فلسطین میں اسرائیل کی دہشت گردی کے تسلسل میں حماس کے سیاسی شعبے کے نائب صدر ایک حملے میں شہید ہوگئے۔ آپ آپریشن طوفان الاقصیٰ کے اہم منصوبہ سازوں میں شامل تھے۔ بی بی سی کے مطابق’’اکتوبر میں حماس کی قیادت میں اسرائیل پر ہونے والے حملے کے بعد العاروری کو نصراللہ اور فلسطینی اسلامی جہاد کے سیکریٹری جنرل زیاد النخلہ سے ملاقات کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا‘‘۔ اس سے قبل اسرائیلی فورسز نے گزشتہ اکتوبر کے اواخر میں العاروری کے گھر کو مسمار کردیا تھا اور ان کے بھائی اور بھتیجوں سمیت 20 افراد کو گرفتار کیا تھا۔
کمانڈر الصالح العاروری 29 دسمبر کو اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کی یوتھ کانفرنس میں شرکت کے لیے کراچی تشریف لائے تھے۔ الشیخ صالح العاروری کہتے تھے ’’ہمیں یقین ہے کہ ہماری قوم اور ہمارے عوام قابض دشمن کو ہمارے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین اور مسجد اقصیٰ پر دھاوا بولنے پر جواب دہ ٹھیرائیں گے۔ دشمن کی ہر نوعیت کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ یروشلم کا مسئلہ ہر اُس شخص کے لیے جو اس کے لیے کام کرتا ہے، قوم کو متحرک کرنے کی پہلی کلید ہے۔ فلسطین ان کے لیے ٹھوس بنیادوں اور عقیدے کی بنیاد پر یقین کا حامل ہے‘‘۔ وہ کہتے تھے کہ ’’مزاحمت اپنی طاقت کو مضبوط کرتی ہے اور اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرکے آگے بڑھ رہی ہے۔ اس کے مقابلے میں دوسری طرف قابض دشمن کی صفوں میں پھوٹ بڑھ رہی ہے۔ بیت المقدس کا دفاع پوری قوم کی ذمہ داری ہے اور ہم پہلی صف میں کھڑے ہیں۔‘‘
غزہ المیہ دنیا کا سب سے بڑا المیہ ہے، اور اقوام عالم اور اقوام متحدہ بے بس ہیں، اور اسرائیلی فوج کی غزہ کی پٹی میں نسل کُشی اور جنگی جرائم کے ارتکاب کا سلسلہ جاری ہے، روزانہ کی بنیاد پر فلسطینیوں کو خون میں نہلایا جارہا ہے۔ اس وقت وہاں 90 فی صد آبادی بے گھر ہے اور کھلے آسمان تلے زندگی بسرکرنے پرمجبور ہے۔ غزہ میں شہید ہونے والوں کی تعداد22ہزار 500 سے زائد ہوگئی ہے۔
’ڈیفنس فار چلڈرن‘ نامی این جی او کے مطابق7 اکتوبر سے اسرائیلی فوج کی سفاکی کے نتیجے میں اب تک غزہ میں ساڑھے 8 ہزار سے زائد بچے شہید ہوچکے ہیں۔ غزہ کے ایک ہزار بچے ایک بازو یا ایک ٹانگ سے محروم ہوگئے ہیں۔ این جی او کے مطابق بھوک، پانی کی کمی، بیماریوں اور سرد موسم کے آغاز نے بھی بہت سے لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ امدادی کاموں میں سرگرم اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی نے کہا ہے کہ غزہ کے حالات نومولود بچوں کے لیے موزوں نہیں رہے۔ جب کہ دوسری طرف ارضِ مقدس کے حکمرانوں سمیت مسلم حکمران ناچ گانوں اور باتوں میں لگے رہے۔ فلسطینی سرکاری میڈیا کے دفتر نے بدھ کے روز تصدیق کی کہ جامع نسل کُشی کی جنگ کے دوران غزہ کی پٹی میں اسرائیلی قابض فوج نے 45 ہزار سے زیادہ میزائل اور بم برسائے، جن میں 65ہزار ٹن سے زیادہ دھماکہ خیز مواد تھا جو 3 ایٹمی بموں کے وزن اور طاقت سے زیادہ ہے۔
صالح العاروری کو بیروت کے مضافات میں الضاحیہ الجنوبیہ میں حماس کے دفتر پر ڈرون حملے میں اپنے کئی ساتھیوں سمیت شہید کیا گیا، لیکن فلسطینیوں کے حوصلے بلند ہیں اور مزاحمت جاری ہے۔ بیروت میں شہادت کے اس واقعے کے خلاف پورے مغربی کنارے میں مکمل ہڑتال ہوئی، رام اللہ کی گلیوں، محلوںمیں اکثر جگہوں پر سناٹا رہا۔ ٹریفک اور دکانیں مکمل طور پر بند رہیں۔ 7 اکتوبر سے غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کے دنوں میں یہ اس حوالے سے اہم ترین دن رہا کہ مغربی کنارا پوری طرح حماس اور اس کی قیادت کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتا نظر آیا۔ فلسطینی میڈیا کے مطابق ’’العاروری کی بیروت میں نماز جنازہ میں ہزاروں سوگوار شریک ہوئے اور اس موقع پر رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے۔ شرکاء نے حماس اور فلسطین زندہ باد کے نعروں کے ساتھ اسرائیل مُردہ باد کے نعرے لگائے۔ لوگ شدید مشتعل تھے، اور انہوں نے صالح العاروری اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کا بدلہ لینے کا بھی مطالبہ کیا۔ صالح العاروری شہید اور ان کے دو دیگر ساتھی شہدا کی نماز جناز مسجد امام علی کے گرائونڈ میں ادا کی گئی جہاں لاکھوں افراد جمع تھے۔ صالح العاروری کے جنازے کے جلوس سے حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے خطاب کیا۔ انہوں نے شہید رہنما کی خدمات کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ حماس صالح العاروری کے عظیم مشن کو آگے بڑھانے کی کوششیں جاری رکھے گی۔ اُن کا کہنا تھا کہ صالح العاروری کی شہادت لبنان کی خودمختاری کی خلاف ورزی اور کھلم کھلا دہشت گردی کی کارروائی ہے۔ اس مجرمانہ قتل نے ہمارے ایمان اور یقین کو مزید مضبوط کردیا ہے۔ ہمیں فلسطین کی تحریکِ آزادی کا ہراول دستہ ہونے اور فلسطین کی آزادی کے لیے قربانیاں پیش کرنے پر فخر ہے اور ہم شہدا کے نقشِ قدم پر چلیں گے۔ اسماعیل ہنیہ نے کہا کہ بزدل دشمن اسرائیل کی ننگی جارحیت اور کھلم کھلا دہشت گردی کے نتیجے میں ہمارے پیارے بھائی الشیخ صالح العاروری المعروف ابومحمد اپنے کئی ساتھیوں سمیت جام شہادت نوش کرگئے ہیں، ہمیں ان کی شہادت پر فخر ہے، انہوں نے وطن کی آزادی کی خاطر اپنی جان کی قربانی پیش کی ہے۔
حماس کے بیرون ملک امور کے سربراہ خالد مشعل نے بھی شہید رہنما صالح العاروری اور ان کے ساتھی شہدا کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج ہماری گفتگو ان سات چاندوں، ان عظیم شہدا اور قائدین کے بارے میں ہے جن کو ہم نے اپنے ساتھ ملایا، ہم ان کے ساتھ جیے، ہم نے ان کے ساتھ جہاد اور مزاحمت کی شراکت داری حاصل کی، جس میں فتح، آزادی اور حق کے حصول کے لیے درد، امید، آرزو اور تمنا شامل تھی۔ مشعل نے اپنی ٹیلی ویژن تقریر میں کہا کہ یہ معزز اور پیارے شہدا الشیخ صالح العاروری ابومحمد، بھائی سمیر فندی ابوعامر، بھائی عزام الاقرع، ابو عبداللہ، بھائی محمود شاہین، بھائی احمد حمود، بھائی محمدالرئیس، اور بھائی محمد باشاہ ہیں۔ ہم ان کی شہادت کو فلسطین کے قافلۂ شہدا کا قابلِ فخر حصہ سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا ’’پیارے بھائی شہید الشیخ صالح العاروری کو ہم اُس وقت سے جانتے ہیں جب وہ جیل سے پہلے اور جیل کے دوران مغربی کنارے میں تھے۔ القسام بریگیڈ کے ایک بانی رہنما کے طور پر، ایک کارکن کے طور پر قابض دشمن کے خلاف مزاحمت کے سفر میں انہوں نے ان تھک جدوجہد کی۔ جب 2010ء میں انہیں زبردستی اپنا وطن فلسطین چھوڑنے پر مجبور کیا گیا تو وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ اپنی ذمہ داری اور کردار کو جاری رکھنے کے لیے قیادت میں شامل ہوگئے۔‘‘ انہوں نے زور دے کر کہا کہ قائدین کی شہادت ایک انتہائی اہم حقیقت کو ثابت کرتی ہے جس کو ہر روز تقویت ملتی ہے کہ جس طرح شہادت کا راستہ قائدین کا انتخاب ہوتا ہے اسی طرح یہ سپاہیوں کا انتخاب ہوتا ہے۔ اس میں کوئی پیچھے نہیں رہتا اور نہ ہی کوئی اس سے پیچھے ہٹتا ہے۔ اس سے کوئی روگردانی نہیں کرتا بلکہ یہ ہمارا مطالبہ اور ہدف ہے اور ہم اس کے لیے تیار ہیں، اور ہم نے خود کو اس راستے پر کھڑا کردیا ہے۔
بی بی سی نے لکھا ہے کہ ’’صالح العاروری سے متعلق بتایا جاتا ہے کہ وہ حماس کے مسلح ونگ قاسم بریگیڈ میں ایک اہم مقام رکھتے تھے اور حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کے قریبی اتحادی اور ساتھی تھے۔ وہ لبنان میں اپنے گروپ اور حزب اللہ کے درمیان رابطہ کار کے طور پر کام کررہے تھے۔‘‘
