-1دوستوں سے محبت کیجیے اور دوستوں کے لئے مرکز محبت بنیے۔ وہ شخص انتہائی خوش نصیب ہے جس کو اس کے دوست احباب عزیز رکھتے ہوں اور وہ دوست احباب کو عزیز رکھتا ہو اور وہ شخص انتہائی محروم ہے جس سے لوگ بیزار رہتے ہوں اور وہ لوگوں سے دور بھاگتا ہو۔ مفلس وہ نہیں ہے جس کے پاس دولت نہ ہو بلکہ حقیقت میں سب سے مفلس وہ ہے جس کا کوئی دوست نہ ہو، دوست زندگی کی زینت، سفر حیات کا سہارا اور اللہ کا انعام ہے۔ دوست بنایئے اور دوست بنیے۔ نبیؐ کا ارشاد ہے:
’’مومن سراپا الفت و محبت ہے اور اس آدمی میں سرے سے کوئی خیر نہیں ہے جو نہ تو دوسروں سے محبت کرے اور نہ دوسرے ہی اس سے محبت کریں‘‘۔ (مشکوٰۃ باب الشفقۃ)
قرآن پاک میں ہے:
’’مومن مرد اور مومن عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے دوست اور معاون ہیں‘‘ (التوبہ: 71/9)
نبیؐ اپنے ساتھیوں سے انتہائی محبت فرماتے تھے اور ہر ایک یہ محسوس کرتا کہ نبیؐ سب سے زیادہ اسی کو چاہتے ہیں۔
حضرت عمروؓ بن العاص کہتے ہیں کہ نبیؐ اس توجہ اور خلوص کے ساتھ مجھ سے گفتگو فرماتے اور اتنا خیال رکھتے کہ مجھے یہ خیال ہونے لگا کہ شاید میں اپنی قوم کا سب سے بہتر آدمی ہوں اور ایک دن نبیؐ سے پوچھ بیٹھا کہ یا رسولؐ اللہ! میں افضل ہوں یا ابوبکرؓ؟ نبیؐ نے ارشاد فرمایا: ’’ابوبکر افضل ہیں‘‘۔ پھر میں نے پوچھا: ’’میں افضل ہوں یا عمرؓ‘‘ فرمایا: ’’عمرؓ‘‘۔ میں نے پھر پوچھا یا رسولؐ اللہ میں افضل ہوں یا عثمانؓ؟‘‘ فرمایا: ’’عثمان‘‘۔ پھر میں نے نبیؐ سے بڑی وضاحت کے ساتھ حقیقت معلوم کی اور آپؐ نے بلارو رعایت صاف صاف بات کہہ دی تب تو مجھے اپنی اس حرکت پر بڑی ہی شرم آئی اور میں دل میں خیال کرنے لگا کہ بھلا ایسی بات پوچھنے کی مجھے کیا ضرورت تھی۔
-2 دوستوں کے ساتھ مل جل کر میل محبت کی زندگی گزاریئے اور مخلصانہ تعلقات قائم کرنے اور قائم رکھنے کی کوشش کیجیے۔ دوستوں سے نفرت، بیزاری اور لئے دیئے رہنے کی روش چھوڑیئے۔ جب آدمی دوستوں میں مل جل کر رہتا ہے اور ہر معاملہ میں ان کا شریک رہتا ہے تو اس کے نتیجے میں اس کو طرح طرح کی تکلیفیں پہنچتی ہیں، کبھی اس کے جذبات کو ٹھیس لگتی ہے، کبھی اس کے وقار کو صدمہ پہنچتا ہے، کبھی اس کے آرام میں خلل پڑتا ہے، کبھی اس کے معمولات متاثر ہوتے ہیں، کبھی اس کی خواہش اور رجحان کے خلاف کچھ باتیں سامنے آتی ہیں، کبھی اس کے صبر و برداشت کی آزمائش ہوتی ہے، کبھی اس کو مالی نقصان پہنچتا ہے۔ غرض مختلف قسم کی اذیتیں اور تکلیفیں اس کو پہنچتی ہیں لیکن جب یہ شخص ان اذیتوں کو برداشت کرتا ہے تو اس کے قلب میں اس سے جلا پیدا ہوتا ہے اچھے اخلاق نشوونما پاتے ہیں اور وہ تربیت و تزکیے کے فطری منازل سے گزرتا ہوا روحانی اور اخلاقی ترقی کرتا ہے اس میں تحمل و بردباری، ایثار و شفقت، ہمدردی و غم گساری، مروّت و وفاداری، خیر خواہی و تعاون، خلوص و محبت، سخاوت و شجاعت اور مرحمت و مواساۃ کے اعلیٰ ترین جذبات پیدا ہوتے ہیں اور وہ انسانی معاشرے کے لئے سراپا خیر و برکت بن جاتا ہے۔ ہر دل میں اس کے لئے قدر و عظمت کے جذبات ہوتے ہیں اور ہر انسان اس کے وجود کو اپنے حق میں رحمت کا سایہ سمجھتا ہے، نبیؐ کا ارشاد ہے:
’’جو مسلمان لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہتا ہے اور اس کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفوں کو برداشت کرتا ہے وہ کہیں بہتر ہے اس شخص سے جو لوگوں سے الگ تھلگ رہتا ہے اور ان کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفوں پر برداشتہ خاطر ہوتا ہے‘‘۔ (ترمذی)
-3 ہمیشہ نیک و صالح لوگوں سے دوستی کیجیے، دوستی کے انتخاب میں اس بات کا ضرور لحاظ رکھیے کہ جن لوگوں سے آپ قلبی تعلق بڑھا رہے ہیں وہ دین و اخلاق کے پہلو سے آپ کے لئے کس حد تک مفید ہوسکتے ہیں۔ ایک مشہور مثل ہے کہ ’’اگر کسی کی اخلاقی حالت معلوم کرنا چاہو تو اس کے دوستوں کی اخلاقی حالت معلوم کرو‘‘۔ اور نبیؐ کا ارشاد ہے: ’’آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے اس لئے ہر آدمی کو غور کرلینا چاہیے کہ وہ کس سے دوستی کررہا ہے‘‘ ۔ (مسند احمد،مشکوٰۃ)
دوست کے دین پر ہونے کے معنی یہ ہیں کہ جب وہ دوست کی صحبت میں بیٹھے گا تو وہی جذبات و خیالات اور وہی ذوق و رجحان اس میں بھی پیدا ہوگا جو دوست میں ہے اور پسند و ناپسند کا وہی معیار اس کا بھی بنے گا جو اس کے دوست کا ہے اس لئے آدمی کو دوست کے انتخاب میں انتہائی غور و فکر سے کام لینا چاہیے اور قلبی لگائو اسی سے بڑھانا چاہئے جس کا ذوق و رجحان، افکار و خیالات اور دوڑ دھوپ دین و ایمان کے تقاضوں کے مطابق ہو۔
نبیؐ نے تاکید فرمائی کہ مومن ہی سے رشتہ محبت استوار کرو اور اسی کے ساتھ اپنا کھانا پینا رکھو، آپؐ کا ارشاد ہے:
’’مومن ہی کی صحبت میں رہو اور تمہارے دستر خوان پر پرہیزگار ہی کھانا کھائے‘‘۔
ایک دستر خوان پر بیٹھ کر کھانا پینا قلبی تعلق اور محبت کا فطری محرک ہے اور یہ تعلق و محبت اسی ومن سے ہونا چاہیے جو متقی اور پرہیزگار ہو۔ اللہ سے غافل، غیر ذمہ دار، بے عمل اور بداخلاق لوگوں سے ہمیشہ دور رہیے۔ نبیؐ نے اچھے اور برے دوست سے تعلق کی کیفیت کو ایک بلیغ تمثیل میں یوں بیان فرمایا ہے:
’’اچھے اور برے دوست کی مثال مشک بیچنے والے اور بھٹی دھونکنے والے لوہار کی طرح ہے۔ مشک بیچنے والے کی صحبت سے تم کو کچھ فائدہ ضرور پہنچے گا گا یا مشک خریدوگے یا مشک کی خوشبو پائوگے۔ لیکن لوہار کی بھٹی تمہارا گھر یا کپڑے جلائے گی یا تمہارے دماغ میں اس کی بدبو پہنچے گی’’ (بخاری، مسلم)
اور ابودائود میں حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں:
’’نیک دوست کی مثال ایسی ہے جیسے مشک بیچنے والے کی دکان کہ اگر کچھ فائدہ نہ بھی ہو تو خوشبو تو ضرور آئے گیا ور برا دوست ایسا ہے جیسے بھٹی سے آگ نہ لگے تب بھی دھوئیں سے کپڑے تو ضرور کالے ہوں گے‘‘۔
-4 دوستوں سے صرف اللہ کے لئے محبت کیجیے، اللہ کے محبوب بندے وہی ہیں، جو اللہ کے دین کی بنیاد پر باہم جڑے ہیں اور کندھے سے کندھا اور دل سے دل ملاکر اس طرح اللہ کے دین کی اقامت اور حفاظت کا فریضہ انجام دیتے ہیں کہ وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار معلوم ہوتے ہیں۔
قرآن پاک میں ہے:
’’حقیقت میں اللہ کے محبوب وہ لوگ ہیں جو اللہ کی راہ میں اس طرح پیر جماکر لڑتے ہیں گویا کہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں‘‘۔
اور نبیؐ کا ارشاد ہے:
’’قیامت میں خدا فرمائے گا، وہ لوگ کہاں ہیں جو صرف میرے لئے لوگوں سے محبت کیا کرتے تھے۔ آج میں ان کو اپنے سائے میں جگہ دوں گا‘‘۔ (مسلم)
اور قیامت کے دن ایسے لوگوں کو جو قابل رشک شان و شوکت حاصل ہوگی اس کا ذکر کرتے ہوئے نبیؐ نے فرمایا:
’’اللہ کے بندوں میں کچھ (ایسے سعادت مند) ہیں جو نبی اور شہید تو نہیں ہیں لیکن قیامت کے روز اللہ ان کو ایسے مرتبوں پر سرفراز فرمائے گا کہ انبیا اور شہید بھی ان کے ربتوں پر رشک کریں گے۔ صحابہؓ نے پوچھا: یہ کون خوش نصیب ہوں گے یا رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا: ’’یہ وہ لوگ ہیں جو آپس میں ایک دوسرے سے محض اللہ کے دین کی بنیاد پر محبت کرتے تھے۔ نہ آپس میں رشتہ دار تھے اور نہ ان کے درمیان کوئی مالی لین دین کا تعلق تھا۔ اللہ کی قسم قیامت کے روز ان کے چہرے نور سے جگمگا رہے ہوں گے بلکہ یہ سراپا نور ہوں گے اور جب سارے لوگ خوف سے کانپ رہے ہوں گے تو انہیں کوئی خوف نہ ہوگا اور جب سارے لوگ غم میں مبتلا ہوں گے اس وقت انہیں قطعاً کوئی غم نہ ہوگا اور آپ نے قرآن پاک کی یہ آیت تلاوت فرمائی:
’’سنو! اللہ کے چاہنے والوں کے لئے نہ کسی بات کا کوئی خوف ہوگا اور نہ (گزری ہوئی زندگی کے بارے میں) کسی قسم کا غم‘‘۔
حضرت ابوالدرداؓ کا بیان ہے کہ نبیؐ نے ارشاد فرمایا:
’’قیامت کے روز کچھ لوگ اپنی قبروں سے آئیں گے اور ان کے چہرے نور سے جگمگا رہے ہوں گے، وہ موتیوں کے منبروں پر بٹھائے جائیں گے، لوگ ان کی شان پر رشک کریں گے یہ لوگ نہ بنی ہوں گے، نہ شہید۔ ایک بدو نے سوال کیا: ’’یا رسولؐ اللہ یہ کون لوگ ہیں ہمیں ان کی پہچان بتادیجیے؟ فرمایا: ’’یہ وہ لوگ ہیں جو آپس میں اللہ کی خاطر محبت کرتے ہیں‘‘۔ (طبرانی)
-5 نیک لوگوں سے محبت کو آخرت کی نجات اور اللہ کی خوش نودی کا ذریعہ سمجھیے اور اللہ سے دعا کیجیے کہ الٰہی! نیک لوگوں کی محبت عطا کر اور نیک لوگوں میں شامل فرما۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبیؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا یارسولؐ اللہ! ایک شخص کسی نیک آدمی سے اس کی نیکی کی بنا پر محبت کرتا ہے مگر خود اس شخص جیسے اچھے اعمال نہیں کرتا، ارشاد فرمایا: ’’کوئی مضائقہ نہیں! آدمی قیامت کے روز اسی کی معیت میں ہوگا جس سے وہ محبت کرے گا‘‘۔ (بخاری)
ایک شب نبیؐ کو اللہ کا دیدار ہوا، اللہ نے نبیؐ سے کہا مانگیے تو نبیؐ نے یہ دعا مانگی:
’’الٰہی! میں تجھ سے نیک کاموں کی توفیق چاہتا ہوں اور برے کاموں سے بچنے کی قوت چاہتا ہوں اور مسکینوں کی محبت چاہتا ہوں اور یہ کہ تو میری مغفرت فرمادے اور مجھ پر رحم فرمائے اور جب تو کسی قوم کو عذاب میں مبتلا کرنا چاہے تو مجھے اس حال میں اٹھا کہ میں اس سے محفوظ رہوں اور میں تجھ سے تیری محبت کا سوال کرتا ہوں اور اس شخص کی محبت کا سوال کرتا ہوں جو تجھ سے محبت کرتا ہے اور اس عمل کی توفیق چاہتا ہوں جو تیرے قرب کا ذریعہ ہو‘‘۔
اور حضرت معاذ بن جبلؓ بیان کرتے ہیں کہ نبیؐ نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ مجھ پر واجب ہے کہ میں ان لوگوں سے محبت کروں جو لوگ میری خاطر آپس میں محبت اور دوستی کرتے ہیں اور میرا ذکر کرنے کے لئے ایک جگہ جمع ہوکر بیٹھتے ہیں اور میری محبت کے سبب ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں اور میری خوش نودی چاہنے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ نیک سلوک کرتے ہیں‘‘ (احمد، ترمذی)
