دوستی کے آداب

386

اسی طرح نبیؐ اپنی مجلس میں خود بھی کبھی کبھی قصے سناتے، حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک بار آپؐ نے گھر والوں کو ایک قصہ سنایا، ایک عورت نے کہا یہ عجیب و غریب قصہ تو بالکل خرافہ کے قصوں کی طرح ہے۔ نبیؐ نے فرمایا، تمہیں خرافہ کا صحیح قصہ بھی معلوم ہے اور پھر خود ہی آپؐ نے خرافہ کا اصل قصہ تفصیل سے سنایا۔ اسی طرح ایک بار حضرت عائشہؓ کو گیارہ عورتوں کی ایک بہت ہی دلچسپ کہانی سنائی۔ حضرت بکر بن عبداللہؓ صحابہ کرامؓ کی بے تکلفی اور خوش طبعی کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’صحابہ کرام ہنسی اور تفریح کے طور پر ایک دوسرے کی طرف تربوز کے چھلکے پھینکا کرتے تھے، لیکن جب لڑنے اور مدافعت کرنے کا وقت آتا تو اس میدان کے شہسوار بھی صحابہؓ ہی ہوتے تھے‘‘ (الادب المفرد)

حضرت محمد بن زیادؓ فرماتے ہیں: ’’میں نے سلف صالحین کو دیکھاہے کہ ان کے کئی کئی کنبے ایک ہی حویلی میں رہتے بستے تھے۔ بارہا ایسا ہوتا کہ ان میں سے کسی ایک کے یہاں مہمان آتا اور کسی دوسرے کے چولہے پر ہانڈی چڑھی ہوتی تو مہمان والا دوست اپنے مہمان کے لئے اپنے دوست کی ہانڈی اتار لے جاتا، بعد میں ہانڈی والا اپنی ہانڈی ڈھونڈتا پھرتا اور لوگوں سے پوچھتا میری ہانڈی کون لے گیا؟ یہ میزبان دوستا بتاتا کہ بھائی اپنے مہمان کے لئے ہم لے گئے تھے۔ اس وقت ہانڈی والا کہتا، خدا تمہارے لئے اس میں برکت دے اور محمد بن زیاد فرماتے ہیں کہ یہ لوگ جب روٹی پکاتے تب بھی یہی صورت حال پیش آتی‘‘۔ (الادب المفرد)

حضرت علیؓ کا قول ہے: ’’دل کو آزاد بھی چھوڑ دیا کرو، خوش کن نکتے بھی سوچا کرو، کیونکہ جسم کی طرح دل بھی تھک جاتا ہے‘‘۔

-8 خشک مزاج اور مردہ دل نہ بنیے، خوش طبع اور ہشاش بشاش رہیے، لیکن اس بات کی احتیاط ضرور کیجیے کہ آپ کی خوش طبعی اور ظرافت حد سے بڑھنے نہ پائے خوش مزاجی اور تفریح کے ساتھ، دینی وقار، حمیت و غیرت اور توازن و اعتدال کا بھی لحاظ رکھیے۔

نبیؐ کے صحابی حضرت عبدالرحمنؓ فرماتے ہیں کہ نبیؐ کے صحابیؓ نہ خشک مزاج تھے اور نہ مردوں کی سی چال چلتے تھے، وہ اپنی مجلسوں میں شعر و شاعری بھی کرتے تھے اور دور جاہلیت کے قصبے کہانیاں بھی بیان کرتے تھے، لیکن جب ان سے کسی معاملے میں حق کے خلاف کسی بات کا مطالبہ ہوتا تو ان کی آنکھوں کی پتلیاں غصے میں اس طرح پھر جاتیں کہ جیسے ان پر جنون کی کیفیت طاری ہے۔ (الادب المفرد)

مشہور محدث حضرت سفیان بن عینیہؓ سے کسی نے کہاکہ مذاق بھی ایک آفت ہے، انہوں نے جواب دیا نہیں بلکہ سنت ہے مگر اس شخص کے لئے جو اس کے مواقع جانتا ہو اور اچھا مذاق کرسکتا ہو۔ (شرح شمائل ترمذی)

-9آپ جس شخص سے محبت رکھتے ہوں اس سے اپنی محبت کا اظہار ضرور کیجیے۔ اس کا نفسیاتی اثر یہ ہوگا کہ اس کو بھی قرب کا احساس ہوگا اور دونوں طرف کے جذبات و احساسات کے تبادلے سے محبت و خلوص میں غیر معمولی اضافہ ہوگا اور پھر محبت محض ایک قلبی کیفیت نہیں رہے گی، بلکہ اس کے تقاضے عملی زندگی پر اثر انداز ہوں گے اور اس طرح شخصی معاملات میں دلچسپی لینے اور زیادہ سے زیادہ ایک دوسرے سے قریب رہنے کا موقع ملے گا۔

