بزمِ نگارِ ادب کے زیر اہتمام مشاعرہ

301

بزمِ نگارِ ادب کے زیر اہتمام معروف شاعر اسلم راہی کے اعزاز میں مشاعرہ ترتیب دیا گیا جس میں جاوید صبا نے صدارت کی۔ اختر سعیدی اور دل شاد خیال ایڈووکیٹ مہمانانِ خصوصی تھے۔ ڈاکٹر نثار‘ عظمیٰ جون اور دلاور علی آذر مہمانانِ اعزازی تھے جب کہ شائق شہاب نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ تاج علی رانا نے تلاوتِ کلام مجید کی سعادت حاصل کی اور نعت رسولؐ پیش کی۔ تنظیم کے رواح رواں سخاوت علی نادر نے کہا کہ ہم پرورش لوح و قلم کرنے والوں میں شامل ہیں‘ ہم طویل عرصے سے دبستانِ کراچی میں ادبی پروگرام آرگنائز کر رہے ہیں‘ ہم سمجھتے ہیں کہ مشاعروں سے بھی ادب و زبان کی ترویج و اشاعت ممکن ہے۔ شاعری سے ذہنی سکون میسر آتا ہے۔ اسلم راہی نے کہا کہ وہ اسلام آباد میں مقیم ہیں لیکن کراچی میں بھی انہوں نے طویل مدت گزاری ہے۔ کراچی میں جو شاعری ہو رہی ہے اس میں زندگی رواں دواں ہے لیکن ہر شاعر اپنے ماحول کو نظم کرتا ہے پاکستان سے باہر رہنے والے اپنے معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں تاہم شاعری میں ترقی ہو رہی ہے نوجوان نسل بھی اس طرف راغب رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک زمانے میں ٹی وی اور ریڈیو پر اردو کے تلفظ کا بہت خیال رکھا جاتا تھا آج کل یہ صورتِ حال نہیں ہے لہٰذا ہم لغت سے رجوع کرسکتے ہیں اپنے بچوں کو اردو ضرور سکھائیں ورنہ اردو کا نقصان ہوگا۔ جاوید صبا نے صدارتی خطبے میں کہا کہ آج کی نشست میں ہر شاعر نے بہت عمدہ کلام پیش کیا سخاوت علی نادر بڑی محنت سے اور لگن سے ادبی پروگرام مرتب کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ شاعر کا فرض ہے کہ وہ انتہائی سچائی کے ساتھ اپنے معاشرے کی اچھائیاں اور برائیاں لکھے‘ وہ ظلم و تشدد کے خلاف آواز بلند کرے کہ یہ شاعری کا غیر تحریر شدہ نصاب ہے معاشرے کی فلاح و بہبود میں ہر شاعر حصہ دار ہے‘ اپنے فرائض ایمان داری سے انجام دینے ہوںگے تاکہ ہمارا ملک ترقی کرسکے۔ عزمی جون نے کہا کہ وہ جب بھی سبی سے کراچی آتے ہیں تو یہاں کی ادبی محفلوں میں شریک ہوتے ہیں۔ بلاشبہ کراچی محبتوں کا شہر ہے یہاں کے لوگ بہت ملن سار ہیں‘ یہاں پر بہت عمدہ شاعری ہو رہی ہے۔ مشاعرے میں جاوید صبا‘ اسلم راہی‘ اختر سعیدی‘ دلشاد خیال ایڈووکیٹ‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ عظمیٰ جون‘ دلاور علی آذر‘ یوسف چشتی‘ سخاوت علی نادر‘ امیت کمار‘ جاوید اقبال ایڈووکیٹ‘ سلطان عزمی‘ شائق شہاب اور تاج علی رانا نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔

