دسمبر،کراچی اور کتب میلہ

156

جیسے ہی کراچی کی تیز دھوپ اور گرمی سے جھلستے ہوئے لوگوں کے ذہن دسمبر کی خنک اور ٹھنڈی ہوائوں کے گھیرے میں آتے ہیں تو ذہن میں مزیدار خیالات خود بہ خود چلے آتے ہیں جیسے کہ سردیوں کی خاموش راتوں میں لمبی لمبی واک اور پھر گرم گرم سوپ سے لطف اندوز ہونا، یا پھر شام کی بدلتی رتوں میں بھاپ اڑاتی چائے اور حلوے کی پلیٹ کے ساتھ ہلکی پھلکی گفتگو کرنا، سرد راتوں میں کمبل میں گھس کر مونگ پھلیاں کھانا اور لوڈو یا شطرنج کی بازی لگانا، یا پھر سب سے بہترین کہ کمرے کی خاموشی میں کافی کے مگ کے ساتھ (نیسلے ہرگز نہیں) ایک بہترین کتاب کی حسین دنیا میں گم ہوجانا۔ دیکھا آپ کو بھی لے گئے نا خوابوں اور خیالوں کی وادیوں میں! لیکن اہم مسئلہ یہ ہے کہ جس کتاب کی حسین وادیوں میں ہم گم ہونا چاہتے ہیں آخر وہ آئے گی کہاں سے؟ تو کراچی میں رہنے والوں کے علم میں ہوگا کہ دسمبر کے آتے ہی کراچی میں کتابوں کا عالمی میلہ 2023 ایکسپو میں ہر سال کی طرح اِس سال بھی سجایا گیا تھا۔ یہ دسمبر کی 14 تاریخ سے 18 تاریخ تک پانچ دن تک ایکسپو پر لگا رہا، اور ہر سال کی طرح اِس سال بھی ہم نے میلے کے لگنے کی خبر سنتے ہی وہاں جانے کی تیاریاں پکڑ لیں جس میں سب سے اہم پیسے جمع کرنا اور دوسرا اہم کام شوہر صاحب کو اس خبر سے آگاہ کرنا اور وہاں جانے کا دن طے کرنا تھا، کیوں کہ آخر کو انہوں نے ہی پک اینڈ ڈراپ کا کام انجام دینا ہوتا ہے۔ دل تو ہمارا چاہتا ہے کہ پانچوں دن ہی ایکسپو پہنچ جائیں اور کتابوں کے اسٹال میں کھڑے کھڑے کتابیں پڑھتے رہیں، لیکن نہ ٹانگوں میں اتنی جان ہے نہ جیب میں۔

طے شدہ دن ہم تمام تیاریوں کے ساتھ گھر سے نکلے جن میں ایک تیاری اچھے جوتے پہننا ہے، کیوں کہ وہاں بہت چلنا پڑتا ہے اور اگر آپ آرام دہ جوتے نہ پہنیں تو سمجھیں سارا مزہ کرکرا ہوجائے گا۔ ہفتے کے دن شام کے وقت کراچی کی سڑکوں پر بہت رش تھا اور ایکسپو کے سامنے تو ٹریفک کا ازدحام تھا، لیکن شوق کا کوئی مول نہیں ہوتا، اس لیے ہم تمام رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے جس میں سرفہرست شوہر صاحب کا غصہ تھا، ایکسپو کی پارکنگ میں پہنچ گئے۔ اندر گئے تو معلوم ہوا کہ دوسرے ہال میں کوئی لائف اسٹائل ایکسپو بھی لگی ہوئی ہے جس میں روزمرہ کے استعمال کی اشیا سستے داموں مل رہی تھیں، لیکن ہم نے ضرورت پر شوق کو فوقیت دی، وہ بھی کتابوں کے… اور کتب میلے کے لیے دوسرے ہال کی طرف روانہ ہوگئے۔ بک فیئر تین ہالوں میں لگایا گیا تھا۔ ہال نمبر ایک اور دو میں پاکستان کی کتابوں کے پبلشرز تھے جن کی کتابیں بہترین معیار کے ساتھ ساتھ سستی بھی تھیں، جبکہ تیسرے ہال میں غیر ملکی پبلشرز موجود تھے جیسے کہ پیراگون، آکسفورڈ، لبرٹی اور لیڈی برڈ وغیرہ، جن کی کتابیں معیاری تو بہت تھیں لیکن سیل کے بعد بھی مہنگی تھیں۔ اور ایک شکایت جو ہمیں دو تین جگہ پیش آئی کہ کتاب اٹھاکر قیمت پوچھتے ہیں تو دو سو روپے، لیکن کائونٹر پر بلنگ کرانے آتے تو چار سو روپے مانگے جاتے۔ یہ امر بہت کوفت کا باعث بنا۔ ہم نے سب سے پہلے بچوں کے لیے خوب ساری انگریزی اور اردو دونوں طرح کی کتابیں خریدیں، پھر اپنے مطلب کی کتابوں کی تلاش میں نکل گئے۔ آخرکار ہمارے دماغ کو بھی فیول چاہیے۔ آج کل اتنا سارا وقت اسکرین دیکھتے ہوئے، لوگوں کے پیغامات موبائل فون پہ دیکھتے ہوئے، حتیٰ کہ ڈراما اور خبریں بھی موبائل کی اسکرین میں دیکھنے کو مل جاتی ہیں کہ کتاب کی کمی بہت محسوس ہوتی ہے۔