نبیؐ کا ارشاد ہے: ’’جب کسی شخص کے دل میں اپنے بھائی کے لئے خلوص و محبت کے جذبات ہوں تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے دوست کو بھی ان جذبات سے آگاہ کردے اور اسے بتادے کہ وہ اس سے محبت رکھتا ہے‘‘ (ابودائود)

ایک بار آپؐ کے سامنے سے ایک شخص گزرا، کچھ لوگ آپؐ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ان میں سے ایک نے کہا: ’’یا رسولؐ اللہ مجھے اس شخص کے ساتھ محض اللہ کی خاطر محبت ہے۔ یہ سن کر نبیؐ نے پوچھا تو کیا تم نے اس شخص کو یہ بات بتادی ہے؟ وہ شخص بولا نہیں تو نبیؐ نے فرمایا جائو اور اس پر ظاہر کرو کہ تم اللہ کے لئے اس سے محبت کرتے ہو، وہ شخص فوراً اٹھا اور جاکر اس جانے والے سے اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ اس کے جواب میں اس نے کہا تجھ سے وہ ذات محبت کرے جس کی خاطر تو مجھ سے محبت کرتا ہے‘‘ (ترمذی، ابودائود)

دوستانہ تعلقات کو زیادہ سے زیادہ استوار اور نتیجہ خیز بنانے اور دوستوں سے قریب ہونے کے لئے ضروری ہے کہ آپ دوستوں کے شخی اور ذاتی معاملات میں معروف حد تک دلچسپی لیں اور ان سے اپنے قرب اور خصوصی تعلق کا اظہار کریں۔ نبیؐ کا ارشاد ہے:

’’جب ایک آدمی دوسرے سے دوستی اور اخوت کا رشتہ جوڑے تو اس سے اس کا نام، اس کے باپ کا نام اور اس کے خاندان کے حالات معلوم کرلے کہ اس سے باہمی محبت کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں‘‘۔ (ترمذی)

-10 محبت کے اظہار اور تعلقات کی نوعیت میں ہمیشہ میانہ روی اختیار کیجیے نہ تو ایسی سرد مہری کا مظاہرہ کیجیے کہ آپ کی محبت اور تعلق مشکوک نظر آئے اور نہ ہی جوش محبت میں اتنا آگے بڑھیے کہ آپ کی محبت اور دوستی جنون کی شکل اختیار کرلے اور اللہ نہ کرے کسی وقت آپ کو پچھتانا پڑے، توازن اور اعتدال کا ہمیشہ لحاظ رکھیے اور مستقل مزاجی کے ساتھ ایسی متوازن روش اختیار کیجیے جس کو آپ برابر نباہ سکیں۔ حضرت اسلمؓ کا بیان ہے: ’’حضرت عمرؓ نے فرمایا تمہاری محبت جنون کی شکل نہ اختیار کرنے پائے او رتمہاری دشمنی ایذا رسانی کا باعث نہ بننے پائے۔ میں نے کہا حضرت وہ کیسے؟ آپ نے فرمایا (وہ ایسے کہ) جب محبت کرنے لگو تو بچوں کی طرح چمٹنے اور طفلانہ حرکتیں کرنے لگو اور جب کسی سے ناراض ہو تو اس کے جان و مال تک کی تباہی اور بربادی کے درپے ہوجائو‘‘ (الادب المفرد)

حضرت عبید کندیؓ فرماتے ہیں: ’’میں نے حضرت علیؓ سے سنا۔ فرمارہے تھے: ’’اپنے دوست سے دوستی میں نرمی اور میانہ روی اختیار کرو ہوسکتا ہے کہ وہ کسی وقت تمہارا دشمن بن جائے اسی طرح دشمن سے دشمنی میں نرمی اور اعتدال کا رویہ اختیار کرو ہوسکتا ہے کہ وہ کسی وقت تمہارا دوست بن جائے‘‘ (الاداب المفرد)

-11دوستوں کے ساتھ وفاداری اور خیر خواہی کا سلوک کیجیے۔ دوست کے ساتھ سب سے بڑی خیر خواہی یہ ہے کہ آپ اس کو اخلاقی اعتبار سے زیادہ سے زیادہ اونچا اٹھانے کی کوشش کریں اور اس کی دنیا بنانے سے زیادہ اس کی آخرت بنانے کی فکر کریں۔ نبیؐ نے فرمایا:

’’دین سرتا پیر خیر خواہی ہے‘‘۔

خیر خواہی کا اصل معیار یہ ہے کہ آپ اپنے دوست کے لئے بھی وہی پسند کریں جو اپنے لئے پسند کرتے ہیں، اس لئے کہ آدمی اپنا برا کبھی نہیں چاہتا۔ نبیؐ کا ارشاد ہے:

’’اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے: کوئی بندہ مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ بھائی کے لئے بھی وہی نہ پسند کرے جو اپنے لئے کرتا ہے‘‘۔

اور مسلمان پر مسلمان کے چھ حقوق بیان کرتے ہوئے آپؐ نے فرمایا:

’’اور یہ کہ وہ اپنے بھائی کی خیر خواہی چاہے خواہ وہ غائب ہو یا موجود‘‘۔

اور آپؐ نے یہ بھی فرمایا:

’’بے شک اللہ نے اس شخص پر آگ کو واجب کردیا ہے اور جنت حرام کردی ہے جس نے قسم کھاکر کسی مسلمان کا حق مارا، صحابہؓ میں سے کسی نے پوچھا: ’’اگرچہ وہ کوئی معمولی سی چیز ہو؟ آپؐ نے فرمایا: ’’ہاں اگرچہ وہ پیلو کی معمولی سی شاخ ہی کیوں نہ ہو‘‘۔

-12 دوستوں کے دکھ درد میں شریک رہیے اور اسی طرح ان کی خوشیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیجیے۔ ان کے غم میں شریک ہوکر غم غلط کرنے کی کوشش کیجیے اور ان کی مسرتوں میں شریک ہوکر مسرتوں میں اضافہ کرنے کی کوشش کیجیے۔ ہر دوست اپنے مخلصین سے بجاطور پر توقع رکھتا ہے کہ وہ مصیبت میں اس کا ساتھ دیں گے اور وقت پڑنے پر اس کا ساتھ نہ چھوڑیں گے۔ اسی طرح وہ یہ بھی توقع رکھتا ہے کہ اس کے دوست اس کی خوشیوں میں اضافہ کریں اور اس کی اجتماعی تقریبات کی زینت اور رونق بڑھائیں۔

نبیؐ کا ارشاد ہے: ’’ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لئے ایک عمارت کی طرح ہے کہ ایک دوسرے کو قوت پہنچاتا اور سہارا دیتا ہے جیسے عمارت کی ایک اینٹ دوسرے اینٹ کا سہارا بنتی ہے اور قوت پہنچاتی ہے‘‘۔

اس کے بعد آپؐ نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال دیں (اور اس طرح مسلمانوں کے باہمی تعلق اور قرب کو واضح فرمایا‘‘) (بخاری، مسلم)

اور آپؐ نے یہ بھی فرمایا: ’’تم مسلمانوں کو باہم رحم دلی، باہم الفت و محبت اور باہم تکلیف کے احساس میں ایسا پائوگے جیسے ایک جسم کہ اگر ایک عضو بیمار پڑ جائے تو سارا جسم بخار اور بے خوابی میں اس کا شریک رہتا ہے‘‘ (بخاری، مسلم)

-13 دوستوں سے خوش دلی، نرم خوئی اور مسرت و اخلاص سے ملیے اور نہایت توجہ اور خندہ پیشانی سے ان کا استقبال کیجیے۔ لاپروائی، بے نیازی اور روکھے پن سے پرہیز کیجیے، یہ دلوں کو پھارنے والی برائیاں ہیں۔ ملاقات کے وقت ہمیشہ مسرت، اطمینان اور شکر و حمد کے کلمات کہیے۔ کہ آپ کے دوست، خوشی اور زندگی محسوس کریں ایسے افسردہ چہرے سے ان کا استقبال نہ کیجیے کہ ان کا دل بجھ جائے وہ آپ کی ملاقات کو وبال جان سمجھنے لگیں۔

نبیؐ کا ارشاد ہے:

’’نیکیوں میں کسی نیکی کو حقیر نہ جانو چاہے وہ اتنی ہی ہوکہ تم اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے ملو‘‘ (مسلم)

ایک اور موقع پر آپؐ نے فرمایا: ’’اپنے بھائی کو دیکھ کر تمہارا مسکرا دینا بھی صدقہ ہے‘‘ (ترمذی)

نرم خوئی خوش اخلاقی اور نرمی سے ہی دونوں میں الفت و محبت پیدا ہوتی ہے اور انہی صفات کی بدولت اچھا معاشرہ وجود میں آتا ہے۔

نبیؐ فرماتے ہیں:

’’میں تمہیں اس آدمی کی پہچان بتاتا ہوں جس پر جہنم کی آگ حرام ہے اور وہ آگ پرحرام ہے یہ وہ آدمی ہے جو نرم مزاج ہو، نرم طبیعت ہو اور نرم خو ہو‘‘ (ترمذی)

