بچے اور کہانیاں:بچوں کو کہانیاں سننے کا شوق کیوں ہوتا ہے

ہر ملک اور ہر تہذیب میں کہانیاں سنانے اور سننے کا رواج چلا آتا ہے لیکن بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جنہوں نے اس بات پر غور کیا ہو کہ بچوں کو کہانیاں سننے کا شوق کیوں ہوتا ہے؟ ماہرین نفسیات نے بھی اس سلسلے میں کچھ زیادہ نہیں لکھا۔ بچوں میں قوت تخیل یعنی خیال آرائی بہت زیادہ ہوتی ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر بچے میں یہ قوت یکساں طور پر موجود ہو۔ بعض بچوں میں خیال آرائی کم ہوتی ہے اور بعض میں مقابلتاً زیادہ۔ کہانیاں سننے اور سنانے کا تعلق تخیل کے ساتھ وابستہ ہے۔ بچے اصل چیز اور چیز کے تصور میں تمیز نہیں کرسکتے کیوں کہ بچوں کے دماغ میں ان کے جسم کی طرح ابھی پختگی نہیں ہوتی۔ آپ نے اکثر دیکھا ہوگاکہ بچہ گڑیا کو ایک سچ مچ کا بچہ تصور کر لیتا ہے‘ اس کے ساتھ باتیں کرتا ہے‘ اسے کھلاتا ہے سلاتا ہے۔ چنانچہ ہر وہ کام جو انسان کرتا ہے بچہ گڑیا سے بھی کرواتا ہے۔ وہ یہ نہیں سمجھ سکتا کہ گڑیا تو ایک بے جان چیز ہے۔ وہ باتیں نہیں کرسکتی لیکن جوں جوں بچہ بڑا ہوتا جاتا ہے جسمانی نشوونما کے ساتھ ساتھ دماغی نشوونما بھی مکمل ہوتی جاتی ہے اور نفسیاتی رو سے تقریباً پانچ سال کی عمر تک بچہ اصلی اور تخیلی اشیا میں تمیز نہیں کرسکتا۔ ایک مشہور مصنفہ لکھتی ہیں کہ جب وہ تین سال کی تھیں تو پتھروں کو اکثر ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ رکھ دیا کرتی تھیں۔

یہ سوچتے ہوئے کہ ان میں بھی جان ہے اور بے چارے پتھر انسانوں کی طرح ایک جگہ پڑے پڑے اکتا جاتے ہیں۔ کہانیوں میں بھی بچہ تخیل کے ذریعے ایک غیرموجود چیز کو موجود سمجھ لیتا ہے اور کہانی سننے کے ساتھ ساتھ بچے کے دماغ میں واقعات کی تصویر سی کھینچتی چلی جاتی ہے جو حقیقی معنوں سے کسی طرح کم جان دار نہیں ہوتی۔