نبیؐ دو دوستوں کی ملاقات کا ایمان افروز نقشہ کھینچتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ایک شخص اپنے دوست سے جو کسی دوسری بستی میں رہتا تھا ملاقات کے لئے چلا۔ اللہ نے اس کے راستہ میں فرشتے کو بٹھادیا، فرشتے نے اس سے پوچھا کہاں کا ارادہ ہے؟ اس نے جواب دیا، اس گائوں میں اپنے بھائی سے ملاقات کے لئے جارہا ہوں۔ فرشتے نے کہا، کیا تمہارا اس ہر کوئی حق نعمت ہے جو وصول کرنے جارہے ہو؟ اس نے کہا نہیں بس اس غرض سے اس کے پاس جارہا ہوں کہ میں اس سے اللہ کی خاطر محبت کرتا ہوں۔ فرشتہ بولا لوسنو! مجھے اللہ نے تمہارے پاس بھیجا ہے اور یہ بشارت دی ہے کہ وہ بھی تجھ سے ایسی ہی محبت رکھتا ہے جیسی تو اس کی خاطر اپنے دوست سے رکھتا ہے‘‘ (مسلم)
-6 دوستی ایسی لوگوں سے کیجیے جو اسلامی نقطہ نظر سے دوستی کے لائق ہوں اور پھر عمر بھر اس دوستی کو نبھانے کی کوشش کیجیے، جس طرح یہ ضروری ہے کہ دوستی کے لئے اچھے لوگوں کا انتخاب کیا جائے اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ دوستی کو ہمیشہ ہمیشہ نبھانے اور قائم رکھنے کی بھی کوشش کی جائے۔
نبیؐ کا ارشاد ہے کہ قیامت کے روز جب عرش الٰہی کے سوا کہیں کوئی سایہ نہ ہوگا، اس روز سات قسم کے افراد عرش الٰہی کے سائے میں ہوں گے، ان میں ایک قسم کے افراد وہ دو آدمی ہوں گے جو محض اللہ کے لئے ایک دوسرے کے دوست ہوں گے، اللہ کی محبت ہی نے ان کو باہم جوڑا ہوگا اور اسی بنیاد پر وہ ایک دوسرے سے جدا ہوئے ہوں گے یعنی ان کی دوستی اللہ کی خاطر ہوگی اور زندگی بھر وہ اس دوستی کو قائم رکھنے اور نبھانے کی کوشش کریں گے اور جب ان میں سے کوئی ایک دوسرے سے جدا ہوکر دنیا سے رخصت ہورہا ہوگا تو اسی حال میں کہ ان کی یہ دوستی قائم ہوگی اور اسی دوستی کی حالت میں وہ ایک دوسرے سے علیحدہ ہوں گے۔
-7 دوستوں پر اعتماد کیجیے، ان کے درمیان ہشاش بشاش رہیے، افسردہ رہنے اور دوستوں کو افسردہ کرنے سے پرہیز کیجیے، دوستوں کی صحبت میں بے تکلف اور خوش مزاج رہیے، تیوڑی چڑھانے اور لئے دیئے رہنے سے پرہیز کیجیے۔ دوستوں کے ساتھ ایک بے تکلف ساتھ، خوش مزاج ہم نشین ا ور خوش طبع رفیق بننے کی کوشش کیجیے۔ آپ کی صحبت سے احباب اکتائیں نہیں بلکہ مسرت، زندگی اور کشش محسوس کریں۔
حضرت عبداللہ بن حارثؓ فرماتے ہیں: ’’میں نے نبیؐ سے زیادہ کسی کو مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا‘‘ (ترمذی)
حضرت جابر بن سمرہؓ فرماتے ہیں کہ میں نبیؐ کی صحبت میں سو مجلسوں سے بھی زیادہ بیٹھا ہوں، ان مجلسوں میں صحابہ کرامؓ اشعار بھی پڑھتے تھے اور زمانہ جاہلیت کے قصے کہانیاں بھی سناتے تھے، نبیؐ خاموشی سے یہ سب سنتے رہتے تھے بلکہ کبھی کبھی خود بھی ان کے ساتھ ہنسنے میں شریک ہوجایاکرتے تھے۔ (ترمذی)
حضرت شریدؓ کہتے ہیں کہ میں ایک بار نبیؐ کے ساتھ سواری پر آپؐ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔ سواری پر بیٹھے بیٹھے میں نے نبیؐ کو امیدبن صلت کے سو شعر سنائے، ہر شعر پر آپؐ فرماتے کچھ اور سنائو اور میں سناتا۔ (ترمذی)
(جاری ہے)