صالح العاروری 19 اگست 1966ء کو رام اللہ کے شمال مغرب میں ارورا گائوں میں پیدا ہوئے، انھوں نے ہبرون یونیورسٹی سے شریعت کی تعلیم حاصل کی۔ آپ نے کم عمری میں اخوان المسلمون میں شمولیت اختیار کی اور پھر 1987ء میں حماس کے کارکنوں میں شامل ہوئے، اور 1991ء سے 1992ء کے درمیان مغربی کنارے میں قاسم بریگیڈ کے قیام میں حصہ لیا۔کہا جاتا ہے کہ آپ نے مغربی کنارے میں القسام بریگیڈکے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا تھا،آپ تقریباً 18 سال اسرائیل کی جیل میں بھی رہے۔
اسرائیل کی جیلوں میں 20سال گزارنے والے عصمت منصور نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ 1994ء سے لے کر اب تک کئی سال صالح العاروری کے ساتھ رہے ہیں۔
منصور کا کہنا ہے کہ العاروری نے طویل عرصہ اسرائیل کی حراست میں گزارا تاہم کسی مقدمے میں اُن کے خلاف الزامات ثابت نہیں ہوئے تھے۔ 2007ء میں، گرفتاری کے ایک دہائی بعد، صالح العاروری کو رہا کردیا گیا تھا لیکن اسرائیل نے انھیں 2010ء میں دوبارہ گرفتار کرلیا تھا۔ منصور کا کہنا ہے کہ جیل کے اندر سے العاروری نے قیدیوں کے تبادلے کے میں اہم کردار ادا کیا جس کے تحت 1027 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا گیا جن میں غزہ میں حماس کے موجودہ رہنما یحییٰ سنوار بھی شامل ہیں۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق الشیخ صالح العاروری کی بہن اُم قتیبہ نے اپنے بھائی کی شہادت پر فلسطینی عوام اور قوم کو مبارک باد پیش کی اور اس بات پر زور دیا کہ العاروری کی یہی خواہش تھی اور وہ ہر روز سجدہ کرتے ہوئے دعا کیا کرتے تھے ’’اے اللہ، مجھے شہادت کی موت عطا فرما‘‘۔ الحمدللہ میں اپنے آپ کو اور فلسطینی عوام کو اُن کی شہادت پر مبارک باد پیش کرتی ہوں۔ فلسطین کا ایک دن آزادی کا دن ہے، دشمن چاہے کتنے ہی لیڈروں کو قتل کردے مگر وہ اللہ کی اس منشا اور فتح کے فیصلے کو ختم نہیں کرسکتا۔
سوشل میڈیا پر صحافی معاذ حمید نے کہا کہ ’’ہر کوئی الشیخ صالح العاروری کے قتل کے ردعمل میں لبنان اسکوائر کے ردعمل کو دیکھ رہا ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ مغربی کنارے کا میدان ردعمل میں قابض دشمن کے خلاف حیرت کا عنصر بن سکتا ہے‘‘۔ اس کے علاوہ بھی سوشل میڈیا صارفین نے الشیخ العاروری کی والدہ کی ایک تصویر شائع کی جن کی زبان پر یہ الفاظ تھے: ’’خدا قبول کرے، خدا قبول کرے‘‘۔ پُرعزم اور فلسطین کاز کے لیے یکسو اُن کی ماں نے الجزیرہ کو بیان میں کہا کہ ’’میں اپنے بیٹے کو اس اعزاز پر مبارک باد پیش کرتی ہوں جس کی وہ خواہش کرتا تھا۔‘‘
محقق بلال شلش نے ایک تصویر شائع کی اور لکھا: ’’الخلیل یونیورسٹی میں اسلامی بلاک کے امیر صالح العاروری اب دنیا میں نہیں رہے۔ یہ تصویر اُس وقت کی ہے جب العاروری اسلامک بلاک کے سربراہ تھے۔ تصویر میں بائیں جانب القدس یونیورسٹی میں اسلامک بلاک کے امیر عادل عوض اللہ ہیں‘‘۔ صحافی تسنیم حسن نے ایک پوسٹ میں لکھا کہ ’’وہ کوئی عام آدمی نہیں تھا، وہ ہمارے اِس دنیا میں آنے سے پہلے موجود تھا۔ میرے شہید چچا امجد کی صحبت اور سوانح عمری میں موجود تھا، قید کے طویل سالوں میں بھی موجود تھا۔ فلسطین کے اندر اور باہر موجود تھا۔ ہمارے فخر، فتح، اور انتقام میں موجود ہے۔ وہ موجود تھا اور رہے گا۔‘‘
فلسطین اور غزہ کے مسلمان مزاحمت کررہے ہیں اور ثابت قدم ہیں، لیکن بدقسمتی سے امتِ مسلمہ اور اس کے حکمران رسمی مذمت کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ فلسطین کے مسلمان مشکل اور تکلیف میں ہیں۔ اس درد و غم میں اُن کے ساتھ کھڑے رہنے اور اُن کے پیغام کو آگے پہنچانے کا کام تو ہم کم ازکم کر ہی سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ صالح العاروری کی شہادت قبول فرمائے۔