انسانی جبلتیں بچپن سے ہی اپنا کام کرنے لگ جاتی ہیں۔ کہانی سننے کا تعلق جبلی تجسس سے بھی ہے۔ بچے اپنے شوق تجسس کو پورا کرنے کی لیے کہانی کی فرمائش کرتے ہیں۔ یہ شوق تجسس ہی تو ہے جو ہمیں اپنی معلومات بڑھانے میں مد دیتا ہے۔ کہانی کے ذریعے بچے پرواز خیالی بھی بڑھتی ہے۔ بچہ جیسے ہی بولنا سیکھتاہے اس کے ساتھ ہی کہانی کا سلسلہ بھی شروع ہو جاتا ہے۔ کہانی محض خیالی یا دیکھی ہوئی چیزوں کو لفظوں میں بیان کرنے کا نام نہیں ہے اور لفظوں کا تعلق خیالات سے بہت زیادہ قریب اور گہرا ہوتا ہے یہی وہ ہے کہ لفظ خیال انگیزی کا باعث بھی ہوتے ہیں۔ لفظوں کو خیالات کے ساتھ وابستہ کرنے کا سبب بچوں کو کہانی سننے پر مجبور کرتا ہے اور کہانی کے ذریعے بچہ اپنے تخیلات کو اصلیت کا جامہ پہناتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ بعض لفظ جو بڑوں کے نزدیک مہمل ہیں بچوں کے لیے بہت کچھ معانی رکھتے ہیں۔ کوئی بچہ بسکٹ کو بٹو کہتا ہے اور کوئی بچہ بلی کو وائوں مائوں کہتی ہے۔ اب اگرچہ ہمارے لیے ان الفاظ کے کچھ معنی نہیں‘ لیکن بچوں کے ذہن کے لیے ان کی اچھی خاصی اہمیت ہوسکتی ہے اسی طرح بچہ بعض چیزوں کو خاص خاص نام دے دیتا ہے اور ان کے ذریعے اپنا مقصد ظاہر کرتا ہے۔ ایک دفعہ ایک خاتون اپنے بچے کو ایک نظم سنا رہی تھیں اور ساتھ ساتھ اس کی تشریح بھی کرتی جا رہی تھیں۔ تھوڑی سی نظم سنانے کے بعد خاتون بولیں میرے بچے یہ نظم بہت مشکل ہے۔ میرے خیال میں تم اس کا مطلب نہ سمجھ سکو گے۔ بچہ فوراً بولا نہیں امی جان آپ اس کو صرف پڑھتی جائیے اور مطلب نہ سمجھایے کیوں کہ میں اس کا مطلب بخوبی سمجھتا ہوں۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بچہ اپنے خیالات کے مطابق لفظوں میں مفہوم تلاش کر لیتا ہے اور بڑوں کے بیان کرنے سے بچوں کے خیالات کے تسلسل میں مداخلت ہوتی ہے۔

بچوں کی کہانی سنانے کی فرمائش کو ٹالنا بعض اوقات بہت مشکل ہو جاتا ہے اور جب کہانی سنائی جا رہی ہو تو بچہ اپنی تمام توجہ کہانی پر مرکوز کر دیتا ہے۔ یہاں تک کہ بعض بچے اپنے گردوپیش کی چیزوں کو تھوڑی دیر کے لیے بھول جاتے ہیں آخر کیوں؟ اس قدر محویت کی وجہ کیا ہے؟ اس کا جواب ہمیں نفسیات کے مطالعے سے مل جاتا ہے۔ کہانی سننے یا سنانے میں سب سے ضروری چیز کسی دوسرے کے جذبات و افعال کو اپنانا ہے۔ کہانی سننے میں بچہ کہانی کے افراد سے اپنا موازنہ کرتا ہے۔ میرے خیال میں جبلی طور پر ہی دوسروںکے خیالات اور افعال کو اپناتے ہیں اور یہ جبلت بہت چھوٹی عمر میں ہی ظاہر ہوتی ہے۔ تقریباً ڈیڑھ‘ دو سال کی عمر سے ہی لڑکیاں اپنے مال کے افعال و خواص کو اپنانا شروع کر دیتی ہیںاور لڑکے باپ کے افعال کو اخذ کر لیتے ہیں۔ ایک چھوٹی لڑکی اپنی گڑیا کی اسی طرح دیکھ بھال کرتی ہے جس طرح اس کی ماں اس کی نگہداشت کرتی ہے۔

