سیاسی نقب زنوں کا طریقہ واردات

353

روئے زمین پر جب سے انسانوں نے شیطان کی شاگردی اختیار کی اسی وقت سے اس کے اندر ہوس زر، ہوس زن اور ہوس منصب کا زہر بھرتا گیا اور یہ اپنے جیسے جنس کے لیے باعث ہلاکت بن چکا ہے۔

ہوس زر کو پورا کرنے کے لیے یہ پہلے پہل چوریاں کرنا سیکھا اور ترقی کرتے کرتے اب یہ طاقت اور ہنر مندی کے ساتھ بینک ، لوگوں کے گھروں کو لوٹنا، بازاروں میں ڈاکے ڈالنے لگا۔ اس طرح کی وارداتوں کے بعد یہ ایک مجرم اور ناپسندیدہ اور قابل سزا ٹھہرا اور کبھی کبھی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ چوں کہ اب دنیا بہت ترقی کر چکی ہے لہٰذا اس نے نہایت ہی مکاری اور ہوشیاری اپناتے ہوئے اپنی شخصیت کو تبدیل کیا اور سیاسی لیڈر بن کر لوگوں اور ملکی خزانے میں نقب لگانے کا فیصلہ کیا۔

ان نقب زنوں کے گینگ میں عادی مجرمان، بلیک میلر، اسمگلرز، ہر طرح کے مافیا کے لوگ، انگریزوں کے پروردہ خانوادوں کی اولادیں جو اب جاگیر دار، وڈیرے، سرداروں کا بے رحم ٹولہ بن چکے ہیں ہے، خانوں اور ملکوں کا گھرانہ، برزور سرمایہ دار اور طاقتور لینڈ مافیا کا گینگ ، ریٹائرڈ بیوروکریٹ ، ضمیر فروش جج کی ایک مشترکہ سیاسی جماعت وجود میں آ چکی ہے جو گزشتہ 76 سال سے اس ملک پر قابض ہیں۔ ان کی سرپرستی اس لیے پنڈی کے پنڈت کرتے ہیں کہ انہیں کی اولادیں طاقت کے تمام ذرائع کے مالک ہیں۔ پولیس کا آئی جی۔ضلع کا ڈی سی، ایف آئی اے کا سربراہ، محکمہ انسداد تجاوزات یا دہشت گردی ہر جگہ اپنے کارندوں کو بیٹھا رکھا ہے۔ تمام وزارتوں کے سیکرٹریوں کی ایک بڑی کھیپ ان کے ہاتھوں کی چھڑی اور جیب کی گھڑی کی حیثیت رکھتی ہے۔ کچے کا ڈاکو سندھی سیاست دانوں کی نیم عسکری فوج ہے جس کے ذریعے یہ تمام مخالفین کا ناطقہ بند کر کے رکھتے ہیں۔

مذکورہ گینگ کے سرغنہ اور نقب زن کروڑوں کی سرمایہ کاری کر کے پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ حکومت سازی میں اپنی بولیاں لگواتے ہیں اور بھیڑ بکریوں کی طرح خود کو بیچ دیتے ہیں پھر ان کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں پاکستان کی لوٹا کریسی تو مشہور ہے۔ یا تو کسی وزارت یا مشاورت کا حصہ بن جاتے ہیں یا پھر اپنی پارلیمانی حیثیت کے ذریعے ملک کے وسائل کے لوٹ مار کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ پہلے ٹھگ قافلے میں شامل ہوکر قافلے والوں کو سوتے میں ہلاک کرکے بے رحمی سے لوٹ لیا کرتے تھے۔ یہ سیاسی نقب زن قافلے کا سالار اور رہنما بن کر لوٹ رہے ہیں۔ ان کے راستے میں کسی قانون کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یہ خود قانون بناتے ہیں اور خود ہی توڑتے ہیں۔ قانون کا ڈنڈہ اور تعزیر کا قلم ہر وقت ان کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔

ظلم پروردہ تادیب کے ایوانوں میں
بیڑیاں تکتی ہیں زنجیر صدا دیتی ہے
طاق تادیب سے انصاف کے بت گھورتے ہیں
مسند عدل سے شمشیر صدا دیتی ہے
مگر اے عظمت انساں کے سنہرے خوابوں
میں کسی تاج کے سطوت کا پرستار نہیں
میں تمہارا ہوں کسی لٹیرے کا طرف دار نہیں

یہ نقب زن عوام کے تمام شعبوں اور زندگی کے تمام ضروریات فراہم کرنے والے اداروں کے ذمہ داروں سے مل کر اپنا حصہ مقرر کرتے ہیں۔ یہ تعلیم پر خرچ کرنے کے بجائے تعلیم کے لیے مختص بجٹ کا آدھا حصہ کھا جاتے ہیں۔ یہ غریبوں کے اقرا ٹیکس کا پیسہ ہضم کرتے ہیں اور اپنی اولاد کو یورپ اور امریکہ کے بہترین اور مہنگے تعلیمی اداروں میں تعلیم دلواتے ہیں۔ یہ صحت کے مختص بجٹ کو کھا کر غریبوں کے لیے نہ مفت اسپتالوں کی سہولیات فراہم کرتے ہیں بلکہ دوا ساز کمپنیوں سے مل کر غیر میعاری ادویات مہنگے داموں بچواتے ہیں۔ حتیٰ کہ جعلی ادویات کی بھرمار موجود ہے۔ بیمار اگر اچھا ہو جائے تو تیماردار قرضوں کے بوجھ تلے دب کر بیمار ہو جاتے ہیں۔ خود برطانیہ، فرانس کے منرل واٹر پیتے ہیں مگر عوام کو صاف پانی بھی میسر نہیں۔ پانی، بجلی گیس، اجناس، ہر چیز کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے نے عام تو عام متوسط طبقے کی عوام کا گزارہ مشکل بنا دیا ہے۔ مگر گزشتہ 50 سال سے روٹی‘ کپڑا اور مکان کا پُرفریب نعرہ لگایا جا رہا ہے۔

تمام تر قیاتی ٹھیکوں میں ان کا حصہ ہوتا ہے۔ بھاری رشوت کے بدلے یہ امپورٹ ایکسپورٹ کے لائسنس جاری کرتے ہیں مگر اپنے اقربا اور حصہ دار ایجنٹوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ پیٹرولیم اور سی این جی گیس کے لائسنس کروڑوں روپے کے عوض جاری کرتے ہیں۔ لینڈ مافیا کے ساتھ مل کر سرکاری زمینوں اور دیہات کی زمینوں پر قبضہ کرکے بڑے بڑے ہائوسنگ پراجیکٹ بنا کر اربوں کی کمائی۔ منی لانڈرنگ کے ذریعے ملک کا سرمایہ باہر بھیجنا اور ملکی معیشت کو نقصانات سے دوچار کرنا معمول ہے۔ جب کوئی ایمان دار افسر ان پر ہاتھ ڈالتا ہے تو پر اسرار طریقے سے اس کو راستے سے ہٹا دیتے ہیں۔

1984 کے بعد کراچی میں محرومیوں کے نام پر پنڈی کے پنڈتوں کے آ شرواد سے قائم ہونے والی لسانی عفریت جس نے پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں بھرپور نمائندگی حاصل کرنے کے بعد کیا کچھ نہیں کیا۔ دیکھتے دیکھتے اس شہر کی ہر گلی موت نگر میں تبدیل ہو گئی اور گزشتہ 30 سال میں اس شہر کے تیس‘ پینتیس ہزار نوجوان بوریوں میں بند کر دیے گئے اور یہ سیاسی نقب زن غریب اور متوسط طبقے سے آنے والے مجرموں کا جتھا اربوں اور کھربوں میں کھیل رہے ہیں۔