بزمِ یارانِ سخن کراچی کا مشاعرہ

بزمِ یارانِ سخن کراچی کے تحت گزشتہ ہفتے پی ایم اے ہائوس صدر ٹائون کراچی میں ایک مشاعرہ ہوا جس کی صدارت اکرم کنجاہی نے کی۔ افتخار ملک ایڈووکیٹ اور عابد شیروانی مہمانان خصوصی تھے۔ اختر سعیدی اور احسن فرید پراچہ نے بہ حیثیت مہمانانِ اعزازی اس تقریب میں شرکت کی۔ حنیف عابد نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ صفدر علی انشاء نے تلاوتِ کلام مجید کی سعادت حاصل کی جب کہ تاج علی رانا نے نعت رسولؐ پیش کی۔ سلمان صدیقی نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں مشاعرے بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ہر زمانے میں دبستان کراچی ادبی سرگرمیوں کا محور ہوتا ہے تاہم اس وقت کراچی میں ادبی پروگرام بہت زیادہ ہو رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جو تنظیمیں ادبی پروگرام منعقد کرتی ہیں وہ قابل ستائش ہیں حکومتی سطح پر قلم کاروں کی حوصلہ افزائی کا سلسلہ قابلِ توجہ ہے۔ قلم کاروں کے مسائل حل کیے جائیں۔ اکرم کنجاہی نے صدارتی خطاب میں کہا کہ شاعری سے قوموں میں انقلاب لایا جاسکتا ہے ہر شاعر اپنے دور کا نباض ہوتا ہے وہ زندگی کے تمام مسائل پر گہری نظر رکھتا ہے‘ وہ زندگی کے تمام روّیوں پر قلم اٹھاتا ہے اور صحیح صورت حال واضح کرتا ہے۔ شاعری تو ہماری زندگی کی روح ہے۔ فنون لطیفہ کے تمام شعبوں میں شاعری سب سے زیادہ طاقتور ہے۔ شاعری کا اثر دیرپا ہوتا ہے۔ آج کے زمانے میں غزلوں میں جدید لب و لہجہ‘ جدید استعارے اور ماڈرن لفظیات استعمال ہوتے ہیں۔ غزل کے روایتی مضامین اب بہت کم نظر آتے ہیں۔ افتخار ملک ایڈووکیٹ نے کہا کہ غزل ایک ایسی صنف سخن ہے جو تمام تر مخالفت کے باوجود آج بھی زندہ ہے اور ترقی کی منزلیں طے کر رہی ہے لیکن نظم کی شاعری بڑی شاعری کہلاتی ہے۔ نظم کہنے والا بلند مقام رکھتا ہے۔ غزل کے مقابلے میں نظم کہنا ایک مشکل عمل ہے۔ غزل کا ہر شعر مختصر نظم ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج کے مشاعرے میں بھی تمام شعرا نے غزلیں کہی ہیں اور ہر شاعر نے بہت اچھا کلام پیش کیا ہے۔ بزمِ یارانِ سخن کو یہ کریڈٹ بھی جاتا ہے کہ یہ تنظیم شعرا کو ایک پلیٹ فارم مہیا کر رہی ہے جہاں وہ اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرتے ہیں۔ سرور چوہان نے کہا کہ وہ آج کے مشاعرے میں شریک تمام شعرائے کرام اور سامعین کے ممنون و شکر گزار ہیں کہ جن کی وجہ سے ہمارا مشاعرہ کامیاب ہوا۔ اس مشاعرے میں اکرم کنجاہی‘ افتخار ملک ایڈووکیٹ‘ اختر سعیدی‘ احسن فرید پراچہ‘ محسن اسرار‘ سلمان صدیقی‘ ڈاکٹر نثار‘ مقبول زیدی‘ دل شاد خیال ایڈووکیٹ‘ مرزا عاصی اختر‘ حنیف عابد‘ شائستہ سحر‘ تحسین احمد صدیقی‘ تاج علی رانا‘ عاشق شوکی‘ علی کوثر‘ کاوش فاطمی‘ کشور عروج‘ سرور چوہان سرور اور ہما ساریہ نے کلام پیش کیے۔

حصہ