صحابہؓ فرماتے ہیں کہ نبیؐ جب ملاقات کے وقت کسی کی طرف متوجہ ہوتے تو پورے جسم سے متوجہ ہوتے اور جب کوئی آپؐ پوری طرح متوجہ ہوکر اس کی بات سنتے۔

ایک مرتبہ آپؐ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک شخص آیا تو آپؐ نے اپنے جسم کو حرکت دی اور ذرا سمٹے، اس شخص نے کہا یا رسولؐ اللہ! جگہ تو کشادہ ہے، نبیؐ نے فرمایا:

’’مسلمان کا یہ حق ہے کہ جب اس کا بھائی اسے دیکھے تو وہ اس کے لئے ذرا اپنے
جسم کو حرکت دے‘‘ (بیہقی)

مومنین کی تعریف میں قرآن کا ارشاد ہے:

’’وہ مومنوں کے لئے بڑے نرم خو ہوتے ہیں‘‘۔

اور نبیؐ نے اس حقیقت کو یوں واضح فرمایا ہے:

’’مومن بردبار اور نرم خو ہوتے ہیں اس اونٹ کی طرح جس کی ناک میں نکیل پڑی ہو، اس کو کھینچا جائے تو وہ کھنچتا چلا آئے اور پتھر پر بٹھایا جائے تو پتھر پر بیٹھ جائے‘‘ (ترمذی)

-14 اگر کبھی کسی بات پر اختلاف ہوجائے تو فوراً صلح صفائی کرلیجیے اور ہمیشہ معافی طلب کرنے اور اپنے قصور کا اعتراف کرنے میں پیش قدمی کیجیے۔

حضرت ابوالدرداؐ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمرؓ میں کسی معاملے میں سخت کلامی ہوگئی۔ بعد میں حضرت ابوبکرؓ کو بہت احساس ہوا اور وہ انتہائی مغموم نبیؐ کی خدمت میں پہنچے اور فرمایا: ’’یا رسولؐ اللہ! میرے اور عمرؓ کے درمیان کچھ اختلاف ہوگیا مجھے غصہ آگیا اور کچھ سخت باتیں ہوگئیں۔ مجھے بعد میں بڑی شرمندگی ہوئی اور میں نے عمرؓ سے معافی چاہی لیکن یا رسولؐ اللہ! وہ معاف کرنے کو تیار نہ ہوئے۔ میں پریشان ہوکر آپؐ کی خدمت میں آیا۔ نبیؐ نے فرمایا اللہ تمہیں معاف فرمائے گا اور تمہیں بخش دے گا، اسی دوران حضرت عمرؓ کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہوا اور وہ دوڑے دوڑے حضرت ابوبکرؓ کے گھر پہنچے وہاں معلوم ہوا کہ ابوبکرؓ نبیؐ کی خدمت میں گئے ہیں تو وہ بھی اسی وقت حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت عمرؓ کو دیکھ کر نبیؐ کے چہرے پر غصے کے آثار نمودار ہوئے۔ یہ دیکھ کر حضرت ابوبکرؓ بہت ڈرے اور نہایت عاجزی اور انکساری کے ساتھ گھٹنوں کے بل ہوکر نبیؐ سے عرض کیا: ’’یا رسولؐ اللہ! عمرؓ کا کوئی قصور نہیں۔ قصور سارا میرا ہی ہے میں نے زیادتی کی ہے اور میں نے ہی انہیں سخت سست کہا ہے‘‘۔

یہ دیکھ کر نبیؐ نے فرمایا:

’’اللہ نے مجھے تمہارے پاس پیغمبر بناکر بھیجا اور جب ابتدا میں تم لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے اس وقت ابوبکرؓ نے میری تصدیق کی اور جان و مال سے ہر طرح میرا ساتھ دیا تو کیا اب تم میرے ساتھی کو رنجیدہ کرکے چھوڑوگے؟‘‘

صلح صفائی کی کوشش میں کبھی تاخیر نہ کیجیے، جتنی تاخیر ہوتی جاتی ہے اتنی ہی خرابی جڑ پکڑتی جاتی ہے اور دلوں میں دوری پیدا ہوتی جاتی ہے۔ انجیل میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی یہ نصیحت بڑی ی ایمان افروز ہے:

’’پس اگر تو قربان گاہ پر اپنی نذر گزارتا ہو اور وہاں تجھے یاد آئے کہ بھائی کو مجھ سے شکایت ہے تو وہیں قربان گاہ کے آگے ہی اپنی نذر چھوڑ دے اور جاکر اپنے بھائی سے ملاپ کر تب اپنی نذر گزار‘‘۔
(جاری ہے)

حصہ