آخر شب کے ہم سفر

285

’’اور سنا تم نے روزی…‘‘ اندھیا نے کہا… ’’مس ہیڈلے آج کہہ رہی تھیں کہ مس اومارائے لندن سے واپس آگئی ہیں اور شاید پھر یہاں پڑھانا شروع کردیں‘‘۔

’’مارے گئے… دیدی کو انہوں نے پڑھایا تھا۔ دیدی کہتی ہیں کہ بس جان نکال لیتی تھیں‘‘ شکتی نے کہا۔

’’ہمارے تو بھیا مزے ہیں۔ ہم تو انٹر کے بعد گھر بیٹھ جائیں گے۔ ابا نے حکم دے دیا ہے!‘‘ جہاں آرا نے کہا: ’’تم لوگ اپنے مرتی رہو‘‘۔

’’تیراتو… اس کا جہاں آرا کا تو کسی ڈرھیل مولوی سے بیاہ ہوگا… جناب مولوی نوجیر الدین احمد صاحب!‘‘ موٹی مسخری رومولا نے منہ پھاڑ کر ہاہا کرتے ہوئے کہا اور چنے پھانکتی رہی۔

’’ارے ہٹ بھاگ‘‘۔
’’تو خود بھاگ‘‘۔
سہ منزل عمارت میں پانچویں پیریڈ کی گھنٹی بجی۔

’’چلو بھائی… آگیا مس گرین فیلڈ کا گھنٹہ‘‘۔ روزی نے منہ بناکر کہا۔

’’دیں دیں دیں…‘‘ رومولا منہ ٹیڑھا کرکے مس گرین فیلڈ کی نقل کرتی چنے پھانکتی آگے آگے چلنے لگی۔ اس کے پیچھے پیچھے روزی بنرجی اور جہاں آرا چودھری لڑکیوں کے غول میں شامل ہوکر عمارت کی سمت روانہ ہوگئیں۔

اس وقت جاڑوں کی سہانی دھوپ ساری زندگی پر بکھری ہوئی تھی۔ رفتہ رفتہ ایڈن گرلز کالج کی بلند عمارت پڑھائی کی سنجیدگی خاموشی میں ڈوب گئیں۔ جس طرح جہاز آہستہ آہستہ گہرے سمندر میں ڈوب جاتا ہے۔ ان عمارتوں کے روشن کمروں کی دیواروں پر لگی برطانیہ کے شاہی خاندان اور بنگال کے سابق گورنروں کی منجمد آنکھیں چپ چاپ سامنے کے منظر کو دیکھتی رہیں۔ جہاں بھانت بھانت کے سماجی اور اقتصادی پس منظر سے آئی ہوئی، قدیم بنگال کی نئی بیٹیاں اپنی اپنی کتابوں پر جھکی حصول علم میں منہمک تھیں اور کون کہہ سکتا تھا کہ باہر بیکراں فضا پرانی جنگوں کی جھنکار سے گونج رہی ہے۔ ان جنگوں میں لڑنے والے جو زبانیں بولتے تھے، وہ بھلا دی گئیں۔ وہ قومیں اور نسلیں ختم ہوچکیں۔ جن وجوہات پر اور جن مقاصد کے لئے وہ لڑائیاں لڑی گئیں۔ وہ فراموش کردیئے گئے، پرانے فیصلوں پر نظرثانی کرنے کی مہلت دنیا کو نہیں لیکن بیکراں زندگی میں ہر آواز، ہر کرب اور وقت کا ہر عکس موجود ہے۔ اور زندہ ہے اور باقی ہے۔

دفعتاً کالج پر پھیلا ہوا سناٹا اتنا گہرا ہوگیا کہ اسے آسانی سنا جاسکتا تھا۔ طوفان سے پہلے چھانے والا سناٹا۔