چنانچہ کہانی سنتے ہوئے بچہ اپنی شخصیت کو کہانی کے اہم افراد کی شخصیتوں میں بدلتا رہتا ہے۔ کہتے ہیں نپولین کو بچپن میں بہادروں کی اور جنگ و جدال کی کہانیاں سننے کا بہت شوق تھا اور اکثر وہ بچپن میں ایسے کھیل کھیلتا جن میں جرنیل بنتا اور لڑائی کے مناظر دہراتا۔ چنانچہ وہ جب بڑا ہوا تو ایک نہایت مشہور جرنیل ثابت ہوا۔ کہانی کے ذریعے بہت سی نامکمل اور ناآسودہ خواہشات بھی پوری کی جاتی ہیں۔ یہ انسان کی فطرت کا خاصا ہے کہ ج چیز حقیقت میں حاصل نہیں ہوسکتی اسے تصور اور تخیل کی دنیا میں پورا کیا جاتا ہے۔ بچوں کا کہانیوں میں دل چسپی لینا اس بات کی دلیل ہے کہ بچہ کہانی کے افراد کی شخصیتوں کو اپنی شخصیت میں مدغم کر دیتا ہے اور جو کام وہ کرتے ہیں انہیں اپنے ہی کام خیال کرتا ہے اور خیالات کی پرواز اسے اس بات میں مدد دیتی رہتی ہے۔ دوسری بات انجذاب جس طرح ہم دوسروں کے جذبات و افعال کو اپناتے ہیں اسی طرح اپنے خیالات و جذبات بھی دوسروں پر Project منجذب کر دیتے ہیں۔

بچپن کا زمانہ چونکہ زیادہ تر تخیلات کا دور ہے لہٰذا کہانی کے کرداروں کے افعال میں بچہ اپنے افعال کی آسودگی اور تکمیل سے مسرت حاصل کرتا ہے چنانچہ انسانی خواہشات تخیل کے ذریعے تکمیل کو پہنچتی ہیں۔ مثلاً ایک بچے کو مٹھائی کھانے کا بہت شوق ہے نتیجتاً وہ ایسی کہانی سننا پسند کرے گا جس میں مٹھائی کا تذکرہ آئے۔ کہانی میں بندر کا مٹھائی اٹھا کر لے جانا اور پھر مزے لے لے کر کھانے میں بچہ اپنی خواہش کی تکمیل پا لیتا ہے اور تسلی حاصل کرلیتا ہے۔ اسی طرح بچے کی اپنی مشکلات اور دل چسپیاں کہانی کے افراد کی مشکلات اور دل چسپیاں بن جاتی ہیں۔ جن بچوں کو مار دھاڑ کی کہانیاں سننے کا شوق ہوتا ہے ان میں تشدد کا جارحانہ رجحان زیادہ ہوتا ہے۔ وہ اپنی جارحانہ ذہنیت کہانی کے افراد پر منجذب (Project) کرتے ہیں۔ مثلاً کہانی میں کتے نے بلی کو مارا یا بلی نے چوہے کو پکڑ لیا تو بعض بچے اس پر خوش ہوتے ہیں کیوں کہ اس طرح ان کے تشدد کا رجحان پورا ہو جاتا ہے۔ کہانی سننے میں تیسری بات یہ ہوتی ہے کہ بچہ اپنی صلاحیتوں کو‘ جو نامکمل ہوتی ہیں‘ پوری کر لیتا ہے۔ ایک مشہور ماہر نفسیات Adler نے بچوں کے متعلق بہت کچھ لکھا ہے اس کا خیال ہے کہ انسانوں میں جو خامیاں پائی جاتی ہیں‘ ان کو وہ کسی نہ کسی طرح پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ چنانچہ اپنی خامیوں کو پورا کرنے کے لیے اگر وہ حقیقی مقصد حاصل نہ کرسکے تو انسان تخیل کی دنیا سے رجوع کرتا ہے اور تخمیل کی غیر حقیقی دنیا میں اپنی کمی کو پورا کر لیتا ہے۔ اپنی خامیوں کو پورا کرنے کی ایک مثال دن کے وقت خواب دیکھنا یعنی ہوائی قلعے تعمیر کرناہے۔ اسی ہم کہانی کے افراد سے ایسے کام لیتے ہیں جو ہم خود نہیں کر سکتے۔ فرض کیجیے ایک لنگڑا انسان ایک بہت بہادر اور تن درست انسان کی کہانی سن کر بہت خوش ہوتا ہے اور اس طرح وہ کہانی کے ہیرو میں اپنی خامیوں کو پورا ہونے کی شکل میں پانی کمی کے احساس کو دبا لیتا ہے۔ Adler کہتا ہے کہ بچپن کے زمانے میں غلبہ حاصل کرنے کی خواہش ہی سے کمی پوری کرنے کے اس عمل کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔

یہ تمام باتیں ہیں جو ایک تسلسل اختیار کرکے بچے کے ذہن میں اس طرح اثر کرتی ہیں کہ بچہ کہانی کی رنگین دنیا میں حقیقی دنیا سے زیادہ دل چسپی لیتا ہے اور کہانی سننا پسند کرتا ہے۔

کس عمر میں کیسی کہانی سنانی چاہیے؟
چھوٹے‘ بڑے ہر عمر کے بچوں کو کہانیاں سننے کا شوق ہوتا ہے لیکن کہانی سنانے والے کے لیے یہ اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس عمر کے بچوں کو کس قسم کی کہانی سنائی جائے۔ بچوں کو کہانی سناتے ہوئے عمر کا لحاظ رکھنا بہت ضروری ہے۔ جسمانی نشوونما کے ساتھ ساتھ دماغی نشوونما ہوتی ہے چونکہ بچے کی جسمانی نشوونما مکمل نہیں ہوتی اس لیے کسی بسیط (Abstract)چیز کا سمجھنا بچے کے لیے بہت مشکل ہے۔ بچوں کی پرواز تخیل بہت بلند ہوتی ہے لیکن ضروری نہیںکہ ہر بچہ اپنے تخیل سے کام لے سکے۔ بعض بچوں میں قوتِ تخیل کم ہوتی ہے اور بعضً میں زیادہ۔ چنانچہ کہانی سناتے ہوئے سب سے پہلے اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ بچہ اپنے قوتِ تخیل سے کام لے سکتا ہے یا نہیں۔

جن بچوں کی قوت تخیل کم ہو انہیں ایسی کہانیاں سنانی چاہئیں جو اصلیت سے بہت زیادہ تعلق رکھتی ہوں اور میرے خیال میں تو تقریباً ہر بچے کو ہی اصلیت سے تعلق رکھنے والی کہانیاں سنانی چاہئیں۔

کہانیاں سننا پڑھنے کی نسبت زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔ بچے تو بچے‘ بڑی عمر کے لوگ بھی اکثر کہانی سننا بہت پسند کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے پہلی بات جس کا کہانی سنانے والے کو خیال رکھنا چاہیے‘ یہ ہے کہ کس قسم کی کہانی سنائی جائے۔ کہانیاں ہزاروں قسم کی ہوتی ہیں۔ جانوروں کی کہانیاں‘ انسانوں کی کہانیاں‘ پریوں اور جنوں کی کہانیاں‘ مزاحیہ کہانیاں‘ سراغ رسانی کی کہانیاں وغیرہ۔ چنانچہ کہانی سنانے پہلے یہ دیکھ لینا چاہیے کہ بچوں کو کس قسم کی کہانی پسند ہے۔ ہر انسان کی دل چسپیاں اور پسند جدا جدا ہوتی ہیں اس لیے کہانی سناتے وقت بچوں کی دلچسپی اور پسند کا لحاظ رکھنا چاہیے۔ یعنی کہانی کا انتخاب بچوں پر چھوڑ دیا جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ بچوں کی عمر کتنی ہے یعنی کسی خاص وقت پر کہانی سننے والے بچوں کی عمر کیا ہے؟ اس سے میرا مطلب یہ ہے کہ کہانی بچوں کی عمر اور سمجھ کے مطابق ہونی چاہیے۔ کہانی نہایت سلیس اور سلجھی ہوئی زبان میں سنائی جائے۔ مشکل زبان چھوٹی عمر کے بچے نہیں سمجھ سکتے۔ کہانیوں میں زیادہ تر روز مرہ کے واقعات بیان کرنے چاہئیں اور ایسی چیزوں کا بیان ہونا چاہیے جو بچہ اپنی روزمرہ کی زندگی میں مشاہدہ کرتا ہے۔ مزاحیہ کہانی سناتے ہوئے اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ مذاق اس قسم کا ہو جسے بچہ سمجھ سکے اور لطف اندوز ہو سکے۔ کہانی سنانے والا کوشش کرکے نئے نئے الفاظ لائے تاکہ بچہ انہیں سیکھ سکے۔ کہانی کے ذریعے بچے کی زبان بھی سدھاری جا سکتی ہے۔

