سورج کی امید

188

میں سال کی آخری شام اُفق پہ پھیلے نارنجی اور گلابی ڈورے بادلوں کی اوٹ سے نکلتے دیکھنے میں محو تھی کہ اچانک یوں محسوس ہوا کہ زرد گولا آج بہت ہی اداس ہے، بلکہ یوں لگا کہ موٹے موٹے آنسو گرا رہا ہے۔ خیر ویسے تو یہ محض دنیا والوں کے بنائے گھڑیال اور جنتر یاں ہیں جنہوں نے اسے ماہ و سال میں تقسیم کررکھا ہے، ورنہ اس کا اصل کام تو ہر صبح نئی امیدیں اپنی جھولی میں لیے طلوع ہونا اور ہر شام اداسیوں کے سائے بکھیرتے اندھیرے کی چادر پھیلاتے ہوئے غروب ہوجانا ہے۔ لیکن پھر بھی کچھ تو ہے کہ 31 دسمبر کچھ زیادہ ہی مضمحل اور مایوس ہے۔ اداسی مجھے اپنے رگ و پے میں اترتی ہوئی محسوس ہونے لگی، اور پھر شاید میرے کان بھی بجنے لگے یا شاید وہ اپنی سولر لہروں کے ذریعے مجھ سے محوِکلام ہوگیا۔ وہ مجھے ریڈیائی لہریں بھیج رہا تھا اور میرا دل، دماغ، بلکہ میرا رواں رواں اس واضح پیغام کو وصول کررہا تھا۔ ہم دونوں کنکٹڈ ہوچکے تھے۔

وہ کہہ رہا تھا: بوڑھا ہوگیا ہوں، تھک چکا ہوں، لیکن اپنی ذمہ داری ادا کرنے سے نہیں تھکا، بلکہ اس بات سے تھک گیا ہوں کہ روزانہ ذرے ذرے کو زندگی کی توانائیاں دینے والے کے سامنے جب زندگی سے بھرپور، جان دار اجسام کو آن کی آن میں موت کی آغوش میں دھکیل دیا جاتا ہے، جو صبح سے شام تک بھاگتے دوڑتے تھے، رات میں مٹی میں دبا دیے جاتے ہیں تو میری ہمت ختم ہونے لگتی ہے۔ میں کس زندگی کی نوید بن کے آؤں…؟ کس حوصلے سے شیطانی وجود کے ہاتھوں ہنستے ہوئے کھلکھلاتے مناظر کو راکھ کا ڈھیر بنتے دیکھوں؟ کس امید پہ واپس لوٹوں؟ کس لیے واپس آؤں؟ کیا اس لیے آؤں کہ پھر ظلم و سفاکی کا خاموش تماشا دیکھوں گا؟ … یہ کب تک چلے گا؟… آخر کب تک؟

میں نے سر جھکا کے سوچا ’’آج رات بارہ بجے نیوزی لینڈ سے شروع کرکے اگلے بارہ گھنٹے تک پورے کرہّ ارض پہ خوشیاں منائی جائیں گی۔ ہر کچھ گھنٹوں بعد رات کی تاریکی رنگ برنگی روشنیوں سے جگمگائے گی۔ کاش کہ تم ان مناظر کو دیکھ سکتے۔ ان سے تمہاری اداسی کم ہوجاتی۔ یہ منظر بڑا خوب صورت لگتا ہے۔‘‘

’’ہونہہ… خوشیاں! کس بات کی خوشیاں؟ کل جب آؤں تو مجھے بتانا کہ رات کس چیز کا جشن منایا تم انسانوں نے؟

کون سی انسانیت کا جشن منایا؟ اور یہ بھی بتانا کہ نئے سال میں داخل ہوکے کیا کارنامہ انجام دیا؟ کیا اس سال غزہ کے ننھے بچوں کو بڑا ہوجانے کا حق دے دو گے؟ یا پیٹ میں موجود جنین کو سلامتی سے دنیا میں آنے کا حق دے دو گے؟

کیا دنیا کے درندوں کو اجڑی ہوئی گودوں والی ماؤں کے آنسو نظر آنے لگیں گے؟ یہ نہ سمجھنا کہ میں ناتجربہ کار ہوں، اناڑی ہوں یا کمزور دل ہوں… بڑی بڑی عالمی جنگوں کا چشم دید گواہ ہوں… میں نے اَن گنت بستیاں اجڑتی دیکھی ہیں، بستیوں پہ بستیاں بستے دیکھی ہیں… لیکن میری گستاخی معاف کرنا کہ اس مستقل ڈھٹائی کے ساتھ سارے کرۂ ارض کے انسانوں کی آوازوں کو یوں بے وقعت ہوتے اور روندتے ہوئے اسی سال دیکھا ہے… تم لوگوں نے ڈھٹائی کا ایک تاریخی ریکارڈ قائم کیا ہے…

اِس بار تو لگ رہا ہے کہ اسی کا جشن منا رہے ہو… ہاں تم جشن منا رہے ہو۔ مگر نہ جانے کیوں؟ حالانکہ تمہاری نسلِ انسانی پہ تو جشن منانا سجتا ہی نہیں ہے… تم ہی بتاؤ اس پہ جشن بنتا ہے، یا ماتم؟

لیکن خیر میرا کیا ہے، میں تو کل پھر آؤں گا۔ ڈیوٹی جو ٹھیری… زندگی دینے، روشنی دینے، امید دینے۔ اگر تم چاہو تو اس نئے سال کا ایک ریزولیوشن تم بھی بنالو۔
’’کیا…‘‘ میرے دل نے گھٹی گھٹی سی کراہ نکالی۔
یہی کہ انسان اور انسانیت کو شیطنیت کے چنگل سے باہر نکالنا ہے۔ غلامی بہت ہوگئی، ظلم بہت ہوگیا، اب آزاد ہونا ہے۔ غزہ کی چھوٹی سی پٹی کے لٹے پٹے انسانوں سے سیکھو کہ آزادی کے لیے قربانی کیا ہے اور کیسے دی جاتی ہے ۔
ایک راز کی بات بتاؤں؟ میں کل جب صبح پہلی کرن غزہ کی پٹی پہ نچھاور کروں گا تو امید کی طاقت کشید کروں گا، کیوں کہ وہیں سے مجھے بھی امید کی کرنیں ملیں گی۔ میں بہت تھک گیا ہوں… مجھے نئی صبح کے لیے امید کی تلاش ہے۔

حصہ