(3)
وُوڈ لینڈز
رمنا کی ایک عالیشان کوٹھی کے ایک پہلو کے سائیڈ روم کے فرانسیسی دریچے میں صرف باغ اور نیلا آسمان نظر آسکتا تھا کیونکہ حد نظر تک ہریالی کے علاوہ وہاں کچھ اور نہیں تھا۔ اکّا دکّا پوربی مالی پھولوں کے تختوں میں چھپے چپ چاپ اپنے کام میں مصروف تھے۔ دریچے کی سیٹ پر، جو سُرخ گلاب کے پھولوں والے جھالر دار غلاف سے ڈھکی ہوئی تھی، ایک نوجوان خاتون عینک لگائے محویت کے عالم میں بیٹھی خط لکھ رہی تھیں۔ سیزران کے قدموں میں بیٹھا تھا۔ دریچے کے قریب برمی لکڑی کی رائیٹنگ ٹیبل پر چھوٹے چھوٹے بیضوی فریموں میں چند ارسٹوکرٹیک بنگالی خواتین کی تصاویر جھلملا رہی تھیں۔ کمرہ جو انگریزی اصطلاح میں مورننگ روم کہلاتا تھا۔ اس کی دیواروں پر گلاب کی بیل کے ہلکے گلابی اور زرد، اور کاسنی اور سبز پیٹرن والا وال پیپر منڈھا تھا۔ اس طرح کا وال پیپر ایک زمانہ میں امرائے کلکتہ خاص طور پر دلایت سے منگوا کر اپنے کمروں میں لگواتے تھے۔

دیواروں پر سنہری فریموں والی بڑی بڑی تصویریں تھیں۔ لارڈ بائرن یونان کے ساحل پر کشتی سے اُتر رہے ہیں۔ کانسٹیبل کا ایک دیہاتی منظر۔ آبری بیرڈزے کی مشہور سلومے آسکر وائلڈ والی، جو سیاہ کپڑوں میں ملبوس، تھالی میں دھرے یوحنا پیغمبر کے بریدہ سر کے بال پکڑ کر آہیں بھر رہی ہے۔ ایک تصویر مسٹر پک دِک کی تھی۔

دروازوں پر اور دریچوں میں موٹی ریشمی ڈوریوں سے بندھے پھندنوں والے دبیز ریشمی پردے پڑے تھے۔ آتش دان پر ڈریسڈ چائنا کی چرواہی بیٹھی تھی۔ اس کمرے کا اور سارے گھر کا طرز آرائش مکمل طور پر مغربی اور وکٹورین تھا۔

لیکن جو خاتون اس مورننگ روم میں موجود تھیں وہ وکٹورین نہیں تھیں۔ وہ ایک جوشیلی اور باشعور اور سنجیدہ سیاسی کارکن تھیں۔ جس پیڈ پر وہ خط لکھ رہی تھیں اس کے اوپر کے ایک کونے میں ’’وُوڈ لینڈز، رمنا، ڈھاکہ‘‘ گوتھک پرنٹ میں ثبت تھا۔ مگر مکتوب الیہ لندن اسکول آف اکنامکس کا ایک برطانوی یہودی، کمیونسٹ پروفیسر تھا۔

خط لکھتے لکھتے دفعتاً انہوں نے غصے سے توڑ مروڑ کر اسے دور پھینک دیا۔ فربہ سیزر ذرا وقت سے اُٹھ کر اخلاقاً اس کی طرف لپکا۔ لیکن خاتون اسی طرح دل گرفتہ اور جھنجھلائی ہوئی بیٹھی رہیں۔ کیونکہ ان کو یاد آگیا تھا کہ یہ خط سارا کا سارا سنسر کی نذر ہوجائے گا۔

چند منٹ بعد سر ہاتھوں میں لے کر وہ دریچے سے باہر دیکھنے لگیں اور بے حد کرب سے انہوں نے سوچا۔ اب مجھ پر دورہ پڑنے والا ہے۔ انہوں نے عینک اتار کر آنکھیں زور سے میچ لیں۔ اور اسی طرح ساکت بیٹھی رہیں۔ اب وہ دانتے گیبریل روزیٹی کی داموزیل معلوم ہوسکتی تھیں۔