بہت چھوٹی عمرکے بچے یعنی دو سال سے چار سال تک کی عمر میں زیادہ تر جانوروں میں دل چسپی لی جاتی ہے اور ایسے بچوں کو ان کے ماحول سے تعلق رکھنے والے جانوروںکی کہانی سنانی چاہئیں۔ بعض کتابوں میں بچوں کے لیے بلی‘ خرگوش‘ کتا‘ بطخ وغیرہ کی کہانیاں نہایت دل چسپ انداز میں بیان کی جاتی ہیں۔ کتابوں میں ہی تصویریں ہوتی ہیں اور تصویروں کے ساتھ ساتھ نہایت سہل الفاظ میں ان جانوروں کے کام بیان کیے جاتے ہیں۔ کہیں بلی کھانا پکا رہی ہے تو کہیں کپڑے دھو رہی ہے‘ کہیں خرگوش کے بچے باغ میں کھیل رہے ہیں‘ دو‘ تین سال کے بچے اُڑتی ہوئی چڑیوں اور پرندوں میں بہت دل چسپی لیتے ہیں۔ بلی اور کتے بھی بچوں کو پسند ہوتے ہیں خاص طور پر خرگوش۔ چنانچہ چھوٹے بچوں کو کہانی کی صورت میں جانوروں کی زندگی کے متعلق بہت کچھ بتایا جاسکتا ہے اور دوسرے اس طرح سے ان کے تصور کو بڑھانے کا موقع بھی مل جاتا ہے۔

چار‘ پانچ سال سے اوپر عمر کے بچے تقریباً ہر قسم کی کہانی سمجھ سکتے ہیں اور اس لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ چار سال سے کم عمر کے بچوں کو جنوں اور پریوں کی کہانی نہیں سنائی چاہیے کیوں کہ ان کی پرواز تخیل ابھی اتنی نہیں ہوتی کہ کسی ایسی چیز کو سمجھ سکیں جو کبھی نظر نہیں آسکتی۔ لیکن چار سال سے بڑی عمر کے بچوں کو ہم پریوں کی کہانیاں سنا سکتے ہیں اور میرے خیال میں بچے سب سے زیادہ دل چسپی پریوں کی کہانی ہی میں لیتے ہیں۔ پریوں کی کہانی کے ذریعے ایک غیر مادی اور غیر موجود چیز کو اصلیت کا جامہ پہنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اس طرح اس کا تخیل بھی بڑھتا جاتا ہے۔ مزاحیہ کہانی بچے اکثر پسند کرتے ہیں اور بچوں کو ہنسانے کے لیے مزاحیہ کہانی سے زیادہ عمدہ کوئی ذریعہ نہیں۔

قدرتی مناظر اور قدرتی چیزوںکو کہانی کے طور پر پیش کرنا بھی ایک عمدہ شغل ہے۔ بچے اکثر قدرتی چیزوں میں دل چسپی لیتے ہیں۔ مثلاً اگر چھوٹی عمر کے بچوں کو چندا ماموں کی کہانی سنائی جائے تو وہ اس میں بڑی دل چسپی لیتے ہیں۔ میں ایک دن شام کے وقت بچوں کو کہانی سنا رہی تھی کہ بچو! دیکھو چندا ماموں اور بادل دو دوست تھے‘ چندا ماموں اور بادل میاں میں ایک دن دوڑ کی شرط لگی۔ بادل میاں چندا ماموں سے بڑھ گئے وغیرہ وغیرہ۔ ایک بچی تھوڑی دیر چندا ماموں کی طرف دیکھتی رہی اور پھر کہنے لگی چندا ماموں اب بھی بادلوں کے پیچھے پیچھے بھاگے چلے جا رہے ہیں اور خوشی سے تالیاں بجانے لگی۔ یعنی کہانی سننے پر بچی نے چاند اور بادل کو غور سے سیکھا اور سے معلوم ہوا کہ وہ سچ مچ چل رہے تھے۔ اس طرح سے کہانی کے ذریعے بچے کا شوقِ مشاہدہ بڑھتا ہے اور اس کی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔

آٹھ سے بارہ سال کے بچوں کو اکثر تاریخی کہانیاں‘ بہادروں کی کہانیاں اور سراغ رسانی کی کہانیاں پسند ہوتی ہیں۔ اس عمر میں ہماری جبلت تجسس ہماری رہنمائی کرتی ہے اور یہ اسی کا تقاضا ہے کہ بچے اس عمر میں سراغ رسانی کی کہانیاں زیادہ پسند کرتے ہیں۔ یہ جستجو کا مادہّ ہی تو ہے جو ہمیں اپنے اردگرد پیش اور دور دراز کی چیزوں پر غورکرنے پر مجبور کرتا ہے اور اسی کی بدولت دنیا میںبہت سی معلومات کا اضافہ ہواہے۔ کولمبس اسی شوقِ تحقیق کو پورا کرنے کے لیے دنیا کو سیر کو نکلا اور اس نے امریکہ کا براعظم دریافت کر لیا۔

کہانی سناتے ہوئے اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ لڑکے اور لڑکیوںکو ذرا مختلف قسم کی کہانی سنائی جائے۔ بہت چھوٹی عمر میں لڑکے اور لڑکیوں کوایک ہی قسم کی کہانی سنا سکتے ہیں لیکن عمر کے ساتھ لڑکے لڑکیوں کی پسند اور دل چسپیوں میں بھی فرق آنا شروع ہو جاتا ہے۔ لڑکیاں جبلی طور پر گڑیاں میں دل چسپی لیتی ہیں اور لڑکے زیادہ تر بہادری کی کہانیوں میں دل چسپی لیتے ہیں۔ رفتہ رفتہ لڑکی زیادہ تر گھریلو زندگی میں دل چسپی لینے لگے گی اور لڑکا زیادہ تر بیرونی زندگی میں دل چسپی لے گا۔

کہانی سنانے کی لیے سب سے بہترین چیز اپنی زندگی یا کسی کی زندگی کے واقعات سنانا ہے۔ اس طرح بچوں سے بچوں کی معلومات بھی بڑھتی ہیں۔ اس بات کا خاص طور سے خیال رکھنا چاہیے کہ خوف دلانے والی کہانیاں بچوں کے لیے مفید نہیں ہوتیں کیوں کہ جسمانی اور دماغی ہر دو لحاظ سے نقصان دہ ہے۔ ماہرین نفسیات نے تجربوں کے ذریعے معلوم کیا ہے کہ خوف خواہ کسی نوعیت کا ہو ہمارے ہاضمے پر بہت برا اثر ڈالتا ہے۔ اس لیے بچوں کو خاص طور پر رات کو سوتے وقت جنوں‘ دیو اور دیگر قسم کی خوف دلنے والی کہانی نہیں سنانی چاہیے کیوں کہ اس طرح انہیں رات ڈرائونے خواب دکھائی دیتے ہیں۔

کہانیوں کے ذریعے ذہنی تربیت:
کہانی سننا اور سنانا نہ صرف ایک دل چسپ شغل ہے بلکہ ذہنی تربیت کا ایک معقول ذریعہ بھی ہے۔ انسانی ذہن کی ساخت کچھ اس طور پر ہوئی ہے کہ پیدائش کے وقت سے ہی بچہ خاص خاص صلاحیتیں لے کر پیدا ہوتا ہے۔ ان قدرتی صلاحیتوں کی نشوونما ہمارے ماحول پر منحصر ہے۔