انتخابات آتے ہی پارٹی اور وفاداریاں بدلنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے مگر یہ نقب زن جس پارٹی میں شامل ہوتے ہیں اپنی کامیابی کا جھنڈا لہرانے لگتے ہیں۔ یہ سمندری بلا ہشت پا کی طرح ہیں ان سے شکار کبھی بچ کر جا نہیں سکتا۔ 76 سال سے یہی رونا ہے۔ فوجی مقتدرہ تو اس ملک میں مارشل لا کے ذریعے 36 سال براہ راست حکرانی کرتے ہوئے کشمیر، مشرقی پاکستان، کارگل اور سیاچن کے بڑے حصے کو گنوا چکے ہیں اور اس کے بعد ان کے مسلط کردہ سیاسی نقب زنوں نے بچے کھچے پاکستان کو اتنا کنگال کر دیا کہ ہماری کئی نسلیں I.M.F اور دیگر مالیاتی اداروں کا قرض ادا کرتے کرتے دنیا سے رخصت ہو جائیں گی۔ عملاً ملک کو یہ بیچ کر کھا چکے ہیں۔ گِدھوں کی طرح بقیہ حصے نوچ رہے ہیں۔ ملک میں جمہوریت کی ڈگڈگی بجا کر عوام کو بندر کا ناچ دکھانے والے کی طرح اپنا معاوضہ وصول کرتے ہیں۔ رہا عوامی شمولیت کا تو اس ملک کی اکثریتی آبادی انتخابات سے لا تعلق رہتی ہے۔ کبھی بھی چالیس‘ پینتالیس فیصد سے ووٹ زیادہ نہیں پڑا ہے اور یہ تعداد بھی حقیقی نہیں اس میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوتی ہے۔ الیکشن کمیشن ایک معذور اور ناکارہ ادارہ ہے جس کے ذمے داروں میں اکثریت ان سیاسی نقب زنوں کے کارندے ہیں۔

اسمگلنگ کا پورا نیٹ ورک کسٹم حکام، نیم عسکری کوسٹ گارڈز اور سرحدی محافظوں کی ملی بھگت سے وزارت داخلہ کے ذمے داروں اور اس شعبے کے وزیر کے حصہ داری سے جاری رہتا ہے۔ جس کا اعتراف موجودہ سالار فوج نے بھی کیا۔ شپنگ کا وزیر جو اپنی جوانی ایک ہوٹل میں ویٹر سپروائزر کے طور پر گزارا جب سیاسی نقب زنوں میں شامل ہوا تو آج امریکہ اور دبئی میں کروڑوں کی جائداد کا مالک ہے اور کراچی کا ایک بڑا بلڈر بن گیا۔ کلیئرنگ فارورڈنگ نے تو ایجنٹوں کو ارب پتی بنا دیا ہے پھر اس کے وزیر کا تو کیا کہنا۔ ایک بہت بڑی نقب زنی بجلی کے ادارے کے ساتھ مل کر 25 کروڑ عوام کو لوٹنا ہے۔ یہ ایک ناگزیر ضروریات زندگی کا شعبہ ہے تمام بجلی کمپنیاں نجی شعبے کے حوالے ہیں یہ سب کے سب سرکاری لٹیرے بن کر آئے دن بجلی کی قیمتوں میں من مانی اضافے کے ذریعے عوام کو لوٹ رہے ہیں، حکمراں اور حزبِ اختلاف کی تمام پارٹیاں اس لوٹ کھسوٹ میں حصہ دار بن چکی ہیں سوائے دو ایک کے۔ لائسنس یافتہ ڈکیتوں کا ٹولہ پورے ملک کو لوٹ رہا ہے۔ جج، فوجی اہلکاروں، بیوروکریٹ اور دیگر سیاسی لیڈروں کی بجلی فری ہے۔ بجلی والے جتنی بجلی فراہم کرتے ہیں اس سے دگنا بجلی کے پیسے صارفین سے وصول کرتے ہیں۔

