یہ دنیا آزمائش کی جگہ ہے۔ امتحانِ زندگی بھی عجیب نوعیت کا امتحان ہے۔ اس کی مدت اگرچہ بہت مختصر، فانی اور ختم ہونے والی ہے لیکن اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والا عذاب شدید یا رضوان و جنت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہے۔ لہٰذا وہ شخص بڑا ہی بدبخت ہے جس نے اپنی بری عادتوں کے روبرو سر تسلیم خم کردیا ہے، سمجھتا ہے میں اپنے طرزعمل میں تبدیلی لاہی نہیں سکتا۔ دانا اور بہادر تو وہ ہے جو اپنے اعمال کو بہتر بنائے اور انہیں ترقی دے۔ اپنی اور دوسروں کی تربیت کے لیے محنت کرے۔
تربیت سے مراد اپنی شخصیت کو نشوونما دے کر اس بات کا اہل بنانا ہے کہ نصب العین حاصل ہوسکے۔ تربیت کی راہ میں پہلا قدم یہی ہے کہ انسان مقصدِ زندگی کے معاملے میں یکسو ہوجائے۔ مومن کا مقصد رب کی رضا اور جنت کا حصول ہے۔ جتنا یہ یقین محکم اور پختہ ہوگا اتنا ہی راہِ راست پرگامزن ہونے کا ارادہ مضبوط ہوگا۔
ارادہ شعوری فیصلہ ہے، یہ محض خواہش کا نام نہیں۔ علمِ دین کا حصول بہترین مشفق دوست ہے، لیکن تمام عمر مصروفیات ایک سی نہیں رہتیں، مطالعہ و درس اور وعظ وتلقین کا سلسلہ نہ چاہتے ہوئے بھی ٹوٹتا رہتا ہے۔ ایسے میں پختہ ارادہ خود ہی سب سے مؤثر اورکارگر معلم و مربی ثابت ہوتا ہے۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ ارادہ تو پلک جھپکتے میں بن جاتا ہے لیکن عمل و کردار کی اصلاح و تعمیر تدریجی، وقت طلب اور محنت طلب امر ہے۔ تربیت اور اصلاحِ نفس ایک طویل اور مسلسل جدوجہد ہے۔ اس راہ میں بہت سی مشکلات ہیں۔ آج کا انسان ایمان کی، اور خراب ماحول کے باعث ضعفِ ارادہ اور عزم کی شکست و ریخت کا شکار ہے۔ بہت سے لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ خود کوبدل نہیں سکتے۔ حالاں کہ کوشش سے ہر شخص اپنے اندرخوش گوار تبدیلی لا سکتا ہے۔ ہمت ہار دینے اور راہِ فرار اختیار کرنے کے بجائے مشکلات و مصائب کا پامردی سے مقابلہ کرنے سے انسان کا اصل جوہر کھلتا ہے۔ مجاہدہ اوراستقامت اس راہ کا اہم ترین توشہ ہے۔
نسیان، غفلت، سستی، مایوسی، جلد بازی، ریاکاری اور کبر و غرور… یہ سب وہ آفات و حجابات ہیں جن سے بے پروائی برتی جائے تو عمرِ عزیزضائع ہوجانے کا خدشہ ہے۔ لہٰذا خاص طور پر محتاط رہنا ہوگا، اپنے اعمال اور نیتوں کا بار بار جائزہ لینا ہوگا تاکہ انسان وقت پر چوکنا ہوکر صحیح راہ کی طرف گامزن ہوسکے۔
جن لوگوں نے مجاہدہ، ریاضت اور محنت سے بچنے کے لیے عذرلنگ تراش رکھے ہیں انہیں آخرت کی رسوائی اور درد و الم سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ اگر چٹان پر فصل نہیں لہلہاتی تو قصور بارش کا نہیں۔
مقصدکی سچی طلب اور لگن تربیت کی راہ کو آسان اور سہل کردیتی ہے۔ یہی ہر ناگوار اور تکلیف دہ چیزکا مقابلہ کرنے، ہمت وقوت، اور ہر مشکل سے نکلنے کا راستہ سُجھاتی ہے۔ تمام عبادات جو ہم پرفرض کی گئی ہیں ان کا مقصود ہماری تربیت ہے۔ ان سب کو سمجھ کر ادا کرنے سے فلاح کی منزل کا سفر آسان اور یقینی ہوجاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کسی پر اس کی استطاعت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا۔ دین کے رنگ میں رنگ جانے کا مطالبہ ہر خاص و عام سے کیا گیا ہے۔ جس طرح ہوا اور پانی زندگی کے لیے ناگزیر ہیں اور ہر جگہ دستیاب بھی… ایسے ہی رب کی رضا اور جنت کا حصول ہر شخص کا حقیقی مقصود ہے اور ہر ایک کے بس میں ہے۔ البتہ یاددہانی، توجہ، محنت، کوشش اور مجاہدہ لازمی امور ہیں۔ اہلِ ایمان کے لیے ان میں سے کوئی کام بھی دسترس سے باہر نہیں۔ اسی لیے دین کے راستے کو یسریٰ کا نام دیا گیا، یعنی آسان راہ۔
دل میں گناہ کی خواہش اٹھے اور خوفِ خدا اس کے ارتکاب سے باز رکھے، یہی نیکی اور تقویٰ ہے۔ نیکی فطری طور پر دل پسند ہے، جانی پہچانی چیز ہے، سب کو اچھی اور خوب صورت لگتی ہے۔ اس سے دل خوشی اور اطمینان محسوس کرتا ہے۔ یہ مشکل اسی لیے محسوس ہوتی ہے کہ ہم خود ٹیڑھے ہوچکے ہیں۔ اگر ہم اپنے قلب کی اصلاح کرلیں تو راہِ راست پر چلنا آسان ہوجائے گا۔ بے شک دعا مومن کا بہترین ہتھیار ہے۔
اللہ کو نہ عمل میں کمال مطلوب ہے نہ عمل کی تکمیل، اسے صرف عمل کے لیے مقدور بھرکوشش اور سعی مطلوب ہے جو یقینا ہر ایک کے بس میں ہے۔ کامیاب ہیں وہ لوگ جو تسلسل سے اپنی اصلاح میں مصروف ہیں اور ہرلمحہ اپنے اندر مثبت تبدیلی کے لیے کوشاں ہیں۔ ہم جب امید، اعتماد اور حوصلے سے منزل کی طرف بڑھتے ہیں تو اللہ کی مدد شاملِ حال ہوجاتی ہے۔