بچپن کے اوّلین مراحل ہی سے معلوم ہو جاتا ہے کہ کس بچے میں کیا صلاحیت اور اہلیت ہے۔ مثلاً جس بچے کو بڑے ہو کر مصور بننا ہو تو وہ کاغذ یا زمین پر لکیریں کھینچتا رہے گا اور اگر اس سے پوچھا جائے کہ کیا بنا رہے تھے تو وہ اپنی تصویر کو کوئی نہ کوئی نام بھی دے گا مثلاً یہ کہ میں ایک گھوڑے کی تصویر بنا رہا تھا۔ اسی طرح جس بچے میں بڑے ہو کر انجینئر بننے کی قابلیت ہوتی ہے وہ بچپن ہی میں چھوٹی چھوٹی چیزیں چیزیں بنانے میں دل چسپی لیتا ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ ان صلاحیتوں کو بڑھایا کیسے جاسکتا ہے۔ اگر ہم ان پیدائشی صلاحیتوں کو بڑھنے کا موقع نہ دیں تو یہ صلاحیتیں دبی کی دبی رہتی ہیں اور بڑھنے نہیں پاتیں۔

فرض کیجیے کہ ایک بچے کو کہانی لکھنے کا شوق ہے یعنی بچے میں مصنف بننے کی صلاحیت ہے لیکن اس کا ماحول اس قسم کا ہے کہ بچہ اپنے شوق کو پورا نہیں کرسکتا ہوسکتا ہے ایسے حالات میں بچے کو تعلیم ہی نہ ملے یا اسے بالکل معمولی قسم کی تعلیم حاصل ہو تو اس صورت میں وہ ایک کامیاب مصنف نہیں بن سکے گا۔

ہمیں اپنے ذہن میں ایک قسم کا نقشہ بنا لینا چاہیے کہ بچے کی تربیت اس طور پر کرنا ہے اور اسی منصوبے کے تحت بچے کے ماحول کو ڈھالنا چاہیے یا کم از کم ماحول کو بچے کی نشوونما کے لیے موزوں بنانا چاہیے اسی طرح کہانی کے ذریعے انسانی صلاحیتوں کو ترقی دینے کا کام لیا جاسکتا ہے یعنی اگر ہم چاہیں کہ بچہ مخصوص چیز میں دل چسپی لینا شروع کردے تو اس مقصد کو کہانی کی صورت میں پیش کریں۔ بچہ اپنے آپ اس میں دل چسپی لینا شروع کر دے گا۔ مثلاً کہانی کے ذریعے ہم انسانی زندگی کے ہر شعبے کے متعلق واقفیت بہم پہنچا سکتے ہیں یعنی خانگی‘ مذہبی‘ ملکی ہر طرح کی تعلیم کہانی کے ذریعے دی جاسکتی ہے۔ فرخ کر لیجیے کہ ایک بچی کو کھانا پکانے میں دل چسپی ہے یا کسی لڑکے کو تعمیر کا شوق ہے تو آپ اسے اس قسم کی کہانی سنائیں جس میں ان باتوں کا ذکر آئے یا آپ چاہتے ہیں کہ بچہ کوئی خاص کام سیکھے تو اس کام میں دل چسپی پیدا کرنے کے لیے آپ کہانی کو اس طرح پیش کیجیے کہ اس کام کا ذکر نہایت دل نشین طریقے پر کہانی میں آجائے۔بچے کی دل چسپی خود بخود بڑھ جائے گی اور کہانی کے ساتھ ساتھ بچے کے ماحول میں بھی ایسی چیزیں مہیا کیجیے جو اس شوق میں مد دے سکیں۔