جب بیرسٹر پری توش کمار رائے نے اپنی وسیع و عریض کوٹھی کا نام ’’وُوڈلینڈز‘‘ رکھا تو وہ اس رواج کی تقلید کررہے تھے۔ جس کے تحت ہندوستان کا نیا مغربی تعلیم یافتہ اوپری طبقہ تقریباً سو برس سے اپنی کوٹھیوں کے انگریزی نام رکھنے میں مصروف تھا۔ مہاراجہ کوچ بہار کے کلکتے والے محل کا نام بھی ووڈلینڈز تھا۔ مگر بیرسٹر رائے کو یہ نام اس قدر پسند تھا کہ انہوں نے اسے تبدیل کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔

بیرسٹر رائے برہمو تھے۔ بنگال کے رائے اور ٹھاکر خاندان چودھری پریواروں کی مانند زمیندار تھے۔ اور مذہبی لحاظ سے قدامت پسند ہندو، زیادہ تروت، سین اور گپتا۔ غیر برہمن جاتیاں برہموں ہوچکی تھیں۔ لیکن بیرسٹر رائے کے دادا کیشپ چندر سین کے چیلے بن گئے تھے اور ان کا خاندان اب تقریباً پون صدی سے برہمو اور آزاد خیال تھا۔ بیرسٹر رائے کی والدہ اور پھوپھیوں تک نے اسکول اور کالج میں پڑھا تھا۔ بیرسٹر رائے کی بیوی مشہور ’’سوشل فِگر‘‘ تھیں۔ ان کا بڑا لڑکا ترملیندو، برڈ اینڈ کمپنی کلکتہ میں اعلیٰ ایگزیکٹیو اور ’’کنفرمڈ بیچلر‘‘ تھا۔ اور زیادہ وقت ریس کورس پر اور شراب نوشی میں گزارتا تھا۔ بیرسٹر رائے کو فکر تھی کہ ان کی لڑکی بھی کہیں کنفرمڈاسپنٹسر نہ بن جائے۔ آثار یہی نظر آتے تھے۔ مگر اس صورت حال کا مداوا اُن کے پاس نہیں تھا۔ اُن کے باپ کی نسل نے بچپن کی شادی اور دوسری سماجی خرابیوں کے خلاف جہاد کیا تھا۔ اور آزادی نسواں کا پرچار کرنے میں بڑی حد تک کامیاب رہے تھے۔ اور اب اُدما اُن کی لڑکی اٹھائیس سال کی ہونے کو آئی تھی اور شادی سے منکر تھی۔ اور وہ ان کی بیوی اُدما کی خلاف مرضی اسے شادی پر مجبور نہ کرسکتے تھے۔ انقلاب اپنے ہی بچوں کو کھاتا ہے۔ بیرسٹر رائے اکثر دکھ سے سوچتے ہماری اِن ’’پانیر‘‘ خواتین کا جن میں اُدما بھی شامل ہے، کیا انجام ہوگا؟ نیا بنگال سو برس سے ایک ترقی یافتہ سماج، مگر پرانی اور نئی اقدار کی اس آویزش کی زد خود اپنی زندگی پر پڑے تو کیا کرنا چاہیے؟

