جاتے سال کا پیغام

188

ایک سال اور تمام ہوا۔ دسمبر کے آتے ہی نئے سال کی آمد کے چرچے سنائی دینے لگتے ہیں۔ سالہا سال سے ہر سال بس ہندسے بدل رہے ہیں، ماہ و سال، روز و شب اسی طرح کارِ زندگی کے ہنگاموں میں بیت رہے ہیں۔ وقت کو ہم روکنا چاہیں یا اپنی مرضی سے بدلنا چاہیں تو نہیں کرسکتے۔ ہر سال کے آخر میں اگر ہم جائزہ لیں کہ کیا کھویا کیا پایا تو ہمیشہ یہ محسوس ہوتا ہے کہ روز و شب بے مقصد ہنگاموں کی نذر ہوجاتے ہیں، نیکیوں میں سبقت لے جانے کا حکم ہے لیکن ہم دنیا کی دوڑ میں لگے رہتے ہیں۔ لیکن اِس سال کے اختتام پر یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ہماری زندگی، ہماری سوچوں کو ایک نیا رُخ، جینے کا نیا انداز ملا… اور وہ دیا اہلِ فلسطین نے… صرف ہمیں ہی نہیں پوری دنیا کو اہلِ فلسطین نے سکھایا اور بتایا کہ زندگی کی حقیقت کیا ہے، خودداری کسے کہتے ہیں، یقین کس کا نام ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ انہیں اپنے گھر والوں سے محبت نہیں۔ ہاں! مگر وہ ان کی محبت اللہ کی محبت پر غالب نہیں آنے دیتے۔ سب سے پہلے ایمان کا خیال رکھتے ہیں۔ شدید دکھ و تکلیف میں بھی لبوں پر شکوہ نہیں لاتے۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ مادی وسائل کی اہمیت مسلمہ ہے لیکن اتنی نہیں کہ اس کے لیے اپنی آزادی و خودداری کو گروی رکھوا دیا جائے۔

انہوں نے سکھایا قرآن کی تلاوت ہی ضروری نہیں، اس کی چلتی پھرتی عملی تصویر کیا ہوتی ہے۔ ان سے ہمیں پتا چلا کہ بچوں کی تربیت کسے کہتے ہیں کہ آج جو ہم سب بچوں کے لیے رونا روتے رہتے ہیں کہ گیجٹس نہیں چھوٹتے، کیسے تربیت کریں، کیسے سکھائیں! ان کے بچوں کو دیکھ کر رشک بھی آیا اور حسرت بھی ہوئی، تلاش بھی جاری ہے کہ فتنوں کے اس دور میںکہیں سے تربیت کے یہ گر ہمیں بھی مل جائیں۔

انہوں نے ہمیں یہ سبق دیا کہ دھڑکتے دل، زندہ دل کیا ہوتے ہیں، حوصلہ کسے کہتے ہیں، ہمت کیا ہوتی ہے۔ دل کا کام محض جسم میں خون پھیلانا نہیں بلکہ اصل دھڑکتے دل تو وہ ہوتے ہیں جو زمانے کی روش سے ہٹ کر چلتے ہیں۔ جب پڑھا کہ شیر خوار بچوں کو وہ شہادتوں کی کہانیاں سناتے ہیں کہ ہم مرنے والے نہیں ہم امر رہیں گے کیوں کہ شہادت ہی زندگی ہے، اور بچوں کو موت سے ڈراتے نہیں بلکہ بموں اور طیاروں کی آوازوں پررقص کرتے ہیں کہ بچے اسے کھیل سمجھیں۔ تو آج کی زندگی میں یہ سب ناقابلِ یقین لگا۔ لیکن یہ حقیقت ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ و سن رہے ہیں۔ اُن سے جانا کہ قرآن کو سینوں سے لگانا اور چومنا ہی نہیں اسے دل میں اتارنا اورعمل میں لانا کسے کہتے ہیں۔ اِس سال کے اختتام پراپنی نالائقی، اپنے وقت کے ضیاع پر بس رونا آتا ہے۔ ہم جو ماہ و سال کے ہیرپھیر سے نہیں نکلتے، اسے زندگی سمجھتے ہیں۔ ہمیں اس گزرے سال ہی پتا چلا زندگی جینے والے کیسے ہوتے ہیں اور کاٹنے والے کیسے! ہم نے اپنے ایام برباد کیے اور اہلِ فلسطین نے خود کو امر کرلیا۔ سال کے اختتام پر جذبات، دعا، خیالات و احساسات سب اہلِ فلسطین کے نام جنہوں نے ہمیں جینے کا ڈھنگ دیا، جنہوں نے زندگی کی بے ثباتی کی عملی تصویر پیش کی۔

اہلِ فلسطین تمہیں سلام ہو کہ تم لوگ اپنی مرادیں پاگئے اور پا رہے ہو، ہم یہاں اپنی ہی آگ میں جل کر خاکستر ہو رہے ہیں۔ تمہارے جذبوں اور حوصلوں نے ہمیں نوید دی، ہمیں بتایا کہ بدمست ہاتھی چیونٹی کو چھوٹا سمجھ کر حقارت سے دیکھے تو چیونٹی اسے کیسے پاگل کردیتی ہے۔ سلام ہمارے پیارے فلسطینیوں کو جنہوں نے وقت کے فرعونوں سے اکیلے ٹکر لی، ان کا غرور خاک میں ملا دیا۔ مہینوں سے تنہا ان کے مقابلے میں ڈٹے ہیں۔ اپنے پیاروں کی لاشیں انہیں رلا ضرور رہی ہیں لیکن اللہ کی نصرت، اس پر یقین ان کے قدم مزید مضبوط کررہا ہے اور حوصلوں کو جِلا بخش رہا ہے۔ سلام ہو ہمارے پیارے فلسطینیو! غزہ کے باسیو! تم نے ہمیں زندگی کے نئے مفہوم سے روشناس کرایا، ہمیں سکھایا کہ ہم اپنی نسلوں کے ایمان کی حفاظت کے لیے کھڑے ہوجائیں، فکر مند ہوجائیں۔سلام ہو آپ پر پیارے فلسطینیو! ہمارا یہ سال ہی نہیں آنے والے ماہ و سال بھی آپ کے نام۔ زندگی کے جتنے ایام باقی ہیں، جتنے ماہ و سال ہیں ہم نہیں بھول سکتے کہ آپ نے ہمارا فرض بھی ادا کیا۔ ہم، ہماری سانسیں آپ کی مقروض ہیں، ہمارے دل آپ کے ساتھ دھڑکتے ہیں، لب پر ہمہ وقت دعائیں ہوتی ہیں، ہم اپنے بچوں کو جب اچھا کھلاتے ہیں، اچھا پہناتے ہیں، انہیں ہنستا کھیلتا دیکھتے ہیں تو رب گواہ ہے ہماری آنکھیں خون میں بھیگے بچوں کے درد سے، کراہتے شہزادے شہزادیوں کے تصور سے بھیگ جاتی ہیں، مسلم ممالک پر قابض حکمرانوں کے آگے ہم بہت بے بس ہیں۔ لیکن آپ عظیم ہیں… بہت عظیم۔ ہمیں امید نہیں یقین ہے کہ آپ کی قربانیاں رنگ لائیں گی، بیت المقدس آزاد ہوگا، صہیونی نیست و نابود ہوں گے… جلد یا بدیر، لیکن یہ حکمِ الٰہی سے ہوکر رہے گا۔

سامنے تیرے زرافشاں ہے نئی صبحِ امید
اپنی پلکوں کو ذرا دیدۂ خوں بار اٹھا

حصہ