مامتا اور جھوٹ

345

پہلا واقعہ
میں اکلوتا بیٹا تھا اور غربت بہت تھی، اتنا کھانا نہیں ہوتا تھا، جو ہم سب کو کافی ہوجائے، ایک دن ہمارے گھر کہیں سے چاول آئے، میں بڑے شوق سے کھانے لگا، میں نے دیکھا کہ اس نے اپنی پلیٹ کے چاول بھی میری تھالی میں ڈال دیے، وہ کہنے لگیں، بیٹا! یہ چاول تم کھالو، مجھے تو بھوک ہی نہیں ہے، یہ اس کا پہلا جھوٹ تھا۔

دوسرا واقعہ
اور جب میں قدرے بڑا ہوا تو ایک دن مچھلی پکڑنے گیا اس چھوٹی سی نہر سے جو ہمارے قصبے سے گزرتی تھی، ہوا یوں کہ دو مچھلیاں میرے ہاتھ لگیں، بھاگم بھاگ گھر آیا اور جب کھانا تیار ہوگیا تو دونوں مچھلیاں سامنے تھیں اور میں شوق سے کھارہا تھا، دیکھا کہ ماں صرف کانٹوں کو چوس رہی تھی، میں نے دیکھ کر کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا تو کہنے لگی تمہیں پتا ہی ہے کہ مجھے مچھلی کا گوشت پسند نہیں، تم تو کھائو اور یہ اس کا دوسرا جھوٹ تھا۔

تیسرا واقعہ
اور پھر میرا باپ مرگیا اور وہ بیوہ ہوگئیں اور ہم دونوں گھر میں اکیلے رہ گئے، کچھ دن میرا چچا جو بہت اچھا آدمی تھا، ہمیں کھانا اور ضروریات زندگی لاکر دیتا رہا، ہمارے ہمسائے اسے آتے جاتے غور سے دیکھنے لگے ایک دن انہوں نے ماں سے کہا ’’زندگی ہمیشہ اس طور پر گزاری نہیں جاسکتی، بہتر ہے کہ تم اس آدمی سے شادی کرلو‘‘۔ لیکن میری ماں نے چچا کو ہی آنے جانے سے منع کردیا، مجھے کسی ساتھی کی اور کسی کی محبت کی کوئی ضرورت نہیں ہے، یہ اس کا تیسرا جھوٹ تھا۔

چوتھا واقعہ
اور جب میں کچھ اور بڑا ہوا اور بڑے مدرسے جانے لگا، تو میری ماں گھر میں ہر وقت کپڑے سینے لگی اور یہ کپڑے وہ گھر گھر جاکر بیچتی تھی، سردیوں کی ایک رات تھی اور ماں ابھی تک گھر واپس نہیں آئی تھی، میں تنگ آکر اسے ڈھونڈنے باہر نکل پڑا، میں نے اسے کپڑے کا ایک گٹھڑا اٹھائے دیکھا، گلیوں میں گھر گھر دروازے کھٹکھٹارہی تھی، میں نے کہا ماں! اب گھر چلو، باقی کام کل کرلینا، کہنے لگی تم تو گھر جائو، دیکھو کتنی سردی ہے اور بارش بھی ہورہی ہے میں یہ دو جوڑے بیچ کر ہی آئوں گی اور فکر نہ کرو میں بالکل ٹھیک ہوں اور تھکاوٹ بھی نہیں ہے، یہ اس کا چوتھا جھوٹ تھا۔

پانچواں واقعہ
اور پھر میرا مدرسہ میں آخری دن بھی آگیا، آخری امتحانات تھے، ماں میرے ساتھ مدرسہ گئی، میں اندر کمرہ امتحان میں تھا اور وہ باہر دھوپ میں کھڑی تھی، بہت دیر بعد میں باہر نکلا، میں بہت خوش تھا، ماں نے وہیں سے ایک مشروب کی بوتل خریدی اور میں غٹاغٹ پی گیا، ماں نے شکرگزار نظروں سے دیکھا اس کے ماتھے پر پسینے کی دھاریں چل رہی تھیں، میں نے بوتل اس کی طرف بڑھادی، پیوناں ماں! لیکن اس نے کہا تم پیو مجھے تو بالکل پیاس نہیں ہے، یہ اس کا پانچواں جھوٹ تھا۔

چھٹا واقعہ
اور جب میں یونیورسٹی سے فارغ ہوگیا تو ایک نوکری مل گئی، میں نے سوچا کہ اب یہ مناسب وقت ہے کہ ماں کو کچھ آرام دیا جائے، اب اس کی صحت پہلے جیسی نہیں تھی، اس لیے وہ گھر گھر پھر کر کپڑے نہیں بیچتی تھی بلکہ بازار میں ہی زمین پر دری بچھا کر کچھ سبزیاں وغیرہ فروخت کرآتی تھی، جب میں نے اپنی تنخواہ میں سے کچھ حصہ اسے دینا چاہا تو اس نے نرمی سے مجھے منع کردیا، بیٹا! ابھی تمہاری تنخواہ تھوڑی ہے، اسے اپنے پاس ہی رکھو، جمع کرو، میرا تو گزارا چل ہی رہا ہے، اتنا کمالیتی ہوں جو مجھے کافی ہوجائے اور یہ اس کا چھٹا جھوٹ تھا۔

ساتواں واقعہ
اور جب میں کام کے ساتھ ساتھ مزید پڑھنے لگا اور مزید ڈگریاں لینے لگا تو میری ترقی بھی ہوگئی، میں جس جرمن کمپنی میں تھا، انہوں نے مجھے اپنے ہیڈ آفس جرمنی میں بلالیا اور میری ایک نئی زندگی کی ابتدا ہوئی، میں نے ماں کو فون کیا اور اس سے وہاں میرے پاس آنے کو کہا لیکن اسے پسند نہ آیا کہ مجھ پر بوجھ بنے، کہنے لگی کہ تمہیں تو پتا ہے کہ میں اس طرز زندگی کی عادی نہیں ہوں، میں یہاں پر ہی خوش ہوں اور یہ اس کا ساتواں جھوٹ تھا۔

آٹھواں اور آخری واقعہ
اور پھر وہ بہت بوڑھی ہوگئی، ایک دن مجھے پتا چلا کہ اس کو جان لیوا سرطان ہوگیا ہے، مجھے اس کے پاس ہونا چاہیے تھا، لیکن ہمارے درمیان مسافتیں حائل تھیں، پھر جب اسے ہسپتال پہنچادیا گیا تو مجھ سے رہا نہ گیا، میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اس کے پاس وطن واپس آگیا، وہ بستر پر تھی، مجھے دیکھ کر اس کے ہونٹوں پر ایک مسکان آگئی، مجھے اسے دیکھ کر ایک دھچکا سا لگا اور دل جلنے لگا، بہت کمزور، بہت بیمار لگ رہی تھی، یہ وہ نہیں تھی جس کو میں جانتا تھا، میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے لیکن ماں نے ٹھیک سے مجھے رونے بھی نہیں دیا، میری خاطر پھر مسکرانے لگی، ناں رو میرے بیٹے! مجھے بالکل کوئی درد نہیں محسوس ہورہا اور یہ اس کا آٹھواں جھوٹ تھا، اس کے بعد اس نے آنکھیں موند لیں اور اس کے بعد آنکھیں کبھی نہ کھولیں۔

حصہ