسٹر کینٹ دیل نے؟‘‘
’’مسٹر کینٹ دیل آئی سی ایس نے!‘‘ سریندر نے جواب دیا۔
’’او… ماں…!‘‘ خاندانی یادگاروں کے بکنے کا وقتی غم بھول کر دیپالی کھلکھلاکر ہنس پڑی۔
’’روپیہ ریحان داکو وقت پر پہنچ گیا۔ کام شروع ہوچکا ہے‘‘۔ سریندر مکر جی نے بات ختم کی۔
وہ پالکی گاڑیوں کے اڈے پر چوراہے کی مدھم لیمپ کے نیچے پہنچ چکے تھے۔ سریندر مکرجی یک لخت چھلاوے کی مانند رات کے کہرے میں نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ دیپالی سرکار جو اس کی طرح چھلاوں کی عادی ہوچکی تھی۔ سکون سے ایک گھوڑا گاڑی کا دروازہ کھول کر اس میں سوار ہوئی پیغامبر نوجوان مقابل کی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ مسلمان کوچوان نے نحیف دنزار گھوڑے پر چابک لہرایا۔ گاڑی چرخ چوں کرتی کچی سڑک کے گڑھوں پر سے گزرتی دیپالی کے گھر کی سمت روانہ ہوگئی۔
(5)
کماری اُوما رائے
دور ڈاب کے سبک پیڑوں کی قطار سے مزین نارنجی اُفق پر بے حد سرخ سورج بہت آہستہ آہستہ اس طرح ڈوب رہا تھا۔ گویا شاہ باغ کی سنسان، سایہ دار سڑک پر سے گزرتی بند گاڑی میں بیٹھی دیپالی سرکار کے مسرور چہرے کا اچھی طرح نظارہ کرنا چاہتا ہو۔ کیونکہ شاید ایسا بے فکر چہرہ اسے دوبارہ دیکھنے کو نہیں ملے گا۔
سال، شیشم اور نیم کے پتے رمنا کی چوڑی سڑکوں پر نرم ردی سے اُڑتے پھر رہے تھے۔ فضا میں خنکی آگئی تھی۔ پگڈنڈیوں پر گلہریاں دوڑ رہی تھیں۔ پھاٹکوں کی سفید پلیوں پر بیٹھے اِکّا دُکّا ملازم بیٹری پینے میں مصروف تھے۔ کچھ دیر بعد ان سڑکوں پر مدھم مدھم لیمپ جھلملا اٹھیں گے۔ مکان گھاس اور درختوں اور ہوائوں اور چاندنی رات کی سمِفی سنتے سنتے آرام سے سوجائیں گے۔
گھوڑے کی ٹاپیں سڑک کی کنکریلی سطح پر بڑا پرسکون سا شور پیدا کررہی تھیں۔ عبدالقادر کوچوان سر جھکائے نہ جانے ان بہت ساری دنیائوں میں سے کون سی دنیا میں کھویا ہوا تھا۔ اُس کی دنیا کون سی تھی؟ (ایک باشا کا جھوپڑا یا شہر کی غلیظ گلی میں ایک تنگ و تاریک مکان، یا ایک شکستہ شاگرد پیشہ، دس آدمیوں کا کنبہ اور مسلسل فکر معاش اور مسلسل غم زیست) عبدالقادر کوچوان جو محکمہ مردم شماری کے لیے ایک عدد اور اہل سیاست کے لیے ایک ووٹ کی حیثیت رکھتا تھا۔ ان دیکھے طوفانوں میں گھرا دیپالی سرکار کو ووڈ لینڈز لیے جارہا تھا۔
موڑ پر پہنچ کر جھلملیوں والی بند گاڑی دوسری سڑک پر اس طرح نمودار ہوئی جیسے کہانی کا نیا باب کھلتا ہو۔ (چاروں طرف زندگی کی کہانیوں کے باب کھلتے ہیں۔ اور ختم ہوجاتے ہیں۔ اور کردار صفحات میں سے نکل کر قبروں میں جا لیٹتے ہیں۔ چتائوں میں پھونک دیے جاتے ہیں۔ نیا صفحہ پلٹ کر قاری آگے بڑھتا ہے)۔