بچوںکی واقفیت بڑھانے کے لیے کہانی ایک عمدہ ذریعہ ہے اور کہانیوں کے ذریعے بچوں کو ایجادات و معلومات کے متعلق بہت کچھ بتایا جاسکتا ہے۔ تصور کو بڑھانے کا ذریعہ کہانی سننا ہے۔ مصوری‘ موسیقی وغیرہ فنون لطیفہ میں خاص طو پر تصور کو بہت بڑا دخل ہے۔ جن بچوں میں قوت تخیل زیادہ پائی جائے وہ نہایت کامیاب مصور‘ موسیقار یا شاعر اور مصنف بن سکتے ہیں۔ کہانی سے ہم تفریح اور اصلاح دونوں کام لے سکتے ہیں۔ عام طور پر بچے اسکول جانے سے گھبراتے ہیں اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اسکول میں اساتذہ کا تعلیم دینے کا طریقہ کچھ اس طرح کا ہوتا ہے کہ وہ چھوٹے چھوٹے دماغوں کے لیے کوئی دل چسپی نہیں رکھتا۔ اس پر اسکول کے مضمون بھی نہایت خشک قسم کے ہوتے ہیں لیکن اگر یہی سبق کہانی کی صورت میں بچے کے سامنے پیش کیے جائیں تو بچہ ان میں زیادہ دل چسپی لے گا اور اس کی توجہ خود بخود سبق کی طرف مبذول ہو جائے گی۔ کہانی کی یہ خاصیت ہوتی ہے وہ ایک ٹھوس حقیقت کو نہایت دل چسپ صورت میں پیش کرتی ہے اور اس بچے کے لیے تفریح کا سامان مہیا ہو جاتا ہے۔

کہانی کے ذریعے بچوں کو اخلاقی تربیت دینے کے لیے نتیجہ خیز کہانیاں دل چسپ پیرائے میں بیان کی جاتی ہیں تاکہ بچہ تفریح کے ساتھ ساتھ ان سے سبق بھی سیکھے اور اس کے عادات و اخلاق کی اصلاح بھی ہو جائے۔ میرے خیال میں اخلاقی اصلاح کے لیے کہانی ایک نہایت موزوں ذریعہ ہے خاص طور پر پریوں کی کہانی کے ذریعے ہم نیکی‘ سچائی‘ سخاوت وغیرہ اوصاف بچوں میں پیدا کر سکتے ہیں۔ پریوں کی کہانی کے ذریعے اخلاقی سبق دینے کی ایک مشہور مثال وہ کہانی ہے جس میں ایک رحم دل اور نیک دل لرکی کے منہ سے بات کرتے وقت پھول جھڑتے تھے لیکن اس کی سوتیلی بہن جو بہت بدمزاج اور بے رحم تھی‘ اس کے منہ سے بات کرتے وقت کیڑے مکوڑے نکلتے تھے بچپن میں تقریباً ہر بچہ یہ کہانی سنتا ہے بڑے ہو کر اسے یہ سوچنے کا موقع ملتا ہے کہ کہانی میں سچائی اور حقیقت کو بہت اچھے پیرائے میں بیان کیا گیا ہے اسی لیے کہتے ہیں کہ دل کی بات منہ نکل ہی جاتی ہے۔ یعنی اس کہانی کے ذریعے معلوم ہوتا ہے کہ اگر انسان کے دل میں اچھائی ہو تو اس کی ظاہری باتوں سے بھی اچھائی ظاہر ہوتی ہے اور اگر باطن میں برائی ہو تو گفتگو سے بھی برائی کا پتا چل ہی جاتا ہے۔ چنانچہ کہانی کے ذریعے ہم بچوں کے سامنے حقیقت کو پیش کرتے ہیں اور بڑا ہو کر بچہ اس حقیقت کو جان جاتا ہے۔ تمثیلی کہانیوں کی بہترین مثال انجیل مقدس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تمثیلیں ہیں چنانچہ کہانیوں اور تمثیلوں سے اچھے اخلاق کی تعلیم دینے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اوّلیت حاصل ہے۔ ان کی تمثیلوں کا پیرایہ اتنا دل نشین ہے کہ سننے والا فوراً مقصد کو پا لیتا ہے۔