اتوار کا دن تھا۔ چھٹی کے دن طبیعت میں بے زاری اور سستی والی کیفیت کہ ’’بس پڑے رہو، کچھ نہ کرو‘‘ طاری تھی۔ لیکن بیگم کی خفگی اور گھُرکی نے اٹھنے پر مجبور کردیا۔ پہلی تاریخ تھی، اور یہ دن ہوتا ہے مہینے بھر کا سودا سلف لانے کا، جو کہ بڑا مشکل کام ہے لیکن کرنا تو ہے۔
’’صبح کے گیارہ بج رہے ہیں اور آپ ہیں کہ اٹھنے کا نام ہی نہیں لیتے۔‘‘ بیگم کی ناراضی بجا تھی۔
ناشتا کرکے اخبار اٹھایا ہی تھا کہ نادر شاہی حکم صادر ہوا ’’اب اخبار لے کر بیٹھنے کی کوئی ضرورت نہیں، پہلے مجھے سودا لاکر دیں، پھر آپ آزاد ہیں جو چاہے کریں۔‘‘
’’ہونہہ…‘‘ ہم نے برا سا منہ بنایا… ’’آپ آزاد ہیں جو چاہے کریں۔‘‘ ہم نے آواز کو باریک کرکے بیگم کی نقل اتاری۔
’’شام کو مہمان جو آرہے ہیں…‘‘ ہمارے چہرے پر بے زاری دیکھ کر بیگم کا موڈ بدل گیا۔
’’کوئی بات نہیں، مہمان تو شام کو آئیں گے، بس آپ جلدی سے سودا لادیں تاکہ میں ابھی سے تیاری کرلوں۔‘‘
’’اچھا لایئے پرچہ۔‘‘ ہم نے بیگم سے پرچہ لے کر باہر نکلنے کا ارادہ کیا۔
شیشے میں دیکھ کر بال بناتے ہوئے بیگم کو دیکھا ’’سب کچھ لکھ دیا ہے نا؟‘‘
’’جی لکھ دیا ہے، لیکن آپ کو یاد ہے نا۔‘‘
’’ہاں ہاں یاد ہے۔‘‘ ہم نے رواروی میں کہا اور گھر سے نکل گئے، اور سوچنے لگے کہ یہ کس چیز کو یاد رکھنے کی بات ہورہی ہے؟ لیکن کچھ یاد نہ آیا۔ ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ زوردار آواز میں سلام کی آواز سن کر سب کچھ ذہن سے نکل گیا۔ یہ ہمارے پڑوسی شعیب صاحب تھے۔ ان سے علیک سلیک کے بعد ہم بازار کی طرف روانہ ہوگئے۔ پرچے کو دیکھا۔ آج کل کے جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی ہماری بیگم کو سامان لکھ کر دینے کی عادت ہے۔ پرچہ کچھ عجیب تھا۔ پہلے کے پرچوں سے خاصا مختلف۔ یہ کیا لکھا ہوا ہے! سموسے اور رول کی پٹیاں، میدہ، بیکنگ پاؤڈر، چینی بھی جتنی استعمال ہوتی تھی اس سے ڈبل۔ اس کے علاوہ بھی کئی چیزیں تھیں جو ہم نے کبھی بھی نہیں خریدیں۔ ہم انگشت بدنداں تھے۔ ہماری تو عادت تھی کہ ایک ہی اسٹور سے سارا سامان خرید لیتے، اس سے وقت کی بچت بھی ہوتی ہے اور بہت سے پیکیج بھی مل جاتے ہیں، یعنی بہت سی چیزیں سستی خرید لی جاتی ہیں۔ پتا نہیں بیگم کو کیا ہوا ہے! حالانکہ بڑھاپا ابھی نہیں آیا لیکن سٹھیا گئی ہیں۔ چلو خیر… جو سمجھ میں آئے گا وہ لے لوں گا۔ جو سمجھ میں نہ آیا وہ رہنے دوں گا۔ ہم نے ارادہ کرکے گاڑی کا رُخ اسی اسٹور کی طرف موڑ دیا جہاں سے ہم 10 سال سے خریداری کررہے تھے۔ جلدی جلدی سارا سامان خرید کر لائن میں لگ کر پیسے ادا کیے اور گھر کا رخ کرلیا، اور جو چیزیں غیر ضروری لگ رہی تھیں انہیں اگلے ہفتے پر اٹھا رکھا۔
گھر پہنچے ہی تھے کہ ظہر کی اذان کی آواز سنائی دی۔ جلدی سے مسجد کی طرف چلے۔ سوچا تھا کہ نماز کے بعد آرام سے اخبار کا مطالعہ کریں گے، شام تک کا وقت اپنا ہوگا، جیسے چاہے جیو، جو چاہے کرو۔ پھر شام کو مہمان آجائیں گے تو اُن کو کمپنی دینی ہوگی۔ لیکن گھر پہنچے تو ایک نئی مصیبت منتظر تھی۔ بیگم سامان کے درمیان ہکا بکا بیٹھی تھیں۔
’’یہ کیا لے کر آگئے؟‘‘ بیگم نے چمک کر کہا۔
