سورج نے ڈوبنے سے چند لمحے پیشتر کائنات پہ نگاہ ڈالی… اور
سوال کیا…
ہے کوئی ایسا جو میرے بعد میری جگہ لے سکے؟
بوجھل کائنات پر سناٹا چھا گیا!
یکدم مٹی کے کچھ دیوں نے جواب دیا: ہم ضرور کوشش کریں گے… اور بوجھل کائنات اس یقین بھری امید سے مسکرا اٹھی!!
یہ چند سطریں کراچی کی اس چمکیلی صبح کا عنوان ہیں۔ جب ہم ایکسپو سینٹر کراچی میں نیلی روشنیوں سے منور ہال میں پہنچے تو خوشگوار حیرتوں کے در کھلتے چلے گئے۔ تاریکی میں طلوع ہوتے سورج کی مانند امید و یقین کی کیفیات سے گزرتے ہم مسجد اقصیٰ کے درودیوار کو اپنے سامنے دیکھ کر مبہوت رہ گئے… قدم تھے کہ کچھ دیر کے لیے اٹھنے سے انکاری تھے۔ ہال میں داخلے کے لیے ایستادہ دروازہ دراصل مسجد اقصیٰ کا دروازہ تھا۔ اس دروازے سے ہال میں داخل ہونا ہی اس کانفرنس کا پہلا جان دار تاثر تھا۔گویا اس تمثیلی عمل کے ذریعے ہم مسجد اقصیٰ میں داخل ہونے کے خواب کی تعبیر کی خواہش دل میں جگا رہے تھے۔
یہ اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے تحت سجائی گئی دو روزہ انٹرنیشنل یوتھ کانفرنس کی محفل تھی، جس کی نمایاں ترین خصوصیت تھی:
30+ international deligations
اس میں دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کے جانے مانے اسکالرز، نوجوان قیادتوں اور بڑی تعداد میں غیر ملکی مندوبین نے امت کے دردِ مشترک پر بھرپورگفتگو کی۔ فلسطین اور کشمیر میں جاری مظالم اور حریت کی تحریکوں کی تاریخ اور حال پر دو سیشن میں ہماری شرکت رہی۔ ’ہم‘ سے مراد میرے علاوہ جماعت اسلامی حلقۂ خواتین کراچی کی ناظمہ جاوداں فہیم، آمنہ عثمان، فرح عمران، عذرا سلیم، ثمرین احمد اور سمیہ عاصم ہیں۔ یہ خاص طور پر خواتین کے لیے واحد طے شدہ 11 سے 1 بجے کا سیشن تھا،امت کی ماؤں بہنوں کو اس درد سے آشنا کرنے کے لیے بلایا گیا تھا۔
داخلی حصے میں موجود ہال کی دیواروں پر عالمی اسلامی تحریکوں کے ماضی و حال کے متحرک رہنماؤں کی تصاویر کی گیلری تھی اور اس کے سامنے ڈیسک پر ان کی جہدِ مسلسل اور تفصیلی تعارف درج تھے۔ آنے والوں کے قدم ابوعبیدہ کے تعارف و تصویر کے آگے ضرور تا دیر رکے رہتے۔ شاید وہ اس میں امت کا مستقبل کھوج رہے تھے۔ یہ انٹرنیشنل کانفرنس یقیناً دنیا بھر میں جاری اسلامی تحریکوں کی نمائندگی کررہی تھی۔ طویل اسٹیج پر لگی وسیع وعریض ایس ایم ڈی پر چلنے والی کشمیر و فلسطین کی متحرک ویڈیوز اور ان سے ہم آہنگ اسٹیج پر ہونے والے ٹیبلو ہمیں زمان و مکاں کی قید سے آزاد کرکے اسی لہو رنگ دنیا میں لے جارہے تھے، جہاں بھارتی مظالم کا نشانہ بنتے کشمیری مسلمان اور ان کے جلتے ہوئے گھر تھے۔ ان کی زندگی کے روز وشب ہمارے ماحول کا حصہ بن رہے تھے، فلسطین(غزہ)کی کھنڈر نما گلیوں میں ملبے پر بیٹھے اپنے مجروح کھلونے تھامے بچوں کے ساتھ گویا ہم بھی موجود تھے۔ الشفا اسپتال کے پُرعزم عملے کا روپ دھارے میڈیکل اسٹاف نغمہ سرا تھا۔ یہ ٹیبلو بھی بہت جان دار تھا۔ اس کے پیچھے الشفا اسپتال کی عمارت اسکرین پر موجود تھی۔ بچوں کے ٹیبلو میں اسکرین پر اسرائیل کی زیر قبضہ زمین کے مناظر ابھرے۔ اسی وقت اسٹیج پر حماس کے گیٹ اپ میں مجاہد بچے دوڑتے ہوئے نمودار ہوئے اور اسرائیلی فوجیوں کے بہروپ میں موجود بچوں سے نبرد آزما ہوئے۔ نعروں کی گونج میں سیشن اختتام پذیر ہوا اور ہم جمعیت کو اس منفرد اور شب و روز کی محنتوں پر مشتمل کاوش پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کنکریٹ کی دنیا کے لیے امت کے دردِ مشترک سمیت نوجوانوں سے امید کے پیغامات ساتھ لیے واپس لوٹ آئے۔ اِن شا اللہ اس کانفرنس کے مقاصد و اثرات خوب رنگ لائیں گے۔