بک فیئر میں بچوں کو لانے سے اجتناب برتیں۔ اگر مجبوری ہو توبہت چھوٹے بچوں کے لیے پرام رکھیں اور بڑے بچوں کے لیے کھانے پینے کا سامان… ورنہ بچے آپ کو کتابوں کے مزے لینے نہیں دیں گے۔

جن کتابوں کے اسٹال ہمیں پسند آئے ان میں جگ مگ تارے، ذوق شوق، نونہال اور حریم ادب سرفہرست ہیں۔ اشتیاق احمد کی کتابوں کے اسٹال کے سامنے رک کر ہم نے وہ وقت یاد کیا جب ہم چھوٹے تھے اور ان کے ناول خوب پڑھا کرتے تھے۔ ہمارے بھائی جان کو اشتیاق احمد کے تمام ناول جمع کرنے اور پڑھنے کا خبط تھا، ان کی الماری میں طریقے سلیقے سے تمام ناول سجے رہتے تھے اور ہمیں یقین ہے کہ ان کے پاس یہ کتابیں آج بھی کہیں نہ کہیں حفاظت سے موجود ہوں گی۔ خیر ہم نے ان کے خزانے سے خوب فائدہ اٹھایا اور ہمارا بچپن محمود، فاروق، فرزانہ کے کارنامے پڑھتے گزرا۔ یہی شوق ہم نے اپنے بھتیجے میں ڈالنے کے لیے ایک ناول اشتیاق احمد کا لیا۔ اشتیاق احمد صاحب اپنی کہانیوں میں بچوں کو اخلاقی ادب اور دین کے اصول سکھانے کا ہنر جانتے تھے، ان کی کتابیں نئے ایڈیشن کے ساتھ شائع ہو رہی ہیں جو کہ ان کے لیے صدقہ جاریہ کا باعث بنیں گی۔ اس کے بعد ہم نے کچھ انگریزی ناول خریدے جن میں جان گریٹسام اور لبٹس گرٹسن ہمارے پسندیدہ ہیں۔ آخرکار جب رات کے دس بج گئے اور بار بار اعلان کے بعد کہ اب اسٹال بند ہو رہے ہیں، ہمارے شوہر صاحب نے ہمیں کھینچ کر کتابوں کی دنیا سے نکالا اور ہم نے گھر واپسی کا سفر کیا۔ ہم تھک تو بہت چکے تھے لیکن دماغ ایک عجیب سے سکون اور خوشی کی ملی جلی کیفیت میں تھا۔ اس کیفیت کا اندازہ وہ لوگ بآسانی کر سکتے ہیں جو کتابوں سے محبت رکھتے ہیں۔ بقول افتخار عارف:

ایک چراغ اور ایک کتاب اور ایک امید اثاثہ
اس کے بعد توجو کچھ ہے وہ سب افسانہ ہے

حصہ