اب دیپالی نے کھڑکی کی جھلملی چڑھا کر باہر جھانکا۔ اسی راستے پر آگے جا کر ارجمند منزل تھی جس میں جہاں آرا رہتی تھی۔ جہاں آرا بیگم، جو اس دھندلی داستان کے آخری صفحات پر زندہ تھی جس کے مصنفوں نے جہانگیر نگر (ڈھاکا کا پرانا مغل نام) آباد کیا تھا۔ اسی راستے پر، اونچے اونچے مغرور درختوں کے پیچھے ڈی ایم کا بنگلہ تھا۔ اس بنگلے میں رہنے والا ولیم کینٹ ویل اُس داستان کا ایک اہم کردار تھا۔ جس کے مصنفوں نے جہانگیر نگر اُجاڑا تھا۔ اسی راستے کے اختتام پر ’’ووڈ لینڈز‘‘ تھا۔ نئی داستان کے مصنفوں نے جہانگیر نگر کے فاتحین کے تعاون سے اپنے لیے کیسے کیسے ’’ووڈ لینڈز‘‘ تعمیر کیے تھے۔
دیپالی شاداں و فرحاں تھی کہ ایک نئے ڈرامے میں حصہ لے رہی تھی۔ جس کے لیکھک ارجمند منزل اور ڈی ایمز ہائوس اور ووڈ لینڈز کی بنیادیں ہلانے والے تھے۔ دیپالی کی آدرش دادی زندگی اس وقت بڑی مکمل تھی۔ جس زندگی میں مہربان، سمجھ دار، درد مند، رفیق اور ساتھی موجود تھے۔ سب مل کر خطروں کا چیلنج قبول کررہے تھے۔ آگے بڑھا رہے تھے۔ اوما دیبی سے ملنے کی خوشی میں وہ رات بھر سو نہیں سکی تھی۔ ان دیکھے ریحان دا نے ایک اہم پیغام رسانی اس کے سپر کی تھی۔ ریحان دا جیسے بڑے نیتا اسے اب گویا۔ اپنے اندرونی حلقے میں شامل کرچکے تھے۔ خوشی کے مارے اس کا سب نہ چلا کر پر لگا کر اوما رائے کے پاس پہنچ جائے۔
لیکن ووڈ لینڈز کے پھاٹک پر کانسٹیبل کھڑا دیکھ کر وہ دھک سے رہ گئی۔ بیگ مضبوطی سے تھام کر جلدی سے نیچے اتری اور کانسٹیبل سے کہا کہ اوما رائے کی پرانی شاگرد ہے۔ کانسٹیبل نے بے پروائی سے سر ہلایا۔ غالباً دیپالی کو اتنا گھبرانے کی ضرورت نہ تھی۔ عبدالقادر کو کرایہ ادا کرنے کے بعد وہ چند لحظوں کے لیے پھاٹک پر ٹھٹکی اور گاڑی کو واپس جاتے دیکھتی رہی۔ دفعتاً اسے محسوس ہوا جیسے وہ اس اجنبی جگہ پر غیر محفوظ اور تنہا رہ گئی ہے۔ عبدالقادر کوچوان، حکام اور امراء کی اس انجانی دنیا میں اسے اکیلا چھوڑ کر سرجھکائے جھٹ پٹے کی نیم تاریکی میں ٹخ ٹخ کرتا دور چلا جارہا تھا۔ وہ پلٹ کر باغ کی سرخ سڑک پر آئی تو سامنے گھاس پر پولیس کا وردی پوش اعلیٰ افسر (ہندوستانی) اور ایک وردی پوش اعلیٰ افسر (انگریز) باتوں میں منہمک گھاس پر ٹہلتے نظر آئے۔ تیز تیز برساتی میں پہنچی تو سیزر اس پو بھونکا۔ اس نے سراسیمگی سے ’’اوماں‘‘ کا ہلکا سا نعرہ لگایا تو ایک عالی شان چپراسی اس کی سمت لپکا۔ اس نے اپنے الفاظ دہرائے: اوما دیبی کی پرانی شاگرد دیپالی سرکار عیادت کے لیے آئی ہے۔
چپراسی اندر گیا۔ اور چند منٹ بعد سفید چپکن اور سبز پیٹی والا بیرہ باہر آیا اور منہ سے کچھ بولے بغیر سر کی جنبش سے اس نے دیپالی کو اندر آنے کا اشارہ کیا۔ وہ ذرا جھجکتے ہوئے طویل گیلری میں داخل ہوئی، جس کی دیواروں پر دور دیہ بارہ سنگھوں کے سر اپنی کانچ کی آنکھوں سے ہر آنے جانے والے کو گھور رہے تھے۔ سیاہ اور سفید ٹائیلوں کے فرش پر سے گزرتے ہوئے دیپالی کو یاد آیا۔ بیرسٹر رائے کے متعلق مشہور تھا کہ ان کے موکل اشرفیوں سے بھری تھیلیاں لا لا کر ان کے قدموں میں ڈال دیتے ہیں اور ان کی بیوی مسز ارچنا رائے اپنی سینڈلز میں ہیرے جڑواتی ہیں۔ دیپالی سوچنے لگی۔ اتنی دولت مند ادما دیبی تحریک کی مالی مدد کیوں نہیں کرتیں۔ جب ضرورت پڑتی ہے تو ہم جیسے غریب کارکنوں کو اپنے گھر میں سیندھ لگانا پڑتی ہے۔ اکشے داٹیوشن کرتے ہیں۔ سیندر مزدور ہے۔ محمود الحق پریس میں پروف ریڈر ہے۔ اور دن رات اپنی کمزور آنکھیں پھوڑتا ہے۔ اس طرح جو کچھ بن پڑتا ہے یہ سب لا کر تحریک کی جھولی میں ڈال دیتے ہیں۔ اوما رائے ایک محل میں رانیوں کی طرح رہتی ہیں اور ریحان دا کسی پراسرار دیوتا کی طرح کہیں چھپے بیٹھے ہیں اور ’’اوپر‘‘ سے ریحان دا کی طرف سے جو حکم ملتا ہے۔ ہم سب اسے بجا لانے کے لیے مستعد ہیں۔
اب وہ بیرے کے پیچھے پیچھے ایک ہال میں داخل ہوئی۔ جس کے وسط میں سنگ مرمر کی گول میز پر کسی یونانی دیبی کا مرمریں مجسمہ استادہ تھا۔ فرش پر شیر کی کھالیں اور بخارا کے قالین بچھے تھے۔ دیواروں کے برابر برابر لحیم شمیم صوفے رکھے ہوئے تھے۔ دیپالی نے ایسی شان و شوکت پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ ارجمند منزل میں بھی نہیں۔ ارجمند منزل بھی بڑی عالی شان کوٹھی تھی۔ مگر وہاں کی ہر چیز بوسیدہ اور مضحمل سی معلوم ہوتی تھی۔ اوما دیبی سے ملاقات کی خوشی نے اسے راستے میں جس قدر مضطرب کیا تھا اس پُرکیف اور جگمگاتے ماحول کو دیکھ کر وہ یک لخت اتنی ہی دل گرفتہ ہوگئی۔
کریم خان بیرے نے اُسے ہاتھ سے اشارہ کیا تھا کہ یہیں ٹھہر جائے (بیرا ملاقاتیوں کی اوقات پہچان کر بات کرتا تھا۔ اور ہما شماکو اشاروں ہی پر ٹرخاتا تھا) وہ ایک دروازے کا عنابی پردہ اٹھا کر اندر چلا گیا۔ دیپالی ایک کرسی کے کنارے پر ٹک گئی۔ اور وہاں کی آرائش کو غور سے دیکھنے لگی۔ انسانوں کی زندگیوں میں اتنا شدید تفادت بھی ممکن ہے۔ اسے عبدالقادر کوچوان کا شکستہ قبر ایسا مکان یاد آیا۔ جو چندرکنج کے کھنڈر شاگرد پیشے میں ٹاٹ اور ٹین کے ٹکڑوں اور باشا کی بوسیدہ چٹائیوں کی مدد سے رہنے کے قابل بنایا گیا تھا۔ اس نے اپنے اُجاڑ چندرکنج کا تصور کیا۔ جس کے خالی مطب میں بابا ان مریضوں کے انتظار میں صبر سے بیٹھے ہوں گے، جو کبھی کبھار اس طرف آنکلتے تھے۔ ڈھاکہ شہر کے ہزاروں، لاکھوں نیم تاریک مفلس مکان اور جھونپڑے، جن میں لالٹین اور مٹی کے دیئے ٹمٹمارہے تھے۔ دور غفار گائوں میں اس کا آبائی مکان جو تقریباً ڈھے چکا تھا۔ ایسا افلاس، ایسی ویرانی اس ملک پر۔ اس ہندوستان پر طاری ہے۔
مگر وہ دفعتاً ایک نئے جوش اور خود اعتمادی کے ساتھ اُٹھ کھڑی ہوئی۔ انقلاب آنے والا ہے۔ اس انقلاب کے لانے والے ہم خود ہیں۔ اور ہم کامران ہوں گے۔ اس انقلاب ہی کی عظمت ہے۔ جس کی وجہ سے ووڈ لینڈز کے مالک کی بیٹی دھارے میں شامل ہوچکی ہے۔ جواہر لال نہرو بھی تو آنند بھون میں پروان چڑھے تھے۔
(جاری ہے)