مگر جو بات قابل ذکر ہے کہ عوام کا بڑا طبقہ جن کی تعداد لاکھوں میں ہے اور و دین کے مبلغین میں شامل ہے انتخابات میں ووٹر کی حیثیت سے حصہ لینا اپنے لیے شجر ممنوع بنا لیا ہے جس سے ان سیاسی نقب زنوں کا کام آسان ہو جاتا ہے کہ چلو کروڑوں لوگ نے میدان چھوڑ کر واک آؤٹ کر لیا ہے۔

جو دینی جماعتیں انتخابات میں حصہ لیتی ہیں وہ اپنے اپنے مسلکی حلقوں میں محدود نمائندگی رکھتی ہیں اور اس پر طرفہ تماشا یہ کہ مقتدرہ کے قبضہ گروپ نے ان کو باہم متشدد کرکے معذور کر دیا ہے۔ جو دو چار نشستیں حاصل ہوتی ہیں اس کے ذریعے یہ اپنے مساجد اور مدارس کے لیے ان سیاسی نقب زنوں سے مالی امداد لیتے ہیں اور اسلام مخالف قانون سازی میں پارلیمنٹ اسمبلی اور سینیٹ میں اپنی حمایت فراہم کرتے ہیں۔ کیوں کہ ان کا سارا نظام معیشت ، عوام کے چندے ، فطرے ، زکوٰۃ اور صدقات سے منسلک ہے۔ ورنہ مدارس اور مساجد میں معمورین کی تنخواہیں بھی نہ ملیں۔

اس ملک میں چند ایک مگر منظم اسلامی انقلاب کی داعی جماعتیں بھی موجود ہیں یا تو یہ موجودہ سڑے گلے انتخابی سسٹم کے ذریعے اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے برساہا برس سے بھرپور کوششیں کر رہی ہیں یا کچھ نظام خلافت کے لیے عوام کی ذہن سازی میں لگی ہوئی ہیں۔ مگر ان کا معاملہ یہ ہے کہ:

احساس کے پیروں میں شکستوں کے کڑے ہیں
یہ وقت کے دوراہے پہ چپ چاپ کھڑے ہیں
منزل کا پتہ پوچھنے آتے ہیں مسافر
یہ سنگ ہدایت ہیں مدت سے گڑے ہیں

ان کی ناکامی کا رد عمل یہ ہوا کہ افغانستان اور دیگر مسلم علاقوں میں امریکی اور روسی طاغوتی طاقتوں کے خلاف جاری جہادی کامیابی سے متاثر ہوکر یہاں کے جذباتی نوجوانوں نے اس جمے جمائے پلید سیاسی نظام اور ان سیاسی نقب زنوں کے خلاف by bullets تبدیلی لانے کے لیے ہلاکت خیز ناکام راستے کے مسافر بن کر زندانوں اور عقوبت خانوں میں زندگی ہار رہے ہیں۔ جو کسی ملک کی سالمیت کے لیے زہر قاتل ہے۔ حالانکہ جب اس ملک کا آئین اسلامی ہے تو یہ سیاسی بازی گر اور نقب زن اس کو نافذ کر دیتے تو یہ ملک آج دنیا بھر میں اپنا مقام حاصل کر لیتا مگر ان کا منشور تو صرف اور صرف لوٹنا ہے اور اپنی زندگی کے آخری ایام کو یورپ اور امریکہ میں گذارنا ہے۔ آخر میں اپنے ناظرین سے یہی کہوںگا کہ

اے اہل وطن سوچو تو ذرا یہ کیسا عالم طاری ہے
کب رات ڈھلی کب صبح ہوئی یہ خواب ہے یا بیداری ہے
اس گلشن کی بربادی میں کچھ برق و خزاں کا ہاتھ نہیں
تم جس کو سمجھتے ہو مالی یہ پھولوں کا بیوپاری ہے
کیا ملیے ایسے لوگوں سے جن کی فطرت چھپی رہے
نقلی چہرہ سامنے آئے اصلی صورت چھپی رہے
خود سے جو خود کو چھپائیں کیا ان کا سمان کریں
کیا ان کے دامن سے لپٹیں کیا ان کا ارمان کریں

حصہ