’’کیا مطلب؟‘‘ ہم نے حیرانی سے دیکھا۔’’وہی لائے ہیں جو ہر ماہ لاتے ہیں اور 10 سال سے لارہے ہیں۔‘‘
’’لیکن میں نے آپ کو جو پرچہ دیا تھا اور جب آپ نکل رہے تھے تو آپ کو یاد بھی دلایا تھا۔‘‘
’’یاد…؟‘‘ ہم نے حیرت سے دہرایا۔
’’میں نے آپ سے پوچھا تھا آپ کو یاد ہے نا؟ آپ نے کہا تھا یاد ہے۔‘‘
’’ہاں وہ تو ہم نے کہا تھا۔ لیکن جنابِ عالیہ آپ کیا یاد دلا رہی تھیں وہ ہم کو باہر نکل کر بھی یاد نہ آیا۔‘‘
’’تو آپ پوچھ لیتے۔‘‘ بیگم کے غصے کا گراف تیزی سے اوپر جارہا تھا۔
’’چلو اب پوچھ لیتے ہیں، اب بتا دیں۔‘‘ ہم چونکہ اپنی چھٹی خراب نہیں کرنا چاہ رہے تھے اس لیے معاملہ رفع دفع کرنے کی کوشش کی۔
’’اخبار تو آپ بہت شوق سے پڑھتے ہیں اور روز ہی پڑھتے ہیں بلا ناغہ…!‘‘ انتہائی طنزیہ انداز میں بلا ناغہ پر زور دیا گیا۔
’’تو آپ مجھے کیا یہ یاد دلا رہی تھیں…؟‘‘ ہم جل بھن گئے۔
’’آخر کیا مقصد ہے آپ کا…‘‘ اب غصہ ہمارے اوپر بھی سوار ہورہا تھا۔
’’یہ آپ کیا اٹھا کر لے آئے؟‘‘ بیگم اب ہمارے سامنے آکر کھڑی ہوگئیں۔
’’مجھے یہ سب نہیں چاہیے، جو کچھ میں نے کہا تھا وہی چاہیے۔‘‘
’’یعنی…؟‘‘ ہم نے اردگرد بکھرے سامان کی ناقدری دیکھ کر خون کے گھونٹ پیتے ہوئے کہا۔
’’یہ شیمپو، چپس کے پیکٹ، نوڈلز اور یہ پیمپرز، ٹوتھ پیسٹ واپس کروا کر آئیں۔‘‘
’’لیکن کیوں؟‘‘بیگم کا رویہ ہمیں حیرت زدہ کررہا تھا۔
’’یہ بسکٹ کے ڈبے، نوڈلز اور چپس وغیرہ تو میں بچوں کے اسکول کے لنچ کے لیے لایا ہوں۔ کیا اسکول کی چھٹیاں ہیں؟‘‘
’’یہی تو میں آپ کو سمجھا رہی ہوں کہ ان سب چیزوں کے بجائے آپ مجھے رول، سموسوں کی پٹیاں لاکر دیں، میں لنچ کے لیے فریز کروں گی۔ میدہ، بیکنگ پائوڈر، چینی کیک بنانے کے لیے منگوائی تھی۔ حلیم کا سامان کہا تھا وہ بھی نظر نہیں آرہا… یہ سب فضول چیزیں جو لانے سے منع کیا تھا وہ لے کر آگئے۔ بیسن لکھا تھا پکوڑیاں بنانے کے لیے، وہ نہیں لائے۔ کسٹرڈ، جیلی کے پیکٹ یہ والے نہیں چاہئیں، یہ برتن دھونے کا صابن… سب باہر کے ہیں۔ مجھے پاکستانی چیزیں چاہئیں۔‘‘ بیگم سخت ضدی لہجے میں بولی تھیں۔
’’اوہ…!‘‘ہم آخر معاملے کی تہہ تک پہنچ گئے ’’تو آپ یہ یاد دلا رہی تھیں۔‘‘
’’جی ہاں…!‘‘ بیگم نے روہانسی ہوکر کہا۔
’’رات کو ہی آپ کو سب سمجھایا تھا۔ پھر صبح گھر سے نکلتے ہوئے یاد بھی دلایا، لیکن آپ کچھ سمجھتے ہی نہیں۔‘‘ اب بیگم کی آواز بھرا رہی تھی۔ ہم نے بے چارگی سے ان کی طرف دیکھا۔ یہ تو ہمیں اور ان کو دونوں کو معلوم تھا کہ ہم ان کے غصے سے نہیں بلکہ ان کے آنسوئوں سے پگھلنے والے ہیں، اور وہ ہر موقع پر ان کا استعمال کرنے کی عادی ہیں۔
دھم سے صوفے پر گرتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے سر تھام لیا۔ ’’نہ جانے یہ سامان خریدتے ہوئے ہمیں فلسطین اور اس کی تباہی و بربادی یاد کیوں نہ آئی؟‘‘ ہمیں خود ندامت محسوس ہورہی تھی۔ بیگم گھٹنے ٹیک کر ہمارے سامنے آبیٹھیں۔ ہاتھ ہمارے گھٹنوں پر دھر کر ہماری آنکھوں میں دیکھا۔ ’’آپ یہ سامان واپس کرا دیں گے نا…‘‘
ہم نے ان کی آنسوؤں سے گلابی ہوتی آنکھوں میں جھانکا۔ کام تو مشکل تھا لیکن اقرار کرتے ہی بنی۔ ’’ضرور کیوں نہیں…‘‘ ہم نے ان کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دیا۔