سہیل وڑائچ کی کہانی تقریب پذیرائی کی روداد

206

سہیل وڑائچ تم قبیلہ سے تعلق رکھنے والے قد آور صحافی اینکر منصف مزاح و تجزیہ کار اور ایک انسان دوست شخصیت ہیں۔ ان کا شمار صحافت سے وابستہ ایسے احباب میں ہوتا ہے جن کی حب الوطنی پر کوئی سوال اٹھا نہیں سکتی، جہاں تک راقم کو علم ہے دو صحافت کی دنیا میں دائیں یا بائیں کے کسی گروہ سے وابستہ نہیں ہیں، ایسے ہی دیگر اوصاف، جن میں اعلیٰ ظرفی سر فہرست ہے جس کی بنا پر جناب سہیل وڑائچ کا نام زبان زد عام ہے۔ وہ اپنی تحریروں اور مخصوص انداز میں آن ائر کفتگو کے اعتبار سے اپنی خاص پہچان رکھتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ صحافت کے میدان میں جہد مسلسل سے کامیابیاں سمیٹتے ہوئے سالہا سال سے شہرت کے ساتویں آسمان پر ہیں مگر ان کی عاجزی اور انکساری کا یہ عالم ہے کہ ان کے پائؤں ہمیشہ زمین سے پیوست رہے ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ خود کو حسد، بغض، تکبر اور جھوٹی آنا جیسی آلائشوں سے محفوظ رکھا ہے۔

یہ محض اتفاق ہے کہ بہت سی ادبی، سیاسی، سماجی اور صحافتی تقریبات، جن میں جناب سہیل وڑائچ شامل تھے ان سے کبھی آمنا سامنا نہیں ہو تا ہم یہ ضرور ہے کہ مختلف نیوز چینلوں پر دوران گفتگو ان کے خیالات سے استفادے کا موقع ملتا رہتا ہے یوں وہ دیگر کی طرح راقم کے بھی فیملی ممبر ہیں۔ حال ہی میں ان کی شخصیت اور خدمات کا احاطہ کرتی ایک کتاب بعنوان “سہیل وڑائچ کی کہانی‘‘ منظر عام پر آئی ہے۔ یہ کتاب پیر محمد ضیا الحق نقش بندی نے مرتب اور وطن عزیز کے مستند اشاعتی ادارہ ضیا القرآن نے شائع کی ہے۔ چند روز قبل سہیل وڑائچ کی کہانی کی تقریب رونمائی ایک مقامی ہوٹل میں ہوئی جس میں سیاسی، سماجی اور صحافت کے شعبہ سے وابستہ احباب نے بھرپور شرکت کی۔ تقریب کے مہمانان خصوصی جناب چوہدری اور نگزیب احاجی اخلاق احمد اور سردار اسلم ورائچ تھے۔

تقریب میں جناب سہیل وڑائی کی شخصیت اور خدمات کے حوالے سے اظہار خیال کرنے والوں میں محترم اعتزاز احسن، جناب حامد خان، فردوس عاشق اعوان، ارشاد احمد عارف، سجاد میر ، سلمان غنی، ڈاکٹر سلیم مظہر، حبیب اکرم، حافظ محمد نعمان ، محترمہ شازیہ ذیشان اور سعدیہ قریشی شامل تھیں۔ مقررین نے کہا کہ سہیل وڑائچ کئی دھائیوں سے روز نامہ جنگ اور جیو نیوز میں سے وابستہ چلے آرہے ہیں۔ اس دوران انہیں اکثر مختلف نوعیت کے مسائل با مشکلات اور تنقید برائے تنقید کا سا منا کر نا پڑا مگر ان کے کلمہ حق کہتے ہیں کبھی فرق نہیں پڑا۔ ان کی حق وئی اور بے باکی ہیں ان کے قارئین و ناظرین میں ان کی مقبولیت کا باعث بنتی گئی۔ کیل وزاری کی کہانی میں ان حالات و واقعات کی جھلکیاں موجود ہیں، جن کا انہیں سامتار ہا کو پاکستان کی سیاست کی طرح شعبہ صحافت کا بادا آدم بھی نرالہ ہے مگر سبیل وزارت نے اچھے برے وقت میں اپنی ساکھ کو نقصان نہیں پہنچے دیا۔ ہمیشہ حالات کا مقابلہ ڈٹ کر کیا اور اپنا حق پر مبنی موقف کھل کر بیان کیا کبھی کسی سے خائف ہوئے ، نہ آپے سے باہر ہوئے۔ ان کے ملکی ساتھی بخوبی جانتے ہیں کہ نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو ان کی خاص پہچان ہے۔ سہیل وڑائچ نے ماضی اور حال میں جتنے بے لاگ تبصرے اور تجزیے کیے وہ جلد یا بدیر درست ثابت ہوئے مگر اس پر وہ کبھی اترائے نہیں اور نہ انہوں نے اپنے کسی کالم یا گفتگو میں کبھی کسی کو نیچا دکھانے کی منفی روش اختیار کی۔

جناب ارشاد احمد عارف نے کیا کہ کمیل وزارت کی پالیسی ہمیشہ متوازن رہی۔ فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ کمیل وزار کا شہر ذہین و فطین اور با خبر صحافیوںمیں ہوتا ہے۔ بقول جناب مجیب الرحمنٰ شامی سہیل وڑائچ کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ حکومت کے ایوانوں میں غریب عوام کی نمائندگی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ پیر محمد ضیا الحق نقش بندی نے سہیل وڑائچ کی کہانی مرتب کر کے جہاں شہرت کی بلندیوں کو چھو لیا ہے وہاں جناب سہیل وڑائچ کے بارے میں کچھ نہ کچھ جاننے کے لیے مستند معلومات فراہم کر دی ہیں جو قارئین کے لیے جناب سہیل وڑائچ کی زندگی کے مختلف گوشوں اور ان کی خدمات پر روشنی ڈالتی ہیں۔ دلچسپی رکھنے والے حضرات مختلف زاویوں سے سہیل وڑائچ کی کہانی سے بھر پور استفادہ کر سکتے ہیں۔

حصہ