اُدما کی شکل بہت معمولی تھی۔ باپ کی دولت و ثروت کی وجہ سے اچھے رشتے اس کے لیے آسکتے تھے لیکن وہ سیاست کے چکر میں مبتلا تھی۔ ادما دیبی ایک گول مٹول چہرے والی گدبدی سی لڑکی تھی۔ خلیق اور متواضع، گمبھیر اور تیزبین، لیکن اسے غصہ بہت جلد آجاتا تھا، اور ماں باپ سمیت کوئی بھی اس کی خلاف مرضی کوئی بات اس سے کہتا تو وہ فوراً آگ بگولہ ہوجاتی تھی۔ میری بیٹی اپنی زندگی میں ایک ’’بیک بنچر‘‘ کبھی نہیں بنے گی۔ بیرسٹر رائے اکثر سوچتے اور مزید فکر مند ہوتے رہتے۔ ڈھاکا یونی ورسٹی سے ایم اے کرنے کے بعد اس نے کچھ عرصہ گرلز اسکول میں پڑھایا تھا اور اسی زمانے میں صوبے کی کمیونسٹ تحریک میں شامل ہوگئی تھی۔ پھر بیرسٹر رائے نے اسے اعلیی تعلیم کے لیے انگلستان بھیج دیا تھا۔ وہاں کرشنا مینن کی انڈیا لیگ اور رجنی پام دت کی برطانوی کمیونسٹ پارٹی کی وجہ سے کڑوا کریلا نیم چڑھ چکا تھا۔ لندن اسکول آف اکنامکس سے ڈگری حاصل کرکے ادما چند روز قبل ڈھاکہ واپس آئی تھی اور بیرسٹر رائے کی ملاقات ایک قدرے اجنبی لڑکی سے ہوئی تھی۔ بیرسٹر رائے یک لخت بے حد پریشان ہوگئے تھے۔ اب تک انہوں نے ایک ’’مغربی ذہن پرست رویہ‘‘ سمجھ کر ادما کے سیاسی مشاغل پر اعتراض نہیں کیا تھا۔ کیونکہ بیٹی کی محبت کے علاوہ وہ خود چالیس برس قبل کے انگلستان سے لبرل ازم کا سبق سیکھ کر آئے تھے۔ زندگی میں کتنے بہت سے رویے آپس میں گڈمڈ رہتے ہیں۔ مگر اب حالات بے حد مختلف تھے۔ جنگ چھڑ چکی تھی اور ہندوستانی کمیونسٹ پارٹی غیر قانونی تھی۔ بیرسٹر رائے کے سالے اور ادما کے ماموں دھریندرموہن سین ڈی آئی جی پولیس نے کئی بار اپنی بہن اور بہنوئی کو سمجھایا تھا کہ لڑکی کو قابو میں رکھیں۔ مسز رائے عرصہ ہوا قیصر ہند کا تمغہ حاصل کرچکی تھیں۔ اور بیرسٹر رائے کو سر کا خطاب ملا چاہتا تھا۔ عنقریب ہائی کورٹ جج بننے والے تھے۔

ادما کی سرگرمیاں اب ذہنی تفریح کی حدود سے آگے بڑھ کر بڑی خطرناک صورت اختیار کرسکتی تھیں۔

ادما رائے نے مورننگ روم کے دریچے کی سفید چوکھٹ پر سے سر اٹھا کر زور سے کنپٹیاں دبائیں اور دوبارہ عینک لگا کر باہر جھانکا۔ دو کانسٹیبل آپس میں باتیں کرتے گھاس پر سے گزر کر سامنے برساتی کی سمت جارہے تھے۔ ادما صرف تین روز قبل لندن سے ڈھاکے واپس پہنچی تھیں۔ ان کے ماموں دھریندر موہن سین ڈی آئی جی پولیس، بھانجی کے سواگت کے لیے شمالی بنگال سے وُوڈ لینڈز ڈھاکہ آئے ہوئے تھے۔ اور ان کے عملے کے کانسٹیبل اور پولیس انسپکٹر وُوڈلینڈز کے احاطے میں ہر طرف ٹہلتے پھر رہے تھے۔

ابھی ڈائیننگ روم میں لنچ کا سریلا گھنٹہ بجے گا۔ ماں اور بابا اور ماما کھانے کی طویل میز پر بے حد شائستگی سے آکر بیٹھیں گے اور کھڑکھڑاتے سفید نیپکن کھولتے ہوئے اس سے بحری سفر کے حالات دریافت کریں گے۔ جنگ چھڑنے کے بعد ادما کے بخیریت وطن واپس آجانے کی سارے کنبے میں خوشیاں منائی جائیں گی۔ ادما آدھے سر کے درد کی مریض تھیں۔ لندن جانے سے قبل اکثر و بیشتر جب درد سر کا دورہ پڑتا تھا تو وہ تبدیل آب و ہوا کے لیے رائے خاندان کے گارڈن ہائوس چلی جاتی تھیں۔ جو دریائے میگھنا کے ایک خوبصورت جزیرے پر پلاش کے درختوں میں چھپا کھڑا تھا۔ آج صبح بریک فاسٹ کی میز پر ماموں نے ان کی مضمحل صورت دیکھ کر تجویز کیا تھا کہ وہ سفر کی تھکان دور کرنے کے لیے چند روز کو گارڈن ہائوس چلی جائیں، لیکن خود ادما رائے کی محسوس ہورہا تھا کہ وہ بہت سخت بیمار پڑنے والی ہیں۔ اور بہت سی متوقع اور غیر متوقع مصیبتوں، کلفتوں اور پریشانیوں کا انہیں بہت جلد سامنا کرنا ہے۔ سفید کشمیری شال کندھوں سے اچھی طرح لپیٹ کر وہ ونڈو سیٹ پر سے اُٹھیں اور آہستہ آہستہ قدم رکھتی اپنے کمرے کی طرف چلی گئیں۔

(4)
جوار بھاٹا کا گیت
ڈھاکہ کے ایک مسلمان رئیس کی دو منزلہ کوٹھی کرائے پر لے کر حکومت نے حال ہی میں اس میں ریڈیو اسٹیشن قائم کیا تھا۔ یہ کوٹھی بھی ڈھاکے کی ساری عمارتوں کی طرح قدیم، دقیانوسی اور ماضی میں ڈوبی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔ جب دیپالی نے ریڈیو پر گانا شروع کیا۔ ڈاکٹر سرکار بڑی باقاعدگی سے اس کے ساتھ آتے تھے اور چھڑی کی موٹھ پر ہاتھ دھرے برآمدے کی ایک کرسی پر چپ چاپ بیٹھے رہتے تھے۔ لیکن تین چار بار آنے کے بعد وہ اُکتا گئے تھے۔ مطلب کے حرج کی پرواہ انہیں نہیں تھی، مگر انہوں نے دیکھ لیا تھا کہ ریڈیو اسٹیشن غیر اخلاقی شے نہیں ہے۔ کلکتہ شہر میں بڑی آزادی تھی۔ لیکن فیوڈل ڈھاکہ ابھی بے حد قدامت پسند اور پسماندہ تھا۔ اور خود ڈاکٹر سرکار غفار گائوں ضلع میمن سنگھ کے جس مفلوج الحال زمیندار خاندان سے تعلق رکھتے تھے اس میں لڑکیوں کا تنہا گھر سے باہر نکلنا بہت معیوب سمجھا جاتا تھا۔ مگر اب دیپالی اکیلی ریڈیو اسٹیشن آتی تھی یا کبھی کبھار کھوکھو اس کے ساتھ آجاتا تھا۔ وہ عباس الدین احمد کی شاگردی میں مشرقی بنگال اور بالخصوص میمن سنگھ کی لوک سنگیت کی ماہر ہوتی جارہی تھی۔ اس کے نشریہ پروگرام نہایت مقبول ہوچکے تھے۔

۱۹ دسمبر کی شام، وہ اپنا پروگرام ختم کرکے اسٹوڈیو سے نکل رہی تھی کہ برابر کے ایک دروازے پر ڈاکٹر سرکار کے پرانے دوست اور شانتی نکیتن کے پروفیسر، ماہر لسانیات سید مرتضیٰ حسین اس سے ٹکرا گئے۔ انہوں نے تیوری پر بل ڈال کر اور چھڑی اُٹھا کر گویا ڈانٹتے ہوئے کہا۔ ’’تمہارے بابا کیسے ہیں؟‘‘

’’ٹھیک ہیں کاکا!‘‘ وہ تیزی سے پھر آگے بڑھی۔ لیکن سید مرتضیٰ حسین اس کے پیچھے لپکے۔

’’اور سنو لڑکی، تم نے ہمارے ہاں آنے کے متعلق کیا فیصلہ کیا؟‘‘ سید مرتضیٰ حسین نے چھڑی ہوا میں لہرائی۔ دیپالی نے غیر یقینی انداز میں سر ہلادیا۔ اور گیلری کے سرے پر آویزاں کلاک پر نظر ڈالی۔ شام کے سات بج رہے تھے۔ اب وہ دونوں صدر دروازے پر پہنچ چکے تھے۔ چاروں طرف ایک تارا اور ایسراج اُٹھائے فن کاروں اور ریڈیو کے اراکین کی آمدورفت جاری تھی۔

(جاری ہے)

حصہ